چھوٹی سی بات

268

افسانہ مہر
۔’’قتل اگرچہ برا ہے لیکن فتنہ قتل سے شدید تر ہے…سن لیا؟‘‘ موبائل سے ترجمہ سنتے ہی ماہا نے عمیر کو مخاطب کیا۔
’’ہاںسن رہا ہوں…‘‘ بستر پہ دراز عمیر نے جواب دیا۔
’’بس اب میں بھی مزید قتل کی اجازت نہیں دوں گی۔‘‘ ماہا بڑبڑائی۔
ہیں… ہیں…!کس کا قتل ہو رہا ہے؟ کون ہے قاتل…؟ میری ہٹلر بیگم جی؟‘‘ عمیر نے موبائل بند کرکے ماہا کی طرف رُخ کیا ۔
’’میرے جذبات کا قتل ہو رہا ہے اور آپ ہیں قاتل۔‘‘ ماہا نے یک دَم تن کر جواب دیا۔
’’تم پا گل ہو؟ قرآن کے صرف الفاظ سنتی ہو‘ قرآن جملوں کی کتاب نہیں ہے کہ ایک جملہ پکڑا اور اپنی من پسند صورت حال پہ رکھ کر اپنے دل کے جذبات کو دلیل فراہم کر دی۔
میری پیاری بیگم! اسی لیے قرآن کو نصیحت کہا گیا ہے کہ اس کی ہر بات کے پس منظر میں ایک رویہ ہے۔ اس رویے کو ضرور نظر میں رکھ کر قرآن کی بات سمجھنا چاہیے۔
اور اس اہم آیت کے پس منظر میں تو پوری قوم کا ایک غلط رویہ ہے۔ خدا سے زیادہ بندوں کا خیر خواہ کون ہوگا؟ کوئی نہیں نا… تو پھر بھی اگر خدا اپنے کچھ بندوں کی مسلسل غلط حرکتوں پر گرفت کرکے انہیں قتل کر دینے کی اجازت دے رہا ہے تو اس کے پیچھے مصلحت ہے نا۔ ایک سڑی انگلی کاٹ کر جسم بچا لینے والی مصلحت…آئی سمجھ کچھ۔‘‘ عمیرنے سامنے گنگ بیٹھی ماہا کے سر پر چپت لگائی۔
ماہا جوں کی توں ہی بیٹھی رہی۔
’’اچھا کن جذبات کا قتل کر دیا، میں نے…بتائو؟‘‘
’’ایک نہیں چار قتل کیے ہیں۔‘‘ ماہا ایک دم جیسے چارج ہوگئی۔
ہاہاہاہا… چلو پھر تیس کرلوں پھر حساب کرنا ایک ساتھ۔ کم ازکم تیس مار خاں تو کہلا سکوں گا۔‘‘ عمیر نے واپس مڑ کر موبائل اُٹھاتے ہوئے کہا۔
’’جی نہیں…‘‘ ماہا ایک دم بھڑک گئی۔ ’’جذبات کا قتل انسان کے قتل سے بھی بڑا ہے۔‘‘
’’اچھا…! وہ کیسے…‘‘ عمیر نے وضاحت مانگی۔
’’اور کیا جس کے جذبات قتل ہوتے ہیں وہ غصے میں اپنے چاروں طرف موجود لوگوں کے جذبات کو روندنا شروع کر دیتا ہے اور پورا ماحول خراب ہو جاتا ہے۔‘‘
’’اوہو…! تو اس لیے تم کل میرے پھول جیسے راحم کو کوٹ، رہی تھیں؟ اور وہ جو تم نے آنیہ کو گرایا تھا…وہ بھی۔‘‘ عمیر نے جھوٹ موٹ آنکھیں نکال کر منہ بنا کر مایا کو گھورا۔
جی نہیں‘ راحم اپنی شرارت پر پٹا تھا اور آنیہ خود پھسلی تھی… ہاں موڈ خراب تھا تو غصہ دگنا ہو گیا تھا مگر وجہ تو آپ تھے ناں۔‘‘ ماہا پھر موضوع پر آگئی۔ ’’مجھے گملوں کی مٹی نہیں لاکر دی20 دن سے کل کل کل کہہ ہے ہیں…سبزیاں اُگانی ہیں‘کب سے کہے جارہی ہوں۔‘‘
’’اور باہر گرل پر باریک جالی لگوانی ہے‘ بلی روز کچرا پھینک جاتی ہے اور گیلری میں پوٹی کر جاتی ہے… آپ کو صفائی نہیں کرنا پڑتی نا‘پروا ہی نہیں۔‘‘ ماہا بولتی گئی۔
’’اچھا اچھا!کردوں گا…اس اتوار کو پکا‘ اوکے۔‘‘ عمیر نے مسکرا کر ماہا کو دیکھا۔
’’پکا وعدہ…‘‘ ماہا بھی مسکرائی۔
’’ان شاء اللہ!‘‘ عمیر نے سر ہلایا۔پھر بولا ’’تھینک یو مایا!‘‘
’’کس لیے…؟‘‘ماہا نے حیرت سے پوچھا۔
’’اپنے قاتل کو بغیر قصاص کے معاف کرنے کے لیے۔‘‘
ماہا پھر مسکرادی۔
’’ویسے ایک نئی بات بھی آج سمجھ آگئی۔‘‘عمیر نے کہا۔
وہ کیا…؟ ماہا نے پوچھا۔
’’جذبات کا قتل بھی واقعی قتل ہے… بڑی برائی ہے…اور تم نے ٹھیک کہا ایک جذبات کا مقتول اپنے چاروں طرف موجود لوگوں کے جذبات کا بے رحمی سے قتل عام شروع کر دیتا ہے اور ماحول خراب ہو جاتا ہے۔ آج ہمارے چاروں طرف یہ ہی جذباتی قتل عام جاری ہے اور یہ ہم سب کے لیے فتنہ بن چکا ہے۔ ماحول میں امن محسوس نہ ہونے کی وجہ بھی یہی ہے۔‘‘
’’پھرکیسے امن ہوگا …‘‘ ماہا نے سوال کیا۔
’’تمہاری طرح بغیر قصاص کے معاف کر دینے سے۔‘‘عمیر نے محبت بھرے لہجے میں جواب دیا ۔

حصہ