پہاڑوں کے بیٹے

280

ام ایمان
(آٹھویں قسط)
بابا اب دنیا میں نہیں رہے تھے۔ محمود، ایاز اور فیاض تینوں بھائیوں میں سے دونوں بڑے علیحدہ گھروں میں منتقل ہوچکے تھے۔ ربیعہ اور زبیدہ شادی ہوکر رخصت ہوگئی تھیں، اور گھر میں صرف فیاض بھائی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔ ماں جی بہت ضعیف ہوگئی تھیں لیکن کمزور جسمانی صحت اور کم نظر کے باوجود انہوں نے اسے فوراً پہچان لیا۔ ’’زبیر بیٹا! تجھے کیسے ہم ظالموں کی یاد آئی؟‘‘ ماں جی کی آنکھوں سے آنسوئوں کی برسات پھوٹ پڑی۔
’’نہ ماں جی نہ، مجھے گناہ گار نہ کریں، میں تو آپ سے معافی مانگنے کے لیے آیا ہوں۔‘‘
ماں جی نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ ’’تُو کیا معافی مانگے گا زبیر! معافی تو ہمیں مانگنی چاہیے۔ ایک یتیم بچے کے ساتھ ہم نے اچھا سلوک نہیں کیا۔ تیرے جانے کے بعد تو جیسے گھر کی برکت اور رونق ہی ختم ہوکر رہ گئی۔ سچ کہا گیا ہے کہ جس گھر میں یتیم پرورش پاتے ہیں، وہاں رب کا سایہ ہوتا ہے‘‘۔ ماں جی کی آنکھیں بنا برسات کے ٹوٹ کر برس رہی تھیں۔ ’’تیرے صاحب بھی آخری وقت تک تجھے یاد کرتے رہے تھے۔‘‘
’’او بھائی! بس نکلنے والی ہے تمہاری، چائے ختم ہوئی یا نہیں؟‘‘ کلینر کے پکارنے پر زبیر سوچوں کی دنیا سے واپس لوٹا تو دیکھا مسافر بس میں بیٹھ چکے تھے اور ڈرائیور بس اسٹارٹ کرچکا تھا۔ زبیر نے جلدی سے چائے کے پیسے ادا کیے اور بس کی طرف چل دیا۔ بس میں بیٹھنے لگا تو اس نے دیکھا کہ وہی فقیر دروازے کے پاس والی سیٹ پر بیٹھا ہے۔ ایک لمحے کے لیے اس کی چھٹی حس نے اسے خبردار کیا۔
’’یہ فقیر کہیں روسی کارندہ تو نہیں۔‘‘ اس نے دل ہی دل میں سوچا۔
…٭…
افغانستان کا قصہ انتہائی درد انگیز ہے۔ زمانے کی آنکھ شاید اس سے بڑھ کر قربانیاں دینے والی قوم کو اس سے پہلے کبھی نہ دیکھ پائی ہوگی۔ افغانستان کے حکمرانوں نے غیروں کے کہنے پر اپنے ہم وطنوں کا خون یوں بے دردی سے بہایا جیسے پانی۔ بیسویں صدی کی پچاسویں دہائی کے بعد ظاہر شاہ نے روسیوں کے کہنے میں آکر ثقافتی انقلاب برپا کرنے کا فیصلہ کیا۔ روسی آقائوں نے اس کو مشورہ دیا تھا کہ اگر افغانستان کی ترقی چاہیے تو اس کے لیے فرسودہ اسلامی شعائر کو خیرباد کہنا پڑے گا۔
مغرب کی ترقی سے متاثر غلام ذہنیت کے تمام مسلم حکمرانوں کی طرح یہ مشورہ ظاہر شاہ کو بڑا صائب محسوس ہوا، لہٰذا قندھار میں ایک عوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس نے اعلان کیا کہ ’’اب تاریکی کا دور ختم ہوا، لہٰذا عورتوں کو برقعوں سے نجات حاصل کرلینی چاہیے‘‘۔ لیکن جب اہل قندھار نے اس کی بات ماننے سے انکار کردیا تو ظاہر شاہ نے خان محمد کی قیادت میں ان پر فوج کشی کروا دی، اور یوں اپنی ہی فوج نے اپنے ہی ملک کے سینکڑوں باشندوں کو بھون کر رکھ دیا۔
ظاہر شاہ کے چالیس سالہ دور کا اختتام بڑا المناک تھا کہ اُس کے اپنے چچازاد بھائی اور بہنوئی محمد دائود خان نے اس کو جلا وطن کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ یہ انقلاب سراسر روسی حکمرانوں کی درپردہ تائید سے وقوع پذیر ہوا تھا۔
دائود خان نے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد روسی ہدایت کے پیش نظر مسلم طلبہ پر بہت ظلم کیا، اس نے تحریک اسلامی کے بیشتر کارکنوں کو شہید کردیا۔ لیکن اسلام کی شمع اس کے مظالم سے بجھ نہ سکی۔ روسی حکمرانوں کو جلد اندازہ ہوگیا کہ سردار دائود خان ان کے ساتھ زیادہ دور تک نہیں جاسکتا۔ چنانچہ 1976ء اور 1977ء کے درمیان جب سردار دائود نے اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانے کی کوششیں کیں تو وہ سخت پریشان ہوئے، چنانچہ دائود خان کے اسلامی ممالک کے دورے کے بعد فیصلہ کرلیا گیا کہ اسے جلد اقتدار سے علیحدہ کردیا جائے۔
دائود کے خلاف انقلاب لانے والا نور محمد ترہ کئی تھا۔ 1978ء میں ترہ کئی نے دائود کی حکومت کا خاتمہ کیا اور اعلان کیا کہ دائود ظالم تھا اور اس کی پالیسیاں ملک اور عوام کے لیے نقصان دہ تھیں، لہٰذا اس کی حکومت ختم کردی گئی ہے۔ لیکن ترہ کئی بھی روسی آقائوں کو مطمئن نہ کرسکا اور جلد ہی ستمبر 1979ء میں ترہ کئی کے دوست حفیظ اللہ امین نے روسی آشیرباد کے ساتھ اس کا اقتدار ختم کیا، اور ساتھ ہی روسی حکمرانوں کو یقین دلایا کہ وہ ان کے لیے زیادہ بہتر ثابت ہوگا۔
حفیظ اللہ امین نے اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے ہزاروں بے گناہ مسلمانوںکو مروایا، لیکن پھر بھی اس کی روسی حکمرانوں سے بن نہ سکی، اور یوں چند ماہ بعد ہی اُس کا تختہ الٹ دیا گیا اور نئے چہرے کے طور پر ببرک کارمل کو آگے لایا گیا۔ اس نے بھی ہزاروں بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگے، لیکن پھر بھی روسیوں کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ روسی حکمرانوں نے حسبِ سابق ببرک کارمل کو کھلونے کی طرح استعمال کیا اور بعد میں اسے جیل میں پھینک دیا، اور خاد کے سربراہ نجیب اللہ کو افغانستان کے صدر کے طور پر سامنے لایا گیا۔
روسیوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ جس کسی شخص کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے اُسے بعد میں خاموشی سے غائب یا قتل کروا دیا جائے۔ لہٰذا ببرک کارمل کی زندگی اور موت کے بارے میں کبھی کچھ پتا نہیں چل سکا۔
ببرک کارمل نے ترہ کئی کو قتل کرنے بعد روسی عزائم کی تکمیل اس طرح کی کہ اپنے خطاب میں روس سے امداد کی درخواست کی، یا دوسرے الفاظ میں روسیوں کو باقاعدہ افغانستان میں داخلے کی دعوت دی۔
یہ بات حقیقت ہے کہ کارمل نے اپنی یہ نشری تقریر کابل سے نہیں بلکہ روسی ریڈیو سے کی تھی، لہٰذا اس دعوتِ عام کے نتیجے میں روس اپنے ایک دیرینہ دوست اور کمزور پڑوسی ملک میں اپنی پچاس ہزار افواج کے ساتھ داخل ہوگیا۔
کمزور پڑوسیوں کو اپنا لقمہ بنا لینا اس کے لیے کوئی نئی بات نہ تھی، بلکہ اس سے پہلے بھی وہ وسط ایشیا کی کمزور مسلم ریاستوں کو ہڑپ کرچکا تھا۔ افغانستان پر روس کا آہنی پنجہ مسلط ہوچکا تھا۔ اگرچہ اس سے پہلے مختلف افغان صدور اور وزرائے اعظم نے اپنے اپنے دور میں ظلم و جور کا بازار گرم رکھا، لیکن روسی قبضے کے بعد جس ظلم و دہشت کا آغاز ہوا اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔
کسی بھی افغان کو بغیر کسی وجہ کے گرفتار کرکے غائب کردینا معمولی بات تھی، لہٰذا زبیر بہت زیادہ چوکنا ہوگیا۔ اس نے سامنے کے شیشے سے اس فقیر کو دیکھنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوا، اور وہ پیچھے مڑ کر دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ اگلے اسٹاپ پر اس نے بس تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔
لیکن اگلا اسٹاپ آنے سے پہلے ٹرک میں سوار روسیوں نے بس کو کنارے رکوایا اور تمام مسافروں کو اتروا کر ان کی شناخت کرنے لگے۔ چار لوگوں کو علیحدہ کرلیا اور زبیر ان میں شامل تھا، بقیہ مسافروں میں سے کسی کو احتجاج کی ہمت نہیں تھی۔
زبیر خاموشی سے تمام مسافروں کو بس میں سوار ہوتے دیکھتا رہا، جب تمام مسافر بیٹھ گئے تو زبیر نے دیکھا کہ وہ مالائوں اور رنگ برنگے کرتے والا فقیر بھی اطمینان کے ساتھ بس میں سوار ہوگیا، اس کے چہرے پر اطمینان بھری مسکراہٹ تھی۔
روسی فوجی نے زبیر کو اپنی رائفل سے ٹہوکا دیا تو زبیر چونک کر آگے چلنے لگا۔ روسی فوجی نے اسے ٹرک میں سوار ہونے کا اشارہ کیا۔ چاروں افغانی خالی ہاتھ تھے۔ زبیر نے بھی اپنا بیگ بس سے اٹھانا مناسب نہ سمجھا تھا اور اسے اسی طرح سیٹ کے نیچے چھوڑ دیا تھا۔
آئندہ کیا ہونے والا ہے زبیر کو اس کا تھوڑا بہت اندازہ تو تھا کہ روسی انتہائی تشدد کے ذریعے پوچھ گچھ کرتے ہیں، لیکن اسے بڑی حیرت ہوئی جب اسے اور اس کے ساتھ چاروں افغانیوں کو ایک صاف ستھرے کمرے میں پہنچا دیا گیا، جہاں بستروں پر صاف بے شکن چادریں تھیں، کپڑوں کے لیے ایک الماری اور ساتھ ہی صاف ستھرا باتھ روم تھا۔ ان لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ’’چلو ہم ایک دوسرے سے تعارف تو حاصل کرلیتے ہیں، پھر حالات پر غور کریں گے۔‘‘ زبیر نے چاروں کو غور سے دیکھا اور بولا ’’میرا نام زبیر ہے، میں بدخشاں جارہا تھا۔‘‘
دو ادھیڑ عمر افغانیوں میں سے ایک جو اچھا کھاتا پیتا لگ رہا تھا، صاف ستھرا لباس، چمکتے ہوئے جوتے اور ہاتھ پر ایک قیمتی گھڑی بھی بندھی تھی، بولا: ’’میرا نام ناظم اللہ ہے، میں یہاں سرکاری ملازم ہوں، اپنے سسرال جارہا تھا کہ اپنے بیوی بچوں کو لے آئوں، وہ وہاں چھٹی منانے گئے ہوئے ہیں، اب پتا نہیں وہ کب تک میرے منتظر رہیں گے۔‘‘
ناظم اللہ کے جملے اگرچہ بہت اداس کیفیت کے مظہر تھے، لیکن اس کا چہرہ دکھ یا افسوس سے ایک دم خالی تھا۔ زبیر نے خاص طور سے یہ بات نوٹ کی۔
دوسرا ادھیڑ عمر ذرا فربہ شخص تھا جو سب سے پہلے بستر پر بیٹھا اور پھر لیٹ گیا، لیٹے لیٹے بولا ’’میرا نام زمان خان ہے، میرا کابل خورد میں چائے خانہ ہے، مجھے کابل سے اپنے ہوٹل کے لیے سودا خریدنا تھا، پتا نہیں کیوں یہ مردود مجھے یہاں پکڑ لائے۔‘‘
زبیر نے اِدھر اُدھر دیکھا، اس نے سن رکھا تھا کہ روسیوں کا ریکارڈنگ سسٹم بڑا زبردست ہے، سلنگ کے نیچے، الماری کے پیچھے، ہو سکتا ہے کرسی کی پشت پر کوئی آلہ لگا ہو، زبیر نے سوچا۔ پہلے اس کے دل میں آیا کہ اس بارے میں دوسروں کو بھی خبردار کردے، لیکن اسے انسٹرکٹر کی بات یاد آئی جس نے لیکچر دیتے ہوئے بتایا کہ قیدیوں کے ساتھ کسی مخبر قیدی کو رکھنا قیدیوںکو سمجھنے کے لیے ایک خاص طریقہ کار ہے۔ زبیر نے بقیہ دونوں نوجوانوں پر نظر ڈالی، ایک نوجوان دبلا پتلا سا تھا جس کے ماتھے پر سجدے کا نشان تھا، بڑی بڑی آنکھیں اور دراز پلکیں، جو اٹھیں تو آنکھوں سے روشنی سی نکلتی محسوس ہوئی۔ وہ بولا:’’میرا نام رحیم شاہ ہے، میں اور میرا دوست کابل یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں، اس کا نام خان محمد ہے۔‘‘ خان محمد بہت خاموش تھا، اس کے چہرے پر فکر و پریشانی کا سایہ پھیلا ہوا تھا۔ رحیم شاہ نے اپنے دوست خان محمد کو تھپکی دی۔ ’’شاید یہ لوگ ہمیں غلط فہمی کی بنا پر پکڑ لائے ہیں۔‘‘ خان محمد کے منہ سے یہ پہلا جملہ تھا جو نکلا تھا۔ زبیر نے سب لوگوں کو بستر پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
’’دیکھو جلد ہی اندازہ ہوجائے گا کہ ان کا کیا مقصد ہے۔‘‘
لیکن انہیں اگلے تین دن تک کچھ اندازہ نہ ہو پایا۔ عجیب قید تھی، وقت پر کھانا، ناشتا اور چائے۔ مکمل آرام اور ساتھ ٹی وی، وی سی آر کی سہولت۔ ٹی وی ٹرالی میں کئی بے ہودہ انڈین فلمیں موجود تھیں، اور کسی نے تو ان میں دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا لیکن ناظم اللہ بور ہوکر وقتاً فوقتاً انہیں لگاتا رہا۔
زبیر کے سوا سب ہی نے کھانا وغیرہ لانے والے لوگوں سے سوال جواب کیے، لیکن ان کے پاس ہر سوال کے جواب میں ایک سردمہر خاموشی کے سوا کچھ نہ تھا۔ تیسرے دن زبیر سوچ رہا تھا کہ شیر دل بھائی اور زینب سمجھ رہے ہوں گے کہ میں اب تک اپنی منزل پر پہنچ گیا ہوں گا، انہیں کیا خبر کہ میں ان کے قریب ہی موجود ہوں۔
تیسری شام تھی، وہ لوگ چائے پی کر آپس میں گپ شپ لگا رہے تھے۔ رحیم شاہ اور خان محمد اپنی یونیورسٹی کے قصے سنا رہے تھے۔
’’کابل میں جہاد کا سب سے پہلا پودا کابل یونیورسٹی کی شریعت فیکلٹی سے پھوٹا تھا، اُس زمانے میں اس شعبے کے چیئرمین غلام محمد نیازی تھے۔ خوب شخصیت تھی… بہادر، پُرعزم۔ انہوں نے طلبہ کو حکومت اور انتظامیہ کے لیے لوہے کے چنے بنادیا تھا۔‘‘ رحیم شاہ کا چہرہ پُرجوش ہوا جارہا تھا۔ زبیر نے کنکھیوں سے ناظم اللہ کو دیکھا، وہ ٹی وی پر نظر جمائے بظاہر بڑا مگن نظر آرہا تھا۔ کمرے کا دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا۔
تین چار سپاہی اپنے فوجی بوٹ بجاتے اندر داخل ہوئے اور رحیم اللہ اور خان محمد کو باہر نکلنے کا اشارہ کیا۔ انہوں نے کچھ کہنا چاہا لیکن ایک سپاہی نے انہیں بازو سے پکڑ کر سختی سے اٹھایا اور کھینچ کر اپنے ساتھ لے گئے۔
زبیر دونوں نوجوان لڑکوں کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ رحیم اللہ کا چہرہ کسی قسم کے جذبات کا اظہار نہیں کررہا تھا، وہ خوف زدہ نظر آرہا تھا، اسے فوجیوں کو زبردستی لے جانے کی زحمت بھی نہیں کرنی پڑی تھی، وہ مضبوط قدموں کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ لیکن خان محمد کا چہرہ خوف کے باعث پیلا پڑ گیا تھا۔ فوجیوں نے اسے بازوئوں سے پکڑ کر اٹھایا اور کھینچتے ہوئے باہر لے گئے۔
دروازہ زور سے بند ہوا اور کمرے میں موت کی سی خاموشی چھاگئی۔ زبیر نے ناظم اللہ اور زمان خان کی طرف دیکھا۔ ناظم اللہ خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گیا، وہ کسی گہری سوچ میں تھا۔
زمان اللہ نے دونوں ہاتھوںکی انگلیاں ایک دوسرے میں ڈال کر زور سے بھینچیں، اندرونی اضطراب اس کے چہرے سے عیاں تھا، اس نے زبیر اور ناظم اللہ کی طرف دیکھا۔
’’اب کیا ہوگا؟ یہ لوگ ان لڑکوں کو کہاں لے گئے؟‘‘ لیکن ان دونوں سوالوں کا جواب کسی کے پاس نہ تھا۔ ’’پھر بھی تم لوگوں کو کچھ تو پتا ہوگا‘‘ اس نے پلنگ سے اٹھ کر ناظم اللہ کو جھنجھوڑا۔
’’نہیں بھائی، مجھے کیا پتا! تم خود فوجیوں سے پوچھ لیتے‘‘۔ اس کا لہجہ بے نیازی اور بے پروائی کا اندازہ لے ہوئے تھا۔’’اب کیا ہوگا؟‘‘ اب زمان خان نے زبیر سے پوچھا۔ نگاہوں میں لاچاری اور لہجے میں خوف بسا ہوا تھا۔ روسیوں کے ظلم و تشدد کی داستانیں کوئی ڈھکی چھپی بات تو تھیں نہیں، زبیر نے نگاہوں ہی نگاہوں میں اسے تسلی دی۔ وہ ناظم اللہ کی موجودگی کے باعث الفاظ کے استعمال میں بے حد محتاط ہوگیا تھا۔ اسے اس بات کا اندازہ تھا کہ یہ عیش زیادہ عرصے نہیں رہے گا۔ لیکن دونوں نوجوان طالب علموں کے جلد پکڑے جانے کا سبب وہ سمجھ رہا تھا۔ کابل یونیورسٹی کے بیان کیے گئے قصے باہر تک پہنچا دیے گئے ہیں۔ اس نے ناظم اللہ کو دوبارہ غور سے دیکھا، وہ ابھی تک بند ٹی وی پر نظریں جمائے غور و فکر میں مصروف تھا۔
یہ ہے تو افغانی لیکن شاید تعلیم روس میںحاصل کی ہو اور وہیں ان کے جال میں پھنس گیا ہو۔ ناظم اللہ نے یکایک نظریں اٹھاکر زبیر کی طرف دیکھا اور آہستہ سے مسکرایا، جیسے اس کے خیالات پڑھ لیے ہوں۔ جواباً زبیر نے بھی مسکرا کر ہاتھ کے اشارے سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہے؟
ناظم اللہ نے اشارے ہی سے جواب دیا کہ پتا نہیں۔
زبیر نے اپنی جیب سے قلم نکالا، وہ چاہتا تھا کہ ناظم اللہ سے لکھ کر تبادلہ خیال کیا جائے۔ اس نے اخبار پر لکھا کہ ’’کیا تم افغانی ہو؟‘‘
جواب میں ناظم اللہ نے تحریرکیا کہ ’’ہاں‘‘۔
’’پھر تم روسیوں کے ساتھ کیوں ہو؟‘‘
سوال پڑھ کر وہ ایک لمحے کو رکا اور نظر اٹھا کر زبیر کو دیکھا۔
’’مجبوراً‘‘۔ جواب مختصر تھا لیکن بات سمجھ میں آئی تھی۔ زبیر نے اس کی آنکھوں کی طرف غور سے دیکھا۔ ناظم اللہ نے دوبارہ لکھا ’’میری ماں اور بہن کو پکڑ لینے کی دھمکی نے مجھے روسیوں کا ساتھ دینے پر مجبور کیا ہے‘‘۔ ناظم اللہ کا چہرہ شدت ِجذبات سے سرخ پڑ گیا تھا۔ زبیر ایک لمحے کے دسویں حصے میں اس کی سچائی کا قائل ہوگیا۔ ’’ان لڑکوں کا اور ہمارا مستقبل کیا ہوگا؟‘‘
’’آگے بہت آزمائشیں تمہاری منتظر ہیں، لیکن میرے دوست ہمت نہ ہارنا‘‘۔ ناظم نے کھڑے ہوکر ہاتھ پھیلائے اور زبیر کو گرم جوشی کے ساتھ گلے لگایا۔ کافی دیر تک اس کو گلے لگا کر ہاتھ ملایا، پھر جیسے اسے کچھ یاد آیا، وہ واپس میز کے پاس آیا اور اخبار کے ان ٹکڑوں کو اٹھایا جن پر انہوں نے آپس میں سوال جواب کیے تھے۔ اس نے کاغذ کے ٹکڑوں کو کچرمچر کرکے چھوٹی چھوٹی گولیوں میں تبدیل کردیا تھا۔ انہیں مٹھی میں دبا کر اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر باتھ روم میں جاکر فلش میں بہادیا۔ (جاری ہے)۔

حصہ