کوئی مجھے بھی تو سمجھائے

387

اقبال بھائی بھی خوب ہیں، ہر بات پر بحث کرنا اور چھوٹی سی بات کو لمبا کھینچنا اُن کا مشغلہ ہے۔ کل رات کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر لیکچر دیتے ہوئے میرے وہ کان کھائے کہ خدا کی پناہ۔ ان سے بخشش ملتے ہی گھر پہنچ کر دو پیناڈول کھانی پڑیں۔ میں تو دوا لے کر ٹھیک ہوگیا، سوچتا ہوں کیوں ناں آپ کو بھی اُن کے دیے گئے علمی درس سے فیض یاب کروں!
رات دس بجے کا وقت تھا، اقبال بھائی نے مجھے آتا دیکھ کر آواز دی اور اپنے گھر لے گئے، کہنے لگے ملاقات کیے خاصے دن ہوگئے تھے، سوچا آج بیٹھ کر گپ شپ کرلیتے ہیں۔ بس پھر کیا تھا، میں تھا اورمیرے سامنے نہ رکنے والا ایک ایسا ریکارڈ جو اقبال بھائی کی صورت میں مستقل بولے ہی جا رہا تھا، جس کی آوازیں اب تک میرے کانوں میں گونج رہی ہیں۔ ان کی علمی گفتگو کی شروعات کچھ یوں ہوئی:
’’ہمیں بتایا یہ جارہا ہے کہ کورونا وائرس چھونے، گلے ملنے اور ہاتھ ملانے کے باعث ایک شخص سے دوسرے میں منتقل ہورہا ہے۔ بتایا یہ بھی جارہا ہے کہ یہ وائرس سماجی فاصلہ نہ رکھنے کے باعث بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ اب کوئی مانے یا نہ مانے، میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بارے میں دیے جانے والے اس فلسفے پر اپنی رائے دینے کا حق ضرور رکھتا ہوں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر ایسا نہیں تو پھر کیا ہے؟ بات سیدھی سی ہے، اس کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ دیکھو، ایک شخص بازار سے پھل،گوشت، سبزی یا کھانے کی کوئی اور اشیاء خرید کر لاتا ہے، اگر خریداری کرنے والا شخص کورونا وائرس سے متاثر ہے، یا دکان دار اس موذی مرض میں مبتلا ہے، دونوں صورتوں میں یہ وائرس صحت مند میں منتقل ہوگا، یعنی خریداری کرنے والے اور بیچنے والے شخص میں سے کوئی ایک ضرور کورونا وائرس کا نیا شکار ہوجائے گا۔ اگر یہ وائرس دکان دار میں ہوا تو بات یہیں ختم نہیں ہوگی بلکہ اور آگے بڑھے گی۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ جب بازار میں بیٹھے کورونا وائرس کے شکار دکان دار سے گوشت یا سبزیاں گھر میں لائی جائیں گی تو ان چیزوں کو گھر کی خواتین ضرور ہاتھ لگائیں گی۔ ظاہر ہے جب کھانے کی چیزیں لائی جاتی ہیں تو انہیں ایسے ہی نہیں چھوڑا جاتا، بلکہ اچھی طرح دھوکر فریج میں رکھا جاتا ہے۔ اس کے لیے دنیا بھر میں کہیں بھی کسی جراثیم کُش دوا، ڈیٹول یا سینی ٹائزر وغیرہ کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ انہیں عام استعمال کے پانی سے ہی دھویا جاتا ہے۔ اب جس برتن میں یہ سبزیاں، پھل یا گوشت وغیرہ ڈالا گیا اُن میں بھی کورونا وائرس منتقل ہوگیا۔ پھر یہ بات کون نہیں جانتا کہ اسٹیل کی چیزوں میں تو کورونا وائرس تین دن تک زندہ رہتا ہے۔ یوں دکان دار سے چلنے والا یہ وائرس بذریعہ شاپر خریدار کو، گھر میں آنے کے بعد خاتونِ خانہ اور برتن میں موجود ہونے کی وجہ سے خاندان کے باقی افراد میں منتقل ہوجائے گا۔ میں مانتا ہوں کہ ہائی ٹمپریچر یعنی آگ پر پکنے والی چیزوں میں یہ وائرس زندہ نہیں رہ سکتا، لیکن یہاں تو وائرس بازار سے لائے گئے سامان کے ذریعے انسانی جسم میں پہلے ہی منتقل ہوچکا ہے۔ فرض کریں اگر ایک خاندان 5 افراد پر مشتمل ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے لیکن تھوڑی دیر کے لیے مان لیتے ہیں کہ اتنے ہی افراد ہیں، اور دکان دار کے پاس دن بھر آنے والے گاہکوں کی تعداد 100ہے، تو اس طرح ایک دن میں تقریباً پانچ سو لوگوں میں کورونا وائرس منتقل ہوا۔ جب ایک دکان سے خریداری کرنے والوں میں کورونا وائرس کی منتقلی کی شرح یہ بنتی ہے تو سوچیے دودھ، دہی،گوشت، سبزیاں، آٹا، چینی، چاول، یہاں تک کہ بیکری آئٹم کے ذریعے یہ وائرس کتنے ہزار افراد میں منتقل ہوا۔
اسی طرح اگر کوئی شخص پیٹ درد، بخار یا جسم میں ہونے والی کسی بھی ناقابلِ برداشت تکلیف کے بارے میں بتائے تو ایسے مریض کو اُس کے گھر والے فوری طور پر کسی بھی قریبی اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں لے جائیں گے جہاں مرض کی تشخیص کے بعد فوری طبی امداد دی جائے گی، اور حالت سنبھلتے ہی اُسے گھر روانہ کردیا جائے گا۔ اگر اس مریض میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوجاتی ہے تو اُسے کورونا وارڈ میں منتقل کردیا جائے گا، یعنی ایمرجنسی وارڈ میں ہونے والی تشخیص کے بعد ہی مریض کو کورونا وارڈ میں منتقل کیا جائے گا، اور پھر اس بات سے بھلا کون واقف نہیں کہ ہمارے اسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈز میں آنے والے مریضوں کی تعداد سیکڑوں میں ہوا کرتی ہے، لہٰذا جہاں اس مریض کو لٹایا گیا تھا وہ بیڈ کورونا زدہ ہوگیا، اب ہر آنے والا شخص چاہے وہ کسی بھی مرض میں مبتلا ہو، اس بیڈ پر لیٹتے ہی کورونا وائرس کے شکنجے میں آجائے گا۔ لہٰذا میرے بتائے بغیر آپ خود ہی حساب لگا لیں کہ صبح سے لے کر شام تک اس اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں کتنے لوگ کورونا وائرس کا شکار ہوئے۔ اگر ایسا ہی ہے یعنی کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بارے میں جو کچھ بھی ہمیں بتایا جارہا ہے، اس فلسفے کے مطابق تو اب تک اس وائرس کو دنیا میں رہنے والے ایک ایک شخص میں منتقل ہوجانا چاہیے تھا، مگر ایسا نہیں ہے۔‘‘
’’اقبال بھائی آپ کو بات لمبی کرنے کی عادت ہے۔ مجھے تو آپ کی باتوں سے ظاہر ہورہا ہے کہ اس وائرس کا وجود ہی نہیں۔ اگر یہی سچ ہے تو آپ کے سوا ساری دنیا پاگل ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے طبی ماہرین بھنگ پی کر فیصلے کررہے ہیں۔ آپ ٹھیک، باقی سب غلط ہیں! جبکہ حقائق یہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر کے تمام ممالک بشمول یورپ اور امریکا جہاں جہاں بھی یہ وبا ہے، نہ صرف یہی مشورے دے رہے ہیں بلکہ وہاں بھی اسی طریقے کو اپنایا گیا ہے۔‘‘
’’میں نے کب کہا کہ کورونا وائرس نہیں ہے! میں تو اس کے پھیلاؤ کے بارے میں دیے جانے والے فلسفے کی مخالفت کررہا ہوں، میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ اگر چھونے، ساتھ بیٹھنے، ہاتھ ملانے اور گلے ملنے سے یہ وائرس منتقل ہوتا ہے تو اس فارمولے کے مطابق اب تک ساری دنیا کے لوگوں کو اس وبائی مرض میں مبتلا ہوجانا چاہیے تھا۔ میں تو کہہ رہا ہوں کہ کوئی مجھے بھی تو سمجھائے کہ چھونے، گلے ملنے اور ہاتھ ملانے سے پھیلنے والے اس وائرس کے متاثرین کی تعداد دوسرے وبائی امراض کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر کیوں ہے؟ جہاں تک امریکا اور یورپ میں کورونا مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا تعلق ہے، تو میں بھی تو یہی کہہ رہا ہوں۔ تم نے نہیں دیکھا کہ یورپ اور امریکا کے لوگ خوف کے مارے کئی مہینوں سے اپنے گھروں سے باہر نہیں نکلے، وہ سوشل ڈسٹنس پر بھی عمل کررہے ہیں، تو پھر وہاں یہ وائرس کیوں کر پھیل رہا ہے؟ یہاں بھی میرا مؤقف ہی ٹھیک ہے، یعنی میرا نظریہ ہے کہ یہ وائرس چھونے اور ہاتھ ملانے سے نہیں پھیلتا، بلکہ اس کے پھیلاؤ کی اصل وجہ کوئی اور ہے جس کو ساری دنیا کے طبی ماہرین نہیں سمجھ پا رہے، یا شاید اگر سمجھ رہے ہیں تو بتانا نہیں چاہتے، کیونکہ اس کے پیچھے کئی ممالک کا اپنا ایجنڈا بھی ہے۔‘‘
’’کیا کہہ رہے ہیں اقبال بھائی آپ؟ کیسا ایجنڈا؟ لوگ مر رہے ہیں اور آپ اسے ایک نیا رنگ دے رہے ہیں۔‘‘
’’اچھا تم ہی بتاؤ، یورپ اور امریکا میں کورونا وائرس سے مرنے والے زیادہ تر افراد کی عمریں کیا ہیں؟ ذرا سا ذہن لگانے سے تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ مرنے والوں میں زیادہ تعداد عمر رسیدہ افراد کی ہے۔ میرے خیال میں اب تم سمجھ گئے ہو گے اور سارا ایجنڈا بھی تم پر واضح ہوگیا ہوگا۔‘‘
’’یہ فضول بات ہے، کوئی کیوں اپنے ملک میں اس طرح کا قتلِ عام کرے گا!‘‘
’’ان ممالک میں حکومتوں کی جانب سے بزرگ شہریوں کو ماہانہ الاؤنس دیاجاتا ہے، وقت کے ساتھ ساتھ چونکہ بوڑھوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اس لیے معیشت پر خاصا بوجھ پڑ رہا ہے، لہٰذا ان ممالک نے ان عمر رسیدہ افراد سے جان چھڑانے کے لیے کورونا وائرس کا سہارالے لیا ہے۔ ظاہر ہے اس عمر میں انسان کو صحت کے مسائل رہتے ہیں، بس اسی سلسلے میں جونہی کوئی بزرگ اسپتال کا رخ کرتا ہے، پھر وہ زندہ واپس نہیں آ سکتا۔‘‘
’’اقبال بھائی خدا کو مانیں، اگر یہ سارا چکر معاشی ہے تو ان ممالک میں دودھ پیتے بچوں اور بے روزگار نوجوانوں کو بھی حکومتی الائونس ملتے ہیں، تو پھر ان سے جان کیوں نہیں چھڑائی جارہی؟‘‘
’’اس کے لیے صرف اتنا ہی کہوں گا کہ سفر میں جاتے ہوئے سر پر رکھی ہوئی گٹھری میں اگر وزن زیادہ ہو تو اسے اتار کر وزن کم کیا جاتا ہے، اپنی گردن نہیں کاٹی جاتی۔‘‘
دیکھا آپ نے اقبال بھائی کا دماغ! مجھے پوری امید ہے کہ میری طرح آپ کو بھی دو عدد پیناڈول لے کر ہی سونا پڑے گا۔

حصہ