غزل محو ِکمال ہے

791

سرور جاوید
آج ستمبر کا تیسرا منگل ہے ۔ ہم دوست آزاد خیال ادبی فورم کی نشست سے واپسی پر کشمیر روڈ کے سرے پر واقع ایک ہوٹل پر جمع ہیں۔ حسبِ معمول سرور جاوید بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ بالائی والی چائے اس ہوٹل کا خاصہ ہے جس کا آڈر دیے جانے کے بعد گفتگو کاآغاز ہو چکا ہے۔ م م مغل ایک خاص پراعتماد انداز میں : سرور صاحب آج تو آپ نے کمال غزل سنائی ،میں تو ابھی تک اس غزل کی گرفت میں ہوں اگر بارِ طبیعت نہ ہو تو دوبارہ عطا کیجیے۔ سرور جاوید جو ابھی نشست پر تشریف فرما ہی ہوئے تھے: ارے بھئی! چائے تو آنے دو پھر ہم اپنا کلام بھی سنائیں گے آپ حضرات سے بھی سنے گے۔ نعیم سمیراپنی ترنگ میں سرور صاحب کی بات کاٹتے ہوئے: نہیں سرور صاحب ، آج کی شام تو آپ کے نام ہے آج تو ہم صرف آپ کا کلام سنیں گے۔ جب تک چائے آتی ہے آپ مغل کی فرمائش تو پوری کریں۔ سرور جاوید:دیکھو بھئی! ہم یہاں گفتگو کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ شاعری تو نشست میں ہوچکی ۔م م مغل :آپ بھول رہے ہیں نشست کا پہلا حصہ گفتگو پر مبنی تھا۔ راقم ا لحروف: تو پھر ایسا کرتے ہیں کہ آج ہم اپنی گفتگو کا موضوع سرور جادیدکی شاعری رکھ لیتے ہیں۔ کیا خیا ل ہے۔ عباس ممتاز بڑی معصومیت سے:بہت نیک خیال ہے۔مجید رحمانی: تو جناب طے یہ پایا کہ سرور جاوید اشعار سنائیں گے اور ان کے اشعار پہ بات ہوگی۔توقیر تقی بڑے دھیمے لہجے اور ٹھہرے ہوئے انداز کے ساتھ : تو پھر ابتدا مغل کی فرمائش سے ہونی چاہیے۔ سرور جاوید نیم تبسم کے ساتھ:اچھا تو یہ بات ہے، مجھے اندازہ ہورہا ہے کہ آج میرے جان بخشی کا کوئی امکان نہیں۔ اور اگر ایسا ہے تو یوں ہی سہی۔ تو جنا ب آج کی غزل کچھ یوں تھی کہ:۔
طلب کے رنگ نئے فاصلوں کے وار نئے
شکست ِ عشق نے بخشے ہیں کاروبارنئے
میں اس ساتھ بھی بے خال وخد رہا برسوں
شباہتوں کو دیے جس نے اعتبارنئے
ابھی سے کیا ہوگرانباریوں کا اندازہ
دیارِ عشق میں آئے ہیں بے دیار نئے
طلسم ِ عشق جو بکھرا تو پھر بچھڑنے کو
ہمارے پاس بہانے بھی تھے ہزار نئے
کیا کہنے ، واہ واہ ، جواب نہیں۔ ہم دوست ہر شعر پر داد دیتے نہیں تھک رہے ۔ پھر ندیم قیس کچھ یوں گویا ہوئے: آپ اتنی خوبصورت غزلیں کیسے کہہ لیتے ہیں ہر شعر ہی حاصلِ غزل۔ سرور جاوید: بات دراصل یہ ہے کہ شاعری کی بنیاد ہے جمالیات ، جمالیات احساس اور اظہار دونوں سطح پر موجود ہونی چاہیے تب کہیں بات نبتی ہے۔ایک بات اور، شعری معیار میں انیس بیس تو چلتا ہے لیکن اٹھارہ بیس نہیں چلتا اسی لیے تو آپ نے اس غزل کے ہر شعر سے یکساں حظ اٹھایا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ انیس بیس کے معیار کو کیسے پرقرار رکھا جائے تو برادرم اچھی شاعری کو اچھے ناقد کی ضروت ہوتی ہے۔شاعر اپنی شاعری کا پہلا اور سب سے اہم نقاد ہوتا ہے۔تنقیدی شعور ایک شاعر کی تخلیقی شخصیت کا کلیدی جزو ہُواکرتا ہے۔ احمد جہاںگیر جو محافل میں عموماً خاموش رہنے کو ترجیح دیا کرتے ہیں اچانک ایک سوال کے ساتھ گفتگومیں شامل ہوتے ہیں: تخلیقی شخصیت کے آپ کی نظر میں اور عوامل کیا ہوسکتے ہیں؟ سرور صاحب: عوامل تو کئی ایک ہوسکتے ہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ تخلیقی شخصیت ادب اور غیرادب کے مطالعہ، زندگی کے مشاہدے اور عصری شعور کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔نعیم سمیر: ایک غزل اور عطا کیجیے! سرور جاوید : اچھاسوچتا ہوں جو یاد آجائے۔ نعیم سمیر: وہ والی غزل ہوجائے،اَن سنا لگتا ہوں ہر بار سنایا ہوا مَیں۔ سرور صاحب:۔
کیسی سرشاری کے عالم میں ہوں آیا ہوا مَیں
اپنے اندوہِ محبت میں سمایا ہوا مَیں
ہجر تھا جس کی فسوںکاری وخود رائی میں
عرصۂ عشق پہ اک عمر تھاچھایا ہوا مَیں
صرف ہونے کو ہوں بے مصرفیٔ ذات کے بیچ
دشت ِ احساس میں مشکل سے کمایا ہوا مَیں
جب بھی لاتی ہے ہوا اْس کے بدن کی خوشبو
پھر سے جل اْٹھتا ہوں مدت سے بجھایا ہوا مَیں
کاسۂ فن میں ہیں کچھ ایسے تہی معنی حروف
اَن سنا لگتا ہوں ہر بار سنایا ہوا مَیں
آج بھی ڈھونڈتا ہوں اپنے طرف داروں کو
زخم خوردہ ترے کوفے میں بلایا ہوا مَیں
راقم ا لحروف: سرور صاحب آپ کے اشعار میں الفاظ کا دروبست کمال کا ہے۔اور یہ وصف دونوں غزلوں میں نمایا ں تھا۔ مثال کے طور پر پچھلی غزل کا یہ مصرع:ـہمارے پاس بہانے بھی تھے ہزار نئے، ایسا لگتا ہے کہ حروف کی ترتیب میںذراسی تبدیلی اس مصرے کا حسن پارہ پارہ کردے گی۔ اور یہ بات دونوں غزلوں کے اشعار پہ صادر اترتی ہے۔قاضی دانش جو منہ میں پان ہونے کی وجہ سے بہت دیر سے خاموش تھے میری بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہنے لگے : سرور صاحب کے ہر شعر میں الفاظ گویا نگینے کی طرح جڑے ہوتے ہیں اب یہ شعر ہی دیکھیے:۔
ایک وحشت تھی جو کام آگئی ناکامی میں
ورنہ یہ زندگی کرنے کو ہنر چاہیے تھا
سیف الرحمن سیفی، جو ہم دوستوں سے کچھ سینئر ہیں، کہنے لگے: دانش نے جو شعر سنایا اس کے مصرعہ ِاولیٰ اور پچھلی غزل کے ایک شعر میں کہ :صرف ہونے کو ہوں بے مصرفیٔ ذات کے بیچ،ایک قدر مشترک ہے۔ سرور صاحب ایک لفظ کو ایک ہی مصرے میں تقابلی انداز سے دو جگہ لا کر شعری حسن پیدا کرتے ہیں۔یہ لفظوں کا الٹ پھیر بھی خوب ہے صاحب۔راقم ا لحروف:یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ سرور جاویداپنی شاعری میں خوبصور ت تراکیب اور وہ الفاظ،جو صوتیاتی دل کشی رکھتے ہیں ،کا خاص اہتمام کرتے ہیں ۔مجید رحمانی:جناب! کتنی ہی خوبصورت تراکیب سرور صاحب کی شاعری میں جابجا ملتی ہیں مثلاً: نقدِ جاں، اندوہِ طرب، غرورِ تشنگاں، زخمِ شناسائی، عشوہ گرانِ چارسو ، مسلکِ تنہاروی وغیرہ۔م م مغل : سرور صاحب کیا آپ اس بات پر روشنی ڈالنا پسند فرمائیں گے۔ سرور جاوید : خیا ل کی کیفیت کی مناسبت سے الفاظ کا چناؤ شعر کو خوبصورت بنا دیتا ہے لیکن یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ہر لفظ غزل کے مزاج کا نہیں ہوتا ۔ بہت صقیل یا انتہاہی بازاری الفاظ دونوں ہی غزل کی فضا سے دور لے جاتے ہیں۔ اور یہی ہماری شعری روایت بھی ہے۔احمد جہاںگیر: تلمیحات کا استعمال تو ہم بھی کرتے ہیں مگرآپ تلمیح کومحض اشارتاًنہیں لاتے بل کہ پورے شعر کی کیفیت اس میں سمو دیتے ہیں۔اب اسی شعر کو دیکھ لیں :۔
آج بھی ڈھونڈتا ہوں اپنے طرف داروں کو
زخم خوردہ ترے کوفے میں بلایا ہوا مَیں
قاضی دانش: اس شعر کی ایک خاصیت اور بھی ہے وہ یہ کہ اس شعر کی امیجری ساکت نہیں بل کہ متحرک ہے۔ اور یہ صفتہ میں سرور صاحب کی شاعری میں جابجا نظر آئے گی۔ مثال کے طور پر:۔
میں جب بھی سوچتا ہوں نشۂ الفت سے حاصل کیا
تو کتنے رت جگے میرے سبو میں رقص کرتے ہیں
یایہ شعر(نعیم سمیربھی اسی نوعیت کا ایک شعر اپنے خوبصورت انداز میں پڑھتے ہیں) :۔
بچھڑ کر بھی طرب آمیز ہوں اْس دشت کی صورت
جسے تادیر شورِ کارواں آباد رکھتا ہے
سیف الرحمن سیفی:میرے خیال میں سرور جاوید متحرک ردیفوں کا استعمال زیادہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر:دکھائی دیتاہے،رقص کرتے ہیں،نہ سمجھا جائے،خواب بدل گئے مرے،نہیںلکھامیں نے۔عباس ممتاز: ارے سیفی بھائی آپ کو تو سرور صاحب کی ردیفیں زبانی یاد ہیں۔سیف الرحمن سیفی: صرف ردیفیں نہیں مجھے سرور صاحب سمیت بہت سے سینئرز کا کلام ازبرہے۔
توقیر تقی: کیا گفتگو صرف سرور جاوید کے شعری اظہارتک محدود رہے گی ۔نعیم سمیر: کیا مطلب! کیاسرور صاحب کی شاعری کے اظہاری محاسن پر گفتگو مکمل ہوگئی۔توقیر تقی: ہر گز نہیں، لیکن سرور صاحب کی شاعری کی فکری سطح ، تخیل کی رو اور شعری واردات پر بھی ساتھ ساتھ بات ہونی چاہیے۔ ندیم قیس : بالکل ہونی چاہیے، تو کیوں نہ ہم سرور صاحب ہی سے ان کا شعری مسئلہ دریافت کریں۔غلام علی وفا، جو تمام احباب میں سب سے سینئر ہیںاور بڑے جوش و جذبے سے اپنے اشعار سنایا کرتے ہیں ، تقریباً ڈانٹنے کے انداز سے قیس کی بات کا جواب دیتے ہیں: بھئی اس طرح نہیں ہوتا۔ آپ شعر پڑھیںاور شاعر کی سوچ و فکر ، اس کے شعور اور لاشعور ، اس کے تخیل اور احساس کا خود جائزہ لیں نہ کہ براہِ راست شاعرسے پوچھیں۔ مجید رحمانی: جہاں تک میں سرور صاحب کی شاعری کو سمجھا ہوں ،یہ زندگی کے بھرپور تجربے کے بعد کی شاعری ہے۔ جس میں زندگی کی حقیقتیں ایک منطقی انجام کے طور پر سامنے آتی ہیں۔ م م مغل: رحمانی صاحب بات تو آپ نے بہت خوب کی لیکن اس حوالے سے کوئی شعری دلیل پیش کیجیے گا۔ مجید رحمانی: بھئی سرور صاحب خود اپنی شاعری کے بارے میں کہتے ہیںکہ :۔
غزل کے باب میں سرور مرا نشانِ ہنر
سوائے تجربۂ ماہ و سال کچھ بھی نہیں
اور منطقی انجام کے حوالے سے یہ ا شعار دیکھیے:۔
طویل تر تھے شکستِ طلب کے خمیازے
کہاں تلک تری چاہت کا بانکپن رہتا
کسے بتائیں گزرتی ہے کیا دل و جاں پر
فرازِ عمر سے دیدارِ یارکرتے ہوئے
واہ واہ اور قہقہوں کا ملاجھلا شور بلند ہوا اور پھر م م مغل کچھ یوں گویا ہوئے: شعر تو آپ بر محل لائیں ہیں۔ لیکن سرور صاحب کے یہاں زندگی کے تجربے میں شکست کا احساس بہت نمایاں ہے جیسا کہ اس شعر اور اسی غزل کے اگلے اشعارمیں بھی آپ کو نظر آئے گا کہ:۔
گزر گئے ہیں شناسائیوں کے سب موسم
ہماری تشنہ لبی کا شمار کرتے ہوئے
بساطِ عشق نہ تھی کارزارِ ہستی تھا
کسی کو ڈوب کے دیکھانہیں اُبھرتے ہوئے
نعیم سمیر: شکست کا احساس تو یقینا نمایاں ہے مگر سرور صاحب امید کا دامن بھی نہیں چھوڑتے، سرور جاوید کے اکثر اشعار میں امید کی موہوم سی کرن آپ کو نظر آئے گی۔مثالیں پیش خدمت ہیں:۔
کوئی بھی زخمِ شناسائی بھرنے والانہیں
میں راہِ عشق میں لیکن بکھرنے والا نہیں
نارسائی میں بھی وارفتگی جاں ہے وہی
ہم ہیں خود اپنی شکستوںکے سنوارے ہوئے لوگ
راقم الحروف: سمیر نے یہ بہت اہم نکتہ اٹھایا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ سرور جاوید یہ امید پاسِ غم، پاسِ روایت، یہاں تک کہ پاسِ ہجر سے کشید کرتے ہیںاب یہ اشعار دیکھیے:۔
ہم نے مل کر طے کیا یوں بھی جدائی کا سفر
کون کس سے بے وفائی کی اجازت مانگتا
سہل گزری ہے رہِ عشق کہ تنہائی کو
عمر بھرتیری رفاقت کا نشاں سمجھاہے
ندیم قیس: پاسِ غم سے زیادہ مجھے سرور صاحب کی خودداری یا خود اطمینانی نظر آتی ہے جیسے وہ ہجر کو ایک منطقی استدلال کے ساتھ نبھا رہے ہوں، شاید اسی لیے ایک دفعہ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم صاحب نے آپ کی شاعری پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ سرورجاوید ہجرزدہ نہیں بلکہ ہجر یافتہ ہیں۔
راقم الحروف: ڈاکٹر صاحب نے کیا ہی خوبصورت بات کی ہے ، سرور صاحب کی شخصیت جیسے اس جملے میں سما گئی ہو۔ واقعی سرور صاحب کا ہجر اختیاری ہے جو زندگی کی جانب اُن کے رویے سے جنم لیتا ہے۔ اور اِس رویے کی بنیاد نظریاتی ہے نہ کہ محض فیشن۔ یہ نظریاتی اساس ہی ہے جو انہیںبیک وقت عملی اور علمی دونوں میدانوں میں سرگرم رکھتی ہے۔ سرور صاحب کی زندگی بھی اسی نظریے کی جدوجہد اورشاعری بھی اس نظریے کا پرتو ۔ ایسا طرزِ عمل جو آج کی دنیا میں عنقا ہے ۔ ایسے انسان کو تنہاسفر طے کرنا پڑتا ہے۔ یہ با ت سرور صاحب بخوبی جانتے ہیںاور اس کا اظہار بھی اپنے اشعار میں کر چکے ہیں:۔
اپنا اپنا زخم ِ تمنااپنی اپنی منزلِ جاں
عشق سفر ہے تنہائی کا کون کسے اپناسکتا ہے
جانتا ہوں کہ گئے دل کی پذیرائی کے دن
چاہتا ہوں کہ محبت کا خزانہ مل جائے
ہمِیں نے مسلکِ تنہا روی شعار کیا
وگرنہ دل کا مداوہ گلی گلی میں تھا
توقیر تقی:نظریاتی اساس پر ہم بعد میں آئیں گے پہلے پاسِ روایت کے تناظر میںایک بات آپ کے گوش گزار کرتا چلوںکہ آپ سرور صاحب کی شاعری کو محض امید و رجا یا پھر ہجر و یاس تک موقوف نہیں کرسکتے بل کہ سرور جاوید کا ہر شعر روایت سے جڑا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس شاعری میں آپ کو کلاسک کی جھلک ضرور نظر آئی گی اور مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ سرور صاحب گزشتہ تہذیب کے آخری آدمی ہیں جو عہد ِرفتہ کی یاد بھی دلاتے ہیں اور نوحہ بھی پڑھتے ہیں ۔ احباب کو شاید میری بات آسانی سے ہضم نہ ہو تو جناب میں چند اشعار بطور دلیل پیش کرنا چاہوںگا:۔
(جاری ہے)

اِک رنج مَن و تُو کو ہمہ وقت اُٹھائے
پھِرتا ہوں یہی مطلع دو لخت اُٹھائے

افضال احمد سید

حصہ