رمضان اور تفریحی پروگرامز

229

آمنہ حق
۔’’مما مما آج چاند نہیں ہوا، اس کا مطلب ہے کہ کل چاند رات ہے۔‘‘۔
میرا بیٹا انس گوکہ ابھی چھوٹا ہے مگر رمضان کی آمد پر ہمیشہ خوش ہوا کرتا ہے۔
’’ہاں میرے بچے! ہم سب اِن شاء اللہ کل تراویح پڑھیں گے۔‘‘ میں نے اس کا ماتھا چوم کر یہ جاننے کے لیے ٹی وی آن کیا کہ واقعی آج چاند ہوا ہے یا نہیں۔
’’ تمھیں پتا ہے انس، اس رمضان اتنے زبردست پروگرام شروع ہورہے ہیں کہ مزا آجائے گا۔‘‘
میری بیٹی عشال کی آواز میرے کان میں پڑی تو یکایک غصے کی ایک لہر میرے اندر دوڑ گئی۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ہم سے زیادہ یہ ٹی وی چینلز ہمارے بچوں کے قریب ہوگئے ہیں، رمضان جیسے مقدس ماہ میں بھی ہماری عبادات میں خلل ڈالنے سے باز نہیں آرہے، اور سب سے زیادہ ہماری کم عقلی تو یہ ہے کہ رمضان ٹرانسمیشن کے نام پر دکھائی جانے والی ان نشریات کو ہم دینی جذبے سے دیکھ رہے ہوتے ہیں، حالانکہ ان پروگراموں کی میزبانی گیارہ مہینے فلموں، ڈراموں میں جلوہ گر اداکارائوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے، تو کیا ایسے لوگوں کی بات دلوں پر اثر کرے گی؟ ایسے لوگ ہمیں دین کی سوجھ بوجھ دے رہے ہوتے ہیں جو خود دین سے دور ہوتے ہیں۔
رمضان جیسے بابرکت ماہ کو بھی ٹی وی چینلز کی زینت بنادیا جاتا ہے۔ آخر ضرورت کیا ہے کہ گیارہ مہینے جو اداکارائیں ہمارے ٹی وی ڈراموں، حتیٰ کہ قابلِ اعتراض اشتہارات کی بھی زینت بنی ہوتی ہیں، انہی کو دوپٹہ اوڑھا کر ایک پُروقار محفل کا حصہ بنادیا جاتا ہے! حالانکہ کسی بھی شخص کو بات سمجھانے کا احسن طریقہ یہ ہے کہ اسی بات پر آپ بھی عمل پیرا ہوں۔ ایک باعمل انسان ہی دوسرے انسان کے دل میں اتر جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اس کے علاوہ جب ٹی وی ڈرامے کی ڈائریکشن وغیرہ دی جارہی ہوتی ہے، یا اسکرپٹ وغیرہ لکھا جارہا ہوتا ہے تو کیا مفتیان اور علمائے کرام سے رائے لی جاتی ہے کہ فلاں ڈرامے میں فلاں مسئلہ شریعت کے مطابق ہے بھی یا نہیں؟ جب ایسا کچھ نہیں کیا جارہا ہوتا تو رمضان ٹرانسمیشن کے نام پر رمضان جیسے بابرکت ماہ کو ان اداکارائوں کے حوالے کیوں کردیا جاتا ہے؟ یہ سب کچھ تو سراسر دین کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ دجال کے ظہور کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ روبیضہ یعنی دین سے بے زار یا بے بہرہ لوگ ہمیں دین سکھانے بیٹھیں گے۔ لہٰذا رمضان المبارک جس کی ایک ایک ساعت قیمتی ہے، کے ایک ایک لمحے سے ہمیں اجر و ثواب کشید کرنے کی بھرپور سعی کرنی ہے۔ لیکن یہاں رمضان کو محض شور شرابے اور تفریحی پروگرام کی نذر کردیا جائے تو اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی! افطاری کے فوراً بعد ٹی وی اسکرین پر ایک لوٹ مار اور طوفانِ بدتمیزی نظر آتی ہے۔ رمضان کی برکتوں سے قطع نظر گیمز شو میں لوگ ملنے والی مفت کی چیزوں پر ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں، حالانکہ سبقت صرف نیکیوں کے لیے ہونی چاہیے تھی۔ مگر ہم اس بات سے لاتعلق ہیں کہ یہ چینلز یا یہ لوگ ہمیں ماہِ رمضان سے فیض یاب ہونے میں کتنی رکاوٹیں کھڑی کررہے ہیں، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ رحمتوں اور برکتوں کے نزول والے مہینے میں ایسی خرافات کا موجود ہونا ہمارے ایمان پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ماہِ رمضان میں کمر کس لیا کرتے تھے۔ ہمیں بھی اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرکے رمضان کی تیاری کرنی ہے، نہ کہ ان لمحات کو ٹی وی کی نذر کرکے اپنی بخشش و مغفرت کے ذریعے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں۔

حصہ