تیاری

297

زرینہ انصاری
جمیلہ کے ہاتھ تیزی سے چل رہے تھے‘ وہ جلد از جلد اپنے روزانہ کے معمول کے کاموں کوسمیٹنا چاہتی تھی، تمام کاموں سے فارغ ہونے کے بعد جمیلہ نے کاغذ قلم پکڑا اور بڑی توجہ کے ساتھ اپنے آئندہ کے کام اور رمضان کی پلاننگ لکھنے لگی۔ جمیلہ کی یہ ہمیشہ سے عادت تھی کہ رمضان کی آمد سے ایک دو ماہ قبل ہی ترتیب سے ایک ایک چیز لکھ لیتی تھی۔
قرآن کی جو سورہ حفظ ہوتیں ان کو دھرانا، روزوں سے متعلق احادیث اور مسائل کی کتب کا مطالعہ کرنا‘ اپنی ماسی اور دیگر ضرورت مندوں کے لیے راشن کی فہرست بنانا۔
شاپنگ کیا کرنی ہے‘ اپنے لیے کتنے جوڑے بنانے ہیں، میاں کی ضرورت کی کیا کیا اشیا لانی ہیں‘کیا کچھ پکا کر فریز کرنا ہے، چٹنیاں کون کون سی بنا کر رکھ لینی ہیں، افطار پر کس کس کو بلانا ہے‘ محلے پڑوس میں افطار اور مسجد میں افطار کون سے دنوں میں جائے گا۔ جمیلہ کے شوہر بھی ان کاموں میں جمیلہ سے کسی طرح پیچھے نہ تھے زکوٰۃ کا حساب کتاب کرنا‘ انفاق کا ایک الگ خانہ بنانا‘ اپنے دوست احباب کو گھر پر افطار میں بلانا‘ اپنے خاندان کو عید کے دن کھانے پر مدعو کرنا اور سب بچوں کو عیدی دینا۔
جمیلہ بڑی توجہ سے فہرست بنارہی تھی کہ اچانک اسے خیال آیا کہ عیدالفطر کے بعد خاندان میں اور کچھ دور قریب کے رشتہ داروں میں شادیاں ہونی ہیں لہٰذا ان کے لیے تحائف کا بھی انتظام کرنا ہوگا۔ فہرست تقریباً مکمل ہونے کو تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی، جمیلہ نے دروازہ کھولا تو سامنے ماہ پارہ کھڑی مسکرا رہی تھی۔
’’السلام علیکم آنٹی کیسی ہیں آپ؟‘‘
’’ارے ماہ پارہ! آئو‘ تم کیسی ہو؟‘‘ جمیلہ نے بڑی گرم جوشی سے ماہ پارہ کا استقبال کیا اور دونوں صحن میں بچھے تخت پر بیٹھ گئیں۔ ماہ پارہ جمیلہ کی بڑی بہن سکینہ کی چھوٹی بہو تھی جو جمیلہ کے پڑوس میں ہی رہتی تھی اور اکثر جمیلہ کے پاس آجایا کرتی تھی۔ ماہ پارہ کا پسندیدہ موضوع اپنے دن بھر کی روداد بتانا یا پھر بازاروں اور شاپنگ کے قصے سنانا اور آج کل ویسے بھی اس کے بازار کے بہت چکر لگ رہے تھے کیوں کہ دو ماہ بعد اس کے چھوٹے بھائی کی شادی تھی۔ ماہ پارہ نے آتے ہی جمیلہ کو بتانا شروع کردیا کہ اب تک بازار کے کئی چکر لگ چکے ہیں مگر ابھی تک کوئی تیاری شرو ع ہی نہیں ہوئی۔ خیر سے ماہ پارہ کا بڑا بھائی اور بڑی بہن دونوں شادی شدہ تھے۔ بہن بیرون ملک رہتی تھی۔ ماہ پارہ کو کپڑوں اور جیولری کے انتخاب میں بڑی مہارت حاصل تھی اسی لیے گھر کی خواتین اور بچوں کی تیاری ماہ پارہ کے ذمے تھی۔
’’ارے آنٹی! میں آپ کو بتانا ہی بھول گئی کہ پندرہ دن بعد بھائی کا نکاح طے ہوا ہے۔‘‘
جمیلہ نے حیرت سے ماہ پارہ کو دیکھا ’’ارے مگر شادی تو دو ماہ بعد ہے پھر نکاح ابھی سے کیوں؟‘‘ جمیلہ نے سوال کیا۔
اس کے جواب میں ماہ پارہ کے پاس بھی بتانے کو ایک لمبی فہرست تھی۔ ’’ارے آنٹی! آپ کو تو معلوم ہے کہ میرے بھائی کو گھومنے پھرنے کا کتنا شوق ہے‘ شادی کے فوراً بعد وہ اپنی بیوی کو لے کر بیرون ملک ہنی مون کے لیے جانا چاہتا ہے اسی لیے یہ پلاننگ کی ہے کہ بس سادگی سے کچھ قریبی رشتے داروں کو بلا کرمسجد میں نکاح پڑھوالیں گے ، پھر شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے مراحل میں دو ماہ تو لگ ہی جائیں گے، جمیلہ ماہ پارہ کی باتیں سن کر حیران ہو رہی تھی کہ نکاح میں صرف چند لوگ اور پھر رخصتی اور ولیمے میں ہزاروں لوگ ،خیر جمیلہ نے ان خیالات کو اپنے ذہن سے جھٹک دیا کہ ہر خاندان کی اپنی ضروریات ہیں اور ہر انسان کی اپنی خواہشات’’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے۔‘‘
ماہ پارہ اپنی کہانی ختم کرتے ہوئے جمیلہ سے رخصت ہوئی۔ جمیلہ ظہر کی نماز کے لیے وضو کرنے کے لیے اٹھ ہی رہی تھی کہ موبائل کی گھنٹی نے اسے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ اسکرین پر جمیلہ کی بڑی بھابھی کا نام نظر آرہا تھا سلام دعا اور خیریت پوچھنے کہ بعد شادی کی تیاری کا ذکر چھڑ گیا۔ جمیلہ کے بڑے بھائی کی پوتی کی شادی دو ماہ بعد طے ہوئی تھی۔
’’جی بھابھی! نمرہ کی شادی کی تیاری کیسی چل رہی ہے؟‘‘ جمیلہ نے اپنی بھابھی سے پوچھا۔
’’ہاں الحمدللہ! تیاری تقریبا مکمل ہے دلہا ،دلہن کے جوڑے تیار ہیں، زیور جو گھر میں ہے اسی کو بنوا لیں گے، فرنیچر کا آرڈر بھی دے دیا ہے اور ہم سب گھر والوں کے کپڑے تیار ہیں۔‘‘
جمیلہ نے حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا ’’ارے بھابھی جان! آپ نے تو کمال کردیا اتنی جلدی ساری تیاری کیسے کر لی؟‘‘ جمیلہ کی بھابھی نے بڑے اطمینان سے جواب دیا ’’ہاں جمیلہ ماشاء اللہ لڑکے والے پڑھے لکھے اور دین دار لوگ ہیں انھوں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ شادی کی تقریبات سادہ ہوں، دلہا کے تمام گھر والوں کو تحائف نہ دیے جائیں ،کپڑے، زیور، فرنیچر پر کم سے کم خرچ کریں کھانا صرف ایک ڈش ہو اس سادگی کی وجہ سے ہمارے لیے آسانی ہوگئی اور جمیلہ تم توجانتی ہو کہ میں جب بھی بازار جاتی ہوں تو خریداری کی فہرست پہلے سے بنا لیتی ہوں تاکہ مقررہ وقت میں خریداری ہوجائے۔‘‘
’’ہاں بھابھی جان اور آپ دو رکعت نفل حاجت کے بھی پڑھنا نہیں بھولتیں۔‘‘ جمیلہ نے ان کی بات مکمل کردی۔ جمیلہ نے مزید گھر والوں کی خیریت معلوم کی اور بڑی بھابھی سے رخصت لی۔
’’ارے کچھ خبر ہے آپ کو؟‘‘ جمیلہ کے میاں نے ڈرائنگ روم سے باہر آتے ہوئے جمیلہ کو آواز لگائی۔
’’کیا ہوا سب خیر ہے؟‘‘
’’لگتا ہے کہ خیر نہیں ہے، کوئی وائرس دنیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے’’کورونا۔‘‘
’’کیا یہ کیسا نام ہے؟‘‘ جمیلہ نے شوہر سے استفسار کیا۔
ہاں اس کی بنائوٹ ایسی ہے تاج جیسا لگتا ہے اس لیے اس کو کرائون یعنی کورونا کا نام دیا ہے۔ یہ ایک وبائی بیماری ہے جو سانس کے ذریعے انسانوں سے انسانوں میں منتقل ہوسکتی ہے۔‘‘ جمیلہ کے میاں تفصیل بتانے لگے۔
پھر تو جیسے یہ روز کا معمول بن گیا‘ اخبار ٹی‘وی اور فیس بک انہی خبروں سے بھرے پڑے تھے۔ یہ وبا پوری دنیا میں تیزی سے پھیلنے لگی لاکھوں لوگ لقمۂ اجل بن گئے۔ اس ناگہانی وبا کا اب تک کوئی دوا ئی علاج نہ کرسکی‘ ملکوں ملکوں احتیاطی تدابیر کے لیے ہدایات آنے لگیں۔ سماجی فاصلہ، کاروبار بند، تمام مذہبی اور سماجی تقریبات پر پابندی، شادی ہال بند، اسکول بند، سرکاری ادارے بند یہاں تک کہ مسجدیں بند۔ اب تو رمضان کی آمد بالکل قریب ہے،کیا ہوگا ؟ رمضان کی رونقیں، بھری بھری مسجدیں، بازاروں میں رش، اجتماعی افطار، قرآن کی محفلیں، تراویح کے لیے صف بندی… اُف کتنا سناٹا ہے، ماحول کتنا سوگوار ہے۔ آج دو ماہ ہونے کو ہیں مگر ابھی تک بھی کہیں سے بھی یہ خبر نہیں آرہی ہے کہ یہ وائرس نابود ہو گیا ہے سب ٹھیک ہے آجائیں سب اسکول، آجائیں سب مسجدوں میں۔ جمیلہ انہی سوچوں میں گم تھی۔ آہستہ آہستہ جمیلہ کو وہ ساری باتیں یاد آنے لگیں، وہ کاموں کی فہرست‘ شادی کی تیاریاں… لیکن اب کیا ہوگا؟یہ معاملہ کب تک چلے گا؟ کوئی نہیں جانتا۔ ہزاروں لوگ بے روزگار ہوگئے، صاحبِ استطاعت لوگ‘ جو مستحق لوگوں کی مدد کرتے تھے‘ آج خود مستحقین کی صف میں آگئے۔ عجیب افراتفری اور خوف کا عالم ہے۔ جمیلہ کو سورہ یاسین کی وہ آیات یاد آنے لگی اللہ تعالٰی فرماتے ہیں’’یہ تو ایک چنگھاڑ کے منتظر ہیں جو ان کو اس حال میں کہ باہم جھگڑ رہے ہوں گے آ پکڑے گی، پھر نہ یہ وصیت کرسکیں گے اور نہ اپنے گھر والوں میں واپس جاسکیں گے۔‘‘ انسان لمبے لمبے منصوبے بناتا ہے‘ اس کے دل میں بے پناہ آرزوئیں اور امنگیں پل رہی ہوتی ہیں مگر آہ… انسان یہ بھول جاتا ہے کہ ہوتا وہی ہے جو اس کا رب چاہتا ہے اور انسان کی بھلائی اس کے رب ہی کی چاہت میں ہے۔ جمیلہ اور ان کے شوہر نے جو بجٹ رمضان اور عید کے اخراجات کے لیے بنایا تھا‘ وہ سب کورونا فنڈ میں دے دیا۔ ایک کثیر تعداد تھی جو اس فنڈ کی منتظر تھی۔

حصہ