تھوڑا سا صبر

312

فرحی نعیم
کمرے کا ماحول بہت سرد تھا۔ صبا نے متاسف نظروں سے سمیرا کو دیکھا، دوسری طرف سمیرا سخت غصے میں تھی۔ وہ اس وقت کسی کی بات سننے سمجھنے کو تیار نہ تھی۔
’’دیکھو سمیرا! میری بات سنو، تمہارے ساتھ کوئی انہونی نہیں ہو رہی، اکثر لڑکیوں کو سسرال میں ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ہر کوئی یوں غصے میں میکے تھوڑی آجاتا ہے۔‘‘ صبا نے کچھ دیر توقف کے بعد ایک دفعہ پھر ہمت کرکے اپنی چھوٹی بہن کو سمجھانے کی کوشش کی۔
’’تو پھر کہاں جاتا ہے؟‘‘ اس نے الٹا سوال کیا۔
سمیرا کے اس طرح کہنے پر صبا دانت پیس کر رہ گئی، لیکن پھر اپنے آپ کو نارمل کرتے ہوئے بولی ’’سسرال میں ہی حالات کو سدھارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ صبر، برداشت…‘‘
’’بس آپی! مجھے برداشت کا سبق نہ پڑھائیں، بہت برداشت کرلیا میں نے۔‘‘ سمیرا چڑ کر بولی۔
’’سمیرا اگر تمہیں پتا چلے کہ سسرال میں لڑکیوں کو کس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو تمہیں اپنی پریشانی، پریشانی نہ لگے۔ کتنی ہی لڑکیاں سسرال میں ڈھیروں مسائل کے ساتھ اپنی زندگی گزار دیتی ہیں، سمجھو جوانی ختم ہوجاتی ہے تب کہیں جاکر صبر کا پھل ملتا ہے۔‘‘
’’آپی میں نے کہا ناں صبر کا درس نہ دیں۔‘‘ وہ روٹھے لہجے میں بولی۔
’’کیوں نہ دوں؟ تمہیں اپنے گھر میں خوش باش دیکھنا ہم سب کی خواہش ہے، اور ویسے بھی ابھی تمہاری شادی کو عرصہ ہی کتنا ہوا ہے؟ سال ہی تو گزرا ہے۔ اب خود سوچو اتنی جلدی تمہاری مرضی کا ماحول کیسے بن سکتا ہے! اور پھر تم جو اپنے مسائل گنوا رہی ہو، حقیقتاً تو وہ مسائل ہیں ہی نہیں۔‘‘
’’آپ کی نظر میں ناں؟‘‘ سمیرا خفگی سے بولی۔
’’میری کیا کسی کی نظر میں بھی نہیں۔‘‘ صبا فوراً بولی۔
’’لیکن میری دوست تو کہتی ہے ابھی سے میاں اور ساس کو کنٹرول کرلو، ورنہ ہاتھ مَلتی رہ جاؤ گی۔‘‘ سمیرا روانی میں اپنی سہیلی کے ارشادات کہہ گئی اور پھر جلدی سے ہونٹ بھینچ لیے۔ اُسے ایک دم احساس ہوا تھا کہ آپی کے سامنے یہ نہیں کہنا چاہیے تھا۔
’’اوہ…! تو یہ بات ہے، اسی لیے کہتے ہیں کہ نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہوتا ہے۔ تمہاری سہیلی نے اور کیا کیا ’’گُر‘‘ کی باتیں بتائی ہیں؟‘‘ صبا نے تیز نظروں سے بہن کو دیکھا۔’’نہیں، کچھ نہیں…‘‘ سمیرا گڑبڑائی۔
’’تمہاری دوست تم کو بہکا رہی ہے، تمہارا گھر خراب کررہی ہے، اسے تو دوست کہنا ہی غلط ہے۔‘‘ صبا کو افسوس ہورہا تھا۔
’’اب ایسی بھی بات نہیں۔‘‘
’’ایسی ہی بات ہے، تم دیر سے اٹھتی ہو، حالانکہ تمہارے میاں جلدی اپنے آفس جاتے ہیں، تم روز کھانے میں چاول، چائنیز پسند کرتی ہو، اور وہاں چاول شوق سے کھائے نہیں جاتے۔ تم کیا ان کو مجبور کرکے ان کے کھانے تبدیل کرو گی؟ دیکھو ہر گھر کے مختلف اصول و ضوابط ہوتے ہیں، اب ایک نئے فرد کی وجہ سے وہ اتنی جلدی تو نہیں بدلے جا سکتے، لہٰذا اس کا آسان حل یہی ہے کہ وہ فرد خود کو ان اصولوں کے مطابق ڈھال لے، اسی میں بہتری ہے۔‘‘ صبا بڑے سبھائو سے سمجھا رہی تھی۔
’’ہاں! آپ نے کتنی آسانی سے یہ سب کہہ دیا اور اس ڈھالنے کے چکر میں چاہے وہ فرد جان سے ہی کیوں نا چلا جائے؟‘‘ وہ جل کر بولی۔
’’ارے کیوں جان سے چلا جائے؟‘‘
’’تو اور کیا، عجیب ہی طریقے ہیں ان کے گھر کے، دنیا تیار مسالحے استعمال کررہی ہے اور ان کے گھر میں آج بھی سل بٹّا استعمال ہوتا ہے، دونوں ٹائم کھانے پکتے ہیں۔ درزی کو کپڑے نہ دو، اتنی مہنگی سلائی لیتے ہیں۔ تو کیا خود کپڑے سلائی کریں؟ اور سارا دن باورچی خانے میں ہی گزار دیں؟‘‘
’’کپڑے سینے میں حرج نہیں، یہ بھی ایک ہنر ہے۔‘‘
’’ہمیں نہیں آزمانا یہ ہنر۔‘‘ سمیرا نے منہ بنایا۔
’’خود تو اپنے اندر لچک پیدا نہیں کرنا چاہتیں لیکن دوسروں سے توقع لگائے بیٹھی ہو کہ وہ تمہاری مرضی کے مطابق چلیں۔ یہ کیسی خواہش ہے؟‘‘ صبا کی بات سن کر سمیرا سے کچھ بن نہ پڑا اور وہ خاموش رہی، تب صبا نے اس کو خاموش دیکھ کر مزید کہا ’’دیکھو سمیرا! شادی کے بعد لڑکی جب نئے گھر جاتی ہے تو وہ گھر بنانے جاتی ہے۔ گھر میں خامیاں نکالنے، گھر کا ماحول خراب کرنے نہیں۔ صرف ایک تمہاری وجہ سے یہاں اور وہاں، دونوں گھروں میں تناؤ کی کیفیت ہے۔ صبر اور برداشت سے کچھ وقت گزارو، پھر دیکھنا سب ٹھیک ہوجائے گا۔ جن باتوں پر تمہیں اعتراض ہے، بہت جلد تم اُن کی عادی ہوجاؤ گی اور تمہیں محسوس بھی نہ ہوگا۔‘‘ صبا کہہ رہی تھی اور سمیرا منہ پھلائے سن رہی تھی۔ آپی کی باتیں اسے کچھ کچھ ٹھیک لگ رہی تھیں۔
’’تمہیں یاد ہے ابو کے دوست کی بیٹی ثروت، کیسے کیسے ظلم نہ ہوئے تھے اُس پر سسرال میں، لیکن آفرین ہے بھئی اس پر، کتنے صبر سے کام لیا اور آج سب اس کے گُن گاتے ہیں… اور وہ حیدر چچا کی نازیہ، اس کے حالات تو تمہارے سامنے ہیں ، میکے آنے پر پابندی تو خرچے میں الگ تنگی، اب تم ان دونوں کا مقابلہ اگر اپنے مسائل کے ساتھ کرو تو سچ بتاؤ کیا واقعی تم اتنی ہی مشقت جھیل رہی ہو؟ یاسر نے تمہارے آنے جانے پرپابندی نہیں لگائی، جیب خرچ بھی ملتا ہے، گھومنے پھرنے بھی جاتی ہو، سسرال والوں کا رویہ بھی بقول تمہارے اچھا ہے۔ پھر اگر چند مسائل ہیں تو صبر سے کام لو۔‘‘ آپی نے ایک گہرا سانس لیا اور چند لمحے توقف کے بعد کہا ’’میرا کام تھا تم کو سمجھانا، اب تم کتنا سمجھتی ہو یہ تمہارے اوپر ہے۔ تم ٹھنڈے دل سے سوچو تو شاید میری باتیں تم کو ٹھیک لگیں۔‘‘ یہ کہہ کر صبا خاموش ہوگئی اور کمرے سے چلی گئی۔
صبا کے جانے کے بعد سمیرا اس کی باتوں پر غور کرنے لگی اور پھر اس نتیجے پر پہنچی کہ ’’واقعی آپی کچھ غلط تو نہیں کہہ رہی تھیں۔‘‘

حصہ