تفریق

290

گلزار فاطمہ
ثریا بیگم اپنے گھر کے پکے آنگن میں رکھی اپنی مخصوص چوکی پر ہاتھ میں تسبیح لیے دراز تھیں۔ ان کے وجود پر سجا سفید براق لباس ان کی اکلوتی بہو عائشہ کی سلیقہ مندی کا غماز تھا۔ ان کے سامنے کرسی پر ایک پیر چڑھائے بیٹھی شبن خالہ انھیں محلے کی شہ سرخیاں سنانے میں مصروف تھیں اور بار بار ہونٹوں کے لگام پر لگی پان کی پیک کو بھی اپنے بوسیدہ سے رومال سے پونچھتی جاتی تھیں۔ ابھی تک تو شبن خالہ کی کسی بریکنگ نیوز نے ثریا بیگم کے جذبات میں ہلچل نہیں مچائی تھی، لیکن جیسے ہی شبن خالہ نے اپنا دوسرا پیر کرسی پر چڑھاتے ہوئے رقیہ خاتون کے بیٹے عباد کا ذکر کیا، جو کہ اب نشے کی لت میں مبتلا ہوچلا تھا، ثریا بیگم ایک دم چاق و چوبند ہوکر ایسے سیدھی ہو بیٹھیں جیسے انھیں انرجی ڈرنک کی ڈرپ لگا دی گئی ہو اور پورا سراپا گویا محو ِسماعت ہو گیا ہو۔
’’ارے بھئی! اب کیا کیا اس نشئی نے؟ ہم بھی تو سنیں بی شبن۔‘‘
’’اب کیا بتائیں ثریا بی، ویسے تو ہمیں اچھا نہیں لگتا کسی کا بھید کھولنا، لیکن کیا کریں محلے داری کے ناتے ہمیں ایک دوسرے کے حال سے باخبر بھی رہنا چاہیے۔‘‘
’’ارے ہاں شبن بی! ہم جانتے ہیں تمھاری فطرت۔‘‘
اس ذومعنی جملے پر شبن بی نے پہلو بدلنے کی کوشش کی لیکن نازک کرسی نے انھیں اس امر کی اجازت نہ دی اور وہ اپنا دل مسوس کر رہ گئیں۔
قصہ کچھ یوں تھا کہ ثریا بیگم اور رقیہ بیگم ایک ہی محلے کی رہائشی تھیں، لیکن ان دونوں کی آپس میں کبھی نہیں بنی تھی، اور اس کی وجہ تھی دونوں کے مزاج کا تضاد۔ رقیہ بیگم اپنے کام سے کام رکھنے والی خاتون تھیں، جبکہ ثریا بیگم حسد میں مبتلا دوسروں کی ٹوہ میں رہنے والی خاتون تھیں۔ قسمت کی کرنی تھی کہ دونوں کے بچے ہم عمر، ہم جماعت بھی رہ چکے تھے، دونوں کی بیٹیوں کی شادی بھی آگے پیچھے ہوئی تھی۔ رقیہ بیگم کا عباد ثریا بیگم کے شایان سے پڑھائی میں بہتر تھا، اور یہی بات ثریا بیگم کو کھٹکتی تھی۔ اپنی منفی سوچ کے باعث وہ ہر وقت جلن کڑھن کا شکار رہتی تھیں، اور یہی تنفر ان کی تربیت کے ذریعے ان کے بچوں میں بھی منتقل ہوگیا تھا۔ حالات کی ستم ظریفی کچھ ایسی ہوئی کہ عباد اپنی عملی زندگی میں وہ کامیابی حاصل نہ کرپایا جس کی وہ خواہش رکھتا تھا، اور اسی مایوسی کے بھنور میں پھنس کر وہ نشے جیسی لت کا شکار ہوگیا۔ رقیہ بیگم اور ان کا گھرانہ، جس میں عباد کی بیوی بھی شامل تھی، مسلسل کوشاں تھے کہ علاج کے ذریعے اسے اس لعنت سے نجات دلوا دیں۔ اور اس وقت ثریا بیگم کے آنگن میں شام ڈھلے عباد کا ہی کوئی گناہ زبان زدِ عام ہورہا تھا جو اس سے نشے کی حالت میں سرزد ہوا تھا۔
ثریا بیگم کبھی ایسے موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تھیں کہ جس پر وہ شایان اور عباد کا موازنہ کرتے ہوئے اپنی تربیت کی مداح سرائی کریں اور اپنی خودپسندی کو مزید تقویت بخشیں۔
تسبیح کو گاؤ تکیے کے نیچے دباتے ہوئے، پاندان سے ایک پان کی گلوری انھوں نے بطور نذرانہ شبن کو پیش کی اور ایک خود منہ میں دبا لی۔ ویسے تو اکثر شبن بوا کی خاطر مدارت کے لیے عائشہ کی بھی دوڑیں لگوائی جاتی تھیں، لیکن آج شایان آفس سے ذرا جلدی آگئے تھے، آتے ہی انھوں نے نہایت پتھریلے لہجے میں باورچی خانے میں کام کرتی عائشہ سے اپنے آفس کی ایک فائل کی بابت پوچھا اور اسے فوراً کمرے میں آنے کا حکم دیا۔ کمرے سے شایان کے چیخنے چلّانے اور اٹھا پٹخ کی آواز نے ان کی برہم مزاجی کا پتا دے دیا تھا۔ لہٰذا آج شبن بوا کو بس ایک پان کی گلوری ہی نصیب ہوئی تھی
’’ارے! اب بتا بھی چکو شبن! کیا دوسرے سویرے کا انتظار کررہی ہو!‘‘
’’کیسا ظلم کیا، آج اس نگوڑے نشئی نے اپنی بیوی پر…‘‘
’’ارے بتاؤ بھی، کیا کِیا…؟‘‘ ثریا بیگم کا اتاؤلاپن دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔
’’معصوم بچی نے اس کے ہاتھ سے نشے کی پڑیا چھیننے کی کوشش کی تھی، ظالم نے اس کا ہاتھ ہی مروڑ ڈالا اور مار مار کر منہ نیلو نیل کردیا۔‘‘ شبن بوا نے مدعا بیان کیا۔
’’اوہو… بے غیرت کہیں کا، اور اس کی وہ سارے زمانے کی میسنی ماں کیا کررہی تھی! بڑا درس دیتی تھی دوسروں کو، اپنی تربیت تو دیکھو ذرا۔‘‘
’’اس بے چاری نے بچانے کی کوشش کی تھی لیکن عباد ہوش میں کہاں تھا، اُسے بھی دھکا دے ڈالا۔‘‘ شبن بی نے تاسف سے کہا۔
’’بے چاری‘‘ پر ثریا بیگم تھوڑی جزبز ہوئیں لیکن شبن بوا کی اگلی بات نے انھیں یکسوئی سے گفتگو سننے پر مجبور کردیا۔
’’اور سنو آگے، جب نشہ ٹوٹا نگوڑے مارے کا تو ہاتھ پاؤں جوڑ کر ماں اور بیوی سے معافی مانگنے لگا۔ بدبخت کہیں کا۔‘‘
شبن بوا کو شایان اپنے درازقد سمیت ہاتھ میں ایک فائل لیے کمرے سے برآمد ہوتے دکھائی دیے۔ ان کے چہرے کی برہمی اور ناگوار ی شبن بوا کی جہاندیدہ آنکھوں سے چھپی نہ رہ سکی، اور سونے پر سہاگہ کہ وہ شبن بوا کو سلام کیے بغیر باہر نکل گئے۔ شبن بوا نے ناگواری کے ساتھ ثریا بیگم سے استفسار کیا ’’خیر تو ہے ثریا بی! شایان میاں کے مزاج ٹھیک نہیں لگ رہے۔‘‘
’’ارے سب خیر ہے، یہ جاہ وجلال اور غصہ تو میرے بچے کے خاندانی ہونے کا پتا دیتے ہیں، مرد کی شان ہے یہ غصہ۔‘‘ ثریا بیگم نے نہایت تفخر سے شبن بوا کے خدشے کو ہوا میں اُڑا ڈالا۔
گھمنڈ میں ڈوبے اس جملے نے تاریک کمرے کے ایک کونے میں مصلے پر بیٹھی عائشہ کے نیلو نیل وجود کی اذیت کو دوآتشہ کردیا۔

حصہ