احفاظ الرحمٰن ایک عہدِ صحات

390

سیمان کی ڈائری

آخری حصہ

رضی الدین رضی

احفاظ الرحمٰن صاحب صحافیوں کے حقوق کی خاطر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے ٹریڈ یونین رہنماؤں کی آخری نشانیوں میں سے تھے۔ اب صحافت ہی عملی طور پر ختم ہو گئی تو ٹریڈ یونین کی گنجائش بھلا کیسے نکل سکتی ہے۔ عملی صورت تو یہ ہے کہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس(پی ایف یو جے) ہی اب ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔ مفادات کی جنگ نے شاندار روایات رکھنے والی اس تنظیم کو اب کئی حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔پہلے نظریات کی بنیاد پر دھڑے بندی ہوتی تھی سرخ اور سبز کی تقسیم گہری تھی لیکن اب معاملات ہی کچھ اور ہو گئے ہیں ایسے میں احفاظ الرحمن جیسی ہستیاں تو اس تنظیم نے بہت پہلے نظرانداز کردی تھیں۔ احفاظ صاحب بطور صحافی،بطور یونین لیڈر، بطور شاعر اوقلم کار جو مقام رکھتے ہیں وہ بہت کم لوگوں کے حصے میں آیا۔میگزین ایڈیٹر کی حیثیت سے وہ صحافت میں نئے رجحانات لے کر آئے۔ کسی بھی خاص موقع پر ہنگامی بنیادوں پرتیارکیے گئے ان کے صفحات آج بھی تاریخی اور دستاویزی اہمیت کے حامل ہیں۔وہ تاریخ، مذہب اور سیا ست پر گہری نظر رکھتے تھے ۔ان کے نظموں سے ہمیں فکری رہنمائی ملتی تھی۔گزشتہ برس ڈاؤن سائزنگ کاعمل شروع ہوا تو کارکن بے روزگار ہو کر گھروں میں بیٹھ گئے لیکن صحافتی تنظیموں کے عہدیداروں پر کوئی آنچ نہ آئی۔ایسے میں منہاج برنا، احفاظ الرحمن،نثار عثمانی، ولی محمد واجد، اور نذربلوچ جیسے کارکن صحافی اور پی ایف یو جے کے رہنمایاد آئے جو ہمارے حقوق کی بات کرتے تھے اور نوکریوں سے نکال دیے جاتے تھے۔ احفاظ صاحب کی خدمات تادیر یاد رکھی جائیں گی۔

خلیل ناصر

مَیں احفاظ الرحمان صاحب کے ساتھ بہت زیادہ کوئی قلبی تعلق ہونے کا دعویٰ تو نہیں کرسکتالیکن میراذاتی واقعہ بالکل ایسا ہے جس نے میرے دل میں احفاظ صاحب کی عزت بہت زیادہ بڑھادی۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ دوہزار چار میں پاکستان میں سارک سربراہ کانفرنس تھی اور روزنامہ جنگ نے اس پر ایڈیشن نکالنے کا فیصلہ کیا۔احفاظ صاحب اس وقت میگزین ایڈیٹر تھے۔دو صفحات اُن کی نگرانی میں تیار ہوئے۔جس وقت میرے پاس جنگ لندن کے لیے صفحہ آیا تو اس میں مَیں نے دیکھا کہ جو دو صفحات تھے اس میں مواد رتبدیل ہوگیا تھا۔ایک صفحے پر سربراہانِ مملکت کا تعارف تھا اور دوسرے صفحے پراُن ممالک کا تعارف جو سارک میں شامل تھے۔یہ جانتے ہوئے کہ احفاظ صاحب نے اِن صفحات کو لگایا ہے تو میری عجیب سی کیفیت ہوگئی تھی ۔میں نے لندن ڈیسک پرایک دوست سے مشورہ کیا تو انھوں نے مجھے کہا کہ آپ فوراًمحمود شام صاحب کے پاس چلے جائیں اور ایڈیٹر کو بتا دیں کہ احفاظ صاحب نے یہ اتنی بڑی غلطی کی ہے۔اُس زمانے میں میری ترقی رکی ہوئی تھی اور روزانہ ہی بحث چل رہی تھی۔اُنھوں نے کہا کہ یہ موقع اچھا ہے آپ اِس سے فائدہ اٹھا لیں۔ یہ بات میرے مزاج کے مطابق نہیں تھی اور مجھے اچھی نہیں لگی۔میں نے تھوڑی دیرانتظار کیا۔اتنے میں ہمارے ایک دوست اظہر حسین صاحب تشریف لائے ۔میں نے اُن کے سامنے مسئلہ رکھا۔اُنھوں نے احفاظ صاحب کے گھر کا نمبر دیا اور کہا کہ اُن سے بات کر لیں۔غالباًاتوارکا دن تھا۔اُس روز اُن کی چھٹی تھی۔میں نے احفاظ صاحب کے گھر پر فون کیا۔میڈیم مہناز نے فون اٹھایااور بتایا کہ احفاظ صاحب گھر پر نہیں ہیں اگر کوئی ایمرجنسی ہے تو آپ بتا دیں۔میں نے کہا جیسے وہ آجائیں تو انھیں میرا بتادیجیے گا۔دس منٹ کے بعد احفاظ صاحب کا فون آیا ۔میں نے انھیں مسئلہ بتایا کہ یہ غلطی کسی بھی وجہ سے ہوئی ہے۔انھوں نے کہا کہ ہاں یہ صفحات تو میں نے ہی جڑوائے ہیں۔میں نے کہا سر اسی وجہ سے تومیں پریشان ہوں۔اُنھوں نے کہا میں تمہیں دس منٹ بعد دوبارہ فون کرتا ہوں۔غالباً انھوں نے پریس فون کیا ،تصدیق کی اوروہاں انھوں نے کاپی رکوائی۔پھرانھوں نے مجھے فون کیا اور کہا کیا تم اس کام کو صحیح کر سکتے ہو؟یا مجھے گھر سے آنا پڑے گا؟میں نے کہا نہیں سر!کوئی ایسامسئلہ نہیں ہے۔ آپ کو آنے کی ضرورت نہیں ہے ۔میں انشااللہ یہ کام ٹھیک کر دوں گا۔احفاظ صاحب مطمئن ہوئے۔میں نے وہ کام جس طرح ہونا چاہیے تھا ویسا کردیا۔میرے نزدیک یہ بات یہاں پر ختم ہوگئی تھی۔دوسرے دن آفس میں مَیں اپنی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا ۔اچانک دروازہ کھلا اور احفاظ الرحمان صاحب کمرے میں داخل ہوئے۔میں اُن کے احترام میں اپنی کرسی سے اٹھا۔انھوں نے کہا میاں! میں تمہارا شکریہ ادا کرنے کے لیے آیا ہوںکہ اگر یہ غلطی ہو جاتی تو یہ واقعی بہت بڑی غلطی تھی۔میں نے کہا سر اس میں کوئی ایسی بات نہیں تھی تو میرے لیے یہ غیر معمولی بات تھی۔وہ چاہتے تو مجھے فون پر بھی کہہ سکتے تھے لیکن وہ اپنے آفس سے جو کہ دوسری عمارت میں تھا۔ وہ وہاں سے اٹھ کرشکریہ ادا کرنے کے لیے میرے آفس آئے۔اُس دن کے بعد وہ جب بھی ملتے تھے ،بہت شفقت اور محبت کے ساتھ ملتے تھے۔بعد میں مجھے علم ہوا کہ جو میری ترقی والا کام رکا ہوا تھا اُس میں بھی انھوں نے ذاتی طور پر دلچسپی لی اور انتظامیہ سے کہا کہ یہ Competent آدمی ہے ۔اس کی ترقی ہونی چاہیے اور اس کے لیے انھوں نے بہت کوشش کی ۔یہ میراذاتی واقعہ ہے احفاظ صاحب کے ساتھ کہ جس سے اُن کی بڑائی اور عظمت کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں ۔

عامر لطیف

احفاظ الرحمان صاحب کے ساتھ میرا دورِ طالبِ علمی کے زمانے سے تعلق تھا جب وہ جنگ مڈویک کے ایڈیٹر تھے۔ہم مختلف نظریات کے لوگ تھے لیکن اس کے باوجود مجھے ان کی دو خوبیوں نے بہت متاثر کیا۔ احفاظ صاحب وسیع القب شخصیت تھے۔ طلبا کے لیے ہفتہ کتب مہم چلاتے تھے ۔احفاظ صاحب نہ صرف ہماری سرگرمیوں کو جگہ دیتے تھے بلکہ ہماری رہنمائی بھی کرتے تھے۔ دوسری خوبی ان کے کھرے ہونے کی ہے۔ اس زمانے میں ٹریڈ یونین میںکچھ ارب پتی طبقہ مزدوروں کا چولا پہن کر اپنے مفاد کے لیے کام کرتا تھا جبکہ احفاظ صاحب committedٹریڈ یونین تھے۔ جب تک وہ صحت مند رہے،وہ بھر پور اس میں شرکت کرتے رہے۔ وہ ہمیشہ صحافی ورکروں کے حق میں بات کرتے تھے۔ آمریت کے دور میں جب کراچی پریس کلب کا جلوس نکلا تو اس کی قیادت احفاظ صاحب نے کی اور مجھے یہ فخر حاصل ہے کہ مجھے اُن کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔ احفاظ صاحب اُن گنے چنے چند صحافیوں میں سے تھے جن کی صحافت پر گرفت تو تھی لیکن وہ ایک مضبوط ادبی حوالہ بھی رکھتے تھے۔ ان کی نظمیں اور نثر کمال تھیں۔ ملکی حالات ہوں یا صحافیوں کے حوالے سے جو تحریکیں چلتی تھیں اس ضمن میں فی البدیہ نظمیں کہنا اُن کی نمایاں خوبی تھی۔ ان کے انتقال سے پوری صحافی اور ادبی برادری بہت دُکھی ہے۔ اللہ تعالی انھیں غریقِ رحمت فرمائے آمین۔

احمد شاہ(صدرآرٹس کونسل کراچی)۔

احفاظ الرحمان صاحب سے میرا پچیس ،تیس برس کا ساتھ رہا۔وہ صحافیوں کے ٹریڈ یونین ایکٹویسٹ تھے اورآرٹس کونسل کے ممبربھی تھے ۔بے انتہا اصول پسند آدمی تھے جوبات وہ سمجھتے تھے کہ ٹھیک ہے ،حق پر ہے تو اس طرف کھڑے ہوجاتے اور جس بات کو وہ غلط سمجھتے اُسے غلط کہتے۔ہمیشہ صحافیوں کے حقوق اور ورکرز کے لیےIdealistانسان تھے۔ان کی شخصیت پر کوئی داغ دھبہ نہیں تھا کہ کوئی اُن پر کسی طرح کا الزام تک لگا سکے یا ثابت کرسکے۔احفاظ صاحب بہت بڑے رائٹر تھے اور اتنے ہی عمدہ شاعر بھی تھے۔انھوں نے ترجمے کیے۔ نظمیں کہیں۔یوں کہیے کہ احفاظ صاحب بہت بڑے Creativeآدمی تھے۔ میرے ساتھ اُن کی بہت محبت تھی۔انھوں نے ہر موڑ پرہمیشہ میرا ساتھ دیا۔ اللہ تعالٰی انھیں غریقِ رحمت فرمائے ۔ آمین

کاشف رضا

میں شروع ہی سے مرکزی صفحے کی صحافت سے منسلک رہا اور کبھی میگزین میں نہ گیا۔ سو احفاظ صاحب کے ساتھ کام کا موقع نہ مل سکا۔ جب جنگ میں کام کرتا تھا تو ایک آدھ بار اُن سے ملاقات ہوئی۔ اُس زمانے میں ایک روز انھوں نے اور طاہر نجمی صاحب نے مجھے کراچی یونین آف جرنلسٹس جنگ یونٹ کا ڈپٹی چیف بنا دیا۔مجھے یاد ہے کہ وہ سن 1999کا ایک دن تھا۔ میں پریس کلب میں نعیم آروی صاحب کے ساتھ بیٹھا تھا۔ میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے اجلاسوں میں جاتا تھا اور انھوں نے مجھے جوائنٹ سیکرٹری بھی بنا دیا تھا۔ اس روز پریس کلب میں انھیں بھی نجمی صاحب اور احفاظ صاحب سے کھُسر پھُسر کرتے دیکھا تھا۔ میرا خیال ہے میری لیڈری کی تجویز آروی صاحب ہی کی تھی۔ خیر صاحب! انھوں نے مجھے صحافی لیڈر تو بنانا چاہا مگر چند ہی روز بعد روزنامہ ڈان نے مجھے بھرتی کر لیا اور میں صحافی لیڈر بنتے بنتے رہ گیا۔جنگ میں لوگ احفاظ صاحب کے ساتھ کام کرنے سے ڈرتے تھے کہ وہ کاملیت پسند مشہور تھے۔ میرے پہلے ایڈیٹر انور سن رائے بھی ان کا نام عزت سے لیتے۔احفاظ صاحب کے بعد صحافت کا جو حال ہوا اور یہ جن رہ نماؤں کے پاس پہنچی اس کے بعد اپنا تعارف بہ طور صحافی کرانے سے بھی جی اچاٹ ہو گیا۔خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را۔

اقبال خورشید

احفاظ صاحب کی شخصیت کو مختصراً بیان کرنا ممکن نہیں۔ وہ ایک ہمہ جہت انسان اور بہت بڑے صحافی تھے۔ پاکستان کی تاریخ میں صحافت کی جو تحریکیں تھیں اُن میں اُن کا نمایاں مقام رہا ہے۔بالخصوص 77،78میں صحافیوں کی جو تحریک تھی ضیال الحق کے دور میںوہ سیسہ پلائی دیوار بنی اورجس نے مارشل لاکے خلاف لیڈ کی۔ احفاظ الرحمان صاحب کا اُس احتجاج میں ایک اہم کردار تھا۔احفاظ صاحب کا حوالہ تو پاکستان کے بڑے صحافتی ادروں میںبہ طور میگزین ایڈیٹر ہی رہا لیکن ایک استاد کی حیثیت سے بہت متحرک انسان تھے۔ جو اُن سے سیکھنا چاہتا سیکھ سکتا تھا۔سخت مزاج تھے لیکن کسی کے کام کو وہ قابلِ تعریف پائیں تو اسے فوراًسراہتے تھے۔اگر انھیں لگے کہ ان کے سمجھانے سے کوئی سمجھ گیا ہے تو وہ اس سے بہت ہی محبت اور شفقت سے پیش آیا کرتے تھے۔ادیب کی حیثیت سے بھی اُن کا ایک کردار رہا ۔ شاعرتھے۔ انھوں نے بہت عمدہ نظمیں کہیں۔اُن کی کتابیں شائع ہوئیں۔تراجم اُن کے بہت متاثر کن تھے ۔وہ ایک جینوئین ہیرو تھے جنھوں نے ہمیں احساس دلایا ہے کہ ہمارے ہاں بھی کچھ ہیروز گزرے ہیں، جیسے منہاج برنا،نثار عثمانی تو وہ اِ ن ہیروز کا تذکرہ اس لیے کرتے تھے کہ ترقی پذیرملک کے اندر اور معاشرے میں ہمیں ہیروز کی ضرورت ہے ۔ ہمارے ہاں حقیقی ہیروز نہیں ہیں۔کرکٹرز،فلمسٹار،ایکٹرز ہمارے ہیروز ہیں۔ احفاظ الرحمان صاحب انسانیت کی جانب انسان پرستی کا درس دیا کرتے تھے کہ ایدھی،ڈاکٹر رتھ فاؤ،ڈاکٹرادیب رضوی ہمارے ہیروز ہیں۔سنجیدہ ادیب ہمارے ہیروز ہیں۔محنت کرنے والا انسان ہمارا آئیڈیل ہونا چاہیے۔انھیں الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے۔

محمد عثمان جامعی

ایک ویب سائٹ کے لیے احفاظ صاحب پر مضمون لکھ کر بھیج چکا تو دل میں’’حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘‘ کی گردان شروع ہوگئی۔ یہ خیال روح کو کچوکے لگاتا رہا کہ ’’تم اپنے استاد اپنے محسن سے انصاف نہیں کرپائے‘‘ کتنے ہی پہلو رہ گئے۔ احفاظ صاحب کی ہمہ جہت شخصیت،اُن کے ساتھ میرا ایک دہائی سے طویل پیش وران سفر، اُن کے سائے میں صحافت، زبان، ادب کے کتنے ہی رموز سے آشنائی ہوئی۔ اتنا گہرا اتنا طویل تعلق اور بس یہ ڈیڑھ دوہزار لفظ…..سیمان صاحب کا شکریہ کہ انھوں نے مجھے اپنے استاد پر کچھ َاور لکھنے کا موقع دیا۔ احفاظ صاحب کے ایک پہلو پر شاید نہ ان کی زندگی میں اور نہ ان کی وفات کے بعد آنے والی تحریروں میں بات کی گئی اور ان کی شخصیت کی اہم ترین جہت ہے۔ احفاظ صاحب ایک ’’تخلیقی صحافی‘‘ تھے۔ یہ اصطلاح پہلی بار انھی کے لیے استعمال بلکہ ایجاد کی گئی ہے اور بس انھی کے شایان شان ہے۔ ان کی کوشش ہوتی کہ کسی موضوع یا مسئلے پر میگزین کی خصوصی اشاعت یا خصوصی صفحہ تیار کرتے ہوئے تخلیقیت کو بروئے کار لاتے ہوئے کوئی ایسی تحریر شامل کی یا انفرادیت کا کوئی اورر نگ شامل کیا جائے۔ بچوں کے اغوا اور زیادتی کے واقعات پر خصوصی صفحے کی اشاعت کا فیصلہ ہوا تو احفاظ صاحب نے روایتی اندازمیں مضامین چھاپنے کے بجائے اختراع کا مشکل راستہ چنا۔ ان کی شاعری سے تو ہم سب واقف ہیں لیکن مجھ پر یہ بھی منکشف ہوا کہ وہ افسانہ نگار بھی تھے۔انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ ان کے تحریر کردہ افسانوں کا مسودہ کہیں گم ہوگیا تھا جس پر ایسے دل گرفتہ ہوئے کہ پھر کوئی افسانہ نہیں لکھا۔ وہ جس طرح جم کے اور جسم وجاں کو پوری مشقت میں ڈال کر طویل مضامین لکھتے تھے اور ان کی بہت سی تحریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ناول لکھنے پر بھی قدرت رکھتے تھے، مگر صحافت اور اس سے بھی بڑھ کر صحافیوں اور آزادیٔ صحافت کی جان گھلاتی، خون جلاتی جدوجہدان کے افسانہ نویس اور ناول نگار کو نگل گئی،مگر ان چتاؤں کی راکھ سے ایک تخلیقی صحافی نے جنم لیا جو لگے بندھے راستوں پر بے زاری سے سفر پورا کرتی صحافت کو تخلیقیت کی ست رنگی راہیں سجھا گیا۔

نوٹ:گذشتہ شمارے میں دوسری قسط پر سہواً آخری قسط شائع ہو گیا تھا۔ احفاظ الرحمان صاحب پر تاثرات کا یہ آخری حصہ ہے۔

حصہ