یقین

419

عروج دبیر
ایک دو تین۔۔۔ایک دو تین۔۔۔
یہ جملے سن سن کر کان پک گئے تھے۔ ایک عرصہ ہوگیا کہ میرے دوست اور پڑوسی پرویز کے ابو حمید صاحب جب بھی کوئی کام شروع کرتے، ”ایک، دو، تین“ کہتے…کچھ دیر اور رکتے اور کچھ مزید جملے بڑبڑاتے اور کام شروع کردیتے۔ کام مکمل کرکے مسکراتے اور الحمدللہ کہہ دیتے۔
غالباً اٹھارہ برس قبل میں اس علاقے میں شفٹ ہوا تھا۔ میرا اس علاقے میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، میرا ذاتی مکان گلشنِ اقبال میں تھا۔ اچانک میرے سسر بہت بیمار رہنے لگے تو میں ان کو اپنے گھر لے آیا، مگر چند ہی دنوں میں وہ بہ ضد ہوگئے کہ میں اور میری بیوی ثنا اُن کے ساتھ اُن کے گھر میں چل کر رہیں۔ وہ ڈیفنس میں ایک ہزار گز کے بنگلے میں اکیلے رہ گئےتھے۔ ایک بیٹا تھا جو امریکا جاکر سیٹ ہوگیا تھا۔ میں یہ سوچ کر شفٹ ہوگیا کہ کچھ دن اِن کے ساتھ رہ کر منا لوں گا اور اپنے گھر واپس گلشنِ اقبال لے آؤں گا۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ اب سسر کا انتقال ہوچکا ہے اور وہ گھر میرے سسر میری بیوی کے نام کر گئے تھے۔مجھے سسر کے گھر شفٹ ہوئے ایک ہفتہ ہی ہوا تھا، عید کا دن تھاکہ ہماری پانی کی موٹر خراب ہوگئی۔ کچھ ہی دیر میں نلکوں سے پانی آنا بند ہوگیا۔ بڑی پریشانی ہوئی، بہت کوشش کے بعد بھی جب کوئی پلمبر نہ ملا، گھر کے نوکر بھی ناکام ہوگئے تو میں نے سوچا کہ پڑوس میں معلوم کرتا ہوں شاید کوئی ریفرنس ہی مل جائے۔برابر والے بنگلے کی گھنٹی بجانے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ ایک میرے ہم عمر صاحب کہیں جانے کی تیاری میں تھے۔ ان کے نوکر نے گیٹ کھولا تو وہ گاڑی میں بیٹھنے کے بجائے میرےپاس آگئے۔ سلام دعا کے مراحل طے ہوئے۔ ان کا نام پرویز تھا، میں نے آنے کا مدعا بیان کیا تو وہ اپنے پیچھے کھڑے ایک بزرگ کو دیکھ کر مسکرانے لگے۔ میں کچھ سمجھ ہی نہیں سکا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ اور پوچھتا، وہ بزرگ بولے ”بھئی اعجاز آپ بالکل صحیح جگہ آئے ہیں“ اور زور زور سے ہنسنے لگے، پھر بولے ”ہم لوگ قبرستان جارہے تھے لیکن چلیں پہلے آپ کی موٹر دیکھ لیتے ہیں“۔ میں حیران ہوا، میں سمجھا کہ پرویز موٹر دیکھے گا، لیکن حمید صاحب تو ایک بیگ لے کر بولے ”چلیں پرویز“۔ پرویز بھی ہمارے ساتھ ہو لیا۔ میں حیران پریشان تھا کہ یہ پینسٹھ ستّر برس کا بوڑھا کیا کرے گا! موٹر دیکھ کر حمید صاحب بولے ”آپ کیا کام کرتے ہیں؟“ میں نے کہا ”چھوٹا موٹا کاروبار ہے دوائیوں کا“۔ کہنے لگے ”میاں اعجاز کوئی بھی کاروبار چھوٹا موٹا نہیں ہوتا، اور اگر کاروبار پانچ چھ برس سے جاری ہو تو اس کا مالک امیر آدمی ہوتا ہے“۔ میں حمید صاحب کے مشاہدے پر حیران ہوگیا۔ کہنے لگے ”آپ امیر آدمی ہیں، لہٰذا آپ کو ایک وعدہ کرنا ہوگا، آپ کی موٹر تو میں کچھ دیر میں ٹھیک کردوں گا لیکن شرط یہ ہے کہ آپ اس موٹر سے آئندہ پانی استعمال نہیں کریں گے۔ یہ ڈیفنس کے ہر گھر میں لگی ہوئی ہے، یہاں سالوں سے سرکاری پانی نہیں آتا، لوگ یا تو ٹینکر خریدتے ہیں یا انہوں نے یہ سکشن پمپ لگایا ہوا ہے، یہ حرام ہے اور پانی کی چوری ہے۔ آپ پانی کا ٹینکر افورڈ کرسکتے ہیں، لہٰذا آپ بھی وہی خریدیں اور جب تک عید کی چھٹیاں ہیں پانی ہمارے ہاں پائپ لگا کر اپنی ٹنکی بھر لیں“۔ میں ہکابکا اس بوڑھے کی بات سن رہا تھا۔ میں نے کہا ”جی میں بھی چوری کے خلاف ہوں“۔ میرے ہامی بھرتے ہی حمید صاحب نے کہا ”ایک دو تین…“ رکے، کچھ بڑبڑائے تو میری سمجھ میں نہیں آیا اور کچھ دیر میں ہی موٹر چلنے لگی۔ موٹر ٹھیک کرکے کہا ”الحمدللہ“۔اس کے بعد سے تو ہمارے مراسم اس قدر بڑھ گئے کہ میری فیملی اور پرویز کی فیملی ایک ہی خاندان لگنے لگے۔ پرویز ملک کا مشہور و معروف ہارٹ اسپیشلسٹ تھا اور حمید صاحب شپ بریکنگ کے کاروبار سے وابستہ رہے اور خوب پیسہ کمایا۔ پرویز کے چار بہن بھائی تھے۔ پرویز سب سے بڑا تھا۔ رفتہ رفتہ میں اور میری بیوی ثنا بھی حمید صاحب کو ابو کہنے لگے۔ پرویز کے بھائی بہن ان سے ملنے آتے تھے تو ہماری بھی ان سے لازمی ملاقات ہوتی تھی۔ابو جو کام چاہتے کرلیتے، لیکن ان کا ”ایک دو تین“تکیہ کلام مجھے بہت الجھن میں ڈال دیتا تھا۔ ایک دن میں نے پوچھ ہی لیا ”ابو! یہ ایک دو تین اور اس کے آگے آپ کیا بولتے ہیں سمجھ میں ہی نہیں آتا“۔ میرے اس سوال پر پرویز اور شگفتہ بھابھی بھی حیران رہ گئے۔ ثنا نے مجھے گھورا لیکن میں تو سوال پوچھ چکا تھا۔ اُس وقت ہم لوگ پرویز کے گھر میں رات کا کھانا کھا رہے تھے۔ ابو نے مجھے حیرانی سے دیکھا۔۔۔ کچھ دیر چپ رہے۔ مجھے لگا کہ میں نے کچھ غلط سوال کرلیا۔ ایسا لگا جیسے ابو کسی اور ہی دنیا میں پہنچ گئے ہیں۔کہنے لگے ”جب میں چھٹی جماعت میں تھا تو میرا ایک دوست بنا، جلد ہی ہماری دوستی بہت گہری ہوگئی۔ وہ بلا کا ذہین تھا، ہر کام میں ماہر۔ میں اس کی صلاحیتوں سے بہت متاثر تھا۔ وہ جب بھی کوئی کام شروع کرتا یہ الفاظ بولتا”ایک دو تین، بابے بڈھے کی مشین“ اور آگے نہ جانے کس زبان میں مزید کچھ بولتا تھا۔ وہ جملے میری سمجھ میں نہیں آتے تھے۔ ایک دن میں نے اس سے پوچھ لیا تو وہ ٹال گیا۔ کہنے لگا کہ یہ نظم میرے دادا نے مجھے سکھائی تھی۔ بدقسمتی سے اس سے دوستی زیادہ عرصہ نہ چل سکی، شاید چھ ماہ یا اس سے کم عرصہ ہوا تھا کہ اس کا ایک ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا۔ وقت نے اس کو بھلا دیا، البتہ مجھے اس نظم کے ابتدائی الفاظ یاد رہ گئے۔ جانے کیسے میں بھی یہ الفاظ کسی بھی کام کے آغاز سے پہلے بولنے لگا۔ بہت غور کیا تو مجھ پر کھلا کہ یہ الفاظ مجھے بے پناہ یقین دیتے ہیں، بہت حوصلہ اور ہمت دیتے ہیں کہ میں یہ کام کرسکتا ہوں۔ بس پھر مجھے کوئی بھی کام کبھی مشکل نہیں لگا۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ میں نے خود کو یہ بھی یقین دلایا کہ یہ الفاظ کچھ بھی نہیں، اصل تو اللہ کی مہربانی ہوتی ہے۔ لہٰذا میں کام شروع کرنے سے پہلے یہ پڑھتا ہوں اور کہتا ہوں ”ایک دو تین۔۔بابے بڈھے کی مشین“ اور کام مکمل کرلینے کے بعد الحمدللہ پڑھ لیتا ہوں۔نہ جانے کیسے میری بھی یہ عادت بن گئی کہ میں ابو کے مخصوص جملے کام شروع کرنے سے پہلے بولنے لگا۔اب میں اور پرویز دونوں ہی بوڑھے ہوچلے ہیں، پرویز کا اکلوتا بیٹا خاور آرمی میں چلا گیا، کبھی کبھی چھٹیوں میں آجاتا ہے۔ ابو کی عمر بھی نوّے برس ہوچکی ہے، وہ اس عمر میں بھی چاق چوبند اور توانا اور مثالی صحت کے حامل ہیں۔
کچھ دن سے ایک وبا کے پھیلنے کی خبریں آرہی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس وبا نے ساری دنیا میں تباہی مچا دی۔ ہر طرف اس مرض نے خوف و ہراس پھیلا دیا۔ اس قدر سائنسی ترقی کے باوجود چھوٹے سے جرثومے نے ساری دنیا کی رونقین چھین لیں۔ لوگ گھروں میں قید ہوکر رہ گئے۔ حکومتوں نے لوگوں کی حفاظت کے پیشِ نظر اس لاعلاج وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے لاک ڈاؤن کردیے۔ پرویز نے بھی ہم لوگوں کو سختی سے کہا کہ آپ لوگ بھی گھروں میں رہیں۔ اگرچہ میری اُس سے اس سلسلے میں بحث بھی ہوئی لیکن وہ ڈاکٹر تھا لہٰذا اس کی بات ماننی ہی پڑی۔ میں تو گھر میں بری طرح جھلا کر رہ گیا تھا۔ لاک ڈاؤن کا دوسرا ہفتہ شروع ہی ہوا تھا کہ دوپہر میں پرویز کی کال آگئی۔ ابو بھی وائرس کا شکار ہوگئے تھے۔ پرویز انہیں کچھ دیر پہلے ہی ہسپتال سے گھر لایا تھا۔ الجھن شدید ہو گئی تھی، بے حد فکر ہوگئی تھی۔ ثنا کہنے لگی ”ابو کو وائرس کیسے لگا؟ جبکہ وہ تو ہر وقت گھر میں ہی رہتے ہیں“۔ پھر خود ہی بولی ”ہوسکتا ہے کہ کسی کو ہوا ہو اور اس سے لگا ہو“۔ ثنا کی بات ٹھیک ہی لگ رہی تھی۔ اس نے شگفتہ بھابھی سے فون پر بات کی، انہوں نے کہا کہ ”ہاں ثنا کی بات صحیح ہے، یہ شاید کسی نوکر سے لگا ہے“۔ بہرحال ابو کا وبا میں مبتلا ہونا معمولی بات نہیں تھی۔ میں اور ثنا بھی اس وبا کا شکار ہوسکتے تھے۔
اگرچہ ہم نے نوکروں کو چھٹی دے دی تھی، لیکن ہمارے نوکروں اور پرویز کے نوکروں کا بھی آپس میں بہت میل جول تھا، اور ہم بھی پرویز کے فیملی ممبرز سے روز ہی ملتے تھے۔ ہر گھنٹے دو گھنٹے بعد میں یا ثنا پرویز یا شگفتہ بھابھی کو فون کرکے ابو کی طبیعت پوچھتے اور مزید پریشان ہوجاتے، کیونکہ ان کی طبیعت بگڑتی ہی جارہی تھی اور محض چند گھنٹوں میں ہی ان کی طبیعت خاصی خراب ہو گئی تھی۔پرویز کے ڈاکٹر ہونے کے بدولت ابو کو کافی سہولیات حاصل ہوئیں، ورنہ نہ جانے کتنے ہی لوگ سسک سسک کر مر رہے تھے۔ میرا نہ کھانے میں دل لگ رہا تھا، نہ کسی اور چیز میں۔ دل میں کیا کیا خیالات آرہے تھے، کیسے کیسے وہم گھیر رہے تھے۔ بہت دیر سے بستر پہ لیٹا کروٹیں بدل رہا تھا، ابو کی ایک ایک بات یاد آرہی تھی۔ ابو جیسا مضبوط اعصاب رکھنے والا تندرست و توانا شخص بھی کس طرح لاچار زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہوگیا تھا۔ ابو اکثر اپنے بچوں کو یاد کرتے اور کہتے تھے کہ مجھے معلوم ہے کوئی سالا آکر میری قبر پر لات بھی نہیں مارے گا، بس پرویز ہی پاگل ہے، اکیلا دبا آئے گا مجھے قبر میں۔ یہ بات یاد آئی تو مجھے لگا کہ ابو کی بات صحیح ہونے جارہی ہے۔ وبا کے خوف سے تو واقعی کوئی اپنی جان جوکھم میں نہیں ڈالے گا۔ میں نہ جانے کیا کیا سوچتا رہا۔ باری باری پرویز، شگفتہ بھابھی، ثنا اورخود کو موت کے منہ میں جاتا ہوا محسوس کرتا ہوا نہ جانے کب سو گیا۔وہی ہوا جس کا ہونا گویا طے شدہ تھا۔ فون کی گھنٹی بج رہی تھی اور پرویز کا نام اسکرین پر روشن ہورہا تھا۔ میں نے فون ریسیو کیا تو پرویز کی رندھی ہوئی آواز آئی ”اعجاز! ابو کا انتقال ہوگیا۔ میں میّت گھر لے آیا ہوں“۔ فون بند ہوگیا۔ میں ایک عجیب سی کشمکش میں مبتلا ہو گیا۔ ثنا بھی نہ جانے کن سوچوں میں گم تھی۔ میں نے ثنا سے کہا کہ میں پرویز کے گھر جارہا ہوں، وبا لگتی ہے تو لگ جائے، میں ابھی اتنا بےحس نہیں ہوا، اگر مر بھی گیا تو کبھی نہ کبھی تو مرنا ہی ہے“۔ ثنا کا جواب سنے بغیر میں پرویز کے گھر کی طرف چل پڑا۔ کچھ ہی دور چلا ہوں گا کہ ثنا کی آواز آئی ”میں بھی چل رہی ہوں۔ابو کی میت ایک بیڈ پر رکھی ہوئی تھی۔ بالکل پُرسکون چہرہ تھا۔ میں پرویز کی طرف بڑھا۔ وہ کچھ جھجھکا، مگر میں نے اس کو گلے لگا لیا۔ اس کے منہ سے ایک آواز بھی نہیں نکل رہی تھی، لیکن بے شمار آنسو میرے کندھوں میں جذب ہوئے جارہے تھے۔ اُس وقت معلوم ہوا کہ بے آواز بین کتنا دلخراش ہوتا ہے۔پرویز کو جو مرحلہ درپیش تھا وہ شاید اس کی کیا میری بھی کئی نسلوں کو کیا درپیش ہوا ہوگا! پرویز نے تمام بہن بھائیوں اور رشتہ داروں کو ابو کی موت کی اطلاع دے دی تھی، اور حسبِ توقع سب نے آنے سے معذرت کرلی تھی۔ پرویز اپنا اثر رسوخ استعمال کرکے ابو کی میّت گھر تو لے آیا تھا،لیکن نہ تو کوئی میّت کو غسل دینے والا دستیاب تھا، نہ ہی قبرستانوں میں قبر کی جگہ دستیاب تھی۔ پرویز اور میں سر جوڑے بیٹھے تھے۔ میں نے کہا ”دیکھو پرویز میری تو کوئی اولاد نہیں ہے،تمہارا بھی اکلوتا بیٹا اپنے پیروں پر کھڑا ہے۔ بہ حیثیتِ مسلمان میں یہ کبھی بھی گوارا نہیں کرسکتا کہ ابو کو اس خؤف سے غسل نہ دیا جائے کہ یہ وبا مجھے لگ جائے گی۔ میں ابو کو غسل دینا چاہتا ہوں۔“ میری بات سن کر پرویز کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے۔ شاید وہاں موجود ہم چاروں ہی رو رہے تھے۔ ابو کی وصیت کے مطابق ان کو غسل کے بعد ان کے احرام سے کفن میں لپیٹ دیا گیا۔ مجھے اس قدر سکون ملا جیسے میں نے ابو کی میّت کو غسل نہ دیا ہو بلکہ خود ہی آبِ زم زم سے غسل کرلیا ہو۔میّت کی تدفین کبھی اتنا بڑا مسئلہ ہوسکتا ہے یہ ہمارے تصور میں بھی نہ تھا۔ ہر جگہ دیکھ لی تھی مگر ہر قبرستان سے یہی جواب مل رہا تھا کہ جگہ دستیاب نہیں ہے۔ ثنا کہنے لگی ”پرویز بھائی یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے، بس آپ راضی ہوجائیں۔“ میں، شگفتہ بھابھی اور پرویز سوالیہ نظروں سے ثنا کی طرف دیکھنے لگے۔ وہ بولی ”ایک دو تین۔۔۔۔ بابے بڈھے کی مشین۔۔۔“ ابھی شاید ہم سب یہی سوچ رہے تھے کہ ثنا نے یہ ابو کے مخصوص جملے کیوں بولے ہیں۔ وہ بولی ”مجھے یقین ہے کہ یہی اس مسئلے کا حل ہے، چلیں کیونکہ کام بےحد مشکل ہے۔ لوگ بہت باتیں بنائیں گے، لیکن اس مشکل کا حل اس یقین کے سوا کیا ہے کہ ہم یہ مشکل کام کرسکتے ہیں۔ چلیں ہمارے لان میں چلتے ہیں، وہاں بہت جگہ ہے۔ ہم چاروں بھی وہاں سما سکتے ہیں۔“ پرویز نے کہا ”واہ بھابھی زبردست۔ لیکن ہمارے لان میں چلیں“۔ پرویز اور میں نے ابو کی قبر پرویز کے لان میں کھودی،نمازِ جنازہ پڑھی اور ابو کی تدفین ہو گئی۔مجھے اپنا پورا جسم گیلا محسوس ہوا اور میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا، گویا میں سوتے میں روتا رہا۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ سب خواب تھا۔ ابو بیمار تو تھے لیکن اتنے نہیں۔ میں بہت دیر تک اللہ کا شکر ادا کرتا رہا کہ یہ سب خواب تھا۔ پرویز کو فون کیا تو معلوم ہوا کہ ابو کو وبا کی وجہ سے ہلکی کھانسی بھی ہے۔ لیکن جسے خدا رکھے اسے کون چکھے…سارے وہم، سارے گمان، سارے وسوسے ختم ہوئے۔ ابو اس وبا سے جیت گئے اور مکمل صحت یاب بھی ہو گئے۔وبا جس تیزی سے پھیلی اتنی ہی تیزی سے غائب بھی ہوگئی۔ ایک دن پرویز کا فون آیا کہ ابو نے اپنی صحت کی خوشی میں رات کو کھانے پر بلایا ہے۔ ہم دیر تک باتیں کرتے رہے۔ کھانے کی میز پر جیسے ہی کھانا شروع ہونے لگا ابو نے کہا ”رک جائو، ابھی کھانا شروع نہ کرنا،میں جانتا ہوں کہ تم سب نے میرے مخصوص جملے چرا لیے ہیں اور تم لوگ بھی وہ مشکل کام کرنے سے پہلے بولنے لگے ہو،آج بھی تم کو مشکل کام کرنا ہے لہٰذا خود پر یقین رکھو، تم لوگ یہ کام مکمل کر لو گے۔اور مکمل کرکے الحمدللہ ضرور کرنا۔
چلو اب سب بآوازِ بلند بولو”ایک دو تین
بابے بڈھے کی مشین۔آج کھانا پرویز نے پکایا ہے“۔.

تھکن بہت تھی مگر سایۂ شجر میں جمال
مَیں بیٹھتا تو مِرا ہم سفر چلا جاتا

جمال احسانی

حصہ