ہوا کے دوش پر

385

افسانہ مہر‘ توقیر عائشہ
لاک ڈائون کی وجہ سے ماحول پر جو اداسی اور جمود طاری ہے اُس میں کچھ بہتری لانے کے لیے حریم ادب کراچی نے ایک آن لائن ادبی نشست منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس منفرد ادبی نشست کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہ کراچی کی پہلی آن لائن ادبی نشست تھی جس میں قدموں سے زیادہ آنکھوں اور کانوں کو چوکس رہنا تھا۔ نگراں حریم ادب کراچی عشرت زاہد نے گروپ پر باقاعدہ اس ادبی نشست کا اعلان کیا۔ لیجیے ادبی نشست کے پیاسے پنکھ پکھیرو دور دور سے آکر حریم کی منڈیر پر بیٹھنے لگے (مگر تین فٹ کے فاصلے سے)۔ طریقہ کار اور ہدایات بھی درج کردی گئیں جس میں یہ جملہ ہمیں بہت متاثر کر گیا کہ ’’ریکارڈنگ سنتے وقت خیال رکھیں کہ یہ آوازیں آپ کے پاس امانت ہیں۔ سننے کے بعد ڈیلیٹ کرنا نہیں بھولیے گا۔‘‘
7 اپریل بروز منگل ٹھیک گیارہ بجے موبائل کی پہلی بپ ہوئی اور پھر محفل جمتی چلی گئی۔ کچھ ہی دیر میں گل دستوں اور پھولوں سے مزین ایک پُربہار نشست بہترین تنظیم و ترتیب کے ساتھ نظر کے سامنے تھی۔ حریم کی سرپرستِ اعلیٰ عقیلہ اظہر صاحبہ، بیرونِ ملک مقیم سینئر قلم کار و تجزیہ نگار رومانہ عمر صاحبہ، مرکزی نشر و اشاعت کی ٹیم سے سینئر کالم نگار فریحہ مبارک، سابق نگراں نشر و اشاعت مہر افشاں، اور سینئر قلم کار ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی صاحبہ کی شمولیت نے ادبی نشست کو باوقار بنا دیا تھا۔ نگراں حریمِ ادب نے تحاریر پر تبصرے کے فرائض بھی انہی معززین کو سونپ دیے۔ حریمِ ادب کی اس سرگرمی کے انعقاد میں نشر و اشاعت کی نگراں ثمرین احمد کے بہترین مشورے شاملِرہے۔
نشست کا آغاز ماریہ فاروق کی تلاوت و ترجمہ قرآن سے ہوا۔ نہم جماعت کی ایمان نے اپنی خوب صورت آواز میں نعتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پیش کی۔ پھر ہم نے چشمِ تصور سے دیکھا کہ سینئر قلم کار طلعت نفیس تشریف لارہی تھیں۔ ان کے افسانے میں بتایا گیا تھا کہ گھریلو اور قریبی رشتے دار خواتین ایک دوسرے کے لیے کتنے سنگین مسائل کھڑے کردیتی ہیں، جس کا نتیجہ گھر ٹوٹنے اور بچوں کی شخصیت میں کمی کی صورت سامنے آتا ہے۔
اس کے بعد ننھی منی قلم کار دانیہ آصف نے تو گویا ابتدا ہی میں محفل لوٹ لی۔ جنگل کے گرد گھومنے والی کہانی میں باہمی الفت اور امن کا پیغام دیا گیا تھا۔ الفاظ کا چناؤ اور ان کا پُراعتماد لہجہ سب کو حیران کرگیا۔ فائزہ حقی جو کالم نویسی میں ایک بڑا مقام رکھتی ہیں، دورِ نبویؐ سے ایک مثال لے کر آئیں اور اس کے ذریعے آج کے حالات میں بے لوث خدمت کا بہترین سبق دیا۔ اس کے بعد شہلا خضر کا افسانہ نظر کے سامنے آگیا۔ ان کی کہانی گھر کی بے تکلف زندگی کے مناظر سے آراستہ تھی۔ وہ بتا رہی تھیں کہ حالات کے باعث جبری نظربندی نے کس طرح گھر والوں کو ایک دوسرے سے قریب کردیا ہے۔
ثمرہ ملک نے اپنی تحریر سے سکھایا کہ جو بات کسی سے نہ کہہ سکو، اللہ سے کہہ دو اور مطمئن ہوجاؤ۔ اس کے بعد عشرت نے توقیر عائشہ کے بھیجے ہوئے گجرے اسکرین پر سجادیے اور ہماری ادبی نشست مہک اُٹھی۔ ضلع غربی کی جہاں آراء نے بچوں کی کہانی سناکر بچوں کے ادب کی بھی نمائندگی کردی۔ ضلع ائرپورٹ سے سحرش کنول نے موجودہ وبا کے تناظر میں اپنے مضمون میں واضح کیا کہ دینِ اسلام فطرت کے مطابق ہے، اور فطرت سے بغاوت کا انجام مصائب میں گرفتار ہوجانا ہے۔
حریم شفیق نے منفرد موضوع کا انتخاب کیا۔ ایک عورت کے ادھیڑ عمری میں اپنے آپ کو فٹ اور ہشاش بشاش نظر آنے کی بڑی منطقی وجہ بتائی۔ اب ماہ پارہ نے ہلکی پھلکی تحریر سناکر سامعین کو ہشاش بشاش کردیا، گو کہ افسانے کی ہیروئن خود تھکن سے بے حال ہوگئی تھی۔
ضلع وسطی گلبرگ کی نیلم حمید نے اللہ کی حمدو ثنا اور صفات پر مشتمل تحریر سنائی۔ سعدیہ فرخ نے کورونا کے سبب مساجد کی ویرانی پر اپنے دکھ کا اظہار کیا اور ایک سبق آموز خواب کی صورت اپنے جذبات تحریر کیے۔
اب افسانہ صاحبہ یعنی بقلم خود سماعتوں میں تحریر گھول رہے تھے۔ موضوع تھا کہ فیس بک اسکرین کس طرح جذبات کو منتشر کیے رکھتی ہے اور بات کے کسی بھی پہلو پر توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت کو ختم کررہی ہے۔ ناہید خان نے کورونا کو خوف و دہشت کی علامت بنانے کے بجائے مثبت انداز سے سوچنے کی دعوت دی۔
رومانہ عمر، سینئر رائٹر نے جو سعودی عرب، ریاض سے ہماری نشست میں شریک تھیں اور نشست کی مبصر بھی تھیں، ہمیں اپنی تحریر سنائی اور سامعین اپنی اپنی ماؤں کی محبتوں کو یاد کرنے لگے۔ ’’امی کا دوپٹہ‘‘ میں تہذیب اور اخلاق کے قرینے جھلک رہے تھے۔ سادہ اور رواں جملوں میں جذبات اور احساسات کی ایک دنیا آباد تھی۔ گلبرگ کی روبینہ اعجاز اپنے افسانے ’’گماں کیسے کیسے‘‘ میں بتا رہی تھیں کہ ہر دم موبائل سے ملنے والی اطلاعات بعض اوقات بدگمانیوں کو بڑھاوا دے کر مسائل پیدا کردیتی ہیں۔ آمنہ آفاق نے گلی میں کچرا پھیلانے کے عام سے مسئلے کو بڑی خوب صورتی سے اجاگر کیا۔
اب صائمہ راحت کے قلم کی روانی ہمیں ’’قید خانے کے دفتر‘‘ لے گئی۔ قرآنی اصطلاح سے ماخوذ عنوان کے ذیل میں جو کچھ بیان ہوا اس نے دل پر گہرا اثر ڈالا۔ ضلع شمالی کی اسماء اشفاق نے اپنی تحریر میں محترم حسن البناؒ کی زندگی کے کچھ واقعات کو دل چسپ اور آسان بنا کر پیش کیا۔ فرح ناز ضلع وسطی سے تعلق رکھتی ہیں، اپنا مضمون ’’امر بالمعروف‘‘ لے کر شریک ہوئیں۔ ضلع ائرپورٹ کی عالیہ زاہد بھٹی نے ’’آس‘‘ کے عنوان سے منظر نگاری سے بھرپور اپنا افسانہ مزے لے لے کر سنایا۔ خدیجہ برجیس نے خوب صورت پیرائے میں محرم اور نامحرم رشتے داروں کے ساتھ معاملات کی نزاکتوں کو بیان کیا۔
ناظم آباد سے لطیف النساء نے اپنی رواں اور برمحل تحریر میں حیا کا مفہوم بتایا۔ افشاں مراد اللہ کی راہ میں دینے کا بے لوث جذبہ لے کر آئیں۔ پہلی بار قلم اٹھانے والی ماریہ صفیہ طالبہ ہیں۔ ان کی تحریر کا پیغام تھا کہ جس طرح اندازے سے دوا لینا مرض کو بڑھاتا ہے، اُسی طرح دینی معاملات میں بھی غیر متعلقہ لوگوں سے رائے لینا دین کو نقصان پہنچاتا ہے۔ قرۃ العین نے اپنی تحریر میں خاندانی نظام کو باعثِ رحمت قرار دیا۔ قدسیہ ملک کے کورونا پر مضمون میں تحقیق، تجزیہ اور مستقبل کی تعمیر کے نکات بڑی خوبی کے ساتھ بیان ہوئے تھے۔ فاطمہ عمیر نے ہر کام میں رب کی حکمت کا زریں نکتہ بیان کیا۔
جن شاعرات نے اپنے کلام سے نوازا اُن میں ثروت اقبال، قدسیہ ملک، صبا احمد، رضوانہ عمر، ثمرہ ملک، صدف امبرین، طاہرہ فاروقی شامل تھیں۔ یوں نظم و نثر پر مبنی ایک خوب صورت محفل اختتام کو پہنچی۔ اس موقع پر لذتِ کام و دہن کا بھی اہتمام تھا، مگر بصری حد تک۔ قسم قسم کے ماکولات اسکرین پر سجا دیے گئے تھے۔
اس ادبی ذخیرے کو پڑھنے اور سننے کے لیے کچھ وقت دیا گیا۔ سامعین، مبصرین، اور قلمکار بہنوں نے ہوا کے دوش پر منعقدہ ادبی نشست سے خوب لطف اٹھایا، جس کا اندازہ گروپ پر ستائشی پیغامات سے ہورہا تھا۔ سب ہی عشرت زاہد اور اُن کی ٹیم کی کوشش کو سراہ رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ادبی محفل عشرت زاہد کی شبانہ روز محنت کا نتیجہ تھی۔ اس ادبی نشست کا مقصد بھی یہی تھا کہ حالات نے دلوں پر جو پژمردگی اور جمود طاری کردیا ہے اُس کے اثر سے باہر نکالا جائے۔ واقعی’’اک ولولۂ تازہ ملا پھر سے دلوں کو‘‘۔
ہماری معزز تبصرہ نگار ابتدا سے انتہا تک ہمارے ساتھ رہیں۔ عقیلہ آپا، فریحہ مبارک، رومانہ عمر نے اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود ایک ایک تحریر کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے سراہا، حوصلہ افزائی کی اور اپنے قیمتی مشوروں سے اصلاح کا فرض ادا کیا۔ مزے کی بات یہ کہ ہر قلم کار بہن معزز تبصرہ نگاروں کی تنقیدی نظر کی مشتاق تھی۔ ان تبصروں کے ذریعے ایک متوازن تحریر کے تمام لوازمات ابھر کر سامنے آگئے۔ یعنی ابتدائیہ دل چسپ ہو، موضوع سے متعلق غیر ضروری تفصیلات بیان نہ ہوں، ایک ہی مفہوم پر مبنی کئی کئی جملے نہ لکھے جائیں، تحریر خشک اور محض نصیحت پر مشتمل نہ ہو، منظر نگاری کہانی کی ضرورت کی حد تک ہو، اختتام ایسا ہو کہ تحریر کا مقصد اور خلاصہ نکھر کے سامنے آجائے۔
شاعری پر تبصرے کے لیے ہاجرہ منصور سے درخواست کی گئی جو خود بہت اچھی شاعرہ ہیں۔ انہوں نے ہر کلام کے اوزان، بحر اور نفسِ مضمون کے حوالے سے ایک بڑی متوازن اصلاح پیش کی۔
یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ہوا کے دوش پر منعقدہ یہ خوب صورت محفل جس کی بھی سماعت اور بصارت سے گزری، اُس نے مطالبہ کردیا کہ ایسی پُربہار نشستیں جلد جلد منعقد کی جائیں۔ نشست کی پسندیدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے حریم ادب کراچی کی ٹیم ان شا اللہ ایسی آن لائن ادبی نشستیں وقتاً فوقتاً منعقد کراتی رہے گی تاکہ نئے قلم کار سامنے آئیں اور تجربہ کار لکھاریوں سے بہت کچھ سیکھ سکیں۔

حصہ