.’’کوئی تو بتائے…‘‘.

280

فرزانہ خورشید
آج بخشو بابا بہت زیادہ افسردہ تھا‘ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے اس کی چھوٹی سی دکان بند ہو جائے گی تو کیا ہوگا۔
اسے برگد کے ساتھ چھپر ڈالے کئی سال گزر چکے تھے اسی میں بڑی محنت کرکے موچی کی دکان کھول لی تھی۔ قریب ہی مین روڈ تھی جس کی وجہ سے اس کے پاس کافی رش رہتا تھا۔ اسکول اور آفس والے صاحب اسی سے بوٹ پالش کرواتے اور قریب فلیٹ سے بھی کافی گاہک آجاتے۔ اس سے اس کی اور گھر والوں کی ضرورت پوری ہو جاتی۔ اور بخشو شام کو اللہ کا شکر ادا کرتا ہوا اپنی دکان بند کرتا۔
لیکن اب اچانک کیا ہوا…؟ سب پریشان نظر آ رہے ہیں۔ بخشو کو جب کچھ سمجھ نہیں آیا تو اس نے فلیٹ سے نکلے پروفیسر صاحب کو دیکھتے ہی کہا ’’مجھے آپ سے ضروری بات پوچھنی ہے سب علاقے کے لوگ کیوں پریشان ہیں؟‘‘
پروفیسر صاحب نے اپنی عینک درست کرتے ہوئے کہا ارے بخشو! تمھیں نہیں معلوم پوری دنیا میں ’’کورونا‘‘ وائرس آچکا ہے۔‘‘
’’وائرس کیا؟‘‘ اس نے معصومیت سے سوال کیا۔
’’ارے بھائی جراثیم جو کہ ایک دوسرے کو لگ جاتے ہیں جو کہ ہمارے ہاتھوں میں ہوتے ہیں۔‘‘ پروفیسر صاحب نے مختصر سا سمجھانے کی کوشش کی۔
’’جراثیم‘‘ بخشو اپنے منہ ہی منہ میں بڑ بڑایا۔
پروفیسر صاحب نے اسے ایک اور خبر دی اس جراثیم کو روکنے کے لیے حکومت شہر مکمل طور پر بند کر دے گی سب گھر میں بیٹھیں۔
’’کیا…؟‘‘ بخشو کا سانس عجیب سا ہو گیا۔ وہ سوچنے لگا جوتوں میں لگی مٹی صاف کرتے کرتے وہ بوڑھا ہو گیا وہ سوچنے لگا لالہ دین کا کیا ہوگا جو اینٹیں ڈھوتا ہے‘ ماسی رحمت کا کیا ہوگا جو گھروں کی صفائی کرتی ہے اور رفیق جو روزانہ کچرے چنتا اور اس کا ساتھی بھی دونوں وہیں کچرے سے کچھ کھانے کی چیزیں بھی لے آتے اور وہیں بیٹھ کر کھا لیتے… ہاں اسے یاد آیا وہ جس پل کے نیچے سے گزرتا رات میں سونے والوں کا رش لگا ہوتا وہیں قریب ہی بلیاں اور چوہے بھی پھر رہے ہوتے۔
’’اللہ تعالیٰ یہاں پر یہ جراثیم نہ آئے…‘‘ بخشو نے دل سے دعا کی۔

حصہ