پہاڑوں کے بیٹے

296

اُم ایمان
(قسط 6)
۔’’ماں جی! میں جاننا چاہتا ہوں کہ میرے ماں باپ کون ہیں؟ میں کس خاندان میں سے ہوں؟‘‘
’’ذلیل، کمینہ، چھوٹی ذات، ہماری برابری کرتا ہے!‘‘ بابا کا جملہ تعلق اور پیار کے ہر رشتے کو جلا کر راکھ کررہا تھا۔
’’زبیر تُو واقعی ہمارا بیٹا نہیں ہے۔ گائوں میں تیرے گھر والوں کو دشمنی میں مار ڈالا گیا تھا۔ بس ایک تُو اور تیرا بڑا بھائی بچا تھا۔ تیرے بڑے بھائی کو تو وہ لوگ ساتھ لے گئے تھے، بعد میں خدا جانے انہوں نے اسے بیچ دیا، یا مار دیا۔ تجھے گائوں والوں نے ہمارے حوالے کردیا کہ وہاں تو ہر ایک کو خود روٹیوں کے لالے پڑے ہوئے تھے۔‘‘ ماں جی نے زبیر کو سرد لہجے میں حقیقت سے آگاہ کردیا۔
زبیر سُن ہوکر رہ گیا۔ حقیقت اس قدر تلخ ہے، اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ اس کے سارے احساسات برف کی طرح یخ ہوکر رہ گئے، لیکن کام کرتے کرتے وہ سوچوں میں ڈوبتا تو یا تو سالن جل جاتا یا بالٹی میں کھلا نل بہتا رہ جاتا۔ ایک دن چائے کی گرم پیالی ماں جی کے کپڑوں پر گری تو ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوکر رہ گیا۔’’دیکھ زبیر! اگر تُو جانا چاہتا ہے تو کہیں بھی چلا، لیکن پھر پلٹ کر ہمارے پاس نہ آنا۔‘‘ انہوں نے زبیر کو اچھی طرح دھنک کر کہا۔
شاید وہ جانا تو چاہتا تھا لیکن اپنی خواہش کو خود ہی سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ ماں جی کی زبان سے یہ جملہ سن کر وہ یوں خوش ہوا جیسے ماں جی نے اس کی دھنائی نہیں بلکہ اس کو پیار کیا ہو۔ اور پھر صرف دو کپڑوں میں ماں جی سے گائوں کا پتا پوچھ کر نکل کھڑا ہوا۔ ہاتھ میں محمود بھیا کا پرانا اسکول بیگ تھا۔
’’اس میں کیا ہے؟‘‘ ماں جی نے سنگ دلی سے پوچھا۔
زبیر نے فرش پر بیگ کو الٹ دیا۔ کہانی کی ایک کتاب جو محمود بھیا نے پچھلی عید پر عیدی کے نام پر اسے دی تھی، ایک سفید رومال جو ربیعہ آپا نے دیا تھا، اگرچہ اب اس کا رنگ سفید نہیں رہا تھا، لیکن زبیر کو پتا نہیں کیوں اس سے بہن کے پیار کی خوشبو آتی تھی، حالانکہ زبیدہ اور ربیعہ دونوں نے اسے ہمیشہ ایک نوکر کی طرح دور، دور رکھا۔ بس ہمہ وقتی ملازم، جس کی یاد کام کے وقت ہی آتی۔ شیشے کی چند گولیاں، جنہیں اس نے ایاز سے بڑی مشکل سے حاصل کیا تھا۔ نہ جانے کتنے ہی کام ان گولیوں کے بدلے اسے کرنے پڑے تھے، اور اس کے بعد بھی ایاز کے کسی کام میں ذرا بھی دیر ہوتی تو شیشے کی ان گولیوں کو چھین لینے کی دھمکی اسے اس بات کا احساس دلاتی کہ شاید وہ ان کا مالک کہلانے کا استحقاق قیامت تک حاصل نہیں کرسکتا۔ ان سب چیزوں کے علاوہ ایک پرانا جوڑا جس کے گریبان کے دو بٹن ٹوٹے ہوئے تھے۔
ماں جی نے اسے سامان سمیٹ لینے کا اشارہ کیا تو زبیر نے تمام چیزیں پھرتی سے بیگ میں ٹھونسیں، لیکن شیشے کی گولیوں کو ڈھونڈنے میں دیر لگ گئی جو کہیں اِدھر اُدھر جا چھپی تھیں۔
’’بھلا میں اپنے بیوی بچوں کو وہاں چھوڑ سکتا ہوں جہاں برسوں خدمت کے بعد رخصتی کے وقت کسی نے آنسو بہانا تو درکنار ذرہ بھر افسوس بھی محسوس نہیں کیا۔ کتے، بلی بھی انسان پالتا ہے تو اُن سے پیار ہوجاتا ہے۔ کہیں چلے جائیں تو انہیں ڈھونڈتا ہے۔ ملنے کی آس لیے راہ چلتے بلی اور کتوں کو غور سے دیکھتا ہے۔‘‘
’’ہونہہ! نہیں شیر دل بھائی پاکستان میں تو میرے سارے گھر والے ختم ہوچکے ہیں۔ ایک بھائی تھا لیکن اس کا بھی کوئی پتا نہیں۔‘‘ زبیر نے فوراً ہی شیر دل کی تجویز رد کردی۔
’’اچھا اگر ایسا ہے تو ابھی کچھ عرصہ گزر جانے دو، لیکن اگر حالات خراب ہوئے تو انہیں صفیہ اور بچوں کے ساتھ پشاور میں مہاجر کیمپ چھوڑ آئوں گا۔‘‘ شیر دل نے زبیر کو تجویز دی اور صفیہ کو اشارہ کیا کہ رات بہت ہوگئی ہے، اب سونے کا بندوبست کرو۔ سونے کے لیے بستر پر لیٹ کر بھی زبیر کو بہت دیر نیند نہیں آئی۔ شیردل نے پشاور کا نام لے کر جیسے اُسے دوبارہ تلخ ماضی میں پہنچا دیا تھا۔ یادوں کے بادل گھر گھر کر چلے آرہے تھے۔
ماں جی نے بتایا تھا کہ اس کا گائوں پشاور کے نزدیک ہی ہے۔ ان سے پتا لے کر وہ گھر سے نکل کھڑا ہوا، لیکن پشاور تک کا سفر کیسے کرتا، کہ جیب میں پھوٹی کوڑی نہ تھی۔ عقل نے سمجھایا کہ پہلے کچھ پیسے جمع کرو، پھر گائوں کا سفر کرسکوگے۔ چنانچہ اس نے ایک چائے خانے میں ملازمت کرلی۔ پہلی تنخواہ پر وہ اپنے آپ کو بڑا امیر محسوس کررہا تھا۔ اس نے نوکری چھوڑی اور گائوں جانے کا ارادہ کیا تو ہوٹل کے مالک نے سمجھایا کہ یہ پیسہ ابھی ناکافی ہے، چار چھ ماہ کام کرو گے تو پھر تم کو سفر کرنے میں آسانی ہوگی۔ زبیر ہوٹل کے مالک کے کہنے پر رک تو گیا لیکن یہ چار ماہ اس کو چار سال محسوس ہوئے۔ بالآخر خدا خدا کرکے وقت گزر ہی گیا، اور چار ماہ بعد جب گائوں گیا تو وہاں کوئی اس کا جان پہچان والا شخص نہ تھا۔ اس نے کئی لوگوں کو ملک حبیب اللہ یعنی بابا کے بارے میں بتایا۔ آخرکار ایک بوڑھا اس کی بات سمجھ گیا۔ ’’آئو بیٹا میں تم کو تمہارا گھر دکھاتا ہوں۔ دس سال سے وہ اسی طرح ویران پڑا ہے۔‘‘
آدھا کچا آدھا پکا گھر، جس کے اندرکوڑے کرکٹ کا ڈھیر تھا۔ ’’بابا! میرے ماں باپ کوکس نے قتل کیا تھا؟‘‘ زبیر نے اس بوڑھے سے سوال کیا۔
’’پتا نہیں بیٹا یہ معلوم نہیں ہوسکا۔‘‘ اس بوڑھے شخص نے نظریں چرائیں۔ پتا نہیں کیوں زبیر کو ایسا لگا جیسے وہ اس سے کچھ چھپا رہا ہے۔(جاری ہے)

حصہ