پلٹنا کیا ہے۔۔۔۔؟۔

394

ڈاکٹر عزیزہ انجم
زندگی کتنی عجیب سی ہوگئی ہے آج کل۔ وہ دن جن کے پلک جھپکنے میں گزرنے کی شکایت ہوتی تھی اور فرصت ایک نایاب شے بن گئی تھی، وہی دن ہے کہ صبح سے شام نہیں ہوپاتی، اور شام سے رات کا مرحلہ گزرے نہیں گزرتا۔ فرصت ہی فرصت ہے، فراغت ہی فراغت۔
دل کا عجیب حال ہے۔ نہ اداسی کہ قیدِ تنہائی کی رلا دینے والی قسطیں دیکھ کر غم غلط کیا جائے، نہ اندر کے دکھ کا مداوا کرنے کے لیے فیملی فرنٹ سے محظوظ ہونے کی طلب۔
ٹی وی وہی گھسی پٹی خبریں دکھانے میں مصروف ہے۔ بے حس اور سفاک حکمران طبقے کی کانفرنسیں اور امداد کی تفصیل۔ مرنے والوں کے اعداد و شمار اور غریب عوام کی غربت کا مذاق۔ وہی سر کے بال شانوں پر بکھیری ہوئی اینکرز، وہی ان کی دوپٹے سے بے نیازی۔ کسی کو تھوڑا خیال آیا تو کسی مذہبی فرد کو بلا کر دُعا کرالی، یا عالمِ دین کا اپنے مطلب سے میل کھاتا بیان چلا دیا۔
موبائل پر کتنی انگلیاں چلائی جائیں! اور موبائل بھی کیا دکھا رہا ہے ایک یکسر بدلی ہوئی دنیا۔ وائرس سازش ہو، بیالوجیکل ہتھیار ہو، یا آسمان سے اتری ابابیل… اس نے بلاشبہ دنیا بدل دی۔ علم اور سائنس کی معراج پر پہنچے ہوئے انسان کی بے بسی آشکار کردی۔ کہیں مُردہ جسموں کی قطاریں ہیں، کہیں آنے والے دنوں میں موت کے فرشتے کی گنتی کے اندازے۔ سر سے پاؤں تک لپٹا ہوا پلاسٹک کا لباس۔ جن چہروں کے لیے زیبائش کے سینکڑوں طریقے تھے، جو رخسار غازوں سے گل انار بنتے تھے، جن ہونٹوں کی سرخی کم نہیں ہونے دی جاتی تھی، سب سخت ماسک میں چھپے ہیں۔ ایک ہی آواز ہے، تلقین ہے، ایک ہی سمجھ داری کی بات ہے ’’گھر پر رہیں، باہر نہ نکلیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی صفات پر غور و فکر قرآن کے مطالعے کے دوران کتنی بار ہوا، لیکن اللہ کی صفت العزیز پر ایمان اور یقین تو شاید اب نصیب ہوا ہے۔ حق الیقین کی جو کیفیت اب ملی ہے، کبھی نہیں ملی تھی۔ واقعی وہ اپنے فیصلے، اپنے احکام بزور نافذ کرنے والا ہے۔ کون مجھ سمیت سارے دوڑتے بھاگتے لوگوں کو کان پکڑ کر گھر بٹھا سکتا تھا؟ کس میں ہمت تھی ہمارے نہ چاہنے کے باوجود ہمارے شیڈول مرتب کرتا؟ ہم تو اپنے اختیارات کا خوب خوب استعمال کررہے تھے۔ ہم روز سجا بنا گھر چھوڑ کر، کچی پکی نیندوں کا خمار اور تھکن سے نڈھال وجود سنبھالے اگلے دن پھر کارزارِِ حیات کے مورچوں پر چلے جاتے تھے۔ گھر ماسی کے حوالے، بچوں کی تعلیم اسکول ٹیچرز اور ٹیوٹر کی ذمے داری، اور دین جتنا قاری صاحب آدھے ایک گھنٹے میں پڑھا دیں، کافی۔ تربیت کیا ہوتی ہے؟ بچوں سے تعلق کیسے بناتے ہیں؟ ان دل کے ٹکڑوں کو زندگی خوب صورت بنانے کے راز بتانا، اور اس کے مقصد سے آگاہ کرنا ہم میں سے کس کی نیند اُڑاتا تھا، اور اپنی مصروفیات کو تج دے کر اپنی ترجیح بناتا تھا؟
گزشتہ دنوں ایک خاتون فزیو تھراپسٹ سے بات ہوئی۔ کہنے لگیں: دوپہر دو بجے تک کی جاب، پھر گھروں پر مریض دیکھنا۔ میں گیارہ بجے رات گھر پہنچتی تھی۔ میاں بھی اسی پیشے سے وابستہ اور چار بیٹے۔ پیسے کی فراوانی، زندگی کی تمام جدید سہولیات اور نعمتوں سے بھرا گھر، اور ان نعمتوں کو بغیر کسی روک ٹوک کے برتتے ہوئے ام میچور بچے۔ یہ آج کی پروفیشنل عورت کی بھی مصروفیت ہے اور نان پروفیشنل کی بھی۔
شام ہوتے ہی شاپنگ مالز کا رخ۔ ہر نئی آفر اور نئی سیل پر دوڑنا اور بٹوے خوشی خوشی خالی کرنا۔ بیس پچیس لاکھ کی شادی، ڈیڑھ دو لاکھ کا شادی کا جوڑا، اور ناقابلِ یقین قیمت کا میک اَپ۔ ظاہر کو سجانا اور اس مصنوعی سجاوٹ کا پھل میٹھا نہ پاکر ڈپریشن میں چلے جانا۔ گھر مکینوں کی محبت بھری گفتگو اور تعلق سے محروم۔ ایک دوسرے کی حق تلفی اور اپنی اپنی گردن کا ٹیڑھا پن۔ بچے ادب اور تعظیم کے معنی سے بھی ناواقف۔
میاں بیوی ایک دوسرے سے ناخوش، ایک دوسرے کے لیے اجنبی۔ پاس رہ کر بھی دور۔ محبت کے رمز سے نا آشنا۔ اپنی ذات کے خمار میں گم نفس کی پرستش اور عبادت کے ظاہری مظاہر سے سجی محفلیں۔
کیا ہم سب ایسی ہی زندگی نہیں گزار رہے تھے؟ ایک ایسی مادہ پرست زندگی جو ظاہر سے باطن کا سفر ہی طے نہیں کرنے دیتی۔ اپنے آپ سے ملنے، اپنے اندر جھانکنے، روح کا خالی پن دور کرنے کا موقع ہی نہیں دیتی۔ ہم سب اس مادہ پرست زندگی کے پرستار تھے… کہیں جبراً، کہیں خود اختیار کردہ۔
ظاہری سبب کچھ بھی ہو، یہ دنیا اسباب کی دنیا ہے، لیکن مشیت اُس ایک جبار کی ہی چلتی ہے۔ اختیار کی آزادی اب بھی ہے اور یہ جبر کچھ ہی عرصے کا سہی، لیکن گھروں میں یہ جبری نظربندی کیا یہ نہیں سمجھا رہی ہے کہ کس کس ضروری چیز کے بغیر زندگی گزر سکتی ہے اور ٹھیک گزر سکتی ہے! وہی گھر جو مکینوں کو ترستا تھا اب وہاں سب رہ رہے ہیں۔ عقل مند اہلِ خانہ ذمے داری مل بانٹ کر ادا کررہے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزار رہے ہیں۔ جن شوہروں کی شکلیں دیکھنے کو بیویاں اور بچے ترس جاتے تھے اب وہ چوبیس گھنٹے اردگرد پائے جاتے ہیں۔ کیا ہر مصروفیت واقعی بہت ضروری اور ناگزیر تھی؟ کیا ہم سب کی زندگی کا رُخ، ہماری مصروفیات کا قبلہ صحیح سمت میں تھا؟ یا زندگی اس ساری مصروفیت اور بھاگ دوڑ کے علاوہ بھی کچھ تھی؟ زندگی کا کوئی اعلیٰ اور ارفع مقصد بھی تھا؟ معبودِ حقیقی کی پہچان اور اس کے احکام کے مطابق اپنی اور اپنے اہل و عیال کی زندگی گزارنا کبھی زندگی کی جہد کا حصہ بھی بنا؟
پیغمبری کے اعلیٰ منصب پر فائز جلیل القدر انسانوں نے، رب کی طرف بلانے والے سارے دردمندوں نے یہی کہا ’’رب کو پہچانو، رب کی بات کو مان لو، رب سے محبت کا رشتہ باندھ لو۔‘‘
پیغمبری سلسلے کے آخری پیغمبر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم… ہمارے ماں باپ اور ہماری جانیں آپؐ پر قربان… آپؐ نے کتنی بار سمجھایا کہ دنیا آخرت کی تیاری کے لیے گزارو، اتنی مصروفیت، اتنا ساز و سامان نہ سمیٹو کہ پلِِ صراط سے گزرنا مشکل ہوجائے۔ بے شک یہ آزمائش، یہ سخت ہولا دینے والا وقت گزر جائے گا، اس کے بعد کی دنیا کیسی ہوگی یہ الگ عنوان ہے۔ لیکن انسان کو اللہ توبہ کا، اپنی طرف رجوع اور پلٹ آنے کا موقع دے رہا ہے۔ توبہ یہ نہیں کہ تسبیح کے دانوں پر استغفار پڑھ لیا جائے اور زندگی اسی نہج پر چلتی رہے۔ توبہ پلٹنے کا نام ہے، اپنی خواہشات، اپنی ترجیحات‘ اپنی مصروفیات کا جائزہ لینے اور انہیں صحیح سمت دینے کا نام ہے۔
بلاشبہ یہ انسانی تاریخ کا شدید کرب ناک وقت ہے۔ موت آس پاس گھوم رہی ہے، اپنا اگلا شکار ڈھونڈ رہی ہے۔ قرآن کہتا ہے ’’اے انسان! تجھے کس چیز نے کریم رب سے دور کیا، دھوکے میں ڈالا۔‘‘
اے انسان پلٹ آ۔ اختیار کی آزادی کے باوجود پلٹ آ۔ سرِ تسلیم خم کردے۔ اپنے سر کو بھی اور اپنی زندگی کو بھی جھکا دے۔ اپنے شعور کو، اپنی عقل کو، اپنی خواہشات کو سجدے کی لذت سے آشنا کردے… پلٹ آ رب کی اطاعت کی طرف، پلٹ آ رب کی فرماں برداری کی طرف۔

حصہ