غمِ آرزو

227

ڈاکٹر شگفتہ نقوی
ہاجرہ میری دوست ہے‘ اس کی اکلوتی بیٹی ثنا نے جب ایم اے کر لیا تو اس کی شادی کی فکر ہوئی۔ اس نے مجھ سے ذکر کیا‘ اپنے جاننے والوں میں ایک دو‘ اچھے رشتے تھے‘ میں نے تعارف کرا دیا۔
وہ لوگ ایک دوسرے سے ملے۔ ہاجرہ مجھے بتاتی رہی کہ اشتیاق صاحب واپڈا میں ملازم تھے‘ اچھے لوگ ہیں‘ ہم لوگ غور کر رہے ہیں۔ اُن کا بیٹا بھی واپڈا میں ملازم ہے‘ میں نے دعا دی خدا خیر کرے۔
ایک دن ثنا کا فون آیا‘ خالہ جان مجھے آپ سے بات کرنی ہے‘ میں نے کہا بولو چندا میں سن رہی ہوں۔
نہیں ایسے نہیں‘ آپ میرے ساتھ چلیں‘ ہم کہیں باہر پارک میں جا کر بیٹھیں گے۔
یہ کیا بات ہوئی‘ تم میرے گھر آجائو میں ادھر جا رہی ہوں واپسی پر پک کر لوں گی۔
جی بہت اچھا…! ہم گھر آئے‘ میں نے صغرا کو آواز دی جوس کا گلاس لے آئو۔ اب کہو کیا بات؟
میرے ساتھ یونیورسٹی میں ایک لڑکا تھا ثمر ندیم۔ ہماری دوستی تھی لیکن بس کچھ خاص نہیں‘ میں نے کبھی اسے اہمیت نہیںدی مگر اب اس کے اصرار پر دو‘ چار ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ وہ اپنے والدین کو میرے گھر رشتے کے لیے بھیجنا چاہتا ہے۔ آپ مشورہ دیں میں کیا کروں۔
میں نے ایک لمحہ توقف کیا اور پھر اس سے سوال کیا تم اسے اور اس کے خاندان کو کتنا جانتی ہو؟
اس کے بارے میں مجھے کچھ اندازہ نہیں۔
اور اخلاق… مثلاً سچ بولنا‘ وعدہ پورا کرنا‘ کسی کا مذاق نہ اڑانا‘ شائستگی‘ لباس وغیرہ…
ان کا شادی سے کیا تعلق ہے؟ وہ چیں بہ چیں ہو کر بولی۔
بالکل ہے‘ ان سے تو گھرکی بنیاد بنتی ہے۔
اس کے پاس جاب ہے…؟
ہاں کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں ہے۔ فی الحال 50,000 بعد میں پروموشن کے امکانات ہیں۔
تم اسے پسند کرتی ہو… اور تمہارا خیال ہے کہ وہ اچھا جیون ساتھی ثابت ہوگا۔
ہاں خالہ جان اس نے وعدے تو خوب کیے ہیں۔
پھر تم اس کے والدین کو گھر آنے دو‘ دیکھو تمہارے امی ابو کیا فیصلہ کرتے ہیں۔
میں چاہتی ہوں آپ میری سفارش کریں۔
جب تمہاری امی مشورہ لیں گی تو میں کہہ دوں گی‘ فکر نہ کرو چلو اب کھانا کھائیں۔ پھر میں تمہیں چھوڑ آئوں۔
…٭…
ثمر کے والدین آئے‘ انہیں لڑکا پسند آگیا اور خاندان بھی۔ مجھ سے ہاجرہ نے پوچھا میں نے بھی تائید کر دی۔
شادی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ دھوم دھام سے شادی ہو گئی‘ میں واپس آسٹریلیا چلی گئی۔ وہاں ہاجرہ کا فون آیا کہ ثنا خوش نہیں ہے تم اس سے بات کرو۔
میں نے پوچھا بات کیا ہے؟
تم خود پوچھ لو وہ تمہیں فون کرے گی۔ تھوڑی دیر بعد ثنا کا فون آگیا۔
کہنے لگی کہ وہ بہت زیادہ اپنی والدہ پر انحصار کرتا ہے‘ ہر بات اپنی ماں سے پوچھ کر… اس کی اپنی نہ کوئی رائے ہے نہ ہی فیصلہ کرنے کی جرأت ہے۔ اس کی ساری شاپنگ اس کی امی کرتی ہیں‘ اس نے کیا کھانا ہے‘ کہاں جانا ہے ان سب کا فیصلہ اس کی امی کرتی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ میں تو بس فالتو ہوں‘ حتیٰ کہ بال کب کٹوانے ہیں اور کیسا اسٹائل ہونا چاہیے۔ اور کوئی خاص تعلق بھی نہیں بن سکا۔ خالہ جان مجھے لگتا ہے وہ چھوٹا بچہ ہے۔ بڑا ہی نہیں ہوا۔ اس کے ساتھ زندگی کیسے گزرے گی۔
میں اس سے جو بات کروں وہ ماں کو بتا دیتا ہے۔ پھر ناشتے کی میز پر اس کا ذکرتی ہیں تو میں شرمندہ ہو جاتی ہوں۔ سخت کنجوس لوگ ہیں۔ میرا دل تنہائی سے گھبراتا ہے۔
میں نے کہا پریشانی کی بات نہیں‘ اس کو سائیکالوجسٹ کے پاس لے جائو‘ جن بچوں کو بچپن میں بہت زیادہ توجہ ملتی ہے وہ ایسے ہو جاتے ہیں۔ ان شاء اللہ علاج سے ٹھیک ہو جائیں گے۔
وہ بولی اس کے باقی بھائی تو ٹھیک ہے‘ وہ اپنے خود کرتے ہیں۔
میں نے اسے تسلی اور علاج کا مشورہ دیا۔ ساتھ ہی کہا کہ اپنی امی سے کہو کہ تمہاری ساس سے مل کر باقی مسائل گفتگو سے حل کرلیں اس کے بعد کوئی خبر نہ ملی کہ کیا ہوا۔
دو ماہ بعد پتا چلا کہ طلاق ہوگئی ہے۔ بہت افسوس ہوا بڑی پیاری لڑکی تھی اور شادی پر کافی زیادہ اصراف بھی ہوا تھا۔ یہ تو ایک مثال تھی۔ زیادہ تر یہ ہوتا ہے۔ ’’غم آرزو کا حسرت سبب اور کیا بتائوں۔‘‘

حصہ