صبیح رحمانی کی نعتیہ شاعری مابعد جدید تناظر میں

809

زاہد ہمایوں
مابعد جدید نسل کے مزاج کا سب سے نمایاں وصف یہ ہے کہ یہ کسی تحریک یا کسی اجتماعی رجحان سے وابستہ نہیں ہے۔ اس نسل کے شعرا انفرادی طور پر اپنی داخلی کیفیتوں ، دلچسپیوں، محرومیوں اور رنج و راحت کو بیان کرتے ہیں۔ اس نسل کے شعرا اپنی الگ الگ پہچان اور شناخت کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ یہ ان ضابطوں اور رابطوں سے بچنا چاہتے ہیں، جنھیں ان کے پیش رو نسل نے پامال کر دیا ہے۔ یہ نسل اپنی نئی شعریات وضع کرتی ہیں۔ مثلاً:۔

یہ کیسے دور کا سقراط ہو کہ جینا تھا
بجائے زہر مجھے گالیوں کو پینا تھا

(مظہر امام)

ہر اک مقام پہ کبھی دل بدل بھی ہوتے ہیں
بدلنے والے یقیناً سپھل بھی ہوتے ہیں

(رؤف خیر)

مابعد جدید نسل میں ایسے شعرا کی کمی نہیں ہیں جو کہ متعیّنہ قدروں، متعیّنہ ضابطوں اور متعیّنہ راستوں سے بغاوت کرتے ہیں مگر اس باغیانہ فضا میں ایسے شعرا کی بھی کمی ہیں جو کہ اپنے پیش رو شعرا کی اقدار اور طرز پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ معروف نعت گو شاعر صبیح رحمانی کا شمار اس صف میں ہوتا ہے۔ ان کے لیے یہ بات کسی خوش بختی سے کم نہیں ہے کہ:۔

خوش نصیبی ہے کہ سخن میں مرے
طرزِ حسّان دیکھتے ہیں لوگ

یہ تو اللہ عزوجل کے حضور سر بہ سجود ہوتے ہیں:۔

ملے مجھے بھی زبانِ بوصیری و جامی
مرا کلام بھی مقبولِ عام ہو جائے

در اصل مابعد جدید نسل کتنی بھی باغیانہ روش کیوں نہ اختیار کرے وہ اپنے شعور اور لاشعور سے میرؔ، غالبؔ اور اقبالؔ کے اثرات ختم نہیں کر سکتی۔ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے اپنا معروف نمائندہ مضمون ’’روایت اور انفرادی صلاحیت‘‘ اسی مناسبت سے پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ:
’’ہومر سے لے کر اب تک اور خود اس کے اپنے ملک کا سارا ادب، ایک ساتھ زندہ ہے۔ اور ایک ہی نظام میں مربوط ہے۔ کوئی شاعر ، کوئی فن کار تنہا اپنی کوئی الگ مکمل حیثیت نہیں رکھتا۔ اس کی اہمیت اور بڑائی اسے میں مضمر ہے کہ پچھلے شعرا اور فن کاروں سے اس کا کیا رشتہ ہے؟ جس طرح ماضی حال کو متعیّن کرتا ہے، اسی طرح حال ماضی کو بھی بدلتا ہے۔‘‘
مابعد جدید نسل نے متعیّنہ اقدار سے بغاوت کی ہے۔ اس نسل میں مذہب سے بیزاری کا روّیہ ملتا ہے۔ رولنڈ بارتھس کی سب سے معروف تحریر ’’The Death of The Author‘‘ ۱۹۸۶ ء میں پیش کیا۔ اورژاک دریدا نے بھی اسی دور میں ’’Deconstruction‘‘ کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ کوئی مضمون ایسا نہیں ہو سکتا کہ جس کی حیثیت لازماً مرکزی ہو۔
گویا کہ اس دورمیں لامرکزیت، انتشار ، تعدّد، تکثریت، تضاد، افتراق کی فضا عام تھی۔ مابعد جدید نسل کی اس لامرکزیت اور باغیانہ فضا میں ایک جواں سال شاعر صبیح رحمانی اپنےآپ کواس صف میں کھڑا کر دیتا ہے، جہاں مرکزیت ، روایت اور روحانیت کا احیا ہوتا ہے۔
وہ ۱۹۸۹ء میں اپنے نعتیہ مجموعے ’’ماہِ طیبہ‘‘ اور پھر ۱۹۹۳ء میں ’’جادۂ رحمت‘‘ کے ذریعے ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘ کی صداؤں کو عام کرتا ہے۔ ان کی شاعری میں ایسے بہت سے اشعار ہیں جن سے روایت اور روحانیت کا احیا ہوتا ہے۔ چند مثالیں بہ طورِ مشتِ نمونہ از خروارے ملاحظہ فرمائیں:۔

خدا ہی جانے ہمیں کیا خبر کہ کب سے ہے
جو ان کے ذکر کا رشتہ ہمارے لب سے ہے
_____
تلخ گفتار کا ماحول بدلنے کے لیے
تذکرۂ آپؐ کے اخلاق کا کھل کے لکھیں
_____
اتارے جسم و جاں پر اس نے موسم شادمانی کے
بدل دی شہرِ ہستی کی فضا اوّل سے آخر تک
اور کسی جانب کیوں جائیں اور کسی کو کیوں دیکھیں
اپنا سب کچھ گنبدِ خضرا کل بھی تھا اور آج بھی ہے
_____

ان اشعار سے پتا چلتا ہے کہ نعت سے ان کی وابستگی اس وقت بھی تھی جب وہ سنِ شعور و بلوغت تک نہیں پہنچے تھے۔ انھوں نے اپنے زمانے کی تلخی کو بدلنے کے لیے آپؐ کا ذکر بلند کیا تو شادمانی کے موسم دل و جاں میں اترے۔ اس شادمانی کو چھوڑ کر اب انسان کسی اور جانب کیوں کر بڑھ سکتا ہے؟ گویا کہ صحیح معنوں میں انھوں نے مابعد جدید نسل کی لامرکزیت، انتشاراور مذہب بیزار رویّے کو شکست دی ہے۔انھوں نے اپنی ایک نظم میں باقاعدہ طور پر اس کا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے:۔
مارکس کے فلسفۂ جہدِ شکم سے ہم کو
کوئی مطلب ہی نہیں
کیا عرض ہم کو لینن نے دیا کیا پیغام
ہم فرائڈ کے پجاری ہیں نہ ہیگل کے غلام
ہم تو جانتے ہیں
امن و سکون کی خاطر
صرف درکار ہے دنیا کو
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نظام
عقلیّت، داخلیّت اور خود مختاریت، جدیدیت کے یہ تین بنیادی محّرکات رہے۔ مگر جدیدیت میں جس فرد کو اہمیت ملی ہے، وہ بہ قول ڈاکٹر ناصر عباس :
’’وہ جب خود کو تنہا، منقطع اور الگ تھلگ محسوس کرتا ہے۔ تو عقلیّت اس کی جائے پناہ ہوتی ہے۔ اس کی مدد سے وہ اپنی تنہائی کو سمجھتا ہے اور اس دکھ کا مداوا کرتا ہے۔ جو معاشرے سے کٹنے کے نتیجے میں اسے ملتا ہے۔ نیز وہ اپنے اور معاشرے اور کائنات کے رشتے کا ایک نیا تصوّر قائم کرتا ہے اور پھر اس نئے تصوّر سے عائد ہونے والی ذمہ داری کا ادراک بھی کرتا ہے۔‘‘
جدید فردکی داخلیّت پسندی، مردم بیزاری، فراریت، مریضانہ موضوعیّت اور سماج دشمن روش کا باعث بنتی ہے۔ وہ سماج سے کٹ کے رہ جاتا ہے۔ جب کہ تعلیماتِ نبویﷺ ہمیں سماج سے کٹنے کا درس نہیں دیتیں۔ ہمیں تو یہ سبق دیا جاتا ہے کہ اس شخص کی نماز بھی قبول نہیں ہوتی جس کا پڑوسی بھوکا سو جائے۔ صبیح رحمانی انسان کے اس کرب کو محسوس کرتے ہیں۔ اسی لیے وہ ’’اے نویدِ مسیحا دُعائے خلیل‘‘ مانگتے ہیں:۔
نفرتوں کے گھنے جنگلوں میں شہاﷺ
عہدِ حاضر کا انسان محصور ہے
مشعلِ علم و اخلاق سے دور ہے
کتنا مجبور ہے
اے نوید مسیحا
دعائے خلیل
روک دے نفرتوں کی جو یلغار کو
پختگی ایسی دیں مرے کردار کو
آپؐ کا لطف و رحمت تو مشہور ہے

صبیح رحمانی معاشرے سے منقطع نہیں ہوتے، بلکہ وہ خود کو اپنی متعیّنہ روایات سے بھی دور نہیں رکھتے وہ عقلیّت، داخلیّت اور خودمختاریت کے تمام مراحل عشقِ رسولﷺ کے ذریعے ہی طے کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں مردم بیزاری نہیں ہے۔ سماج سے دوری نہیں ہے اور پھر اپنی روایات اسے انسلاک، رغبت اور وابستگی کے پہلوں جلوہ گر ہیں۔ وہ اندھیروں میں در بدر بھٹکتے نہیں ہیں بلکہ اپنے پیامبر کی تعلیمات سے آگہی حاصل کرتے ہیں:۔

نورِ سرکارِ دو عالم کو پکارا میں نے
جب اندھیروں کے قدم وادیِ جاں تک پہنچے

جب وہ گمشدہ سفر کی تلاش شروع کرتے ہیں تو درِ مصطفیٰﷺ تک جا پہنچتے ہیں۔ ادھر سے انھیں زندگی کا نیا شعور اور نئی تازگی ملتی ہے۔ جب اللہ عزوجل خود فرماتا ہے:۔
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ
(رسولؐ کی زندگی تمھارے لیے بہترین نمونہ ہے)
صبیح رحمانی راہِ سیرتؐ میں گم ہو کر انسانی فکر کو ادراک بخشتے ہیں۔
منزلیں گم ہوگئیں
راستے کھو گئے
راہِ سیرت سے ہم ایسے بھٹکے شہاﷺ
خود کو پہچاننا کارِ دشوار ہے
زندگی
ریت کی جیسے دیوار ہے
آپؐ کا در ہمیں
پھر سے درکار ہے
نظریاتی حوالےسے صبیح رحمانی روایت سے جڑتے ہوئے ہیں۔ وہ متعیّنہ ضابطوں اور اقدار سے انحراف نہیں کرتے۔ مگر یہ ان کے فن کا اخلاص اور ریاضت ہے کہ ان کا فن نئے نئے امکانات کی نشان دہی کرتا ہے۔ یہ امکانات ان کے اسلوب سے وابستہ ہیں۔ عصرِ حاضر میں فن پاروں کے اسلوبیاتی اور ساختیاتی مطالعے بڑھتے جا رہے ہیں۔ صبیح رحمانی کے فن میں ایسے امکانات اجاگر کرنے کے روشن گوشے موجود ہیں۔ اسلوبیات، اسلوب کا لسانی مطالعہ ہے۔ جس میں یہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ایک فن میں کون سے خصائص پس منظر سے ابھر کر مصنف کی امتیازی حیثیت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اسلوب کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم بیان کی آرائشی خوبیوں تک محدود رہتے ہیں۔ جبکہ اس کے لسانی خصائص سے محروم رہتے ہیں۔اسلوبیاتی مطالعے سے لسانی خصائص اور امتیازات کی نشان دہی ہوتی ہے اور ان سے شخصی ادراک بھی ہوتا ہے۔ مگر جب ہم ساختیاتی مطالعہ کرتے ہیں تو فرد کی مرکزیت کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ بہ قول ڈاکٹر ناصر عباس:۔
’’ساختیات نے اس جدید اور رومانی تصور فرد کو بے دخل کیا ہے۔ یعنی فرد کو جو مرکزیت حاصل تھی اس کا خاتمہ کیا اور فرد کی مرکزیت کی جگہ سماجی اور ثقافتی کنونشنز کی مرکزیت کا اعلان کر دیا۔‘‘
اسلوبیات لسانی امتیازات اور ادبی اظہار کی ماہیت سے مطلب رکھتی ہے۔ جبکہ ساختیات کا دائرہ عمل پوری انسانی زندگی، تہذیب و تمدّن، سماج و ثقافت اور انسانی تعلقاّت اور رشتوں کے تمام مظاہر پر حاوی ہے۔یعنی ساختیات میں ہر وہ مظہر جس کے ذریعے انسان کا ذہن مختلف معانوں کی ترسیل کرتا ہے یا حقائق کا ادراک کرتا ہے، وہ دلچسپی کا باعث بنتا ہے۔ پہلا تخلیقی تجربہ انفرادی اور شخصی ہوتا تھا۔ جبکہ ساختیات نے اس انفرادی تجربہ کو ثقافتی نظام کا مظہر قرار دیا ہے۔
نعت کی مزاج بندی، تشکیل اور ترتیب و تزئیں میں بھی مذہبی، لسانی، ثقافتی، جغرافیائی اور تہذیبی ضابطوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مسلمان دنیا کے مختلف جغرافیائی خطوّں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مگر حرم پاک، مدینہ منورہ، مکّہ مکرمہ اور روضۂ رسولؐ سے رغبت، وابستگی اور حاضری و حضوری نعتیہ شاعری میں نئے نئے تلازمات و تراکیب کو جنم دیتی ہے۔
صبیح رحمانی کی نعتیہ شاعری میں ساختیاتی مطالعہ کے بہت سے پہلوں سامنے آتے ہیں۔

کیوں نہ دل میں وقعت ہو اس قدر مدینے کی
عرش ادب سے جھکتا ہے خاک پر مدینے کی
_____
جب سمیٹی جائے گی جنّت کی روح
شہرِ طیبہ کی گلی ہو جائے گی
_____
گنبد سبز کو چوما تو نظر نے پایا
حق شناسی کا ثمر دیدہ وری کا ثمر
_____
جو اہلِ دل ہے مدینے کی سمت جاتے ہوئے
متاعِ نعت بھی زادِ سفر میں رکھتے ہیں
_____

اس عہد جبر میں ہر سو محبت کی اذاں گونجے
ہمیں ایسی دعا پھر اے حبیب کبیریا دے دو

ان اشعار میں جو نت نئے تلازمات استعمال ہوئے ہیں۔ مثلاً: مدینے کی خاک پر عرشِ ادب کا جھکنا — گنبد سبز کو چومنے سے دیدوری اور حق شناسی کا ثمر ملنا — مدینے کی سمت جاتے ہوئے نعت کو زادِ سفر بنانا — عہدِ جبر میں محبت کی اذانیں گونجنے۔ یہ سب عوامل و عناصر ثقافتی، تہذیبی اور جغرافیائی ماحول کی تشکیل بندی کرتے ہیں اور ایک خاص سماں کا منظر پیش کرتے ہیں۔ جس سے مقامِ رسالت کی نزاکتوں، وسعتوں اور لوازمات کا پتا چلتا ہے۔
اور پھر صبیح رحمانی ان لوازمات کو کس جدّت اور ندرت سے پیش کرتے ہیں۔ ایسے مباحث مابعد جدید تناظر میں صبیح رحمانی کے نعتیہ کلام کے اسلوبیاتی اور ساختیاتی مطالعے سے پیش کیے جاسکتے ہیں۔ ان کے اسلوب، فن اور موضوعات میں ایسے بہت سے روشن امکانات موجود ہیں جو کہ نت نئی تفہیم و تعبیر کو فروغ دیتے ہیں۔

حصہ