احفاظ الرحمٰن ایک عہدِ صحافت

486

سیمان کی ڈائری
دوسرا حصہ

امتیاز خان فاران(صدر کراچی پریس کلب)۔

احفاظ الرحمان صاحب نڈر،بے باک اورایماندار صحافی تھے۔صاف گو شخصیت کے مالک تھے۔ میں نے اُن کے ساتھ کام کیا جب وہ پی ایف یو جے کے سیکریٹری تھے۔ اُن کے نظریات سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے لیکن اُن کی قابلیت پر شک نہیں کیا جاسکتا۔یعنی جس طرح سے جو کام ہونا چاہیے تھا اُنھوں نے اُسے ویسا کیا۔ احفاظ صاحب منہاج برنا کے قریبی دوستوں میں سے تھے ۔اُنھوں نے جیلیں بھی کاٹیں، نوکریوں سے نکالے بھی گئے مگرصحافت کی آزادی اور صحافیوں کے حقوق کے لیے ہمیشہ سینہ سپر رہے۔ احفاظ صاحب کا دوسرا حوالہ بہ طور شاعر اور نثر نگار کے بھی اہمیت کا حامل ہے۔کئی زبانوں کے تراجم کیے۔شاعری کرتے تھے اور نثر بھی کمال لکھتے تھے۔ اللہ تعالٰی انھیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائیں۔ آمین

ارمان صابر(سیکریٹری کراچی پریس کلب)۔

احفاظ الرحمان صاحب سے ہمارے گروپ کے سیاسی،نظریاتی اختلاف اپنی جگہ لیکن وہ اپنے دور کی بڑی شخصیت تھے۔اپنے دور میں انھوںنے صحافیوں کے حقوق کے لیے عظیم خدمات انجام دیں۔اُنھوں نے جدو جہد کا طریقہ بتایا کہ نامساعد حالات میں کس طرح متحد ہو کر جدوجہدکرنی چاہیے۔پوری زندگی میں صحافیوں کے حقوق کی جنگ میں وہ صحافیوں کو متحد دیکھنا چاہتے تھے کیوں کہ صحافیوں کا اتحاد ہی اُن کے حقوق کے حصول کی ضمانت ہے اور یہ کلیہ ہر دور کے صحافیوں کے لیے رہنما اصول ہے۔اللہ تعالٰی انھیں اپنی جوار رحمت میں خاص مقام عطا فرمائیں ۔ آمین

اے ایچ خانزادہ

احفاظ الرحمان ایک تاریخ ،ایک کرداراور آزادیٔ صحافت کے دستے کے ان آخری چند سپاہیوں میں سے ایک تھے جنھوں نے آزادیٔ صحافت اور صحافت کے عزت ووقار،آبرو کے لیے جنگ لڑی۔بانھوں نے باقاعدہ جدوجہد کی فکری طور پر،عملی طور،زبانی طور پر۔پھرانھوں نے کتاب لکھی۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں تحریر، تقریر اور اظہارِ رائے کی آزادی کے موضوع پر جتنے لوگ آنے والے وقت میں آئیں گے وہ احفاظ الرحمان صاحب کی کتاب’’ـ سب سے بڑی جنگ‘‘ سے استفادہ کریں گے تو انھیں اندازہ ہوگا کہ آزادیٔ اظہار کیا ہے۔آزادیٔ صحافت کیاہے،صحافی کیا ہے ۔احفاظ صاحب کی یوں تو بڑی خوبیاں تھیں۔وہ ایک اچھے قلم کار تھے۔نثر تو ان سے اچھی کون لکھے گا ۔نظم بھی ان کی بہت پختہ روایت تھی۔بہترین شاعری کرتے تھے۔عام انسان کے موضوع پر ان کی گرفت بہت کاٹ دار تھی۔انھوں نے کئی تہذیبوں کو مشرقی تہذیب سے آشنا کرایا۔خاص طور پر چینی تہذیب کو ۔قلم کے محاذ پر اور علم کے محاذ پر احفاظ الرحمان ایک مضبوط پر پہرے دار کے طور پر کھڑے رہے۔انھوں نے اپنے ساتھ والوں کو اور اپنے بعد والوں کو یہ پیغام دیا کہ اگر انسان چاہے تو اپنے علم اور اپنے قلم سے وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو اس دنیا میں خیرو برکت کا باعث ہوسکتا ہے۔احفاظ الرحمان صاحب سے ہمارا سیاسی اختلاف تھا۔سیاسی طور پر ہم کچھ اور طرح سے سوچتے تھے اور وہ کچھ اور طرح سے سوچتے تھے۔اس سیاسی زاویۂ نگاہ کے الگ ہونے کے باوجود میں نے ان کو اپنے سے کبھی دور نہیں پایا۔وہ سچ کے حقائق کے سب سے بڑے طرفدار تھے اور جو صحیح بات ہوتی تھی اس پر ان کا مؤقف وہی ہوتا تھا جو کسی صحیح بات پر کسی صحیح آدمی کا ہونا چاہیے۔ہم دعاگو ہیں کہ اللہ تعالٰی احفاظ الرحمان صاحب کی کامل مغفرت کرے۔ان کی خطاؤں کو درگزر کرے۔ ان کی نیکیوں کو شرفِ قبولیت عطا کرے۔ان کے پس ماندگان کو صبرِ جمیل عطا کرے۔آمین

نصیراحمد

اگر یہ پوچھا جائے کہ احفاظ الرحمٰن کا دوسرا نام کیا ہو سکتا ہے تو جواب ہو گا جہد ِمسلسل ۔ وہ ایک نڈر اور بے باک صحافی دانشور شاعر اور نقاد تھے جن کی تحریریں اور پوری زندگی عملی جدوجہد کا بین ثبوت ہے ۔ اگر ان کے روز و شب نظر ڈالی جائے تو یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ہمہ قسم کے جبر اور نا انصافی کے خلاف بلا خوف و خطر آواز بلند کرنا اُن کی گھٹی میں شامل تھا ۔ وہ بچین ہی سے مطالعے کے شوقین تھے جس نے ان کی سوچ میں ظالمانہ نظام کے خلاف بغاوت اور جدوجہد کی آبیاری کی۔ انہوں نے زمانۂ طالب علمی ہی سے اس جنگ میں حصہ لیا شروع کیا ۔ حقوق کے حصول اور انصاف کی سربلندی کیلئے اُن کی یہ جدوجہد زندگی کی آخری سانس تک جاری و ساری رہی۔ احفاظ الرحمٰن اردو کالج میں این ایس ایف سے متعارف ہوئے ۔ معراج محمد خان ان کے آئیڈیلز میں شامل تھے ۔ احفاظ الرحمٰن کی تحریریں نوجوانوں کے ذہنوں میں سوچ کے نئے در وا کرتی تھیں ۔ انہوں نے پاکستان میں تینوں فوجی آمرانہ ادوار میں چلنے والی تحریکوں میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ میرا اُن سے تعلق چوتھائی صدی سے زیادہ عرصے پر محیط ہے ۔ مجھے جنگ میگزین اور تنظیمی طور پر ان کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے ۔ ضیاء الحق کے آمرانہ دور میں تحریکِ آزادیٔ صحافت کو کامیابی سے منظم کرنے میں ان کا نمایاں کردار تھا۔ اس تحریک کے واقعات کو احفاظ الرحمٰن نے اپنی کتاب’’ سب سے بڑی جنگ ‘‘میں قلم بند کیا ہے جو ایک تاریخی دستاویز ہے۔ یہ کتاب احفاظ الرحمٰن نے کینسر جیسے موذی بیماری سے جنگ لڑتے ہوئے قلمبندی کی ہے جو اُن کا ناقابل فراموش کارنامہ ہے ۔

غلام محی الدین

احفاظ الرحمان صاحب سے میرا تعارف اس زمانے میں ہوا جب میں اپنی ملازمت کے سلسلے میں اُن کے ہاںگیا۔خیرآباد میں سرِراہ طاہر حسن سے ملاقات ہوئی توگفتگو کے دوران انھوں نے بتایا کہ احفاظ صاحب کام کے معاملے میں سخت گیر ہیں لیکن تمہیں سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ تم اُن کے پاس کام سیکھ لو گے۔ احفاظ صاحب نے میرا انٹرویو نہیں لیا، بس اتنا کہا کہ کیا کرو گے تو میں نے بتایا کہ میں کراچی کی بستیوں پر فیچر لکھنا چاہتا ہوں ۔ انھوں نے کچھ اور پوچھے بغیریہی کہا کہ ٹھیک ہے تمہاراجہاں جی چاہے بیٹھ جاؤ اور کام کرو۔ شاید انھوں نے مجھے بلانے سے پہلے ہی میرے بارے میں معلومات لے رکھی تھیں۔ انھوں نے مجھ پر بھروسا کیا ہے اورمیں نے کراچی کی سیکڑوں بستییوں سے متعلق کام شروع کردیا بہ حیثیت ایڈیٹر انھوں نے نہ صرف میری املا درست کرائی بلکہ یہ بھی سکھایا کہ اردو نثر کیسی ہونی چاہیے۔ سادہ اور آسان زبان۔ زبان کے معاملے میں کوئی سمجھوتا نہیں کرتے تھے۔ احفاظ صاحب صفحہ چیک کرنے بیٹھتے تو ایک ایک سطر، ایک ایک لفظ کو غور سے پڑھتے تھے۔ اس حوالے سے میں نے احفاظ صاحب سے اور اپنے ساتھیوںسے بہت کچھ سیکھا۔ میرے ایک ذاتی واقعے میں جہاں میرے بہن بھائیوں کو میرے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے تھا، وہاں احفاظ صاحب میرے ساتھ کھڑے تھے۔ مجھے کہتے میں تمہارا بڑا بھائی ہوں۔ ٹریڈ یونین کے معاملے میں ان جیسا کوئی نڈر بے باک لیڈر نہیں تھا۔ صحافیوں کے ساتھ ہونے والی معاشی نا انصافیوں کے خلاف خاص کرکسی کی نوکری کا مسئلہ ہوتا تو سب اے پہلے احفاظ صاحب کھڑے ہوتے۔ اُن کا معمول تھا کہ وہ صبح سویرے دفترکتاب پڑھتے ہوئے آتے تھے۔ جب اُنھوں نے جنگ چھوڑا تو مجھے قائم مقام بنا دیا گیا تھا۔ ان کی قربت میں جتنا وقت مجھے ملا میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ۔ ان کے جانے سے یہ خلا کبھی پر نہیں ہوگا ۔

فاضل جمیلی

احفاظ الرحمان صاحب کے جانے سے ایک تو اجتماعی طور پر بہت ہی دکھ اور افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔خاص طور پرصحافت اور اہلِ صحافت کے جو حلقے ہیںاُن کے درمیان ۔احفاظ صاحب بہت ہی نفیس انسان اور بہت بڑے صحافی تھے۔شاعر تھے اوراپنے اصولوں پر ڈٹ جانے والے اَور کبھی بھی اپنے نظریات،اصولوں اور خیالات پر سمجھوتہ نہ کرنے والے۔میں اس کو اجتماعی سے زیادہ اپنے دکھ کے طور پر بھی دیکھتا ہوں۔کیوں کہ احفاظ صاحب کے ساتھ جو میرا ایک تعلق،عزت احترام اور محبت کا جو رشتہ رہا وہ کوئی لگ بھگ ستائیس،اٹھائیس سال پر محیط ہے ۔ میرا صحافتی کیرئیر جب شروع ہوا تو وہ یہاں نہیں تھے وہ اس وقت چائنا میں تھے لیکن وہ نوے کی دہائی کے اوائل میں واپس آ گئے تھے اور آتے ہی انھوں نے جنگ میں دوبارہ ملازمت اختیار کر لی تھی۔اُس وقت مَیں،انور سن رائے اور نذیرلغاری پبلک اخبار میں تھے تواُنھی دنوں کراچی پریس کلب کے پلیٹ فارم سے احفاظ صاحب سے ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا ۔اُن سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا تھا۔خاص کرجو صحافتی تنظیمیں ہیں اور ہماری جو مدرآرگنائزیشن ہے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ اُس کی ایک تاریخ جو وہ بتایا کرتے تھے کہ ایک trade unionistکیا ہوتا ہے۔اُس کو کیسا ہونا چاہیے ۔اُس کو اپنے کام میں کتنا کامل ہونا چاہیے۔کیوں کہ فی زمانہ میں یہ دیکھتا ہوں کہ ٹریڈ یونین وہ لوگ آ جاتے ہیںجو کام نہیں کرنا چاہتے لیکن ہمیں جو احفاظ صاحب کے ذریعے ،اُن سے بھی پہلے نثار عثمانی صاحب،برنا صاحب،عبدالحمید چھاپرا صاحب تو ان کی وساطت سے ہمیںجو تربیت ملی وہ یہ تھی کہ اچھا trade unionist وہ ہے جو اپنے کام میں کامل ہے،اپنے کام میں سچا ہے،اپنے کام کو ایمانداری کے ساتھ سرانجام دیتا ہے تو وہی بہتر انداز میں کسی بھی شعبے میں بہتر رہنمائی کرسکتا ہے۔جب ان کی کتاب ’’سب سے سے بڑی جنگ‘‘آئی تو اُس وقت میں پریس کلب کا صدر تھا ۔میری یہ خواہش اور کوشش تھی کہ کتاب کی تقریب کراچی پریس کلب میں رکھیں لیکن وہ ناراض تھے اور احمد شاہ کے عشق میں مبتلا تھے۔میرے لیے انھوں نے حکم صادر کیا کہ اِس تقریب کی نظامت آپ کریں گے۔مجھے سینئرز صحافیوں نے بہت منع کیا کہ آپ پریس کلب کے صدر ہیں اور صدر نظامت نہیں کرتا۔ میں نے کہاکہ میں احفاظ صاحب کے سامنے کوئی صدر ودر نہیں ہوں۔اُن کا حکم ہے تو میں کروں گا۔پی ایف یو جے کی میٹنگز کے دوران ہم نے لاہور،اسلام آباد،پشاور،کوئٹہ ایک ساتھ بہت سفر کیے ۔ میٹنگز کے دوران جھگڑے بھی ہوتے تھے اور شام میں کہیں بھی بیٹھنا ہوتا تو میرے ساتھ ہی بیٹھنا پسند کرتے تھے۔ایک عہد تھا جو گزر گیا۔ میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ صحافتی جدو جہدکا آخر اگر کوئی سپہ سالار تھا تو وہ صرف احفاظ الرحمان تھا۔ان کے ہوتے ہوئے بھی ان کی بیماری کے دوران تنظیموں کا حال آپ نے دیکھ ہی لیا تھا۔اسی وجہ سے وہ تنظیموں سے کنارہ کش ہو گئے تھے۔ جب اُن کی آواز نہیں گئی تھی تو مجھ سے کہا تھا کہ آپ بھی ان چیزوں کو چھوڑ دیں اور سار ی توجہ صرف اپنے لکھنے پڑھنے کے کام پر مرکوز کر دیں ۔

خالدمعین

احفاظ الرحمان ایک ہمہ جہت شخصیت رہے ہیں اور ان کی ہرجہت ہی قابل داد رہی ہے۔صحافت کے حوالے سے احفاظ صاحب ایک ایسے سنہری دور سے تعلق رکھتے ہیںجہاں صحافت وقتی مشغلے کے طور اختیار نہیں کی جاتی تھی۔بلکہ صحافت کا مطلب علم و ادب،تہذیب اور شائستگی اورخاص طور پر اخلاص اور ایمان داری کے جز شمار کیے جاسکتے ہیں۔احفاظ الرحمان صاحب اس نسل کے آدمی تھے جوتقریبا اَب ناپید ہو چکی ہے۔ انھوں نے اپنی ساری زندگی اُن افکار کے تحت گزاری جن پرانھیں یقین رہا۔ وہ ترقی پسند خیالات کے حامی تھے اور بڑی ثابت قدمی سے وہ اس پر عمل پیرا رہے۔نوجوانی کا دور بھی ان کا جدوجہد سے عبارت ہے بلکہ ساری زندگی انھوں نے جدوجہدکی۔وہ ایک فائٹر آدمی تھے۔بہ طور میگزین ایڈیٹرانھوں نے مختلف اخبارات میں شاندار اور یادگار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔انھوں نے دونسلیں تیار کیں جو ان کے ساتھ کام کرنے والے تھے۔بہ حیثیت میں شاگرد تیرہ برس تک اُن کے ماتحت رہا اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ان کی شخصیت بڑی دلآویز تھی،وہ بڑے خوش مزاج اورخوش سخن بھی تھے۔علم کا معاملہ ان کا بنیادی تھا۔ ایک حیثیت سے وہ ایسے استاد بھی کہے جا سکتے ہیں جو تھوڑا سخت گیر بھی تھا۔وہ خود بھی اس پر عمل پیرا رہتے تھے کہ کوئی غلطی نہ جائے۔ان کی اپنی تحریروں میں بھی اور اس میگزین میں بھی جہاں وہ بہ طور ایڈیٹررہے ۔ایسی کوئی غلطی اگر ان کے علم آئے تو بہت بدمزہ ہو جاتے تھے۔ترجمہ نگاری میں ان کی خاص طور پر جو چینی کہاوتیں اور کہانیاں انھوں نے ترجمہ کی ہیں۔بعض ناول اور شاعری کے ترجمے کیے ہیں وہ بہت شاندار ہیں۔اس کے علاوہ ان کی نثرنگاری بہت کمال کی ہے۔وہ لکھتے کم تھے لیکن جب لکھتے بہت مرصع انداز میں، فکری انداز میں اور زبان و بیان کے پورے قواعد کو برتتے ہوئے وہ تحریریں لکھتے تھے جو کاغذ پہ آکے بہت کھِل جاتی تھیں،بہت زندہ محسوس ہوتی تھیں۔ان کی شاعری کو اگر دیکھا جائے تو ان کے ہاں ایک انقلابی گونج کے ساتھ ان کی شاعری ہے ان کی نظمیں ہیںاور انسان دوستی کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ا ن کی شخصیت کے بہت سارے رخ ہیں۔ ہر رخ بہت جاندار ہے ۔ان کا یوں چلے جانا اردو صحافت کے لیے ہی نہیں بلکہ شاعری کے لیے، نثر کے لیے، ترجمے کے لیے ،ان کے شاگردوں کے لیے اوراُن کے دوستوں کے لیے ایک بہت بڑا خلا ہے جو شاید کبھی پر نہیں ہوگا۔

فاروق عادل

احفاظ صاحب سے میرا براہ راست رابطہ کبھی نہیں رہا۔ یوں کہہ لیجئے کہ میں ان کا دُور کا ایک جاننے والا تھا، لہذا ان کی شخصیت کا مشاہدہ بھی میں نے دُور ہی سے کیا۔ میرا احساس یہ ہے کہ وہ ایک خاموش طبع اور سنجیدہ مزاج انسان تھے جو انتہائی ضرورت کے وقت بات کرتے(یہ ان کی شدید علالت سے بہت پہلے کی بات ہے) اورجو بات کہہ دیتے، حرفِ آخر ہو جاتی۔ اس طرح کے لوگ انتہائی گہرے اور اپنے مقاصد پر نگاہ رکھنے والے ہوتے ہیں۔ میری اُن سے ایک ہی ملاقات ہوئی۔ پریس کلب کے انتخابات کے سلسلے میں ہم کچھ دوستوں کے ہمراہ اُن کے گھر گئے تو ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہ ہمیں اپنے گھر کے لاؤنج میں لے گئے اور کافی دیر تک اس بے تکلفی کے ساتھ گپ شپ کی کہ میرے تاثر میں ترمیم ہوگئی کہ وہ سنجیدہ مزاج تو ہیں لیکن خوش مزاج اور ایسے متواضع ہیں کہ لوگوں کے دل میں گھر کر جائیں۔ یہ دنیا ایسے لوگوں سے خالی ہوتی جارہی ہے جو اختلاف کے باوجود انسان کو انسان سمجھے اور ان کے ساتھ رشتے بنائے۔ اللہ تعالیٰ احفاظ صاحب کی مغفرت فرمائیں اور ان کی خطائیں معاف کر کے اپنے قرب میں اعلی مقام عطا فرمائیں۔آمین

معصوم رضوی

نثار عثمانی، منہاج برنا اور اب احفاظ الرحمان صاحب، قلم کی حرمت میں علم بغاوت بلند کرنیوالے رخصت ہوئے، شہر آشوب میں سچ کا کال پڑ چکا ہے۔ قلم کی حرمت کی داستان قصہ پارینہ بن چکی ہے، حرف و لفظ دربار میں دست بستہ اور بازار میں بر سر نیلام ہیں، پہلے صحافی مفلوک الحال مگر قلم معتبر و محترم تھا، اب صحافی الحمداللہ خوشحال ہے مگر قلم کے تقدس کو گروی رکھ کر، اچھا ہوا احفاظ بھائی دنیا سے رخصت ہوئے وگرنہ صحافت کو باقاعدہ تجارت بنتے دیکھ کر جانے کیا گزرتی۔ احفاظ بھائی سے ملاقات اس دور میں ہوئی جب وہ جنگ میگزین کے انچارج تھے، شاندار شخصیت، ملاقات پہلے ہوئی اور تعارف بعد میں ہوتا گیاکیونکہ احفاظ صاحب صرف صحافی نہیں بلکہ دانشور تھے۔ چین میں گزارے دن، غیر ملکی نظموں کے تراجم، فکر انگیز مضامین، دھیمے لہجے میں مدبرانہ گفتگو اور مدھر مسکراہٹ، ان سے مل کر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ شائستہ اور نستعلیق شخص ضیا اور مشرف کی آمریت کے خلاف چٹان، ظلم و جبر کے خلاف شمشیر برہنہ اور تحریک صحافت کا سپہ سالار رہا ہے۔ کہتے ہوئے افسوس تو ہوتا ہے مگر حقیقت یہ ہے احفاظ الرحمان، نثار عثمانی اور منہاج برنا کے قبیلے کے فرد اخر تھے، اب تو صحافت ایک سمجھوتہ بنتی جا رہی ہے۔ احفاظ بھائی نہ بکے، نہ جھکے، نہ سمجھوتے کیے اور نہ ہی اللہ کے حضور شرمندہ ہوںگے، حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔

حصہ