آخری موقع؟۔

384

عالیہ زاہد بھٹی
کل شب جمعہ رو رو کر استغفار… آج یومِ جمعہ رورو کر اجتماعی دعا و تذکیر… جہاں ایک طرف یہ غم کہ نمازوں کی ادائیگی مساجد میں نہیں ہوئی،نماز جمعہ کے بجائے ظہر کی نماز… مگر الحمدللہ باجماعت… جی گھروں میں جماعت! کون سے گھر…؟ وہ گھر کہ جہاں جمعہ کی نماز بغیر روح کے خالی جسمانی نماز جلدی جلدی ادا کرنے کے بعد یا تو گھروں کو واپس آنے کھانے پینے اور دیگر مشغولیات میں گم ہوجاتے تھے یا پھر دفاتر اور دیگر شعبہ جات کو لوٹ جاتے تھے۔
وہ شب جمعہ کی گریہ وزاریاں، وہ یومِ جمعہ کی آہ و زاریاں،وہ مسلم امّہ کی فکری مباحث، وہ داد رسی ،وہ خیر خواہی جو میرے رب کو اس پیارے دن جمعہ سے مطلوب تھی ان سب سے ہم کوسوں دور تھے۔ جمعہ کے دن کی سنتیں، اُس دن کے صدقے خیرات وعیادت کا ثواب دگنا کے تصورات عنقا، جلدی جلدی بس جلدی ایک دوڑ تھی۔ لگتا ہے کہ رب ناراض تھا، نمازی سے بھی اور بے نمازی سے بھی، روزہ رکھنے والوں سے بھی اور روزہ نہ رکھنے والوں سے بھی، زکوٰۃ دینے والے سے بھی اور نہ دینے والے سے بھی… حج کرنے والے سے بھی اوراستطاعت ہو کر بھی حج نہ کرنے والے سے بھی… صلہ رحمی کرنے والوں سے بھی اور صلہ رحمی نہ کرنے والوں سے بھی کیوں؟ فرائض کی ادائیگی نہ کرنے والوں سے ناراض ہونا تو سمجھ آتا ہے مگر فرائض انجام دینے والوں سے بھی اللہ ناراض ؟ یہ کیا؟ اللہ تو قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ’’نیکی کرنے والے اور نہ کرنے والے برابر نہیں۔‘‘ پھر ایسا کیا ہو گیا کہ پڑھنے والے اور نہ پڑھنے والے‘ دونوں کو ہی اپنی مساجد سے نکال دیا… اس وجہ کو جاننے‘ سمجھنے کی کوشش کریں اور اس کا مداوا کریں کہ اللہ بہت مہربانی کرنے والا ہے‘ وہ جلد مان جاتا ہے منا کر تو دیکھیے۔نہ کرنے والوں کو تو الگ کر دیں وہ اپنا جواب خود دیں گے۔ میں اور آپ تو اتباع کرنے والے تھے ناں… ہم تو دین سے منہ پھیرنے والے نہیں تھے… ہم تو فرائض انجام دینے والوں میں سے تھے‘ ہم تو سب نیک اعمال کی فکر میں غلطاں تھے… ہم تو اپنے اپنے حلقوں میں پوچھا کرتے تھے ناں کہ کتنی بار اور کس طرح یہ اسم اعظم پڑھ لیں تو اللہ راضی ہو جائے گا؟ کون سے وظیفے سے کامیابی ملتی ہے‘ کس ورد کا حصار باندھ لوں تو میرے کا آسان ہو جائیں گے، اور پتا نہیں کیا کیا… پھر ہم سے اللہ ناراض؟ جی میرے پیارے اللہ کے بندوں! میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں! ہم شاید بھول بیٹھے تھے کہ یہ قرآن کی آیات صرف میرے بچوں کی تعلیمی قابلیت کے لیے‘ رشتوں کی بندش دور کرنے، نکاح کے خطبے کو پڑھنے کے لیے‘حاجات کے پورا کرنے کے لیے‘ مناجات منوانے کے لیے نہیں اتری تھیں… یہ آیات تو خیر اور شر‘ نیکی اور بدی‘ سچ اور جھوٹ‘حق اور باطل‘ حزب اللہ اور حزب الشیاطین کے مابین فرق سمجھانے کے لیے اتری تھیں۔
یہ آیات تو جنت اور دوزخ کے راستے کے راہی کی نشاندہی کرنے کے لیے اتری تھیں‘ یہ آیات تو صراط مستقیم، یعنی سیدھے اور سچے راستے پر چلانے کے لیے روشنی لے کر اتری تھیں تاکہ مجھے یہ راستہ نظر آجائے اور میں بھٹکنے سے بچ جاؤں… مگر یہ کیا…؟ہم نے کہا کہ دین کے ساتھ دنیا بھی تو ہے؟ ہم نے کہا سب ٹھیک ہے بجا ہیں قرآن کے احکامات مگر زمانہ بھی تو ہے…زمانے کے ساتھ چلنا پڑتا ہے… کہاں گیا آج زمانہ؟ کدھر گئے دنیا کے کام دھندے؟ وہ ایم بی بی ایس؟ وہ انجینئرنگ؟وہ میٹرک انٹر کے امتحانات؟ وہ ایم اے، بی اے، پی ایچ ڈی؟ سب کو ایک ہی فکر جان بچاؤ کورونا ہے… گھر میں رہو محفوظ ہو۔ ارے قرآن میں بھی تو اللہ نے کہہ دیا تھا کہ ’’گھروں میں قرار پکڑو۔‘‘ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تو بتا دیا تھا کہ گھر اور مساجد اللہ کی پسندیدہ جگہیں ہیں اور بازار ناپسندیدہ‘ کل وقت نہیں تھا دل جمعی سے عبادات کے لیے اور آج وقت ہی وقت ہے یہ وقت صدا لگا رہا ہے کہ کل تم نے مجھے گلیوں اور بازاروں میں گھوم پھر کر برباد کر دیا تھا اور آج تم اسے کورونا کے ہونے اور نہ ہونے کی بحثوں میں‘ احتیاط کی جائے یا توکل، گھروں میں نماز پڑھیں یا مساجد میں ان بحثوں میں وقت ضائع کر رہے ہو۔ یہ وقتِ فرصت، یہ مہلت عمل دی گئی ہے ہر اس فرد کو جوکورونا سے بچ کر بھی موت کو یاد رکھے ہوئے ہے کہ مجھے میری دنیا کی مصروفیات سے ہٹا کر میرے رب نے اپنے لیے خالص ہو جانے کا موقع دیا ہے ریا کاری اور دنیا داری سے ماورا ہو کر صرف اس ایک رب کے لیے۔ مساجد میں جب نماز پڑھی جارہی تھی تو ان نمازوں میں اپنی کیفیت اور آج شرمندگی اور ندامت سے لبریز اپنی کیفیت دیکھیے۔ مساجد میں جا کر بھی دل گھروں اور کاموں میں لگے تھے اور آج مساجد میں نہ جاسکنے کی ندامت کہ بے نمازی بھی کانپ کانپ کر اذانیں دینے اور نمازیں پڑھنے بیٹھے ہیں اور نماز پڑھی نہیں قائم کی جارہی ہے کہیں کسی کو راشن پہنچانے کی فکر‘ تو کہیں آن لائن قرآن سے جڑنے اور جوڑنے کی فکر… کہیں نیکیوں پر ریا کاری سے بچنے کا اہتمام تو کہیں دل آزاری سے بچنے کا اہتمام‘ گھروں میں بیٹھے ہیں مگر دل سجدہ ریز ہیں اجتماعی توبہ اور استغفار، اللہ کی ناراضی دور کرنے کے لیے عملی کوششیں‘ سودی نظام پر شرمندگی، غیر اللہ کی اطاعت پر ندامت، اپنے گمراہ کن عقائد پر ندامت، دین کو قائم کرنے کی جدوجہد کا عہد‘ اپنی ذریت کی نمازوں اور اعمال کی فکر، بطور گھرانہ ایک خاندان ایک اکائی‘ ایک بنیاد کی درستی کی فکر اور اس پر کام کا آغاز۔
جہاں جہاں یہ عملی استغفار ہو رہا ہے تو یہ سب کچھ بہت خوش آئند ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ ہم سے ناراض نہیں ہے وہ ہمیں صرف درست ٹریک کی جانب گامزن کرنا چاہتا ہے اس لیے بغیر پریشان ہوئے اللہ پاک سے مدد مانگتے ہوئے اسی طرح امن کی حالت میں دجّال سے دجّالی فتنوں سے جنگ کے لیے تیار ہو جائیں اور اپنی ذریت اور پوری امتِ مسلمہ کو تیار کرنے کی کوشش کریں اور اگر ہماری حالت اس کے برعکس ہے تو اپنا احتساب کریں اور جلد سے جلد واپس پلٹ آئیںکہ کورونا تو ایک بہانہ ہے اس سے بچ بھی گئے تو موت کو تو آنا ہی آنا ہے کسی اور روپ میں آجائے گی۔ رہا سوال،کفن دفن کا تو اس کا خوف نہ کریں کہ بے گورو کفن اور بے جنازہ تدفین ہوگی یہ سب تو موت کے بعد کے لوازمات ہیں ہمیں ان معاملات سے مرنے کے بعد کوئی سروکار نہیں ہوگا کہ ہم تو روح نکلنے کے ساتھ ہی حساب کتاب کی فکر میں مبتلا ہو جائیں گے کوئی ہمیں کس طرح کفناتا ہے اور کیسے دفناتا ہے یہ اُس وقت ہماری فکر نہیں ہوگی۔ مکہ کے رئیس ترین مصعب بن عمیر کے کفن کو اور ان کے رتبے کو یاد کر لیں۔ حضرت حمزہؓ کی شہادت اور ان کے مقام و مرتبے کو سوچیں اور ان کی لاش کی ہندہ کے ہاتھوں بے حرمتی پر بھی نظر ڈالیں۔ ہمارے شہید فوجی جوانوں کی، دین کے مجاہدوں کی دیارِ غیر میں شہادتیں تصور کریں اور ان کے بے گور و کفن لاشوں اور بے مقام قبروں کو یاد کریں، اُمتِ مسلمہ پر آزمائش کے بعد ان کی اجتماعی گڑھوں سے ملنے والی لاشوں کا تصور کریں۔ اہم یہ نہیں کہ ہم کورونا سے نہ مریں، اہم یہ ہے کہ ہم اللہ کی نافرمانی کی حالت میں نہ مریں… بس اللہ ہمیں معاف فرما کر سعادت والی زندگی اور شہادت والی موت عطا فرمائے‘ آمین۔

حصہ