الیکٹرانک میڈیا پر مشاعرے کے بجائے ’’مساخرے‘‘ ہورہے ہیں‘ باقی احمد پوری

457

نثار احمد نثار
تقسیم ہند سے لے کر اب تک ادب کا دیانت داری سے جائزہ لیا جائے تو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے کہ ہماری زبان و ادب دونوں روبۂ زوال ہیں۔ا ردو زبان کا زوال تو اسی وقت شروع ہو گیا تھا جب برصغیر سے فارسی کو دیس نکالا گیا تھا اور اس کی جگہ انگریزی کو ہر شعبے میں دخل اندازی کی کھلی چھوٹ دے دی گئی تھی۔ جب ہمارے یہاں انگریزی کا چلن عام ہونا شروع ہوا‘ اس وقت کا عصری انگریزی ادب پہلے سے زوبہ زوال ہو چکا تھا اسی لیے نصابی حد تک اسی انگریزی ادب کو شاملِ نصاب کیا گیا جس کو ہم انگریزی کا کلاسیکل ادب کہہ سکتے ہیں۔ اردو زبان کی شیرینی فارسی سے مشروط ہے لیکن ہمارے مادی و معاشی مسائل حل کرنے والوں نے غیر محسوس انداز سے ہمیں اس زبان سے دور کر دیا۔ ’’پڑھو فارسی‘ بیچو تیل‘‘ جیسے محاورے گھڑ کر عوام میں پھیلائے جنہیں سن کر لوگ خود ہی فارسی لکھنے پڑھنے سے کنارہ کش ہو گئے۔ اب فقط اپنے ہمسایہ ملک ایران کو مطمئن کرنے کے لیے فارسی کا مضمون نصاب میں شامل رکھا گیا مگر یہ لازمی مضمون نہیں تھا بلکہ اس کی حیثیت اختیاری ہے اسی لیے یونیورسٹی لیول پر چند ایک طالب علم اس مضمون کا چنائو کرتے ہیں اردو زبان کو دوسرا سب سے بڑا نقصان غیر ضروری میڈیا اور اس کے غیر تربیت یافتہ عملے نے پہنچایا۔ املا اور تلفظ کی ایسی ایسی غلطیاں سامنے آتی رہتی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ جہاں تک فی زمانہ اردو ادب کا تعلق ہے میں یہ بات برملا کہتا آرہا ہوں کہ ہمارا ادب 73 سال سے اب تک یرغمال بنایا ہوا ہے۔
کئی قسم کے مافیاز نے ادب سے جڑے ہوئے مالی وسائل اور فوائد حاصل کرنے کے لیے مقتدر حکومتی شخصیات سے ساز باز کرکے ہمارے حقیقی ادب کو پروموٹ ہی نہیں ہونے دیا۔ میڈیا پر چند لوگوںنے پاکستان بنتے ہی قبضہ کر لیا تھا جو آج تک برقرار ہے ہمارے قومی میڈیا نے چند ناموں کو اتنا پروموٹ کیا کہ لوگ سمجھ بیٹھے کہ ان کے علاوہ پاکستان میں اور کوئی ادیب و شاعر ہی نہیں۔ سرکاری مشاعروں‘ ادبی کانفرنسوں میں یہی گنتی کے چند لوگ مدعو کیے جاتے ہیں‘ انہی کو اور ان کے نامزد کردہ چند لوگوں کو صدارتی ایوارڈ اور تمغہ ہائے امتیاز سے بار با نوازا جاتا ہے۔ اس غیر منصفانہ حکومتی رویے سے ملک کے تمام صوبوں کے ادیبوں اور شاعروں میں احساس محرومی پایا جاتا ہے۔ ادبی اداروں میں 2017ء تک جو تقرریاں ہوتی آئی ہیں‘ ان کا ادبی حوالے سے کوئی جواز نہیں تھا۔ شاہانہ قسم کے حکمرانوں نے اپنے خوشامدیوں کو نوازا اور اہل قلم کاروں کو نظرانداز کیا جس سے ادب کو بہت نقصان پہنچا۔ ایسا لگتا تھا کہ ادبی اداروں میں جو طاقت ور لوگ تعینات ہوتے ہیں وہ تاحیات ہوتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ موجودہ عمرانی حکومت نے کم از کم اس روش کو بدلا اور بہت سے سفارشی لوگوں سے جان چھڑائی۔ اکادمی ادبیات میں ڈاکٹر یوسف خشک صاحب کی بطور چیئرمین خاص میرٹ پر تقرری ہوئی ہے اس پر پاکستان کے جینوئن ادیبوں اور شاعروں نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ مزاح کے نام پر مسخرے اور مخولیے قسم کے لوگوں کو میڈیا پر‘ پروموٹ کرنے کی گھنائونی سازش کسی ادب دشمن نے تیار کی اور وہ کامیاب ہوا۔ اب الیکٹرانک میڈیا پر اور سرکاری سطح پر زیادہ تر مشاعروں کے بجائے ’’مساخرے‘‘ منعقد ہونے لگے ہیں اور ان میں ہاہا‘ ہی ہی‘ ہو ہو کا ماحول بنانے والوںکو بھاری معاوضے دیے جاتے ہیں۔ نئی نسل اب انہی کو شاعر سمجھ رہی ہے۔ مشاعروں پر قابض ہونے کے لیے برادری قسم کا گروپ بھی معرض وجود میں آگیا ہے اور اس مخولیہ گروپ سے ایڈجسٹمنٹ کرکے ادب کے زوال کی رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔ ادب کے زوال کی اور بھی بہت سی وجوہات ہیں الیکٹرانک میڈیا‘ فیس بک اور یو ٹیوپ جیسے اداروں نے جہاں تشہیر کی سہولت فراہم کی وہاں موقع پرست اور سطحی قسم کے شاعر دندناتے پھرتے ہیں ان میں قصور جینوئن شاعروں اور ادیبوں کا بھی ہے کہ وہ ان جدید سہولیات کو اہمیت نہیں دے رہے اور وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی شہرت ایک دن سینہ بہ سینہ دور تک پھیل جائے گی اس تساہل کی وجہ سے جینوئن ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقات بہت کم فیس بک پر نظر آتی ہیں۔ نئی نسل جس قسم کا ادب پڑھے گی وہ اسی کو اہم سمجھے گی۔ ہمارے ادب کو ہمارے نصابی قسم کے نقادوں نے بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے انہوں نے شروع سے ہی نصاب میں ڈالے گئے چار پانچ شاعروں‘ ادیبوں کے نام رٹ رکھے ہیں اس سے وہ باہر نہ خود نکلتے ہیں نہ نئی نسل کو اس دائرے سے باہر آنے دیتے ہیں۔ میرا جی‘ ن۔م راشد‘ منٹو‘ مجید امجد اور بس۔ ہمارے ان نصابی پروفیسر نقاد حضرات کو عصری ادب کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھنے کی فرصت نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ نئی نسل مایوسی اور بے حسی کاشکار ہوتی چلی جارہی ہے ہمیں آج جتنی مزاحمتی شاعری کی ضرورت ہے پہلے کبھی نہیں تھی لیکن اس طرف سے توجہ ہٹانے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعے مخولیے اور مسخرے لوگوں کو شاعر بنا کر پیش کیا جارہا ہے تاکہ قوم سنجیدہ فکر سے محروم ہوجائے۔

اُس قوم کو ادب سے کیا فیض ملے گا
جس قوم کے ادب پر قبضہ ہو مسخروں کا

ہمیں چاہیے کہ ان تمام منفی رویوں کی نشاندہی کریں اور باقاعدہ آگاہی مہم شروع کی جائے تاکہ نئی نسل اپنے اصل ادب سے محروم نہ رہ جائے۔ کتاب کلچر کو حکومتی سطح پر پروموٹ کیا جانا چاہیے۔ کتاب کلچر کے فروغ کے لیے جو ادارے بنائے گئے ہیں انہیںچاہیے کہ میرٹ پر پاکستانی ادیبوں‘ شاعروں کی کتب شائع کریں اور مصنفین کو رائیلٹی بھی دیں۔ اب تک تو اندرون سندھ‘ بلوچستان‘ سرائیکی علاقہ جات اور اندرون پنجاب کے کئی علاقوں کے ادیبوں‘ شاعروں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ سرکاری ایوارڈ زیادہ تر ایسے لوگوں کو پیش کیے جاتے رہے ہیں جن کا ہرگز کوئی استحقاق نہیں تھا۔ ایک دو معروف لوگوں کو بھی شامل کر لیا جاتا تھا تاکہ کوئی اعتراض نہ کرے یہی منفی رویے ہمارے ادب کے زوال کا سبب بنتے چلے جارہے ہیں۔ امید ہے کہ حکومت اور اس کے بعد آنے والے حکمران ماضی کی غلطیوں کی اصلاح کی کوشش ضرور کریں گے‘ یہ بات ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ادب ہی قوموں کومضبوط فکری بنیادیں فراہم کر تاہے ادب کو نظر انداز کرنے والی قومیں قصۂ پارینہ بن کر رہ جاتی ہیں۔

اردو زبان و ادب روبہ زوال ہے‘ فیروز ناطق خسرو

اردو سے محبت کرنے والے اس کی نفی ضرور کریں گے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اردو زبان و ادب کے روبہ زوال ہونے کی چند بڑی وجوہات اظہر من الشمس ہیں۔ لیکن اس سے قبل کہ میں انہیں ضابطۂ تحریر میں لائوں‘ اس دور کی بات کروں گا جب اردو پروان چڑھ رہی تھی۔
وہ دور جس میں اردو شعر و ادب پر میر‘ نظیر‘ سودا‘ غالب‘ ذوق‘ ناسخ و آتش کا سایہ تھا۔ انیس و دبیر زبان و بیان کی صحت کی طرف توجہ دلایا کرتے تھے‘ داغ کا اپنا الگ رنگ تھا۔ لیکن موجودہ دور میں ایسا کچھ نہیں۔
آج کل ہر نیا لکھنے والا چند ایک غزلیں‘ نظمیں کہنے کے بعد اپنے آپ کو استاد سمجھنے لگتا ہے۔ اگر کسی خامی کی طرف توجہ دلائی جائے تو توجہ دلانے والے کو ہی شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔ یہ جواب سن کر کہ ’’مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔‘‘
متشاعروں و متشاعرات کی بھرمار‘ آج کل وبا کی شکل میں ان کا وجود شہر شہر پھیلا ہوا ہے۔ ستم بالائے ستم کہ دھڑلے سے ہر مشاعرے اور ادبی تقریبات میں ان کی شرکت لازمی ہوتی ہے۔ لطف کی بات یہ کہ فخریہ اپنی نظم و نثر کی کتابوں کی رونمائی بھی کروائی جاتی ہے اور اس کے بعد سوشل میڈیا پر بھرپور کوریج۔ کچھ احباب نہایت خلوصِ دل سے اپنی تحریر کے ذریعے انہیں صفِ اوّل کی شاعرات سے بھی اوپر کی صف میں جگہ دیتے ہوئے اپنی سی سعی میں غلطاں نظر آتے ہیں۔
علمی درس گاہیں‘ آرٹس کونسل‘ ریڈیو‘ ٹی وی۔ یہ وہ ادارے ہیں جن کی سرپرستی میں کبھی اردو ادب پروان چڑھتا تھا۔ آج اس کے برعکس ہے۔ زبان و بیان کے بجائے یہاں گلیمر کو ترجیح دی جاتی ہے۔ آرٹس کونسل کی سرپرستی میں اکثر متشاعروں و متشاعرات کے اعزاز میں تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ریڈیو‘ ٹی وی کے ڈرامے ہوں یا نیوز بلیٹن‘ غلط تلفظ اور عامیانہ جملوں کی بھرمار ہوتی ہے۔
نقاد‘ مستند شاعر و ادیب۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا یہ طبقہ‘ جس کی زیادہ ذمہ داریاں ہیں اس ضمن میں‘ نہ صرف چشم پوشی سے کام لے رہا ہے بلکہ نااہل لوگوں کی سرپرستی میں بھی پیش پیش ہے۔ تعلقات‘ خوشامد اور مسند نشینی کا شوق‘ جھوٹی تعریف میں زبان کھولنے پر آمادہ کر دیتا ہے۔ کتابوں کے فلیپس ایک ہی جیسے مضامین سے مزین ہوتے ہیں بس صرف نام کے فرق کے ساتھ۔ متشاعرات کے لیے دل کا نرم گشہ وہ سب کچھ کہلوا دیا کرتا ہے جس کی وہ خواہش کریں۔ ایک ایسی ہی کتاب کی تقریب کے دعوت نامے پر اظہارِ خیال کے حوالے سے بڑے بڑے نام دیکھ کر جب میں نے اپنی تحریر میں اعتراض کیا تو کہا گیا کہ ہمیں ایسے افراد کی ہمت افزائی کرنی چاہیے۔
ادبی تنظیمیں‘ تقریبات و اعزازات: بعض ادبی تنظیمیں پیسے لے کر غیر شاعر و شاعرات کے اعزاز میں تقریبات منعقد کرکے یا انہیں مسند نشینوںمیں شامل کرکے اردو کے فروغ کے بجائے اس کےانحطاط کا سبب بن رہی ہیں۔ ان متشاعرات کی مشاعروں شمولیت کو ’’اسٹیج ڈیکوریشن‘‘ کا نام دے کر اپنی مجبوری بتائی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے کچھ شاعر و ادیب سادہ کاغذ پر اصلاح دینے سے بھی نہیں چوکتے۔
مجھے احساس ہے کہ اردو زبان و ادب کی تنزلی کے حوالے سے میرے پیش کیے گئے نکات کی مخالفت میں پیش پیش وہی احباب ہوں گے جو اپنی سرپرستی میں اس کے زوال کا سبب بن رہے ہیں۔ اگر اب بھی ان منفی رویے کے تدارک کا تہیہ کر لیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ اردو زبان و ادب ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہ ہوسکے۔

کورونا

ڈاکٹر نثار احمد نثار

خطرۂ جاں بنا ہے کورونا
موت پھیلا رہا ہے کورونا
فاصلہ رکھ کے سب سے ملتا ہوں
میں نئے حادثوں سے ڈرتا ہوں
کوئی ہنگامہ شہر بھر میں نہیں
کوئی محفل کسی بھی گھر میں نہیں
ہم پہ نافذ ہے قیدِ تنہائی
دسترس میں نہیں مسیحائی
موت کا خوف سب پہ طاری ہے
ہر کسی پر یہ وقت بھاری ہے
شہر میں لاک ڈائون جاری ہے
یہ نیا طرزِ دنیا داری ہے
گھر سے باہر نکل نہیں سکتے
اپنے پیاروں سے مل نہیں سکتے
سن رہا ہوں صدائے کورونا
ڈھونڈتا ہوں دوائے کورونا
سب زمینی خدا پریشاں ہیں
طاقتِ وائرس پہ حیراں ہیں
ناز ہے جن کو اپنی طاقت پر
جھک رہے ہیں زمیں پہ ان کے سر
ہم پہ احسان کیجیے یارب
زیست آسان کیجیے یارب
التجا ہے نثارؔ کی سب سے
مانگیے خیر و عافیت رب سے

’’کیا اردو زبان و ادب روبہ زوال ہے؟‘‘ اس موضوع پر ہم جسارت سنڈے میگزین میں آپ تحریر شائع کریں گے‘ آپ اپنا مضمون 0300-9271778 پر واٹس ایپ کیجیے۔
(انچارج صفحہ جہانِ ادب)

حصہ