قادر بخش سومرو کی کتاب ’’کراچی کے مشاعرے‘‘ منظر عام پر آگئی

689

نثار احمد نثار
ریزیڈنٹ ڈائریکٹر اکادمی ادبیات پاکستان کراچی قادر بخش سومرو کسی تعارف کے محتاج نہیں‘ وہ ایک ایسے ادارے کا حصہ ہیں جو پاکستان میں ادب کے فروغ کے لیے مصروف عمل ہے۔ قادر بخش سومرو نے اردو زبان و ادب کے ساتھ ساتھ سندھی زبان و ادب کی ترویج و ترقی کے لیے بھی کام کیا ان کے کریڈٹ پر کئی شان دار تقریبات موجود ہیں تاہم ان کا ایک حوالہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے دفتر میں ہر ماہ چار مشاعرے ترتیب دیتے ہیں جن میں کراچی کے اہم لکھنے پڑھنے والے افراد شریک ہوتے ہیں‘ ان کے پلیٹ فارم سے ایسے شعرائے کرام بھی فیض یاب ہورہے ہیں جن کے بہت سے مصرعے بے وزن ہوتے ہیں اور کراچی کے ادبی منظر نامے میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے مگر قادر بخش سومرو ایک شریف النفس انسان ہونے کے ناعث فراخ دلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ راقم الحروف کے نزدیک وہ ایک قابل ستائش کام کر رہے ہیں وہ اب تک 300 سے زائد مشاعرے کراچکے ہیں انہوں نے اب تک جو پروگرام منعقد کیے ہیں اس کا تفصیلی احوال ’’کراچی کے مشاعرے‘‘ کے عنوان سے انہوں نے کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب میں جنوری 2015ء سے جون 2019ء تک منعقد ہونے والے مشاعروں‘ مذاکروں اور ادبی تقریبات کی روداد شامل کی گئی ہے تاہم اس کتاب کو اس دفتر کی کارکردگی کا ریکارڈ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اکادمی ادبیات کے تحت ان شعرا‘ ادیبوں اور دانشوروں کی یاد میں تعزیتی ریفرنس منعقد کیے جاتے ہیں جو اس دنیا میں موجود نہیں‘ ان میں فہمیدہ ریاض‘ ڈاکٹر جمیل جالبی‘ منیر نیازی‘ عقیل احمد فضا اعظمی‘ صفدر سلیم سیال‘ مشتاق احمد یوسفی‘ ڈاکٹر اکرام الحق شوق‘ کاوش عمر‘ ڈاکٹر اسلم فرخی‘ ڈاکٹر ابراہیم جوکھیو جیسے اہم نام شامل ہیں۔ ادکامی ادبیات کے تحت منعقد ہونے والے خصوصی لیجکچرز کی تفصیلات بھی اس کتاب میں موجود ہیں اب تک جن شخصیات پر لیکچرز ہوئے ہیں ان میں قائد اعظم محمد علی جناح‘ بابائے اردو مولوی عبدالحق‘ اختر حسین رائے پوری‘ سرسید احمد خان‘ پیر حسام الدین راشدی‘ خلیق مورائی‘ سائیں علی احمد‘ مرزا غالب‘ سید ضمیر جعفری‘ کاکا جی صنوبر‘ ڈاکٹر انعام الحق کوثر‘ غلام ربانی آگرو‘ ایاز قادری‘ منیر احمد راہی‘ فیض احمد فیض‘ حبیب جالب‘ سید ہاشم رضا اور فیض بخشا پوری کے نام شامل ہیں۔ اس کتاب پر جن شخصیات نے تبصرے کیے ہیں ان میں پروفیسر سحرانصاری‘ پروفیسر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی‘ انور شعور‘ تسلیم الٰہی زلفی‘ پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی‘ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی‘ ڈاکٹر کمال جامڑو‘ ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر‘ مسلم شمیم‘ راشد نور‘ اکرم گنجاہی‘ سلمان صدیقی‘ ثبین سیف‘ زیب النساء زیبی‘ ظریف احسن‘ نصیر سومرو‘ عرفان عابدی‘ کھتری عصمت علی پٹیل‘ ابرار بختیار‘ راحلیہ ٹوانہ‘ مخدوم علی ریاض‘ اقبال سہوانی‘ افضل ہزاروی اور عارف شیخ شامل ہیں۔ راقم الحروف نے بھی اس کتاب کا مطالعہ کیا ہے۔ میری ناقص رائے میں قادر بخش سومرو نے اپنی ادبی مصروفیات و مشاغل کو کتابی شکل دے کر اچھا کام کیا ہے۔ انہوں نے اپنے دور میں دفتر کے معاملات بھی بہتر بنائے ہیں‘ اپنے ماتحت عملے کے ساتھ بھی خوش اسلوبی سے کام کر رہے ہیں۔ ایک اچھا کام یہ بھی ہے کہ یہ ٹھیک 11 بجے مشاعرہ شروع کر دیتے ہیں اور 11:45 کے بعد آنے والے کو مشاعرے میں شریک نہیں کرتے تاہم اب اس سلسلے میں وہ نرمی اختیار کیے ہوئے ہیں جس کے باعث تاخیر سے آنے والوںکو بھی پڑھوا دیتے ہیں۔ یہ سندھی اور اردو زبان میں شاعری کر رہے ہیں مجھے نہیں معلوم کہ وہ اپنے اشعار پر کس سے اصلاح لیتے ہیں۔ میں ان کی انتظامی صلاحیتوں کا معترف ہوں۔ وہ انسان دوست شخصیت ہیں اور قلم کاروں کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں۔ یہ کتاب ہر لحاظ سے ایک دلچسپ اور معلومات افزا دستاویز ہے جو قارئینِ علم و ادب کے لیے بے حد مفید ثابت ہوگی۔

۔’’وڈیو لنک مشاعرہ‘‘ اردو ادب میں ایک نیا تجربہ ہے‘ رونق حیات

آج کل کورونا وائرس سے کاروبارِ زندگی ڈسٹرب ہوگیا ہے‘ حکومت کی طرف سے لاک ڈائون کی وجہ سے کوئی تقریبِ ملاقات ممکن نہیں ہے اسی تناظر میں نیاز مندانِ کراچی نے ’’آن لائن وڈیو لنک مشاعرے‘‘ کا اہتمام کیا جس کا مقصد یہ ہے کہ مشق سخن جاری رہے اور الیکٹرانک میڈیا کی سہولیات سے فیض یاب ہوں۔ ان خیالات کا اظہار نیاز مندانِ کراچی کے کنوینر رونق حیات نے وڈیو لنک مشاعرے کی میزبانی کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومتی ادارے اردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے مختص کیے گئے ہدف تک نہیں پہنچ پائے بلکہ صورت حال یہ ہے کہ ان اداروں میں ستائش باہمی کی بنیادوں پر کام ہو رہا ہے۔ جینوئن قلم کاروں کی حق تلفی کا سلسلہ جاری ہے‘ من پسند قلم کاروں کو پروموٹ کیا جا رہا ہے اس کے علاوہ انہیں حکومتی فنڈز کے استعمال پر بھی تحفظات ہیں۔ تاریخ سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جس معاشرے میں اربابِ قلم کی قدر و منزلت نہیں کی جاتی وہ قومیں ترقی نہیں کرسکتیں۔ شاعری کا معاملہ یہ ہے کہ ہر کوئی شاعر نہیں بن سکتا۔ شاعری ودیعت الٰہی ہے۔ دبستان کراچی میں ان دنوں ادبی گروہ بندیاں بہت ہیں جس سے ادب کو نقصان ہو رہا ہے بہت سے استاد شاعر اپنے شاگردوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں دوسروں کو داد نہیںدیتے‘ یہ تنگ نظری ہے۔ سلمان صدیقی نے کہا کہ الیکٹرانک میڈیا نے زندگی کے تمام طبقوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ کتب بینی کا سلسلہ دم توڑ رہا ہے‘ مشاعروں میں سامعین نہیں آرہے ہیں‘ نئی نسل کو شاعری سے کوئی دل چسپی نہیں ہے دسویں جماعت کی اردو کتاب میں ان مضامین کو دہرایا جارہا ہے جو آج سے 50 سال پہلے سے چل رہے ہیں‘ نئے موضوعات شاملِ نصاب نہیں ہو رہے۔ اس کے پیچھے کیا عوامل ہیں ان کا سدباب ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاعری اور زندگی میں چولی دامن کا ساتھ ہے‘ جو لوگ زمینی حقائق سے روگردانی کرتے ہیں ان کی شاعری کا دورانیہ بہت کم ہوتا ہے۔ نئے نئے استعارے اور جدید لفظیات کے استعمال سے شاعری کا حسن دوبالا ہوتا ہے۔ راقم الحروف نے کہا کہ مشاعرے میں داد و تحسین کا معاملہ غور طلب ہے‘ میں ایسے کئی استادوں کو جانتا ہوں کہ جو سادے کاغذ پر اصلاح دیتے ہیں اور جب ان کے شاگرد کلام پڑھتے ہیں تو وہ خوب داد دیتے ہیں۔ دوسروں کے نام پر انہیں خاموشی چھا جاتی ہے ماضی قریب میںایسا بہت کم ہوتا تھا اس کے علاوہ اگر میرا جیسا جونیئر شاعر کوئی نئی ترکیب بناتا ہے جس میں فنی طور پر کوئی خرابی نہیں ہوتی تب بھی سکہ بند نقاد اس پر اعتراض اٹھاتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر پاتے‘ کسی کی اچھائیوں کو پھیلانے کے بجائے اس کی خامیوں پر بات کی جاتی ہے۔ ان دنوں ایک وبا یہ بھی چل رہی ہے کہ نظامتِ کار خود ہی اپنی سینیارٹی کا تعین کر لیتا ہے‘ خود پہل کرکے مشاعر نہیں پڑھتا اور دوسروں کی سینیارٹی بھی خود ہی طے کر لیتا ہے‘ جس کو چاہے جہاں پڑھوا دے اگر احتجاج کیا جائے تو ہم بدتمیز قرار پاتے ہیں۔ خدا کے واسطے ادب کے ساتھ مذاق مت کرو‘ حق دار کو حق دو‘ اگر کسی کا کوئی شعر اچھا ہو تو کھل کر داد دیجیے تعصب سے گریز کیجیے۔ سعید الظفر صدیقی نے کہا کہ ادب کی سرپرستی کے لیے مخیر حضرات کا تعاون ضروری ہے۔ ہندوستان میں نوابین شاعروں کے لیے وظیفہ مقرر کرتے تھے فی زمانہ مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے لہٰذا مشاعروں کے اخراجات کس طرح برداشت کریں ایسی فضا میں جو تنظیمیں اپنی مدد آپ کے تحت ادبی پروگرام ترتیب دے رہی ہیں وہ قابل ستائش ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت کورونا وائرس سے بچائو کی حفاظتی اقدامات پر عمل کرنا ضروری ہے۔ یہ ایک قومی مسئلہ بن رہا ہے جس پر پوری قوم ایک ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کے علاوہ کورونا نے ترقی یافتہ ممالک بھی نقصان پہنچایا ہے۔ ہمارے عوام اس مسئلے کی سنگینی کو نہیں سمجھ پا رہے قلم کاروں کا فرض ہے کہ وہ اس مسئلے پر قلم اٹھائیں کیوں کہ اربابِ سخن معاشرے کا اہم حصہ ہوتے ہیں قومی کی ترقی اور تباہی میں ان کا بہت عمل دخل ہے۔ اس آن لائن مشاعرے میں جن شعرا نے غزلیں پیش کیں ان میں سعید الظفر صدیقی‘ رونق حیات‘ سلمان صدیقی‘ رانا خالد محمود قیصر‘ نثار احمد نثار‘ تنویر سخن اور سعد الدین شامل تھے۔

رانا خالد محمود قیصر کا شعری مجموعہ ’’امید سہارا دیتی ہے‘‘ شائع ہو گیا

رانا خالد محمود قیصر کراچی کے ادبی حلقوں میں اپنی شناخت رکھتے ہیں ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’ہندسوں کے درمیاں‘‘ تھا جب کہ دوسرا مجموعہ کلام ’’امید سہارا دیتی ہے‘‘ شائع ہوگیا ہے۔ 202 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں 64 غزلیں شامل ہیں۔ بنیادی طور پر رانا خالد محمود غزل کے شاعر ہیں تاہم ان کی نظمیں بھی قابل ستائش ہیں۔ یہ ریمارکس رانا سعید دوشی ٹیکسلا نے رانا خالد کے بارے میں لکھے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر منور ہاشمی کہتے ہیں کہ رانا خالد نے اپنی غزلوں کو بھاری بھرکم لفظوں اور تراکیب سے بوجھل نہیں ہونے دیا بلکہ شائستگی‘ آسان زمینوں‘ مانوس قافیوں‘ ردیفوں اور نرم الفاظ کو تراکیب سے دل کشی و رعنائی بخشی ہے ان کے اشعار میں زندگی‘ غم‘ محبت‘ مسائلِ زمانہ کے عنوانات نظر آتے ہیں‘ ان کی ہنر مندی ان کے کلام میں مضمر ہے۔ ڈاکٹر نزہت عباسی کہتی ہیں کہ رانا خالد محمود کی غزلوں میں رومانیت بھی ہے اور گہری معنویت بھی۔ ان کے یہاں نئی لفظیات‘ نئی علامتین‘ نئی تشبیہات اور استعارات کا برمحل استعمال نمایاں ہے۔ ان کا اندازِ بیاں پُر تاثیر ہے۔ انہوں نے سہل اور رواں بحروں میں بہت اچھے اشعار نکالے ہیں۔ ڈاکٹر فرحت عباس نے کہا کہ رانا خالد کی شاعری میں تخلیقی روشنی بھی ہے اور فنی لوازمات کا التزام بھی ہے۔ انہوں نے نعت‘ غزل‘ نظم‘ رباعیات اور قطعات میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا ہے۔ ان کی شاعری میں جہاں ذات اور کائنات کے معاملات ہیں وہیں غمِ جاناں اور غمِ دوراں کے موضوعات بھی ہیں۔ ان کا کمال یہ بھی ہے کہ وہ خارجی کیفیات کو بھی اپنے داخلی احساسات میں پوری طرح ضم کرکے انہیں فنی طور پر تخلیقی عمل سے مالا مال کرتے ہیں۔ ایک ذمہ دار شاعر کی طرح وہ اہلِ سیاست کی چیرہ دستیوں پر بھی احتجاج کرتے ہیں تاکہ معاشرتی مسائل سامنے آئیں۔
نسیم سحر کے نزدیک رانا خالد نے ایک کلاسیکی رنگ کے ساتھ ساتھ شعری ریاضت کا مظاہرہ کیا ہے۔ مجھے یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ رانا خالد ادبی دنیا میں ایک اچھا اضافہ ہے۔ ان سے بہت سی امیدیں اور امکانات وابستہ کیے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے ہر صنف کے فنی تقاضوں اور موضوعات کے ساتھ لفظیات کا ہر ممکن خیال رکھا ہے۔ اکرم کنجاہی نے کہا کہ رانا خالد محمود نے نثر بھی لکھی ہے اور شاعری میں بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے ہیں انہوں نے اپنی غزلوں میں محبت‘ ہجر و فراق اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی دل خراش تنہائی‘ انتطار‘ اور بے اعتنائی کا شکوہ اس انداز سے کیا ہے کہ وہ طبیعت پر گراں نہیں گزرتا۔ا نہوں نے وہ علامتیں استعمال کی ہیں جو ایک زمانے میں مقبول عام تھیں۔ ساغر‘ مے خانہ‘ ساقی‘ مے کشوں‘ جنون‘ چاک گریباں‘ حجاب‘ نقاب‘ آشیانہ‘ چار تنکے‘ بجلی‘ گردشِ ایام وغیرہ وغیرہ مگر انہوں نے شعری تجربات یا صنعتوں کا استعمال نہیں کیا اس لیے کہ وہ عصرِ حاضر کے شاعر ہیں۔ دوسری طرف انہوں نے موجودہ عہد کے شعرا کی طرح مشکل ردیف قوافی استعمال نہیں کیے انہوں نے روایتی مضامین باندھے ہیں مگر سادگی کے ساتھ۔ ان کے ہاں مصنوعی مضمون آفرینی نہیں ہے۔
پروفیسر سعید حسن قادری کہتے ہیں کہ رانا خالد محمود نے ادب کی طویل مسافتیں طے کی ہیں انہوں نے اپنا لب و لہجہ بنایا دوسروں کی نقل نہیں کی۔ یہ محنت و لگن کے ساتھ اپنی ترقی کا سفر کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ یہ بہت آگے جائیں گے۔ سحر تاب رومانی نے کہا کہ ان کے مجموعے کا ہر شعر دل چسپی کا باعث ہے یہ کسی خاص مکتب فکر کے شاعر نہیں ہیں بلکہ یہ اپنے اردگرد جو بھی حالات دیکھتے ہیں انہیں آسان شاعری بنا کر پیش کر دیتے ہیں۔ مسلم شمیم ایڈووکیٹ نے کہا کہ اردو گزل کے سفرِ ارتقا سے رانا خالد محمود باخبر ہی نہیں بلکہ پوری آگاہی رکھتے ہیں۔ بیسویں صدی میں غزل کی دُنیا حسن و عشق کے وسیع دائرے کے ساتھ زندگی یعنی سماجی زندگی کی بھرپور نقیب و نمائندہ بن گئی ہے۔ اس بات کا ادراک رانا خالد محمود کو ہے اسی لیے ان کے ہاں کلاسیکی روایات کے احترام و التزام کے ساتھ ساتھ نئے امکانات کی جلوہ سامانیاں نظر آتی ہیں۔ ان کی شعری حسایت اور طرزِ احساس ان کے اشعار میں عیاں ہے۔ غزل میں انہوں نے زندگی کے تمام پہلوئوں پر بحث کی ہے۔ راقم الحروف نے بھی رانا خالد کے دو شعری مجموعوں کا مطالعہ کیا ہے میری ناقص رائے یہ ہے کہ ان کی شاعری میں گہرائی اور گیرائی کے ساتھ ساتھ جدید لفظیات نمایاں ہیں۔ میں نے انہیں مشاعروں میں بھی سنا ہے حالانکہ یہ بہت مصروف آدمی ہیں تاہم ان کے اندر ایک شاعر موجود ہے جس کے باعث یہ شعر بھی کہہ رہے ہیں اور کئی ادبی اداروں کے اہم عہدوںپر بھی فائز ہیں اور زبان و ادب کی ترویج و ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ یہ ایک جینوئن شاعر ہیں ان کی تمام غزلیں اور نظمیں اس بات کی غماض ہیں کہ انہیں لفظوں کی نشست و برخواست پر دسترس حاصل ہے۔ ان کی کتابیں اردو ادب میں ایک اچھا اضافہ ہے۔

حصہ