۔’’ چھوٹی بڑی اے ٹی ایم مشینیں‘‘۔

634

شاید لوگ ابھی بھولے نہیں ہوں گے جب کچھ عرصہ قبل سینیٹ کے اجلاس میں فواد چودھری کی تقریر پر مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ خان برہم ہوگئے اور انہوں نے فواد چودھری کو اپنے مخصوص انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ فواد چودھری کو نانی یاد دلا دیں گے، اور وزیراعظم عمران خان کو انہیں خود وزارت سے نکالنا پڑے گا۔
سچی بات یہ ہے کہ ایک لمحے کو تو فواد چودھری بھی چکرا کر رہ گئے کہ ان کو نانی کے بارے میں کس نے بتایا؟
مشاہد اللہ خان نے فواد چودھری کا پیچھا نہیں چھوڑا، اسی اجلاس میں فواد چودھری کو مزید رگڑا لگاتے ہوئے آڑے ہاتھوں لیا، اور دورانِ اجلاس انتہائی لطیف پیرائے میں کسی کا نام لیے بغیر حکومتی اراکین پر تنقید کے لیے حبیب جالب مرحوم کے زندہ جاوید اشعار کا سہارا لیا، اور کہا:۔

کمینے جب عروج پاتے ہیں
اپنی اوقات بھول جاتے ہیں
کتنے کم ظرف ہوتے ہیں غبارے
چند پھونکوں سے پھول جاتے ہیں

سینیٹر مشاہد اللہ خان نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ مزید چرکے لگاتے ہوئے ایک اور شعر حاضرینِ محفل (سینیٹ اراکین) کی نذر کرتے ہوئے حبیب جالب مرحوم کا ہی کاندھا استعمال کیا اور کہا: ۔

حکمراں ہو گئے کمینے لوگ
خاک میں مل گئے نگینے لوگ

یہ الگ بات کہ چیئرمین سینیٹ نے لفظ ”کمینے لوگ“ سینیٹ کی کارروائی سے حذف کروا دیا۔ مگر افسوس چیئرمین سینیٹ کمینے لوگوں کو اسمبلی سے حذف نہیں کروا پائے۔
اسی اجلاس میں مشاہد اللہ نے فواد چودھری کو مخاطب کرکے پوچھا تھا کہ آپ مدینہ کی ریاست کے وزیر ہیں یا رنگیلا شاہ کی؟
ویسے تو عمران خان نے کچھ دنوں بعد فواد چودھری کی، وزارت سے چھٹی کردی تھی، مگر زیادہ دن وزیراعظم کو بھی چین نہیں آیا، رنگیلے شاہ کا دربار نورتن فواد چودھری کے بغیر سُونا سُونا ہوگیا، چنانچہ ان کو دوبارہ وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کا قلم دان سونپا گیا (اور آج کل وزیراعظم اور وہ چندا ماموں، چندا ماموں کھیل رہے ہیں)۔
یہی فواد چودھری اب رویتِ ہلال کمیٹی کے چیئرمین جناب مفتی منیب الرحمٰن صاحب (جو کہ ایک متفقہ جیّد عالمِ دین ہیں) سے الجھ پڑے ہیں۔ تازہ ترین بونگی یہ ماری کہ ”مذہب کو اتنا بڑا چاند نظر نہیں آتا، تو کورونا جیسا چھوٹا وائرس کیسے دکھائی دے گا؟“
معلوم نہیں کہ اس ”پھولے ہوئے غبارے“ کی چاند سے کیا مراد ہے؟
انتخابات میں ”سلیکٹ“ ہونے سے پہلے کرپشن۔ کرپش…. دھاندلی۔ دھاندلی کی مالا جپنے والے عمران خان نے جو مشہورِ زمانہ ایک سو وعدے منشور کی صورت میں پیش کیے تھے، دو سال ہونے کو آئے ہیں ان میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں ہوسکا۔
ویسے تو کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا جب ان کا اور ان کی ”مختصر ترین“ 46 رکنی کابینہ کا کوئی فراڈ سامنے نہ آتا ہو۔
تازہ ترین فراڈ جو سامنے آیا ہے وہ ہے چینی، گندم اسکینڈل…. اور اس کی بدولت اربوں روپے کا فائدہ!
پہلے خود ہی شور ڈالا کہ چینی اور گندم مافیا کو بے نقاب کریں گے، اور پھر جب نیب کی رپورٹ لیک ہو ہی گئی تو اس کا کریڈٹ بھی اپنے سر لینے کی کوشش کرنے لگے۔
اگر واقعی شوگر مافیا اور اس کا سرغنہ جہانگیر ترین اس میں شامل ہیں جیسا کہ تحقیقاتی رپورٹ کہہ رہی ہے، تو پھر شوگر مل مالکان کو سبسڈی کے نام پر چوبیس ارب روپے دینے کا کیا مقصد ہے؟
یعنی اس میں بھی دونمبری! اس راز پر سے تو پردہ رؤف کلاسرا صاحب نے اٹھا ہی دیا کہ کس طرح عمران خان نے دونوں ہاتھوں سے روپے بنائے ہیں۔
ایک طرف تو چوبیس ارب روپے کا فائدہ دیا، دوسری طرف مارکیٹ میں چینی کی مصنوعی قلت پیدا کرکے اربوں روپے کا دھندا بھی کرلیا۔ یہ شوگر ملیں آخر ہیں کس کی؟ سندھ میں آدھی سے زیادہ زرداری صاحب کی، اور باقی پیپلز پارٹی کے وزیروں اور مشیروں کی۔ اسی طرح پنجاب کی دس میں سے چھ شوگر ملیں جہانگیر ترین صاحب کی ملکیت ہیں۔
روف کلاسرا نے لکھا کہ ”مزے کی بات ہے کہ شوگر انکوائری رپورٹ میں جن بڑے بڑے سیاست دانوں کے نام آئے تھے کہ انہوں نے بڑا ہاتھ مارا، ان میں وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی بھی شامل ہیں جن کی ملیں ہیں، جن کے چھوٹے بھائی مخدوم ہاشم بخت نے وزیرخزانہ پنجاب کی حیثیت سے تین ارب کی سبسڈی ملوں کو دی، جس میں سے پچاس کروڑ روپے اپنے بھائی مخدوم شہریار کو دیے۔ اس مل میں چودھری پرویز الٰہی کے بیٹے مونس الٰہی کا بھی شیئر ہے۔ اب اچانک یہ خبر آئی ہے کہ مخدوم بھائیوں اور چودھریوں کی ملوں کا آڈٹ نہیں ہورہا۔ آڈٹ صرف جہانگیر ترین اور اُن کے عزیزوں کی ملوں کا ہورہا ہے۔ وہ بھی یقیناً ہونا چاہیے، لیکن آڈٹ صرف دو شوگر گروپس کا کیوں؟ اُن کا کیوں نہیں جنہوں نے چوبیس ارب روپے لیے؟ لیکن حیران کن طور پر ان چوبیس ارب روپے لینے والوں کے نام اس آڈٹ کا حصہ نہیں۔ سب سے بڑی بات یہ کہ جس گروپ نے کروڑوں کی سبسڈی لی اس کا نام بھی آڈٹ فہرست میں شامل نہیں۔ سب چھاپے اُن دس ملوں پر مارے گئے ہیں جو جہانگیر ترین اور اُن کے رشتے داروں کی ہیں۔ دریشک فیملی نے بھی شوگر ایکسپورٹ کی، ان کا نام بھی غائب ہے۔“
اب سوال یہ بھی پیدا ہوگیا ہے کہ ان چوبیس ارب والوں کا آڈٹ کیوں نہیں کیا گیا؟ صرف ایک ارب روپے لینے والوں کا کیوں؟سنا ہے کہ اس پر خاصا وقت لگ جاتا اور وزیراعظم صاحب ترین کو فکس کرنے کے لیے جلدی میں ہیں۔ اب آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں جو اچھا کام شروع کیا جائے اُس کا مقصد بھی ملک کے لٹیروں کو کٹہر ے میں لاکر انصاف کرنا نہیں ہوتا، بلکہ صرف اُن لوگوں کو سزا دینی ہوتی ہے جو گستاخی کر بیٹھیں۔ مگر مخدوموں، چودھریوں اور چوبیس ارب روپے سبسڈی لینے والوں کو آڈٹ سے نکالنے کا فائدہ ترین گروپ کو ہی ہوگا۔ اندازہ کریں پاکستانی آڈٹ بھی سیاسی طور پر کتنا سمجھ دار ہے کہ مخدوموں، چودھریوں اور دریشک کی ملوں کی طرف دیکھتا بھی نہیں کہ کہیں حکومت خطرے میں نہ پڑجائے۔
پاکستان میں ایک آدمی بھی کرپشن کے الزام میں سزا نہیں پاسکے گا، کیونکہ اس کا آسان فارمولا بنالیا گیا ہے۔
سابق وزیر پیٹرولیم، پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق صدر آصف زرداری کے قریبی ساتھی ڈاکٹر عاصم اربوں روپے کی کرپشن کے کیس میں پچاس لاکھ کے مچلکے پر باہر آچکے ہیں۔
اربوں روپے کی کرپشن اور غیر قانونی الاٹمنٹس کیس میں صوبائی محکمہ اطلاعات کے شرجیل میمن پر پانچ ارب روپے کی کرپشن پلی بارگین میں، اور شراب کی بوتل خالص شہد میں تبدیل ہو گئی۔
نیب نے سب کی سہولت کے لیے ایک فارمولا وضع کرلیا ہے کہ چاہے کتنی بڑی کرپشن کیوں نہ ہو، محض دوفیصد سرکاری خزانے میں جمع کروا دو اور معززینِ شہر میں شامل ہوجاؤ۔ خود عمران خان اور ان کی چار بہنوں نے اپنی زندگی میں کوئی کاروبار رجسٹر نہیں کروایا۔ ان سے کون پوچھے کہ آپ اربوں روپے کے مالک کیسے بن بیٹھے؟ منی ٹریل آج تک نہ پیش کرسکے۔ جب بھی عدالت نے کاروبار کا پوچھا، جواب ملا ”موٹیویشنل اسپیکر ہوں، منہ کی کھاتا ہوں۔“
آج کل زمانہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا ہے، دولت کی فراوانی ہے، پیسوں کے لیے نہ بینک نہ قطار، اور نہ ہی انتظار۔
یہ اے ٹی ایم مشینیں ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں اپنے دور کے رنگیلے شاہوں کی شاہ خرچیوں کے لیے موجود ہوتی ہیں۔
ملک ریاض چیئرمین بحریہ ٹاؤن پروجیکٹ کی اے ٹی ایم مشین نہ صرف نوٹ نکالتی تھی، بلکہ اس مشین نے تو سجے سجائے ‘آراستہ محل ‘ بھی ڈیلیور کرنے شروع کردئیےتھے۔ – اس کے علاوہ سابقہ ‘مہران بینک ‘کی اے ٹی ایم نے تو حد ہی کردی تھی۔
بریگیڈئیر امتیاز نے جو عسکری اور سویلین ایجنسیوں میں اہم عہدوں پر تعینات تھے، ریٹائرمنٹ کے بعد انکشاف کیا کہ غلام اسحاق خان اور جنرل اسلم بیگ کی ہدایت پر پیپلز پارٹی کو ہرانے کے لیے سیاسی جماعتوں کو فنڈ فراہم کیے گئے تھے۔ آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی نے بھی سپریم کورٹ میں حلف نامہ جمع کرایا جس میں سیاست دانوں اور صحافیوں کو فنڈ فراہم کرنے کا اقرار کیا گیا تھا۔
اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید کی اے ٹی ایم نے بھی کمال کی جادوگری دکھائی۔ انور مجید کی 90 مختلف کمپنیاں جعلی اکاؤنٹ کھول کر آصف زرداری صاحب کے لیے غریبوں کے اکاؤنٹ میں راتوں رات رقم ٹرانسفر کردیا کرتی تھیں۔ – ایسی غریب پرور اے ٹی ایم مشین آج تک پاکستان کے سوا کسی اور ملک میں دستیاب نہیں۔ –
ہمارے عمران خان صاحب کے لیے بھی اے ٹی ایم مشینوں کی کوئی کمی نہیں ہے، – چھوٹی بڑی ہر قسم کی مشین دستیاب ہے۔بڑی خراب ہوجائے تو چھوٹی یعنی پورٹیبل اے ٹی ایم مشین سے کام چلا لیا۔
سنا ہے ‘ جہانگیر ترین ‘کی اے ٹی ایم مشین جام چل رہی تھی، نوٹ پکڑنے لگی تھی، لہٰذا وزارتِ زراعت اور سائنس و ٹیکنالوجی کے اشتراک سے چھوٹی پورٹیبل اے ٹی ایم مشین علیم خان کی صورت میں سہولت فراہم کرنے کے لیے کابینہ میں شامل کرلی گئی ہے۔

حصہ