کورونا سازشیں اور لاک ڈاؤن کا سوشل میڈیا

943

میں نے کچھ احباب کے ساتھ کورونا کے بعد کی دُنیا کے موضوع پر ایک نشست کی جس کیچند کلیدی باتیں یہ سامنے آئیں کہ ’ لوگوں نے ان ایام میں اگر ضرورت اور خواہش کے درمیان فرق نہیں سیکھا ‘تو بڑے خسارے میں رہیںگے۔دوسرا یہ کہ ’ چین اس وقت دُنیا میں سرجیکل سامان، ماسک، گلوز ودیگر کا سب سے بڑا سپلائر بن کر سامنے آچکا ہے اور سارا معاشی پہیہ اسی کے گرد گھوم رہا ہے۔
عالمی منظر نامے پر اس کے بعد ایک نیا پاور بلاک بننے جا رہا ہے۔‘ ایک اور اہم بات یہ بھی ڈسکس ہوئی کہ ’دُنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے لیے بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ اترنے کا بہترین موقع ہے، سازش ہے بھی تو وہ 20فیصد نتائج لے گی باقی سے ہمیں اپنا فائدہ نکالنا ہوگا۔‘اسکے علاوہ ’پاکستان ، افریقہ جیسے ممالک میں اس وائرس کے اثرات کی کمی یہاں بنیادی طور پر مضبوط قوت مدافعت کی وجہ سے ہے جو گندگی، آلودگی و دیگر وجوہات سے ہمارے اجسام میں پیدا ہو جاتا ہے، البتہ امریکہ کا جو پول کھلاہے اسکی وجہ سے وہ اہم ہے۔‘ایک اور بات بھی ڈسکس ہوئی کہ ’ قرب قیامت کا اسٹیج تیار ہو رہا ہے ‘۔
ایک وقت تھا،مطلب ایک نسل ایسی تھی جسے اُن کے والدین قیام پاکستا ن اور سقوط پاکستان کے قصے کرفیو ، مارشل لاء کے قصے سنایا کرتے تھے۔ پھر ہم نے اپنی جوانی میںکراچی کی نوے کی دہائی میں ایک خاص قسم کا دور دیکھا جو اگلی دو دہائیوں پر محیط رہا۔مگر اب جوبچے بڑے ہو رہے ہیں یعنی موجودہ نسل کے لیے یہ ایام ایسے ضرور رہیں گے کہ وہ اپنی نسلوں کو ایسے لاک ڈاؤن کی کہانیاں سُنائیں گے جس نے بہت کچھ بدل دیا ہے۔سماجی فاصلے ۔ ماسک کی اہمیت۔ قوت مدافعت و دیگر ، جب مساجد بند، خانہ کعبہ بند، حج بند، دفتر بند، اسکول بند،ایسا ماحول تو ہم نے بھی پہلے نہیںدیکھا۔اِمسال شب برات یعنی نصف شعبان کی رات مساجد و قبرستانوں کے بجائے گھروں پر اورسوشل میڈیا پر ہی منائی گئی بلکہ پٹاخوں کے شور سے بھی پاک رہی۔پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے گھروں پر رہ کر بڑی رات میںعبادات کرنے کاویڈیو پیغام بھی جاری ہوا ۔ ویسے حکومت نے تمام اقدامات اٹھائے ہوئے تھے اور قبرستانوں کے باہر سخت سیکیورٹی تعینات نظر آئی۔ اُسی شب جیو ٹی وی پرایک انٹرویو پروگرام میں بلاول بھٹو کی آمد بھی ہوئی اسلیے اُس رات ٹوئٹر پر ٹرینڈ تو بنتا تھا ، ویسے بھی 4اپریل ذوالفقار علی بھٹو کے یوم وفات کے طور پر منایا گیا تھا۔حکومتی چینی آٹے کی رپورٹ خوب موضوع بنی رہی ، سوشل میڈیاپر ایک جانب وزیر اعظم کے گُن گائے جاتے رہے تو دوسری جانب حکومت کے جانے ، جہانگیر ترین کے الگ ہونے کا بھی پروپیگنڈہ جاری رہا ۔اسی طرح لاک ڈاؤن سے متاثرہ عوام میں راشن کی سپلائی کے لیے سماجی تنظیموں کی دوڑ بھی سوشل میڈیا پر خوب نظر آتی رہی۔عوام نے دل اور جیب کھول کر عطیات دیئے اور ہمیشہ کی طرح اس مشکل گھڑی میں سب کے ساتھ بھرپور تعاون کیا جو سماجی میڈیا کے ذریعہ تواتر سے نظر آتا رہا۔ایسے میں وہ کلپس بھی وائرل رہے جس میں لوگوں نے کئی کئی راشن جمع کر لیے اور اُنہیں راشن کی دُکانوں پر بیچنے اور مختلف اشیاء کے تبادلے کے لیے بھی استعمال کرتے نظر آئے۔
کورونا کی وبا کا دوسرا اہم ترین ایشو جسے ابتدا میں فرنٹ لائن ، سلام کرنے ، خراج تحسین پیش کرنے اورہیش ٹیگ کے ساتھ ٹرینڈ کی صورت شروع میںسامنے آیا۔مگر جب یہ مرض ڈاکٹرز و طبی عملے میں منتقل ہونا شروع ہوا تو معاملہ سنگین ہو گیا اسی میںسندھ ( کراچی) میں ڈاکٹر عبد القادر سومرو کی ’کورونا وائرس‘ سے موت نے بھی سب کو غم سے نڈھال کیا ۔ ایک دن سوشل میڈیا پر اُن کے نام بھی رہا۔وزیر اعلیٰ سندھ سے لے کر دنیا بھرمیں ڈاکٹر صاحب کی موت پر افسوس کیا جاتا رہا۔اب بات اس سے آگے نکل گئی کیونکہ ہسپتالوں میں فرنٹ لائن پر کام کرنے والے طبی عملہ کے لیے حفاظتی سامان کہیں نہیں تھا۔ جماعت اسلامی ، انکی ذیلی ڈاکٹروں کی تنظیم پیما ، دعا فاؤنڈیشن نے اس ضمن میں کئی ہسپتالوں میں جا کر ڈاکٹرز و طبی عملہ کے لیے حفاظتی کٹس فراہم کیں۔ سوشل میڈیاپر اس کے نتیجے میں ڈاکٹروں کے لیے حفاظتی سامان کی فراہمی کے لیے بھی خاصا چرچا رہا ۔
اسی طرح کورونا کے لاک ڈاؤن میں جہاں شادی و دیگر تقریبات کا انعقاد ممکن نہیں رہا تھا وہاں ملک کے دومعروف سینئر اداکار ثمینہ احمد اور منظر صہبائی کے نکاح کی خبر بھی ٹرینڈ کی صورت اختیار کر گئی۔تعلیمی ادارے سب سے پہلے پاکستان بھرمیں بند ہوئے تھے اس کے متبادل کے طور پر آن لائن کلاسز کا معاملہ اٹھا ۔مگر مختلف وجوہات کی بناء پر ان کلاسز کے خلاف لگاتار دوسرے ہفتے پھر محاذ گرم ہوا ۔اس میں چیئرمین ہائیر ایجو کیشن کمیشن کے استعفی کا مطالبہ کیا گیا۔ملک کے لاکھوں طلبہ جنہیں آن لائن کلاسز میں کئی مشکلات کا سامنا ہے، اُنہوں نے یکجا ہو کر تواتر سے سوشل میڈیا پر کئی بار ٹرینڈ کی صورت اپنی قوت کو ظاہر کیا۔اس دوران طلبہ پراُنکی جامعات کے ذریعہ فیس کا دباؤ بڑھایا گیا۔30مارچ کو ہائیر ایجو کیشن کمیشن نے تمام جامعات کو ہدایت کی اپنے وسائل ، سہولیات کے مطابق آن لائن کلاسز کا سلسلہ شروع کریں، تاہم یہ سہولت جامعات کو اگر کسی درجہ میں حاصل بھی ہو تو بھی تمام طلبہ و طالبات کو حاصل نہیں ہو سکتی ،کیونکہ لاک ڈاؤن کی صورتحال میںبڑی تعداد میں ملک کے طول و ارض سے آئے ہوئے طلبہ و طالبات اپنے آبائی گھر، گاؤ ں چلے گئے تھے۔ وہاں سے اُنہیں یہ ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ ، بجلی ، لیپ ٹاپ ، کمپیوٹر، کیمرا جیسی سہولت ہر وقت میسر ہونا ممکن نہیں۔کیمبرج امتحانات کے لیے ، میٹرک امتحانات کے لیے ، انٹر میڈیٹ امتحانات کے لیے مارچ ،اپریل کے مہینے نہایت اہم ہوتے ہیں جبکہ جامعات میں بھی مئی سے سمسٹر امتحانات شروع ہوتے ہیں۔آن لائن ایجو کیشن کا تجربہ پاکستان میں’ ورچوئل یونیورسٹی ‘کی شکل میں پہلے سے کام کر رہا ہے لیکن یہ عام حالات نہیں۔اس وقت ’زوم‘ ویڈیو کانفرنس کا سب سے زیادہ چرچا ہے اور مقبول بھی جس میںکئی سہولت والے فیچرز بھی شامل ہیں۔اس کے علاوہ گوگل کلاس روم ، ہینگ آؤٹ یا فیس بک لائیو اور یوٹیوب لائیو بھی آن لائن کلاسز کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔پاکستان میںطلبہ ایچ ای سی پر غصہ نکال رہے ہیں کیونکہ یہ ایپلیکیشن بڑی تعداد میںابھی پاکستان میںاستعمال نہیں ہوئی ہیں لیکن دُنیا بھر میں طلبہ ان ایپلی کیشن پر اپنا غصہ نکال رہے ہیں۔جی ہاں ۔ ہر ایپلی کیشن کے ساتھ پانچ ستارے جو آپ کو ریٹنگ کے نظر آتے ہیں وہ اس بات کو جاننے کے لیے ہوتے ہیں کہ یہ ایپ آپ کو کیسی لگی ؟آپ کی تعریف اُس ایپ کو مستند ہونے کا درجہ دلاتی ہے، لیکن سی بی سی نیوز کے مطابق دُنیا بھر میں ’گوگل کلاس روم ‘ کو بند کروانے کی خاموش مہم بچے چلا رہے ہیں اُس کی ریٹنگ مستقل نیچے لا کر۔فروری میں گوگل کلاس روم کی ریٹنگ 4.2تھی جو کہ اب 9اپریل تک2.8ہو چکی ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ بلا وجہ ہوں تبصروں میں نوٹیفیکیشن کی بھرمار، ہوم ورک ڈیلیٹ ہونے کی شکایت بھی نظر آئیں۔گوگل کلاس روم کے مقابلے میں ’زوم‘ کی ریٹنگ پھر بھی خاصی بہتر ہے اس وقت دنیا بھرمیں استعمال کے لحاظ سے بھی۔ہمارے اپنے کئی دوست اس ایپلیکیشن کے ذریعہ مشترکہ دفتری میٹنگز و دیگر لیکچر زکا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔پاکستان میں آن لائن تعلیم کے سلسلے میںایک اور بھی اہم مسئلہ ہے وہ اساتذہ کا ٹیکنالوجی سے آراستہ ہونا ، طلبہ کا بھی اور ساتھ ساتھ والدین کا بھی ٹیکنالوجی آشنا ہونا ضروری ہے۔ایک گھنٹہ کے کسی ایک لیکچر کی تیاری ،ادائیگی، ریکارڈنگ و دیگر میں خاصا وقت لگ جاتا ہے اگر لائیو نہ ہوریکارڈنگ ہو تو۔یو ٹیوب پر کئی افراد اپنا تدریسی چینل اچھے انداز سے چلا رہے ہیں۔بہر حال تعلیمی اداروں کے بند ہونے سیہر سطح پر تدریسی عمل متاثر ہوا ہے جس کے ازالے کے لیے گھر میں والدین ہی کچھ کردار ادا کر سکتے ہیں۔پنجاب حکومت نے آن لائن تدریس کے لیے چینل کا آغاز کر دیا ہے اسی طرح پاکستان میں بھی مختلف ادارے یہ کوششیں شروع کر چکے ہیں۔ کراچیکا سب سے معروف عثمان پبلک اسکول سسٹم اس تناظر میں بہت اچھے انداز سے اپنے 30کیمپس کے ہزاروں طلبہ و طالبات کو خصوصاً نویں دسویں جماعت کے لیے خصوصی کلاسز اور کورسز کی پر کشش انداز سے تدریسی پیشکش دیگر تعلیمی اداروں کیلیے بھی قابل تقلید عمل ہے ۔
کورونا کی وبا نے دُنیا بھر کو ہر ہر پہلو سے ہلا مارا ہے ۔لاک ڈاؤن ایام دُنیا بھر میں کیسے گزارے جا رہے ہیں سب سوشل میڈیا پر رقم ہو رہے ہیں۔ہیش ٹیگ متعارف ہوتے ہیں اور ٹرینڈ بن جاتے ہیں۔ پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان اور بلاول بھٹو زرداری پر لعن طعن کا سلسلہ وقفہ وقفہ سے جاری ہے۔ایسے میں مفتی منیب الرحمٰن ایک بار پھر مساجد کا لاک ڈاؤن ختم کرانے کے لیے ہیرو بن کر ابھرے جس کے جواب میں فیاض الحسن چوہان اور فواد چوہدری نے ایک بارپھر غلط بیانات دیئے اور اُن کو سوشل میڈیا پر خوب آڑے ہاتھ لیا گیا۔لوگ اتنا فارغ تھے کہ ڈرامے سے لے کر آن لائن گفتگو پر بھی ٹرینڈ بنا دیئے جسمیں ایک وقار ذکا والا ٹرینڈ بھی شامل تھا ۔اُس نے ایک پاکستانی نژاد امریکی گلوکارہ جس نے میرا جسم میری مرضی پر ایک گانا بنایا تھا اُس سے آن لائن گفتگوکی تھی۔اسی طرح امریکہ کے کسی ہوٹل میں لاک ڈاؤن کا شکار دو معروف پاکستانی اداکار ہمایوں سعید اور عدنان صدیقی بھی آن لائن ویڈیو کانفرنسنگ کرتے نظر آئے جو یو ٹیوب پر خاصے مقبول رہے۔لاک ڈاؤن میں جہاں بڑی تعداد میں رجوع الی اللہ کی جانب شروع میں متوجہ کیا گیا آہستہ آہستہ اُس کی جگہ گانوں، فلموں اور دیگر انٹرٹینمنٹ نے لے لی۔اس دوران شب برأت پر کچھ مذہبی جوش و جذبہ استغفار کے تناظر میں ضرور آیا۔اس ضمن میںسب سے زیادہ مزے داراقسام کی سازشی نظریات تھے جو وقتاً فوقتاً دُنیا کے مختلف حصوں سے وہاں کے مطابق انٹرنیٹ کی دنیا میںپیش کیے جاتے رہے۔
ان میںایک تازہ دلچسپ اور ہمارے موضوع سے متعلق 5Gٹیکنالوجی والا معاملہ ہے۔ یورپ بھرمیں یہ ہفتہ اِسی کی نظر ہوا جو چین تک میں پھیل گیا۔برطانیہ کے مختلف شہروں میں عوام نے کئی 5Gٹاورز جلا دیئے۔ ان کے مطابق پوری دُنیا میں کورونا تو بہانہ ہے اصل میں لوگوں کو گھر بٹھا کر 5Gٹیکنالوجی کے تجربات کرنے ہیں،کیونکہ ساتھ ساتھ یہ باتیں بھی سامنے آئی کہ کورونا انسانوں سے انسانوں میں منتقل نہیں ہوتا اسلیے یہ لاک ڈاؤن صرف ایک بہانہ ہے تاکہ اس سناٹے میں اس نئی ٹیکنالوجی کے تجربات کیے جا رہے ہیں،جسے ملٹری ہتھیار بھی کہا گیا ہے۔تمام موبائل کمپنیز نے اس بات کی تردید کی لیکن عوام ماننے کو تیار نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی اور مقاصد بھی ہوں، وہان ، جرمنی ، لندن میںہونے والا احتجاج یہ بتا رہا ہے کہ یہ تھیوری براعظم سے باہر نکلتی جا رہی ہے۔ بظاہر تو 5Gٹیکنالوجی انٹرنیٹ کی تیزی کو ظاہر کرنے کی علامت ہے جیسا کہ اس سے قبل3G،4Gکے متعارف ہونے پر ہوا۔تیز ترین پیٖغام رسانی اور ڈاؤن لوڈنگ سے عبارت ہے اسکی بنیاد ،لیکن تاحال نامعلوم وجوہات کی بناء پرابھی تک تفصیل سامنے نہیں آئی ماسوائے اس کی فریکوینسی جو کہ گیگا ہرٹز میں ہے اس کے تابکاری اثرات کو ہی مضر ترین قرار دیا گیا ہے۔ویسے تو ۵جی ٹیکنالوجی کے بارے میں کوئی ایک سال قبل سے ہی شور اُٹھا کہ یہ جو تابکاری ( ویوز) پھینکتا ہے وہ انسانی ڈی این اے پر بھی اثرات ڈالتی ہے۔جس طرح کورونا وائرس سے متعلق 2011میں ہالی ووڈ نے اپنی فیچر فلم ’کونٹاجن‘ تیار کی تھی جس میں موجودہ حالات کا کم و بیش ہو بہو نقشہ کھینچا گیااسی طرح موجودہ تمام ہالی ووڈ کی فلموں میں جو ٹیکنالوجی دکھائی جا رہی ہوتی ہے اُن سب میں ایسا ہی انٹر نیٹ نیٹ ورک دکھایا جاتا ہے جو کہ سیکنڈوں میں دُنیا بھر کی معلومات جمع کرلاتا ہے۔اس کے ساتھ ہی جو دوسرا سازشی منظر نامہ سماجی میڈیا پر ڈسکس ہوا وہ اسی سے متعلق یعنی ’ ڈیٹا ‘کی جنگ سے متعلق تھا۔ یعنی یہ کورونا کے ذریعہ جو دُنیا کے چلتے پہیے کو کچھ دیر روکا گیا ہے اس دوران سب کو اس نئی ٹیکنالوجی پر منتقلی کی جانب رغبت دلائی جائیگی جس کے نتیجہ میں دُنیا کے تمام انسانوں کی معلومات یعنی ’ڈیٹا‘ انٹر نیٹ پر آئیگا جسے قابو کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی گئی ہے5Gکی مدد سے۔ویسے یہ بتا دوں کہ 3Gاور4Gکی لاننچنگ کے موقع پر بھی ان ٹاورز سے نکلنی والی خطرناک ریڈی ایشن پر باتیںکی گئیں۔ ہم نے ذکر بھی کیا تھا کہ جنوب بھارتی مشہور فلم ڈائریکٹر نے اس موضوع پر ایک شاندار فلم روبوٹ2بھی بنا کر ان شعاعوں کے نقصان کوسمجھایا تھا۔

حصہ