پہاڑوں کے بیٹے

368

ام ایمان
(چوتھی قسط)
’’یہ بچہ بکریاں چرانے کے بہانے روسی قافلوں کے راستوں پر بارودی سرنگیں لگا دیتا تھا۔ ایک دفعہ وہ خاموشی سے اپنے کام میں مصروف تھا، اتنے میں ایک روسی ٹینک ادھر سے آنکلا۔ وہ دراصل راستہ بھٹک کر اپنے قافلے سے الگ ہوگیا تھا۔ کچھ فوجی روسی ٹینک سے اتر کر اس کے پاس آئے اور پوچھ گچھ کرنے لگے۔بچے نے اطمینان بخش انداز میں جواب دیا کہ وہ چرواہا ہے۔ انہوں نے اس کی بکریوں کے بارے میں پوچھا کہ ’’وہ کہاں ہیں؟ اور وہ خود انہیں چھوڑ کر یہاں کیا کررہا ہے؟‘‘
بچہ جواب دینے میں جھجکا جس سے فوجیوں کو شک ہوا۔ انہوں نے اسے پکڑ کر اپنے ساتھ ٹینک میں بٹھا لیا، اور اب ٹینک اسی راستے پر آگے بڑھا جہاں لڑکے نے کچھ دیر پہلے بارودی سرنگ لگائی تھی۔ جونہی ٹینک وہاں تک پہنچا، لڑکے نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔ ساتھ ہی بارودی سرنگ پھٹ گئی۔ ٹینک تو پاش پاش ہوگیا لیکن اللہ کی قدرت کہ لڑکا اس میں سے نکل کر دور جاگرا اور اسے ذرہّ برابر بھی چوٹ نہ آئی۔ وہ بالکل صحیح سلامت رہا۔ لیکن فوجی ایک بھی نہ بچا اور وہ ٹینک کے ساتھ ہی اُڑ گئے۔‘‘
بلال اور ہلال نوراللہ کی سچی کہانی نہایت انہماک سے سن رہے تھے۔ کمسن مجاہد کا کارنامہ سن کر ان کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں۔
’’بابا! آپ ہمیں بھی اپنے ساتھ لے چلیں۔ ہم بھی دشمنوں کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’ہاں بیٹا ضرور، لیکن ابھی کچھ اور بڑے ہوجائو گے تو پھر تم کو وہ تربیت لینی ہوگی جو تمہارے بھائی لے رہے ہیں، میں تمہیں خود لینے آئوں گا۔‘‘ زبیر نے جہاد کے مشتاق دونوں ننھے مجاہدوں کی کمر پر تھپکی دی اور انہیں باری باری سینے سے لگا کر پیار کیا۔
’’چلو ابھی تو تم اپنی ماں کا ہاتھ بٹائو سامان سمیٹنے میں، میں تمہارے ہاشم چاچا سے مل کر آتا ہوں۔‘‘ زینب ایک برتن میں حلوہ لے آئی ’’اتنے دنوں بعد ہاشم بھائی کے گھر جا رہے ہیں، خالی ہاتھ جاتے اچھا نہیں لگتا۔‘‘
زبیر نے خاموشی سے برتن تھاما اور باہر نکل گیا۔ زینب اس تخت پر بیٹھ گئی جس پر کچھ دیر پہلے محفل جمی تھی۔ وہ بہت کچھ سوچ رہی تھی۔ کیا ساتھ لے جانا ہے اور کیا چھوڑنا ہے؟ بھائی اور اس کے بچوں کے لیے کیا تحفہ لے کر جانا چاہیے؟ راستے میں کس کس چیز کی ضرورت پڑے گی؟
اس نے تخت پر بیٹھے بیٹھے گھر اور صحن پر ایک نظر ڈالی۔ بچے اپنے کھیل اور باتوں میں مگن تھے۔ پتا نہیں اس کو کیوں ایسا لگ رہا تھا کہ شاید اب دوبارہ اس گھر میں آنا نصیب نہ ہوسکے گا۔ اُس نے چونک کر اس منحوس خیال کو ذہن سے نکالا۔ فاطمہ کو ہلال اور بلال دونوں ہی چھیڑ رہے تھے کہ چاچا ہاشم تمہارے چوزوں کو بڑا کرکے دعوت اڑائیں گے۔
’’اماں! ہم اپنے چوزوں کو بھی ایک ڈبے میں ساتھ لے لیتے ہیں۔‘‘ فاطمہ نے تخت پر بیٹھ کر زینب کو تجویز پیش کی۔ اس کو اپنے پیارے چوزوں کی جدائی اور پھر ان کے اس انجام کے خوف نے افسردہ کردیا تھا۔
’’نہ بیٹا، اگر ہم انہیں ساتھ لے جائیں گے تو یہ وہاں پہنچنے سے پہلے ہی مر جائیں گے۔ راستے میں ان کا خیال رکھنا مشکل ہے۔‘‘ زینب نے فاطمہ کے بال سنوارے۔
یہ سن کر کہ راستے ہی میں چوزے مر جائیں گے، فاطمہ انہیں ہاشم چاچا کے ہاں چھوڑ دینے پر راضی ہو ہی گئی۔
اگلی صبح بڑی ہنگامہ خیز تھی۔ صبح تڑکے اٹھ کر زینب نے سامان دو تین بکسوں اور کپڑے کی ایک گٹھڑی میں باندھا۔ باقی گھر کا سارا سامان ایک کمرے میں بند کرکے تالا لگا دیا۔ زبیر نے ہاشم کو گھر کی چابی دے دی۔ باہر باڑے سے جانوروں کو لے جانے اور ان کا خیال رکھنے کی ہدایت کی۔ گھر کی چابی دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی ضرورت کے لیے گھر اور اس کے سامان کی ضرورت پڑے تو بلا تکلف استعمال کرلینا۔
ہاشم نے زبیر کو سینے سے لگا کر خدا حافظ کہا تو آنکھوں میں تارے سے چمکنے لگے۔ ’’زبیر! میرے یار! خدا تمہیں کامیابی عطا کرے، گھر کی بالکل فکر نہ کرنا۔ میرا دل کہتا ہے کہ کسی دن تم مجھے بھی وہاں پائو گے۔‘‘ زبیر کے کان میں ہاشم نے سرگوشی کی۔
سامان تو پہلے ہی بیل گاڑی پر لاد دیا گیا تھا، تینوں بچوں کے ساتھ زینب بھی زرغونہ کے ساتھ مل کر بیل گاڑی میں بیٹھ گئی۔ زبیر بھی ہاشم سے مل کر کوچوان کے برابر جا بیٹھا۔ بیل گاڑی نے آہستہ آہستہ اپنے سفر کا آغاز کیا۔
ہاشم کے ہلتے ہوئے ہاتھ آہستہ آہستہ دور ہوتے چلے جارہے تھے۔ گاڑی گائوں کی حدود سے باہر نکلی تو زبیر کے کان میں ہاشم کی سرگوشی گونجنے لگی۔ وہ زیر لب مسکرا اٹھا۔ گائوں سے باہر آتے آتے گھر کی جھلک دھندلی نظر آنے لگی تھی، لیکن ابھی بھی سب کی نظریں وہیں لگی تھیں۔ جدائی کی افسردگی دلوں کو بھینچ رہی تھی۔
کھیتوں کی ہریالی اور بڑے بڑے سایہ دار درخت دور تک ساتھ چلتے چلے گئے، اور پھر آخرکار انہوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا۔ اب خشک میدانی علاقہ تھا جس کے بعد سنگلاخ پہاڑی علاقہ شروع ہوتا تھا۔ انہیں بیل گاڑی کے ذریعے قریبی قصبے تک پہنچ کر وہاں سے بس لینی تھی۔
فاطمہ تو کب کی بیل گاڑی کے ہچکولوں میں جھولتی سو چکی تھی۔ بلال اور ہلال بھی نیند سے جھوم رہے تھے۔ آخر انہوںنے بھی اپنے سر گٹھڑی پر ٹکا لیے اور نیند کے مزے لینے لگے۔
زبیر نے زینب کی طرف دیکھا، وہ بھی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ ’’اس دفعہ شاید بہت دیر سے ملنا ہو۔ تم پریشان ہو ناں؟ تم کو تو پتا ہے کہ کابل کا سفر کتنا خطرناک ہوچکا ہے۔‘‘
زینب کی آنکھوں کے کٹورے چھلک اٹھے۔ آنسوئوں کی دھند میں زبیر اسے واقعی نظر نہ آیا۔ اس نے منہ پھیر کر آنچل سے آنکھیں صاف کیں۔ ’’دیکھو شیر دل بھائی سے مشورہ کرکے ہلال اور بلال کو کسی اسکول میں داخل کرا دینا لیکن کسی سرکاری اسکول میں نہ بھیجنا۔ روسی وہاں سے ہمارے بچوں کو مزید تعلیم کے بہانے روس بھجوا دیتے ہیں، تاکہ وہاں انہیں ملحدانہ تعلیم کے ذریعے کافر بنائیں اور پھر اپنا ایجنٹ بنا کر فوائد حاصل کریں۔‘‘
زبیر آگے دیکھ کر کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ دور اُڑتی ہوئی دھول کسی گاڑی کے آنے کا پتا دے رہی تھی۔ گاڑی بان نے بیلوں کو ایک طرف کنارے کرلیا۔ زبیر نے زینب کی طرف تشویش سے دیکھا۔ زینب نے چادر میں اپنا آپ اور اچھی طرح ڈھانپ لیا۔ اب گاڑی بان نے بیل گاڑی راستے سے اتارکر ایک طرف کرلی تھی۔ ایک عام ہدایت تھی کہ فوجی گاڑی کو فوراً جانے کا راستہ دینا ہے۔ دھول اڑاتی بکتربند گاڑی قریب آکر رک گئی۔ گاڑی میں بیٹھے روسی فوجی زینب کو دیکھ رہے تھے۔ ان کی آنکھوں میں خاص چمک تھی۔
زبیر کو اپنی رگوں میں خون ابلتا ہوا محسوس ہوا۔ اس کا ایک ہاتھ چادر میں چھپی کلاشنکوف پر جم گیا۔ اچانک ڈرائیور کے برابر بیٹھے روسی افسر نے کلائی پر نظر ڈالی اور ڈرائیور کو ہدایت کی۔ اس نے گاڑی تیزی سے آگے بڑھا لی۔ زبیر نے ایک گہرا سانس لیا۔ گاڑی بان نے بھی مطمئن ہوکر رفتار تیز کردی۔
’’کتنی دیر اور لگے گی قصبے تک پہنچنے میں؟‘‘ زبیر نے گاڑی بان سے پوچھا۔
گاڑی بان نے کہا ’’بس تھوڑی ہی دیر میں ہم قصبے کے باہر بس اڈے پر پہنچنے والے ہیں‘‘۔ اڈے پر بھی روسی فوجی موجود تھے، لیکن وہ صرف آنے والی بسوں کو دیکھ رہے تھے۔ شاید انہیں کوئی خاص اطلاع ملی تھی۔
زبیر نے ایک بس والے سے بات کرکے سامان اوپر رکھوایا۔ بچوں اور زینب کو بٹھاکر خود بھی اطمینان سے بیٹھ گیا۔ آدھی بس تو پہلے ہی بھری ہوئی تھی، تھوڑی ہی دیر میں پوری بھر گئی۔ راستہ خاموشی سے کٹا۔ زبیر اور زینب دونوں نے زیادہ باتیں کرنے سے گریز کیا۔ بچے کھڑکی کے باہر کے نظاروں میں گم رہے۔ ان کے لیے یہ پہلا سفر تھا جس میں انہیں بہت سی انوکھی باتیں دیکھنے کو مل رہی تھیں۔ یہ کیسا گھر ہے؟ فاطمہ کو دور چھوٹے گھروں کے درمیان ایک کئی منزلہ عمارت نظر آئی تو اس نے تجسس سے پوچھا۔ ’’اس طرح کی عمارت میں بہت سے گھر ہوتے ہیں۔ ایک کے اوپر ایک… انہیں فلیٹ کہتے ہیں۔ ایسی عمارتیں گائوں میں نہیں شہروں میں ہوتی ہیں۔ جب تم کابل دیکھو گی تو حیران ہوجائو گی۔‘‘
’’بھیا! تم نے کیسے پتا کیا؟ کیا تم نے کابل دیکھا ہے؟‘‘
’’نہیں کابل تو نہیں دیکھا لیکن میں تمہاری طرح بے وقوف بھی نہیں ہوں۔ ویسے بابا نے ایک دفعہ بتایا بھی تھا‘‘۔ بلال نے فاطمہ کو چڑایا۔ فاطمہ نے ناراضی سے منہ بناکر دوبارہ کھڑکی سے باہر دیکھنا شروع کردیا۔ وہ بلاوجہ کے بحث مباحثہ میں پڑ کر اتنے خوب صورت مناظر کو کھونا نہیں چاہتی تھی۔
دوسرے دن صبح صبح وہ لوگ کابل خورد کے پاس اتر گئے۔ زینب سامان کے پاس کھڑی تھی۔ اس نے اطمینان کا سانس لیا۔ ’’میکے کے شہر کی ہوا میں بھی ایک اپنائیت کا احساس ہے‘‘ اس نے سوچا۔ اتنے میں شیر دل ایک بیل گاڑی والے کو لے آیا۔ سامان رکھوا کر وہ لوگ چلے تو زینب کا دل خوشی کے مارے عجیب طرح دھڑک رہا تھا۔
شیر دل اتنے عرصے کے بعد بہن کو دیکھ کر بے حد خوش ہوا۔ بھابھی صفیہ نے زینب کو گلے لگایا۔ بلال اور ہلال بھی اپنے ساتھیوں مہرو اور افروز سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ فاطمہ الگ کھڑی حیران حیران سب کو دیکھ رہی تھی۔ صفیہ نے اسے یوں حیران دیکھ کر پیار سے گلے لگا لیا، اور پیشانی چوم کر بولی ’’یہ تو بنی بنائی زینب ہے۔ دیکھو تو کمرے میں تمہاری ایک بہت بھی تمہارا انتظار کررہی ہے‘‘۔ فاطمہ کے ساتھ زینب نے بھی استفہامیہ نظروں سے صفیہ کو دیکھا۔ ’’اچھا میری بہن! ہائے بھیا آپ نے مجھے اطلاع کیوں نہ بھیجی؟‘‘ زینب نے بھائی سے شکوہ کیا۔
میکے کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی اس کے لہجے میں ایک ناز نخرے کا انداز در آیا تھا۔ زبیر نے دلچسپی سے اس کی طرف دیکھا۔ زینب، صفیہ اور فاطمہ آگے پیچے اندر کمرے میں داخل ہوئیں۔ لکڑی کے موٹے موٹے پائے والے پلنگ پر رنگ برنگے کڑھے ہوئے تکیے پر سر رکھے فاطمہ سے ایک آدھ سال چھوٹی بچی بے خبر سو رہی تھی۔
زینب سے سرہانے بیٹھ کر محبت سے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا ’’کیا نام رکھا ہے میری بھتیجی کا؟‘‘
’’گل جانہ‘‘۔
فاطمہ نے دو قدم آگے بڑھ کر اسے غور سے دیکھا۔ پھولے پھولے گالوں اور سرخ ناک والی گل جانہ اسے بہت اچھی لگی۔ وہ سوچ رہی تھی چلو مجھے بھی ایک سہیلی مل گئی۔
’’مامی! یہ کب اٹھے گی؟‘‘
’’بیٹا یہ تھوڑی دیر میں اٹھ جائے گی، تم بھی تو تھک گئی ہوگی، کچھ دیر آرام کرلو۔ میں تب تک ناشتا تیار کرلوں۔‘‘
سب نے مل کر ناشتا کیا، لیکن بچوں کو آرام کہاں تھا! زینب اور زبیر تو کچھ دیر لیٹ گئے، لیکن بچے اپنے کھیل میں مشغول ہوگئے۔ شیر دل بھی باہر نکل گیا۔ ساتھ ہی زینب کو آرام کی ہدایت کرتے ہوئے کہتا گیا کہ باقی تفصیلی باتیں شام کو ہوں گی۔
رات کے کھانے کے بعد شیر دل اور زبیر فراغت سے باتیں کرنے بیٹھے تو زینب اور صفیہ بھی آگئیں۔ شیر دل کو تاریخ سے بہت دل چسپی تھی۔ دکان اور اسکول کی مصروفیت کے ساتھ ساتھ اسے مطالعے کا شوق بھی تھا۔ پھر کابل کے قریب رہنے کے باعث اسے ملک کے حالات کا علم بھی زیادہ تھا۔
’’بھائی شیر دل! میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ روس کو افغانستان کی خشک، بے آب و گیاہ زمین سے کیا دل چسپی ہے؟‘‘
’’دراصل روسی حکمرانوں کو ایک طاقت ور قوم اور وسیع و عریض ملک کا جنون ہوگیا ہے۔ یہ جنون تازہ نہیں بہت پرانا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد روس نے مشرقی یورپ میں البانیہ، ہنگری، پولینڈ، چیکو سلواکیہ، فن لینڈ پر قبضہ کیا، پھر ترکی، چین، جاپان اور ایران کے بھی کچھ حصوں پر قابض ہوگیا۔‘‘
’’اتنے بڑے اور وسیع علاقوں پر قبضے کے بعد بھی روس کو افغانستان کی ضرورت تھی؟‘‘
’’میرے بھائی! طاقت ور بننے کا جنون جب ایک بار پیدا ہوجائے تو وہ قوم پاگل ہوجاتی ہے۔ اسی پاگل پن میں وہ اتنی آگے بڑھ جاتی ہے کہ خود اپنے لیے نقصان دہ بن جاتی ہے۔ ملک گیری کی ہوس روس کے لیے بھی ایک دن انتہائی نقصان دہ بن جائے گی۔ پھر افغانستان پر قابض ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ابھی تک روس کو گرم پانیوں تک پہنچنے کا راستہ نہیں مل سکا۔ یوں بھی روسی حکمران مسلمانوں سے ہمیشہ خوف زدہ رہے ہیں۔ سائبیریا، داغستان، شیشان، ترکی میں چلنے والی جہادی تحریکوں نے تین سو سال تک روس کا ناطقہ بند کیے رکھا تھا۔‘‘
’’آپ کی معلومات تو بہت وسیع ہیں۔‘‘ زبیر انہماک سے شیر دل کی باتیں سن رہا تھا۔
’’ہاں میں نے روس کے افغانستان میں داخلے کے بعد اس موضوع پر بہت مطالعہ کیا ہے۔ آج افغانستان میں روس جو کچھ کر رہا ہے، اس سے پہلے وسط ایشیا کی تمام مسلمان ریاستوں کے ساتھ کرچکا ہے۔ خود روسی مصنف ’’حذیوف‘‘ اس کے ظلم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’جب روس نے قفقاز پر حملہ کیا تو یہ سارا علاقہ وہاں کی عظیم سرکاشی قوم کا مقبرہ بنا دیاگیا، کاشان پر قبضے کے بعد وہاں کے بچوں کے سوا ساری آبادی کو تہ تیغ کردیا گیا۔‘‘
شیر دل کی نگاہیں دور کہیں بہت دور دیکھ رہی تھیں، گویا وہ ان مظالم کو یوں محسوس کر رہا تھا جیسے وہ اس کے سامنے ہو رہے ہوں۔ (جاری ہے)۔

حصہ