میڈیا معاشرے کو بگاڑ رہا ہے

5660

حرا شبیر
نوجوان کسی بھی ملک کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں، ملک کے مستقبل کی باگ ڈور آگے چل کر نوجوان نسل کو ہی سنبھالنا ہوتی ہے۔ ہمارے نوجوان طلبہ و طالبات ذہنی اعتبار سے بے شمار صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ یہ نہ صرف وسیع ذہن رکھتے ہیں بلکہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی بدولت معاشرے میں مثبت تبدیلی لاسکتے ہیں۔ زیرنظر مضمون میں اس بات کا احاطہ کیا جائے گاکہ میڈیا ہمارے طلبہ پر کیا اثرات مرتب کررہا ہے، ان کی زندگیوں میں کیا تبدیلیاں پیدا کررہا ہے ۔ اس موضوع پر بات کرنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ یہ موجودہ دور کا نہایت اہم مسئلہ ہے، لہٰذا میں نے سوچا اس موضوع پر کچھ لکھا جائے اور اپنی رائے کا اظہارکرتے ہوئے یہ بات واضح کی جائے کہ میڈیا ہماری نوجوان نسل کو کس طرح تباہی کی طرف لے جارہا ہے، اس کے ذریعے کیسے ہماری اخلاقی اقدار تباہ ہورہی ہیں اور ہمارے نوجوان طلبہ کس طرح روز بروز اپنی تہذیب و روایات سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ اس موضوع پر بات کرنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ معاشرے میں میڈیا کے بڑھتے ہوئے منفی رجحان سے متعلق لوگوں میں آگاہی پیدا کی جائے، اس کے منفی اثرات کو روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں، اور نوجوان طلبہ کو اس کے منفی اثر سے بچایا جائے۔
دورِ جدید میں میڈیا کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ موجودہ معاشرہ مکمل طور پر میڈیا پر انحصار کرتا ہے۔ نوکری تلاش کرنی ہو یا کسی بھی قسم کی معلومات حاصل کرنی ہوں… سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، ڈیجیٹل میڈیا اور پیپر میڈیا سے ہی مدد حاصل کی جاتی ہے۔ میڈیا کی بدولت دنیا گلوبل ولیج بن گئی ہے۔ ٹیلی گراف، ریڈیو، اخبارات، میگزین اور انٹرنیٹ کے استعمال نے دنیا کو ایک دوسرے کے بے حد قریب کردیا ہے۔ ایک لمحے میں دنیا بھر کی خبریں ایک جگہ سے دوسری جگہ بآسانی بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچ جاتی ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی نے نئی نسل کی زندگیوں میں نمایاں تبدیلیاں پیدا کرنے کے ساتھ انھیں جدید زندگی گزارنے کے بہت سے مواقع بھی فراہم کیے ہیں۔ موجودہ دور میں میڈیا کا کردار اس حوالے سے بہت اہم ہے کہ صبح سویرے جاگنے سے لے کر رات سونے تک یہ ہمارے اردگرد ایک دنیا تعمیر کررہا ہوتا ہے۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ میڈیا کا نوجوانوں کو آگاہی دینے میں مؤثر کردار ہے۔ میڈیا سے حاصل ہونے والی نت نئی معلومات نوجوان نسل کی ذہنی صلاحیتوں کو جِلا بخشنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ ان معلومات کی بدولت ان کے اندر تجزیہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ میڈیا کا تعلیم کے فروغ میں بھی اہم کردار ہے۔ پرنٹ میڈیا یعنی اخبارات و رسائل میں مختلف موضوعات پر مضامین شائع ہوتے ہیں جو طلبہ کے علم میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا بھی مذاکروں اور ٹاک شوزکے ذریعے معاشرے کی خوبیاں اور خامیاں سامنے لاتا ہے، عوامی مسائل کی نشاندہی کرتا ہے، طلبہ کے اندر سوچ وفکر کا مادہ جگاتا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر سائنس و ٹیکنالوجی اور دیگر معلوماتی پروگرام طلبہ کے لیے نہ صرف دلچسپی کا باعث بنتے ہیں بلکہ انھیں جدید معلومات سے بھی آگاہ رکھتے ہیں۔ ہر چیز کے جہاں فوائد ہوتے ہیں وہیں نقصانات بھی ہوتے ہیں، لیکن غور کیا جائے تو میڈیا نوجوان نسل پر مثبت سے زیادہ منفی اثرات ڈال رہا ہے۔ میڈیا نے پوری دنیا کو سمیٹ کر ایک گھر کی شکل دے دی ہے، جس طرح ایک فرد گھر کے گوشے گوشے سے واقف ہوتا ہے بالکل اسی طرح میڈیا نے پوری دنیا میں ہونے والی ہر اچھائی اور برائی سے تمام افراد کو واقف کردیا ہے۔آج گھر بیٹھے کوئی بھی فرد دنیا کے کسی بھی حصے کے بارے میں آگاہی حاصل کرسکتا ہے۔ اخبارات، رسائل، ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر، فلم،کمپیوٹر، ٹیلی فون، موبائل فون، وائرلیس، فیکس اور انٹرنیٹ وغیرہ سب ہمارے لیے مفید اور اہم ہیں، لیکن ان کا غلط استعمال ان کے مفید ہونے سے زیادہ مضر ہے۔ یونیسکو کے ایک سروے کے مطابق دنیا بھر میں میڈیا روزانہ 120 چینلز کے ذریعے سترہ ہزار گھنٹے کا پروگرام نشرکرتا ہے، جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ پوری دنیا کے پچاس فیصد لوگ ٹی وی کی وجہ سے اپنے کھانے پینے، سونے، کام کرنے اور لکھنے پڑھنے کے اوقات تبدیل کردیتے ہیں۔ ان کی قوتِ فیصلہ پر بھی ٹی وی اثرانداز ہوتا ہے۔ شعوری اور غیر شعوری طور پر میڈیا سے سب سے زیادہ نوجوان نسل متاثر ہورہی ہے۔
بچوں کی تربیت اگر صحیح طور سے نہ کی جائے تو وہ بے راہ روی، ذہنی انتشار اور عدم توجہی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ نوعمری میں تجسس کا جذبہ موجود ہوتا ہے جس کی وجہ سے بچے ہر چیز میں دلچسپی لیتے ہیں اور اپنے تجسس کا اظہار کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ٹی وی ایک وبا کی صورت پھیل گیا ہے، خاص کر کیبل ٹی وی نے ہمارے بچوں اور نوجوانوں کو اپنے مذہب، ثقافت، اقدار و روایات، رسم و رواج اور تہذیب و تمدن سے بیگانہ کردیا ہے۔ کیبل ٹی وی کے ذریعے دنیا بھر کے ٹی وی چینلز دیکھے جارہے ہیں، اور ان چینلز پر ایسے بہت سے پروگرام دکھائے جاتے ہیں جو ہماری تہذیب و ثقافت سے ہرگز مطابقت نہیں رکھتے۔ ہمارا ملک پاکستان ایک اسلامی و نظریاتی مملکت ہے۔ ہماری اپنی تہذیب، ثقافت، رسم و رواج اور عقائد ہیں۔ آج سیٹلائٹ ٹرانسمیشن کے ذریعے مغربی ممالک اپنی ثقافت اور روایات کا پرچار پوری دنیا میں کررہے ہیں۔ درحقیقت سیٹلائٹ نشریات کے ذریعے اہلِ مغرب نے براعظم ایشیا بالعموم ایشیا کے مسلم ممالک میں ایک جال بُننا شروع کردیا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ نوجوان نسل کو اسلام سے بے بہرہ رکھا جائے۔ اس سلسلے میں ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی مثال موجود ہے جو اپنے نیم عریاں پروگراموں کے ذریعے مسلم بچوں اور نوجوانوں کے ذہنوں کو بدلنے میں مصروف ہے۔ ٹیلی ویژن نے خاندانوں کو منتشر کردیا ہے۔ پہلے بچے بڑوں کے ساتھ بیٹھتے تھے، اُن سے تمیز، تہذیب کی باتیں سیکھتے تھے، لیکن اب بزرگوں کی جگہ ٹیلی ویژن نے لے لی ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن میں بھی نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں۔ ٹیلی ویژن کا وقت بڑھا دیا گیا ہے، پہلے بارہ بجے تک چینلز بند کردیے جاتے تھے، اب چوبیس گھنٹے ٹی وی چینلز رواں دواں رہتے ہیں۔ تعلیمی و تدریسی پروگرام بہت کم نشر کیے جاتے ہیں جبکہ تفریحی پروگرام اور ڈرامے دن رات جاری رہتے ہیں۔ دورانِ ڈراما اشتہارات کی بھرمار ہوتی ہے جن میں خاندانی منصوبہ بندی کے اشتہار بھی شامل ہوتے ہیں، جو نوجوانوں کے ذہنوں پر غلط اثر ڈالتے ہیں۔
میڈیا کی آزادی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ہمارے ملک میں مغربیت اور غیر مسلموں کے طور طریقے فروغ پا رہے ہیں۔ نوجوان نسل کے حلیے، لباس، وضع قطع، طور طریقے، لب و لہجہ، اسٹائل اور حرکات تبدیل ہوتی جا رہی ہیں۔ عریانی، بے حیائی اور بداخلاقی پھیل رہی ہے۔ ترقی یافتہ کہلانے کے لیے بے حیائی علامت بنتی جارہی ہے۔آج ہمارے بچے آپس میں سلام کرنے کے بجائے ہیلو ہائے کرتے ہیں، نمستے تک کہہ دیتے ہیں۔ بچوں کو ڈانس اور موسیقی کے سب رنگ یاد ہیں، لیکن اپنے مذہب سے متعلق بنیادی معلومات تک نہیں، اس معاملے میں وہ بالکل کورے ہیں۔ وہ نہیں جانتے نماز چھوڑنے کی معافی نہیں، روزہ رکھنے کا حکم کیوں دیا گیا ہے، مذہبِ اسلام میں کن چیزوں کو کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور کن چیزوں کو کرنے سے روکا گیا ہے؟ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کیبل نشریات کی وجہ سے طلبہ باخبر اور باشعور ہوگئے ہیں۔ ایک کونے میں نشر ہونے والی خبر دوسرے کونے میں بآسانی سنی اور دیکھی جاسکتی ہے۔کیبل مختلف مقاصد کی تکمیل کرتا ہے، بچے ٹی وی پر کیبل پروگرام دیکھنے کی وجہ سے زیادہ تر وقت گھر پر ہی گزارتے ہیں۔ ٹیلی ویژن پر دوسرے ممالک کے اشتہارات، خبریں، کھیلوں سے متعلق معلومات اور کرنٹ افیئرز سے بھی واقفیت حاصل ہوتی ہے۔ اہم شخصیات کے انٹرویوز اور دوسرے معلوماتی اور مذہبی پروگراموں کے ذریعے ثانوی سطح کے طلبہ بہت استفادہ کرسکتے ہیں۔ ان تمام باتوں سے راقمہ کو انکار نہیں، لیکن راقمہ کے خیال میں کیبل نشریات نوجوان طلبہ پر مثبت سے زیادہ منفی اثرات مرتب کررہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کیبل نشریات پر اس وقت مغرب کی حکمرانی ہے جس کے افکار، خیالات اور نظریات ہمارے معاشرے سے میل نہیں کھاتے۔ ہمارا رہن سہن، تہذیب و ثقافت، غرض زندگی کا ہر شعبہ اُن سے مختلف ہے، اس کے باوجود ہمارے ملک میں کیبل نشریات دن بہ دن مقبولیت حاصل کررہی ہیں۔ کیبل چینلز پر جو ڈرامے دکھائے جاتے ہیں اُن میں ادا کیے جانے والے جملے طلبہ کی زبان پر رہتے ہیں اور وہ انھیں بولنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ جنگ و جدل سے بھرپور فلمیں دیکھ کر جوان ہونے والی نسل کے نزدیک انسانی زندگی کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ نئی نسل اپنی عمر سے زیادہ بڑی ہوگئی ہے۔
نوجوان طلبہ مختلف قسم کے جرائم میں ملوث ہورہے ہیں، کتابوں سے دور اور اسلحہ سے نزدیک ہوتے جا رہے ہیں۔ نیم عریاں اور فحاشی سے بھرپور پروگرام دیکھ کر رشتوں کے تقدس کو بھولتے جارہے ہیں۔ ان کی زبان اور مزاج خراب ہوتا جارہا ہے۔کیبل کی نشریات مسلسل دیکھنے سے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتیں منتشر ہوگئی ہیں۔ بعض بچے تیز آواز میں ٹی وی سنتے ہیں اور بعض ٹی وی کے بہت قریب کھڑے ہوکر دیکھنے کے شوقین ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی بینائی اور سماعت دونوں متاثر ہوتی ہیں۔ دورِ جدید میں سیٹلائٹ نشریات کے ذریعے دکھائے جانے والے پروگرام بے ہودہ ہوتے ہیں، انگریزی نہ سمجھنے والے لوگ بھی ان چینلز سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس طرح کے چینلز سے بے حیائی عام ہورہی ہے۔ سیٹلائٹ ٹرانسمیشن کے ذریعے اچھائی اور برائی کو اس انداز سے پیش کیا جارہا ہے کہ بچے تذبذب کا شکار ہیں، وہ اچھائی اور برائی میں تمیز نہیں کر پا رہے، اور اپنی سمجھ کے مطابق اس سے مطلب اخذ کررہے ہیں۔ آج کل ہمارے ملک میں سینکڑوں کے حساب سے بننے والی فلمیں، ڈرامے ،کارٹون اور موسیقی کے پروگرام مکمل طور پر مغربی یا ہندو ثقافت کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ان میں اللہ، رسول،آخرت، اخلاقیات اور قومی ذمہ داری کا تذکرہ تک نہیں ہوتا۔ سیٹلائٹ نشریات کے سبب ہمارے معاشرے پر اتنے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں کہ ہمیں اپنا مذہب دقیانوسی، زبان فرسودہ، اپنی روایات ناقابلِ فہم اور رسومات مضحکہ خیز معلوم ہونے لگی ہیں۔ مغرب نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو جنگ چھیڑ رکھی ہے وہ توپوں اور بندوقوں کی جنگ نہیں، بلکہ اصل جنگ میڈیا کے ذریعے لڑی جانے والی جنگ ہے۔ یہ جنگ ایٹم بم اور ہتھیاروں سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ اسلام دشمن عناصر نوجوان نسل کو فوج اور اسلحہ کے ذریعے قتل کرنے کے بجائے میڈیا کے ذریعے قتل کررہے ہیں، کیونکہ میڈیا کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ وہ حقائق کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج میڈیا پر دکھائے جانے والے پروگراموں کے ذریعے ہمارے نوجوان پاپ سنگر تو بن سکتے ہیں لیکن پاکستان کے مستقبل کی ضمانت نہیں دے سکتے۔
میڈیا ایک طاقتور ذریعہ ہے جو نوجوان ذہنوں پر مثبت اور منفی دونوں طرح کے اثرات مرتب کرتا ہے۔ یہ عمر ہوتی ہی ایسی ہے جب نوجوان ہر بات سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں، اُن کا ذہن جس طرف بھی لگایا جائے فوراً اس طرف راغب ہوتے ہیں، اور ہر بات کو بہت تیزی سے قبول کرتے ہیں۔ بلاشبہ موجودہ دور ابلاغ کا دور ہے، ٹیلی ویژن نے ہمارے گھر میں اہم مقام حاصل کرکے گھر کے ایک فرد کی حیثیت حاصل کرلی ہے۔ ٹیلی ویژن کے ذریعے گھر بیٹھے دنیا بھر کی خبروں سے باخبر رہا جا سکتا ہے لیکن میڈیا اپنا کردار ذمہ دارانہ طریقے سے اداکرتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے، ایک ایسا ملک جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا، اور جس کے حصول کے لیے کتنے ہی لوگوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دیے۔ اسی حوالے سے اسے’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کہا جاتا ہے، لیکن جو کچھ ہمارے ملک میں میڈیا کے ذریعے پیش کیا جارہا ہے وہ ہماری اسلامی تعلیمات، دینی معاشرت اور معاشرتی اقدار سے قطعی مختلف ہے، اور اس کے سب سے زیادہ منفی اثرات نوجوانوں پر پڑ رہے ہیں۔ ٹی وی، کمپیوٹر اور موبائل کا ہر وقت کا استعمال طلبہ کی تعلیمی کارکردگی پر اثرانداز ہورہا ہے۔ تعلیم کی طرف طلبہ کا رجحان دن بہ دن کم ہوتا جارہا ہے۔ مطالعہ کرنے کی عادت میں بھی خطرناک حد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ میڈیا کے آزادانہ استعمال نے اخلاقی قدروں کو بھی پامال کردیا ہے۔ نوجوانوں کے اندر والدین، بزرگوں اور اساتذہ کا لحاظ باقی نہیں رہا ہے، وہ کسی پابندی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ میڈیا کا بنیادی مقصد اور اہم فریضہ تو یہ ہونا چاہیے کہ وہ صحیح تعلیم و تربیت اور رہنمائی کا کام تعمیری بنیادوں پر کرے۔ راہِ ہدایت اور حق کی روشنی عام کرے، خیر و شر کی صحیح تصویرکشی کرے۔ لیکن بدقسمتی سے میڈیا پر جو لوگ قابض ہیں وہ اس بنیادی اصول کے قائل نہیں۔ ایسی صورت حال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت مناسب قواعد و قوانین مرتب کرے اور ان پر عمل درآمد کے لیے مناسب اقدامات کرے۔ ایسی حکمتِ عملی اپنائی جائے کہ جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے ہمارے نوجوان طلبہ اپنی اقدار کے ساتھ زمانے کے قدم سے قدم ملا کر چل سکیں۔
نوجوان نسل پر میڈیا کے بڑھتے ہوئے منفی اثرات کے سدباب کے لیے چند سفارشات درج ہیں جن پر عمل کرکے نوجوان طلبہ میں مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے:
1۔ ٹیلی ویژن پر ایسے معلوماتی پروگرام پیش کیے جائیں جن کے ذریعے نوجوانوں کو آگاہی دی جا سکے اور ان کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ کسی بھی چیز کا ضرورت سے زیادہ استعمال کسی بھی طرح مناسب نہیں ہوتا۔
2۔ ٹیلی ویژن پر ڈراموں کے ذریعے پاکستانی ثقافت کو اجاگر کیا جائے اور مغربی ثقافت کی حوصلہ شکنی کی جائے۔
3۔ قتل و غارت گری کی خبروں کو دکھاتے وقت احتیاط کی جائے۔
4۔ والدین، بچوں سے دوستانہ رویہ اپنائیں اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔
5۔ کیبل پر پیش کیے جانے والے معیاری اور معلوماتی پروگراموں سے استفادہ کیا جائے۔
6۔ ٹی وی چینلز کی نشریات کا دورانیہ کم کیا جائے۔
7۔ تاریخ سے متعلق اور مشہور شخصیات کی زندگی پر مبنی ڈاکیومنٹریز بناکر پیش کی جائیں۔

حصہ