خاک ہوجائیں گے ہم ، تم کو خبر ہونے تک

321

معوذ اسد صدیقی

معوذ اسد صدیقی ہمارے دوست ہی نہیں بھائیوں جیسے ہیں، آجکل امریکہ نیویارک میں بیورو چیف دنیا نیوز صحافتی فرائض انجام دے رہے ہیں نیویارک میں آپ کی سماجی سرگرمیوں سے تمام ہی پاکستانی باخبر رہتے ہیں اکنا ریلیف کی ہر ہفتے سماجی خد ما ت کی وڈیوز ان ہی کی بدولت ہم پاکستانیوں تک پہنچتی ہیں- آپ اور آپ کے اہل خانہ امریکہ میں رہتے ہوئے پاکستانیوں اور امریکنز کی کی جس طرح مدد کررہے ہیں وہ قابل تعریف ہے۔ پچھلے دنوں کورونا وائرس نے ان کے اہل خانہ کو بھی شدید متاثر کیا مگر الحمد للہ سب لوگ روبہ صحت ہیں -آپ نے اپنے صحافی دوستوں کو وہاں کے حالات لکھ بھیجے تھے مگر افسوس کہ کسی اخبار کے صحفی نے ان کے خیالات کو حکومت کی پالیسیز کی وجہ سے اپنے اخبار میں کوئی جگہ نہیں دی – چنانچہ میری کوشش ہے کہ ان کی یہ تحریر آپ سب قارئین تک ضرور پہنچاؤں ، جس میں کرب ، درد اور افسوس سب شامل ہے –

نہ ہمدری کے دو بول، نہ تعزیت، نہ افسوس مگر چندے کی اپیل یہ ہے ہم بیرون ملک پاکستانیوں کی حیثیت میں عموماً حکومت پر تنقید کرتا ہوں مگر کورونا کے آغاز کے بعد سوچا کہ اب صرف مثبت پوسٹ ہوگی اس پر قائم بھی رہا ۔مگر گزشتہ دو تین دن میں ایسی ظالمانہ حرکتیں ہوئیں کے چیخیں نکل گئیں۔ صحافت اور خدمت خلق کی وجہ سے کمیونٹی کے بہت قریب ہوں۔ اس حوالے سے فینوریل ہوم سے قبرستان تک اور ہسپتال سے نیویارک کے گلی کوچوں اور سب جگہ گیا کسی کے پاس راشن نہیں تو کسی کے پاس کرایہ نہیں کہیں ایسا ہوا کہ ماں باپ اور بیوی اور جوان بیٹی کورونا کا شکار ہوئے اور تیس سال کی جوان بیٹی ماں باپ کو روتا چھوڑ کر رب کے پاس چلی گئی۔ کہیں دوست نے دوسرے دوست کے ساتھ دوستی نبھاتے ہوئے قبر تک کا سفر کیا کہیں بہن نے دو ہفتے بعد بھائی کا ساتھ دیا اور کہیں ہنسے مسکراتے میاں بیوی ایک ہفتے میں اللہ کے پاس پہنچ گے۔ الریان فینوریل ہوم کے مالک انتیاز سے جہاں گھنٹوں بات ہوتی تھی وہاں اُس کے پاس بات کرنے کو وقت نہیں کہ معوذ بھائی ایک اور جنازہ آگیا ہے۔
فہیم میاں سے درخواست کی دوست کی والدہ کئی میت اٹھا لو تو کہا معوذ بھائی دو جنازے دفنا کر آرہا ہوں واپسی پر اٹھا لونگا اور پھر کال کرکے بتایا کے ایسے علاقے سے ایک اور ۴۸ سالہ شخص کی میت اٹھانی ہے۔ دوسرے فئموریل والوں کے پاس بات کرنے کا وقت نہیں مگر جلدی جلدی بات کر کے اندازہ لگایا کے ہم اس جنگ میں سو سے زیادہ پاکستانی کھو چکے ہیں۔ پھر میں نے ڈان کے انور بھائی نے بول کے ناصر قیوم نے اس کو نہ چاہتے ہوئے بھی اس افسوناک خبر کو رپورٹ کیا کہ سو سے زیادہ پاکستانی وفات پا چکے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکمومتی انتظامیہ کو مل جانا چاہیے اور کم سے کم افسوس کا اظہار کرتے مگر پاکستان ایمبیسی نے مجرمانہ پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے اس کو افواہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہوئے تین قونصلیٹ کا حوالہ دیا کہ ہمارے پاس کسی پاکستانی کے مرنے کی اطلاح نہیں۔
یہ کیسا ظلم ہے یہ کیسی بے حسی ہے افسوس کا اظہار تو دور کی بات ظالموں نے تو اُن کے پاکستانی ہونے سے انکار کردیا۔ ہمارے میدان کے کچھ لوگوں نے احمقانہ دلیل دینے کی کوشش کی کہ اصل میں اب یہ امریکی شہری ہیں اس لیے پاکستان ایمبیسی نے یہ بات کی پھر آج جب عمران خان کی یہ اپیل دیکھی تو اندزہ ہوا کہ بے حسی اوپر سے نیچے تک ہے۔ یہ وہ امریکن پاکستانی ہیں جن کے لیے دل و جان و مال سے ساتھ دیا آج اپ کے یہ چاہنے والے مصبت میں ہیں۔ ایک کے بعد ایک اپنی جان سے ہاتھ دھو رہا ہے خاندان کے خاندان بے روزگار ہورہے ہیں ہزاروں افراد جو ریستوران اور ٹکیسی کے کام پر تھے بھوک کا شکار ہیں اور پھر ہر دوسرے تیسرے گھر میں کوئی بیمار ہے۔ سنکڑوں گھرانے راشن کے لیے فلاحی تنظیموں کو کال کررہے ہیں۔
کیا ان کا اتنا بھی حق نہیں تھا کہ ان سے پوچھتے کیا ہورہاہے کیا ان پاکستانیوں کا اتنا بھی حق نہیں کہ ان کے مرنے والوں سے تعزیت کرلی جائیے نیویارک میں کورونا کے پہلے شہید کی تصویر میں نے اپنے فیس بُک پر لگائی تھی وہ تصویر تھی جس میں مرحوم عمران خان کی تصویر کے نیچے خطاب کررہے تھے وہ بھی پاکستانی تھے شاید اپ کی ایمبیسی کے نزدیک تمام وفات پانے والے شہید ہوں اور شہید مردہ نہں ہوتا۔
عمران خان تو کیا ایک سے معمولی وزیر نے کوئی تعزیتی بیان تک جاری نہیں کیا مجھے یقین ہے کہ نہ انہوں نے اپنے نو منتخب عہداروں سے کوئی بات کی ہوگی آج حامد میر نے آفاق فاروقی بھائی کی ویڈیو دیکھا کر فیصل واڈا والے سے سوال کیا تو اُن کے پاس کوئی جواب نہیں تھا انہوں نے کہا میں یہ بات کیبنٹ میں اٹھاں گا ہمیں معلوم ہے پاکستان خود مصیبت میں ہے اللہ کا شُکر ہے اموات کم ہیں اکیس کروڑور میں ۸۰ پاکستانی مگر ادھر دس لاکھ میں ڈھیڑ سو سے زائد انتقال کرگئے ہیں ہم اپ سے کچھ مانگ نہیں رہے سوائے ہمددردی کے دو بول مگر اس دکھ اور کرب کی گھڑی میں جس طرح سے اورسیز پاکستانیوں سے چندہ مانگا جا رہا ہے۔ میں اس پر اپنے “ہیرو وزیرِاعظم” کو دونوں ہاتھوں سے “سلام” پیش کرتا ہوں۔

حصہ