ڈینیل پرل قتل کیس: عدالت عالیہ کا فیصلہ اور حکمرانوں کا غلامانہ طرز عمل

388

عدالتِ عالیہ سندھ نے امریکی صحافی ڈینیل پرل قتل کیس میں سزا کے خلاف ملزمان کی اپیل پر محفوظ فیصلہ 2 اپریل کو سنا دیا۔ اٹھارہ برس بعد سنائے گئے اس فیصلے میں عدالت نے تحریر کیا ہے کہ تین ملزمان فہد سلیم، سید سلمان ثاقب اور شیخ محمد عادل پر قتل کا الزام ثابت نہیں ہوسکا، اس لیے ان تینوں کو باعزت بری کیا جاتا ہے، جب کہ چوتھے ملزم احمد عمر شیخ کے خلاف بھی استغاثہ قتل کا جرم ثابت نہیں کرسکا، کرمنل جسٹس کے قانون کے تحت استغاثہ پر لازم ہے کہ شواہد پیش کرے، الزام ثابت کرنا استغاثہ کی ذمہ داری ہے جس کی ناکامی کی صورت میں شک کا فائدہ ملزم کو ملتا ہے، اس مقدمے میں استغاثہ اس امر کے شواہد پیش کرنے میں ناکام رہا کہ ڈینیل پرل کو کس نے قتل کیا، جو ویڈیو عدالت میں پیش کی گئی اُس میں کسی ملزم کی شناخت نہیں ہوتی۔ احمد عمر پر دہشت گردی اور خوف پھیلانے کا اطلاق بھی نہیں ہوتا، آخری بار ڈینیل پرل کو احمد عمر شیخ کے ساتھ دیکھا گیا اور ایک گواہ کے بقول ڈینیل پرل کو احمد عمر شیخ نے اغوا کیا، مگر کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ احمد عمر شیخ نے ڈینیل پرل کو قتل کیا۔ اس لیے عدالت احمد عمر شیخ کی سزائے موت کو سات سال قید میں تبدیل کرتی ہے۔
برطانوی شہریت کے حامل احمد عمر شیخ کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے 15 جولائی 2002ء کو سزائے موت، جب کہ فہد سلیم، سید سلمان ثاقب اور شیخ محمد عادل کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ ان پر امریکی صحافی ڈینیل پرل کے اغوا برائے تاوان اور قتل کا الزام تھا، جو وال اسٹریٹ جرنل نامی امریکی جریدے کا جنوبی ایشیا ریجن کا بیوروچیف تھا۔ یوں احمد عمر شیخ اور دیگر ملزمان کی انسدادِ دہشت گردی عدالت کی سنائی ہوئی سزا کے خلاف اپیلیں 2002ء سے تعطل کا شکار تھیں۔ سندھ ہائی کورٹ کا ڈویژن بینچ مسٹر جسٹس کے کے آغا (محمد کریم خان آغا) اور مسٹر جسٹس ذوالفقار سانگی پر مشتمل تھا۔ کیس کا چالیس صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ مسٹر جسٹس کے کے آغا نے تحریر کیا جس میں بینچ کے ارکان نے تسلیم کیا ہے کہ اپیلوں پر اٹھارہ برس بعد فیصلہ خود عدالت کے لیے تکلیف دہ ہے۔ بغیر جرم ثابت کیے برسوں قید میں رکھنا آئین کی دفعہ دس الف کی خلاف ورزی ہے، ملزمان کے قیمتی اٹھارہ برس جیل میں ضائع کیے جانے کا ازالہ ممکن نہیں۔ عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ اگر کسی کا بچہ تین سال کا ہو تو اٹھارہ سال بعد جیل سے رہائی پر باپ اسے اجنبی ہی لگے گا۔
عدالتِ عالیہ کے فاضل جج صاحب نے بیتے ہوئے اٹھارہ برس پر دکھ اور تکلیف کے جذبات کا اظہار کیا ہے اور اسے آئین و قانون کی خلاف ورزی قرار دیا ہے، مگر ستم بالائے ستم یہ ہے کہ حکومتِ سندھ جس کی قید میں یہ ملزمان گزشتہ اٹھارہ برس سے جرمِ بے گناہی کی سزا کاٹ رہے تھے، عدالتِ عالیہ کے اس واضح اور دوٹوک فیصلے کے بعد بھی ان افراد کو رہا کرنے پر تیار نہیں جن پر حکومت کے وکلاء استغاثہ عدالتِ عالیہ میں اپنے عائد کردہ الزامات ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں، اور عدالت ِ عالیہ کے الفاظ میں وہ کوئی ایسا ثبوت اور شواہد عدالت کے روبرو پیش نہیں کرسکے جن کی بنیاد پر ملزمان کو مجرم قرار دیا جاسکے۔ حکومتِ سندھ نے پاکستانی شہریوں کو بلاوجہ طویل عرصے تک قید میں رکھنے پر اُن سے معذرت اور شرمندگی کا اظہار کرنے کے بجائے نادر شاہی حکم جاری کیا ہے کہ نقضِ امن کے خدشے کے پیش نظر صوبے کی اعلیٰ ترین عدالت کی طرف سے بے گناہ قرار دے کر بری کیے گئے تینوں افراد کو دوبارہ تحویل میں لے کر تین ماہ کے لیے نظربند کردیا گیا ہے۔ جب کہ وفاقی حکومت نے اس سے بھی آگے بڑھ کر عدالتِ عالیہ کے اس فیصلے پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کے لیے مؤثر اقدامات کے بجائے اس پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس ضمن میں وفاقی وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ فوجداری مقدمات کے تناظر میں اگرچہ یہ ایک صوبائی معاملہ ہے، تاہم وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا ہے، جس کے بعد سندھ حکومت نے عدالتِ عالیہ کے فیصلے کے خلاف عدالتِ عظمیٰ میں اپیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو چند روز میں دائر کردی جائے گی۔
سندھ حکومت کے اندیشۂ نقضِ امن اور وفاقی حکومت کی تشویش اور پھرتیوں کا پس منظر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، کہ مقتول ایک امریکی شہری ہے اور امریکی صدر ٹرمپ کے بقول امریکی شہری کی جان دنیا بھر کے دیگر شہریوں کے مقابلے میں زیادہ قیمتی ہے جس کا ضیاع ناقابلِ برداشت ہے۔ چنانچہ امریکی حکومت نے عدالتِ عالیہ سندھ کے فیصلے کو ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے سخت ردعمل کا اظہار کیا، جس سے متعلق ہمارے وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی نے یہ جواب دینے کے بجائے کہ عدالتی فیصلہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے امریکہ کو اس ضمن میں مداخلت، تبصرے اور را ئے زنی کا حق نہیں، ہماری عدالتیں مکمل آزاد ہیں، امریکہ کو ان کا احترام کرنا چاہیے… جناب وزیر خارجہ کا ارشاد ہے کہ فیصلے کے بارے میں امریکہ کے تحفظات فطری ہیں، محکمہ داخلہ سندھ نے بری کیے گئے ملزمان کو 90 روز کے لیے نظربند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے دوران عدالتِ عظمیٰ میں اپیل دائر کردی جائے گی، جو اس معاملے کو مزید دیکھے گی۔
اللہ کرے، پاکستان میں وہ دن بھی آئیں جب ہم پاکستانی حکومت اور اس کے وزراء کو کسی بیرونی دبائو کو قبول کیے بغیر آزادانہ فیصلے کرتے ہوئے دیکھیں۔ یہ تو عدالتِ عالیہ کا غیر مبہم فیصلہ ہے کہ ڈینیل پرل قتل کے ملزمان پر الزام ثابت نہیں کیا جا سکا اور استغاثہ الزام کے حق میں ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرسکا، مگر جناب شاہ محمود قریشی کو یاد ہوگا، یہ اُن کی گزشتہ محبوب پیپلز پارٹی کے اقتدار کا دور تھا اور شاید اُس وقت بھی قریشی صاحب وزیر خارجہ ہی تھے، جب لاہور میں ایک امریکی شہری، بدنام زمانہ بلیک واٹر کے کارپرداز ریمنڈ ڈیوس نے دن کی روشنی میں بھرے چوک میں دو پاکستانی نوجوانوں کو سرِبازار گولیاں مارکر ان کی جان لے لی تھی اور لوگوں نے ریمنڈ کو رنگے ہاتھوں موقع سے پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا تھا، مگر شاہ محمود قریشی کی اُس وقت کی محبوب حکومت نے اس امریکی مجرم کو جیل سے نکال کر سیدھا ہوائی اڈے پہنچا دیا تھا جہاں سے وہ اپنے ملک پرواز کر گیا تھا… جناب شاہ محمود قریشی اور ان کے ساتھی اُس وقت مجرمانہ فعل کے حق میں دلائل دینے میں آگے آگے تھے۔
اندیشۂ نقضِ امن کے تحت ڈینیل پرل کیس کے بے گناہ ملزمان کو تین ماہ کے لیے نظربند کرنے والے حکمرانوں کو آخر یہ اندیشہ اُس وقت کیوں لاحق نہ ہوا جب انہوں نے توہینِ رسالت کی ملزمہ آسیہ بی بی کو رہا کرکے باعزت طریقے سے بیرونِ ملک پرواز میں سوار کرایا؟ یہ اندیشہ انہیں اُس وقت بھی کیوں محسوس نہ ہوا جب توہینِ رسالت کے ایک ملزم کو قتل کرنے والے ممتاز قادری کو تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا؟ جناب شاہ محمود قریشی اور ان کے ساتھیوں کو وہ تحفظات آخر فطری کیوں نظر نہیں آتے جو پاکستان کی مایہ ناز بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو سنائی گئی سراسر غیر منصفانہ اور ظالمانہ سزا کے بارے میں ان کے اپنے ہم وطنوں کی طرف سے ظاہر کیے جاتے ہیں، اور اقتدار سنبھالنے سے قبل جناب شاہ محمود قریشی کے موجودہ محبوب وزیر اعظم جناب عمران خان امریکی عدالت کے فیصلے کے بارے میں ان تحفظات کو درست قرار دے کر اقتدار سنبھال کر پہلی فرصت میں ڈاکٹر عافیہ کو وطن واپس لانے کے اعلانات اور وعدے فرماتے تھے، مگر اقتدار میں کم و بیش دو برس گزارنے کے بعد آج تک انہیں اور ان کے وزیر خارجہ کو ڈاکٹر عافیہ کا نام تک زبان پر لانے کی توفیق نہیں ہو سکی…!۔

حصہ