صلاحِ عَام ہے

320

نگہت ظہیر
کرونا ،کرونا، وہ سب کچھ جو کرتے آئے ہو۔ وہ نافرمانیاں، نعرے، مطالبے… ایک غل مچا ہوا تھا۔ ہماری مرضی جو چاہے کریں… جیسے چاہو جیو، کچن کو تالا لگا دو۔ اب سب خاموش کیوں ہیں؟ کیوں رک گئے؟ کس نے روک دیا ہمیں؟ ہم تو کوئی نصیحت فصیحت سننے کے لیے تیار نہیں تھے، سب بے کار جارہی تھیں …اتنی چھوٹی سی چیز نے اتنے بڑے انسان کو بے بس کردیا…
لیکن یہ وقت ایسی باتوں کا نہیں بلکہ یہ وقتِ دعا ہے، اور دعا سے پہلے ان سب باتوں پر شرمساری، ندامت، توبہ اور استغفار ضروری ہے۔ کرونا وائرس کے پھیلنے کی وجہ کوئی بھی ہو لیکن اس کا اصل سبب اللہ پاک کی ناراضی ہے۔ اس کی ناراضی کی وجہ سے فی الحال ہم پر بیت اللہ کے دروازے بھی بند ہوگئے ہیں۔ جب اس کی ناراضی دور ہوگی تب ہی یہ وائرس ختم ہوگا۔ کوئی بھی مصیبت اللہ کے اذن کے بغیر نہیں آتی، اور یہ انسانوں کے کرتوتوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ قرآن پاک میں کئی جگہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہمیں ملتا ہے اور ہم یہ جانتے اور مانتے ہیں کہ کسی مصیبت کو ٹالنا اور ختم کرنا صرف اسی رب العزت کے اختیار میں ہے۔ اور یہ مصیبت یعنی کرونا وائرس بھی اللہ کے ایک حکم سے ختم ہوجائے گا اور اس کا پھیلاؤ رک جائے گا، ان شاء اللہ۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ساری ظاہری احتیاطوں کے ساتھ (اس لیے کہ احتیاط بھی اللہ کا حکم ہے) ہم اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے کوشاں ہوجائیں۔ اس لیے کہ یہ ایک عذاب کی صورت ہے جس نے دنیا کی دوسری قوموں کے ساتھ مسلمانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ ہم نافرمانیوں میں دوسری قوموں کے پیچھے چل پڑے تھے۔ اس طرح کے ملتے جلتے عذاب پہلے بھی قوموں پر آتے رہے ہیں جس میں ٹڈیوں کا، مینڈکوں کا، جوؤں کا عذاب شامل ہے۔ لیکن اُس وقت یہ عذاب صرف فرعونیوں پر آیا تھا اور اُس وقت بنی اسرائیل جو حضرت موسیٰؑ کی امت تھے، محفوظ رہے تھے ۔
آج ہم مسلمان دیگر اقوام کی ترقی کو دیکھ کر مرعوب ہوجاتے ہیں۔ ان کے جیسی باتیں اور نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں۔ اپنے رب کو بھول جاتے ہیں۔ وہ رب جو اصحابِ فیل پر عذاب پرندوں کے ذریعے لایا تھا، اس کو بم اور توپوں کی ضرورت نہیں۔ دوسروں کی جانیں لینے کے لیے ہتھیار اور بم بنانے والے اپنے ہتھیاروں سے اپنی جانوں کی حفاظت کریں۔ سب اسلحہ استعمال کرلیں یا تلف کردیں، اور یہ جان لیں کہ خدائی ہتھیار ان کے سب ہتھیاروں اور بموں پر حاوی ہے۔ اس کی کارروائی کے آگے سب بے بس ہیں۔کسی چیز کو مٹانے، نیست و نابود کرنے کے لیے اس کو کسی اوزار کی ضرورت نہیں۔ اس کا ایک حکم کافی ہے۔ زلزلہ اور دوسری قدرتی آفات اس کی مثالیں ہیں۔ ہم ایمان والے یہ سب کچھ بھولتے جارہے ہیں، اس لیے یہ اللہ پاک کی طرف سے یاددہانی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں ’’ہم نے بہت سے نافرمانوں کو سختی اور عذاب میں پکڑ لیا تاکہ وہ عاجزی کریں۔ پس جب ہماری طرف سے ان پر سختی آئی تو کیوں نہ انہوں نے عاجزی اختیار کی‘‘۔ تو یہ موقع عاجزی اختیار کرنے کا ہے۔ رب العزت کے سامنے سچی توبہ اور جھک جانے کا ہے۔ یہ وقت ِدعا ہے۔
ہم ذرا غور کریں، دیکھیں کہ انسان نے اپنے آپ کو بہت بااختیار سمجھ لیا تھا۔ اس کی ترقی نے اسے تکبر میں مبتلا کردیا تھا۔ لیکن ایک اتنے چھوٹے سے جرثومے نے جو دکھائی بھی نہیں دیتا، انسان کو اتنا پریشان اور بے بس کردیا ہے کہ شہر کے شہر، ملک کے ملک ویران ہوئے جارہے ہیں۔ بیماری اور موت کے خوف نے انسانوں کو کتنا ہراساں کردیا ہے۔ نظام زندگی ساکت و جامد ہوا جارہا ہے، اور اس سے جنم لینے والے مسائل الگ ہیں، اور مستقبل میں آنے والے بحرانوں کا سامنا بھی کرنا ہے۔ اللہ نے اتنی چھوٹی سی چیز کے ذریعے ہمارے رویوں کو زبردستی تبدیل کردیا ہے۔ کیونکہ وہ زبردست ہے اور ہم انسانوں کو ہماری اوقات یاد دلادی ہے۔ ہم جو کہ کسی بھی چیز کے لیے اور کہیں بھی رکنے کے لیے راضی نہ تھے، اب شادیاں سنت طریقے سے کررہے ہیں۔ چند خاص لوگوں کی موجودگی میں نکاح اور گھر کی دہلیز سے رخصتی… سب تماشے، اسراف، بے حیائی کے ویڈیو سیشن… ختم۔ بے جا رسومات، مایوں اور مہندی سے فراغت… اور تو اور اب تو ساری خواتین نے نقاب کرلیا ہے۔ ہم تو صرف حجاب کا کہتے ہوئے ڈرتے تھے، نقاب تو بہت دور کی بات لگتی تھی، لیکن اب بن گئی کچھ ایسی کہ بن نقاب کے نہ بنے۔ اور وہ باجیاں جو ماسیوں کی مجبوری اور بیماری کی ایک چھٹی تک برداشت نہ کرپاتی تھیں، اب کہہ رہی ہیں …’’جا ماسی جا! تیری طبیعت خراب ہے، چھٹی کرلے۔ کل بھی نہ آنا، بلکہ ہفتے دس دن کی چھٹی کرلے‘‘۔ ماسیوں کے سارے کام باجیاں خوشی خوشی کررہی ہیں۔ یہ بھی ایک حیرت انگیز تغیر ہے رویوں کا۔ ایسے رویوں میں ہم سب شامل ہیں۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہم خود اپنے رویوں میں تبدیلی کرلیتے، ہم خود رک جاتے اس سے پہلے کہ اللہ پاک ہم کو ایسے روکتا۔ کون کون سے کام بند ہیں، ہم سب جانتے ہیں۔ یہ معاملہ کہاں جاکے تھمے گا، کوئی نہیں جانتا۔ فی الحال تو یہ وائرس دنیا کے بیشتر ممالک میں پھیلتا چلا جارہا ہے۔ ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ سوائے لاک ڈاؤن کے کوئی چارہ نہیں ہے۔ دنیا کے لاک ڈاؤن ہونے پر ایک ایسی بستی کا خیال آتا ہے جہاں پر لاک ڈاؤن (کرفیو) کوکئی ماہ ہو چلے ہیں۔ جہاں کے لوگ، پیارے پیارے معصوم بچے بھوک اور بیماری کی وجہ سے موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ ان مظلوموں کی آہوں پر کسی نے کان نہیں دھرے۔ سب بڑی طاقتیں، انسانی حقوق کی تنظیمیں، اقوام متحدہ، مسلم اور غیر مسلم حکومتیں…خاموش تماشائی۔ ہر فرد چاہے مسلمان ہو یا غیر مسلم، اپنے اپنے مشاغل میں مگن۔ اپنے عیش و آرام میں مست…کسی نے ان مظلوموں کی طرف توجہ کی اور نہ ہی کوئی قدم اٹھایا۔ ان کی آواز کو بھی دبایا جاتا رہا۔ ان پر ستم کی داستانیں چھپا لی گئیں۔ کسی نے ان کی مدد نہیں کی… یہ مظلوم مقبوضہ کشمیر کے لوگ ہیں۔ یہ وائرس ان مظلوم کشمیریوں کی آہ لگتی ہے۔ مظلوم کی آہ سیدھی آسمان پر جاتی ہے۔ لگتا ہے ایسا ہوگیا ہے اور اس سپر پاور اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کے لیے ایکشن لے لیا ہے۔ اب دنیا والوں کو چاہیے کہ ان مظلوموں کو حق دلوانے اور ظلم سے نجات دلوانے کے لیے آگے آئیں، تب شاید اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہوجائے اور اس وائرس کرونا سے دنیا والوں کو نجات عطا فرمائے۔

حصہ