نسیم محل

667

شمعون قیصر شہید میرے لیے ایسے تھے جیسے میرے بڑے بھائی ہوں۔ اُن کے ساتھ گزرا وہ عرصہ ہر لمحہ ہر دن یوں یاد آتا ہے جیسے وہ کل کی بات ہو۔ اُن کا وجود آج بھی مجھے اپنے آس پاس محسوس ہوتا ہے۔اُن کی یادیں میرے لیے ، میری روح کے لیے غذا کا کام دیتی ہے۔ شمعون بھائی نہ صرف ماہنامہ ساتھی کے سابق مدیر رہے تھے بلکہ نجیب احمد حنفی بھائی کے ساتھ مل کر اُنھوں نے جگمگ تارے میگزین کا اجرا بھی کیا۔ وہ جگمگ تارے کے دو میگزین ہی نکال پائے تھے کہ ۱۲؍ اپریل ۲۰۱۴ء کو کراچی میں ناگن چورنگی کے پاس ڈاکوئوں نے اُنھیںگولی مار کرشہید کردیا۔ آہ…وہ رات میرے لیے کتنی کرب ناک تھی۔ اذیت، بے بسی ایسی تھی کہ گویا ابھی دل شق ہو کر باہر آجائے گا۔میں زندگی میں پہلی بار یوں پھوٹ پھوٹ کر رویا کہ آنسوئوں سے قمیص تر ہوگئی تھی۔ اس دن مجھے اندازہ ہوا کہ مجھے شمعون بھائی سے شدید محبت ہے۔ایک ایسی محبت جس کو ماپنے کا کوئی پیمانہ نہ ایجاد ہوا ہے اور نہ ایجاد ہو پائے گا۔ محبت کا ایسا جذبہ معلوم نہیں کہاں سے دل میں سما جاتا ہے کہ انسان اس شخص کے مرنے کے بعد بھی اُسے بھلا نہیں پاتا ہے۔اللہ میرے بھائی کو جنت الفردوس عطا فرماے۔آمین
شمعون بھائی کی ہمشیرہ فریال یاور ۱۲؍ اپریل ۲۰۱۳ء کو اپنی طویل بیماری سے خلاصہ پا کر ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ گئیں(اللہ فریال باجی کی مغفرت فرماے)۔ ایک سال بعد ٹھیک اسی دن میرا بھائی شمعون قیصر بھی اُن کے ہمراہ ہوگئے۔ اُس دن آخرت پر میرا ایمان اور زیادہ مضبوط ہوا کہ اس ایک ہی دن ایک سال بعد یہ واقعہ پیش آنا…میں اسے قطعاً اتفاق نہیں کہہ سکتا۔ یقینا کوئی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت کسی کی دلجوئی کررہا تھا۔ یقینا میرے رب نے دونوں کوجنت الفردوس کے باغوں میں ایک باغ دیا ہوگا۔ مجھے یاد ہے شمعون بھائی جب کبھی فریال باجی کا تذکرہ کرتے تو اُن کے انداز میں اتنی عقیدت ہوتی کہ مجھے لگتا کہ شمعون بھائی اُن کے مرید ہیں اور وہ اُن کی مرشد۔فریال باجی نے بچوں کے لیے صحابہؓ کے واقعات کو اتنے خوب صورت انداز میں پیش کیا کہ مجھے یاد پڑتا ہے ماہنامہ ساتھی میں شائع ہونے والی اُن کی تحریر کو میںسب سے پہلے پڑھا کرتا تھا۔مجھے یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ اُن کی کتاب’لکڑی کا منات‘ کو مرتب کرنے کا اعزاز مجھے حاصل ہے۔بچوں کے یہ دونوں ادیب اب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن اُن کی تحریریں اُن کا اخلاق وکردار اُنھیں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔
ہم جسارت میگزین کے قارئین کو بچوں کے ان دو ادیبوں کی تحریروں کو بطور توشہ خاص آپ کے لیے پیش کررہے ہیں، اُمید ہے کہ یہ دونوں تحریریں آپ کے ذوق کی آبیاری کریں گی۔
(مرتب: اعظم طارق کوہستانی)

نومی کی زوردار چیخ سن کر جب ہم وہاں پہنچے تو ہم نے نومی کو بے ہوش پایا

شمعون قیصر
۔’’بیٹا … کھڑکیوں سے پردے ہٹا کر کھڑکی کھول دو… امی نے صبح کی چاے بناتے ہوئے کچن سے ہی مجھے ہدایت دی۔
’’ امی وہ وہاں حمزہ سو رہا ہے۔‘‘
’’ ہاں تم اسے بھی اٹھا دو بولو کہ ناشتہ تیار ہے۔ منہ ہاتھ دھو کر ناشتہ کر لے۔‘‘ امی نے میری بات کے جواب میں دوسری ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا۔ میں نے جا کر سب کو اُٹھایا اور پھر ہم ناشتہ کرنے دستر خوان پر بیٹھ گئے۔
’’ کیا ہوا سمیر ا تم رات میں سوئی نہیں ہو۔‘‘ سمیرا جو اُونگھ رہی تھی۔ امی کے سوال پر تھوڑا چونک گئی۔ ’’ وہ … وہ … امی رات میں عاشی دو تین مرتبہ ڈر کر اٹھی تھی جس کی وجہ سے میری بھی نیند خراب ہوتی رہی اور میں ٹھیک طرح نہ سو سکی۔‘‘ سمیرا نے جمائی لیتے ہوئے کہا۔
’’ایک تو میں تنگ آگئی ہوں تمھارے اس نسیم محل کے قصے سے تم لوگوں کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ کتنی بار منع کیا ہے، کہ رات کے وقت فضول باتیں کرنے کے بجاے دعائیں پڑھ کر اور باوضو ہو کر سویا کرو تو تم لوگوں کو سمجھ میں نہیں آتی یہی سمجھتی ہو کہ امی کے علاوہ باقی تم سب عقل مند ہو۔‘‘
امی قدرے ناراضی کے ساتھ ہم سب سے مخاطب تھیں۔ ’’تم لوگ جلدی جلدی ناشتہ ختم کرو ۔ ابھی بہت سے کام ہیں گھر کے جو ہمیں کرنے ہیں۔ رومی، عاشی ، سمیرا تم لوگ برتنوں کے ڈبے کھول کر الماری میں تمام برتن سیٹ کرو گی ۔ اس کے بعد صندوق کھول کر اس میں سے سامان کو ان کی صحیح جگہ پر رکھنا ہوگا اور نومی تم اور شہروز مل کر کتابوں کے ڈبے کھول کر ابو کے شیلف میں رکھو گے ۔ میں ابھی حمزہ کو لے کر ڈاکٹر کے پاس جارہی ہوں۔‘‘
امی نے اتنی ساری ہدایات جاری کرنے کے بعد دستر خوان سے برتن سمیٹنے شروع کر دیئے۔
٭…٭
ہمیں اس گھر میں آئے بیس دن ہو چکے تھے۔ اس گھر میں آنے کے دوسرے دن حمزہ کو امی نے کسی کام سے پیچھے گلی میں بھیجا تھا جس کے کچھ دیر بعد ایک آدمی حمزہ کو گود میں اٹھا ئے ہمارے گھر پر کھڑا تھا، حمزہ زخمی حالت میں تھا۔ تفصیلات کے مطابق حمزہ پیچھے گلی کے کسی گھر کے باہر سے بادام توڑتے ہوئے درخت سے گرا تھا بدقسمتی سے بادام کا درخت جس کیاری میں لگا تھا اس کیاری کے گرد لوہے کی سلاخوں کی باڑ تھی جس سے گرنے کے بعد حمزہ کے پیٹ میں لوہے کی سلاخ گھس گئی تھی اور حمزہ کو شدید زخم آئے تھے۔ گھر میں ایک عجیب ہلچل مچ گئی تھی۔ ہر آدمی گھر اور اسپتال کے چکر میں لگا ہوا تھا۔ خیر خیر کرکے حمزہ ٹھیک ہوا تھا۔ اسی کے بعد سے حمزہ کی خیریت دریافت کرنے کے لیے لوگوں کی آمد کا تانتا باندھا ہوا تھا۔
گزشتہ دنوں ملنے والوں میں ایک خاتون بھی آئی تھیں جو اس پیچھے والی گلی میں رہتی تھیں۔ ڈرائنگ روم میں وہ آنٹی بیٹھی امی سے گفتگو میں محو تھیں ، دوران گفتگو امی سے کہنے لگیں
’’ بہن جی آپ تو اپنے بچے کا صدقہ اتاریے فوراً… آپ کے بچے کی جان بچ گئی۔‘‘
’’ ہاں وہ تو ہم نے کب کا اتار دیا۔ ’’ امی نے مختصر سا جواب دیا۔ ’’ آپ جانتی ہیں جس گھر میں حمزہ کے ساتھ حادثہ ہوا ہے وہاں پہلے بھی کئی لوگوں کے ساتھ حادثہ ہو چکا ہے ۔ کہتے ہیں کہ اس گھر میں جنات کا سایہ ہے۔ ‘‘
’’ رہنے دیں بہن آپ بھی کیسی باتیں کرتی ہیں نفع نقصان تو سب اﷲ کی طر ف سے ہوتا ہے۔ یہ جنات وغیرہ کی کہانی لوگ یونہی بناتے ہیں۔‘‘امی نے آنٹی کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’لوبھلا مجھ سے زیادہ اس گھر کے بارے میں کون جانتا ہے۔۱۵سال سے ہم یہاں رہ رہے ہیں۔ جانتی ہیں آپ اس گھر کو کوئی خرید نہیں پا رہا ہے۔ جو کوئی خریدنے آتا ہے اور اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی مسئلہ شروع ہوجاتا ہے پھر یہ گھر نہیں بکتا۔‘‘ آنٹی آنکھیں نکال نکال کر ساری باتیں امی کو بتا رہی تھیں۔
’’ تو یہ گھر کس کا ہے؟‘‘ امی نے قدرے دلچسپی سے پوچھا۔
’’بہن ایک بوڑھا آدمی ہے جو کہ فالج کے مرض میں مبتلا ہے نہ ہل جل سکتا ہے نہ بول سکتا ہے بس ٹکر ٹکر لوگوں کو دیکھتا رہتا ہے۔ اسی کی چار بیٹیاں ہیں بیٹے کوئی نہیں ہیں۔ بیٹیاں اس گھر کو بیچنا چاہتی ہیں مگر جو گاہک آتا ہے مکان دیکھ کر چلا جاتا ہے۔ اہم بات یہ کہ اس آدمی کی بیٹیوں میں سخت اختلافات ہیں۔ ‘‘
آنٹی امی سے یونہی گھنٹوں بیٹھی باتیں کرتی رہیں ادھر ہم سب سوچ میں تھے کہ آخر واقعہ کیا ہے کیا حمزہ کو بھی جنوں نے نقصان پہنچایا ہے۔ یہی وہ خیالات تھے جس کے باعث ہم نے نومی کے ساتھ مل کر اس گھر کا دورہ کرنے کا ارادہ کیا۔
٭…٭
اگلی صبح اسکول جاتے ہوئے میں نے نومی کے ساتھ منصوبہ بنایا کہ چھٹی کے بعد ہم اس گلی سے گزریں گے اور اس گھر کا جائزہ لیں گے تاکہ پتا چلے کہ جنات کیسے ہوتے ہیں؟ اسکول میں اس دن وقت گزارنا دشوار ہو رہا تھا۔ پیریڈ تھے کہ گزر ہی نہیں رہے ہمیں لگ رہا تھا کہ کیسے جلدی سے چھٹی ہو اور ہم اپنے مشن پر روانہ ہوں۔ بہرحال چھٹی ہوئی اور ہم نومی کے ساتھ جلدی جلدی مطلوبہ جگہ پر پہنچے۔ اچھا تو یہ وہ گھر ہے۔ وہ گلی اس وقت بالکل سنسان پڑی تھیں،ہمارے دل کی دھڑکن تھوڑی تیز ہوگئی ۔ ایسی ہی کچھ کیفیت نومی کی بھی تھی۔ ہم اس گھر کے قریب کھڑے اس بادام کے درخت کو دیکھتے رہے پھر ان سلاخوں کو جس پر حمزہ گرا تھا۔ واقعی یہ تو بہت تیز اور خطرناک ہے۔ نومی نے مجھے سلاخ کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا۔
’’نومی یہ دیکھو اس گھر کا نام۔‘‘ میں نے ایک سنگ مرمر کی تختی پر بڑے حروف میں لکھے ’’ نسیم محل‘‘ کی طرف اشارہ کیا۔
’’یار نام دیکھ کر تو ڈر لگ رہا ہے ۔ میرا خیال ہے اب یہاں سے چلنا چاہیے۔‘‘ نومی کے چہرے پر خو ف کے آثار نمودار ہورہے تھے۔
٭…٭
واقعی وہ گھر تو بہت خوبصورت ہے لیکن خطرناک بھی ہے اور نام تو سنو ’’نسیم محل‘‘ ایسا لگتا ہے کہ کسی جن کے نام پر گھر ہے۔ نومی نے عاشی اور سمیرا کے سامنے نسیم محل پر تبصرہ کیا۔ پتا ہے ہم نے وہ سلاخیں بھی دیکھی اور وہ درخت بھی جس سے گر کر حمزہ کے ساتھ حادثہ ہوا۔
’’ نومی ہمیں بھی وہاں لے کر چلو ناں ہم بھی دیکھیں گے اس گھر کو۔ ‘‘ عاشی نے نومی سے فرمائش کرتے ہوئے کہا۔
’’ ارے کوئی نہیں لڑکیاں نہیں جاتی ایسی جگہوں پر تم نے سنا نہیں جنات بچوں پر بہت جلدی حملہ آور ہوتے ہیں۔ ‘‘ میں نے فوراً عاشی کی فرمائش کو رد کرتے ہوئے کہا۔
’’ تمھیں وہ گھر دیکھنے کا اتنا ہی شوق ہے ناں تو تم اوپر چھت پر جا کر دیکھ لیناوہاں سے بھی نظر آجاتا ہے مگر یاد رکھو اکیلے گئی تو آئندہ کی ذمہ داری ہماری نہیں ہوگی۔‘‘
اگلی شام ہم تمام بہن بھائی اپنی اپنی چاے کی پیالیاں لیے چھت پر چلے گئے۔ ویسے بھی چاے پینے کا اصل مزہ تو کھلی فضا میں ہی ہے۔ ہم سب چاے پی رہے تھے اور حسب معمول گفتگو کا موضوع نسیم محل ہی تھا۔
’’وہ دیکھو قمقمے جل رہے ہیں۔‘‘ عاشی نے ہم سب کو ہاتھ کے اشارے سے بتایا۔ ’’وہ بھی نسیم محل میں۔‘‘
’’ لو اُن کا تو دماغ ہی چل گیا ہے ۔ کسی کو دن میں تارے نظر آتے ہیں ان کو شام میں قمقمے جلتے نظر آرہے ہیں۔ وہ بھی نسیم محل میں۔‘‘ سمیرا نے عاشی کا مذاق اُڑاتے ہوئے کہا۔
’’تمھیں یقین نہیں آتا تو خود آکر ادھر سے دیکھ لو۔‘‘ بادام کے گھنے درخت کی وجہ سے نسیم محل صاف طرح دکھائی نہیں دیتا تھا۔
’’عاشی تم کو ڈرانے کا خوب شوق ہے اور بعد میں تم خود سب سے زیادہ ڈرتی ہو۔ ‘‘ بھیا نے پیچھے سے کھڑے کھڑے عاشی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
’’ بھیا آپ خود آکر دیکھ لیں۔‘‘اب کی بار ہم سب نے عاشی کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا۔
’’ مجھے کیا کرنا ہے دیکھ کر تم لوگ ذرا ذرا سی بات کا بتنگڑ بناتے ہو ، ہوگی کوئی تقریب وغیرہ وہاں کوئی نیا مکین آگیا ہوگا۔ ‘‘ بھیا نے اپنے خیالات پیش کیے۔
’’ یہ تو ناممکن ہے کہ وہ گھر اتنی آسانی سے بک جائے آپ کو یاد نہیں ہے کہ وہ پیچھے والی آنٹی کیا کہہ رہی تھیں۔ کل تک تو یہ گھر بالکل ویران پڑا تھا۔ اتنی جلدی اور اتنی آسانی سے کیسے یہ گھر بک سکتا ہے۔ میں نے ایک سانس میں ساری رپورٹ پیش کی۔
’’ مجھے تو یہ آنٹی خود ہی اس معاملے میں ملوث لگتی ہیں۔ ضرور دال میں کچھ کالا ہے، تم لوگوں نے ایسی کہانیاں نہیں سنی جس میں کوئی گھر کا نوکر یا پڑوسی جن بھوت کی شکل میں لوگوں کو ڈرا کر گھر کو اونے پونے بکوا کر رقم حاصل کرلیتا ہے۔ ‘‘ بھیا نے پوری طرح تجزیہ کرتے ہوئے نسیم محل کا راز فاش کرنے کی کوشش کی۔اتنے میں مغرب کی اذان شروع ہو گئی تھی اور ہم سب نماز مغرب کے لیے نیچے اُتر چکے تھے۔
٭…٭
اگلے روز ہم نے نومی کے ساتھ اسکول سے واپسی پر دوبارہ نسیم محل کا جائزہ لینے کا ارادہ کیا۔ چھٹی کے بعد ہم نسیم محل کی گلی میں داخل ہوچکے تھے۔ جوں ہی ہم گلی میں داخل ہوئے ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ نسیم محل کا دروازہ چوپٹ کھلا ہے ۔ قریب پہنچنے پر ہمیں وہاں سے اگربتی کی تیز خوشبو محسوس ہونے لگی۔ ہمارے اعصاب تن چکے تھے اور ہمیں پسینے آرہے تھے۔ دل بُری طرح دھڑک رہا تھا۔ نسیم محل کے اندر جھانکتے ہوئے ہمیں مرکزی ہال میں بڑا سا فانوس روشن نظر آیا۔ بھرپور طریقے سے اندر کا جائزہ لے رہے تھے۔
’’رک جاؤ۔‘‘ اچانک کسی خاتون کی آواز نے ہمیں چونکادیا تھا۔ہمارا دل اچھل کر حلق میں آچکا تھا۔ ہم نے جونہی مڑ کر دیکھا تو ایک کالی چادر میں ملبوس خاتون ہاتھ میں تسبیح لیے ہماری طرف مسکرا کر دیکھ رہی تھیں۔ خاتون کی آنکھوں میں لگا گہرا کاجل دور سے ہی واضح ہو رہا تھا۔ ہم نے بغیر کسی آسرے کے نومی کی طرف دیکھا اور نومی نے ہماری طرف اور پھر ہم نے تیزی سے دوڑ لگا دی۔ ہم نے دوڑنے کے دوران پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا اور ہانپتے کانپتے گھر پہنچ گئے۔ ہماری حالت خراب تھی ہم بری طرح ڈرے ہوئے تھے اور شکر ادا کررہے تھے کہ ہم آج بال بال بچ گئے ورنہ وہ خاتون تو ہمارا خون پی جاتیں اور حادثہ کے نشانہ بننے والوں میں ہم بھی شامل ہوجاتے ۔ حمزہ کے بعد ہمارا یہ واقعہ بھی گھر اور گھر سے باہر تمام لوگوں میں مشہور ہو گیا تھا۔
٭…٭
’’امی امی جلدی آئیں… امی… ‘‘عاشی خوف کے مارے امی کو آوازیں لگا رہی تھیں۔ عاشی کی آواز پر امی کے علاوہ گھر کے دیگر لوگ بھی اپنے اپنے کمرے سے نکل کر عاشی کے کمرے کی طرف آگئے۔ عاشی کے کمرے میں ’’ کوثر‘‘ جو کہ ہمارے گھر میں کپڑے دھویا کرتی ہے۔ بے ہوش پڑی تھی ۔ امی نے جلدی جلدی کوثر کو ہوش میں لانے کی کوشش کی۔ کوثر آنکھیں کھولو امی کوثر کے منہ پر پانی کے چھینٹے مار کر اسے اُٹھانے کی کوشش کرنے لگیں۔ بچاؤ مجھے بچاؤ… ہوش میں آنے پر کوثر بولنے لگی اور ساتھ ساتھ زور زور سے رونے لگی۔ کیا ہوا تم کیوں رو رہی ہو، چپ رہو۔ امی کوثر کا ہاتھ ملتے ہوئے بولنے لگیں۔
’’ وہ باجی… کوثر پھر رونے لگی۔ ’’ ہاں ہاں بولو شاباش کیا ہوا؟ سب خیر ہے ناں۔ امی نے کوثر کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
وہ باجی میں اوپر چھت پر کپڑے ڈالنے گئی تھی جب میں کپڑے ڈال رہی تھی تو مجھے پیچھے سے کچھ آواز آئی جیسے کوئی مجھے بلا رہا ہو۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو نسیم محل کی چھت پر ایک بی بی کھڑی تھی کالی چادر میں اور وہ مجھے اشارے کے ساتھ ساتھ آوازیں دے رہی تھی۔ یہ وہی عورت تھی جس کا تذکرہ کل نومی اور شہروز کررہے تھے۔ کوثر ایک بار پھر رونے لگی تھی۔ دماغ خراب ہو گیا ہے ان سب لوگوں کا۔ اب اگر کسی نے نسیم محل کی کوئی بات کی تو میں اسے گھر سے نکال دوں گا۔ خبردار! بھیا شدید غصے میں ہم سب پر برس رہے تھے۔ ہم سب اس واقعے کے بعد اور خوفزدہ ہو گئے تھے مگر کھل کر اب نسیم محل پر تبصرے سے بھی گریز کرتے تھے۔ عاقل بھائی دو دن کے بعد سعودی عرب سے ہمارے گھر آرہے تھے۔ ہم نے ارادہ کر رکھا تھا کہ یہ تمام معاملات عاقل بھائی کے گوش گزار کردیں گے یقینا وہ اس مسئلہ کا حل ڈھونڈ نکالیں گے۔
٭…٭
عاقل بھائی آج ہمارے گھر پہنچ چکے تھے ۔ ہم سب یعنی میں نومی، عاشی اور سمیرا عاقل بھائی سے گزشتہ دنوں کے تمام واقعات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے بے چین ہو رہے تھے۔ رات کے کھانے کے بعد ہم عاقل بھائی کو ساتھ لے کر اوپر والے کمرے میں چلے گئے اور وہاں بیٹھ کر تمام واقعات پوری تفصیل سے سنائے۔ عاقل بھائی بھی ہم سے تمام باتیں سنتے رہے اور مختلف نوعیت کے سوالات کرتے رہے۔ تمام سوالات و جوابات کے ابھی یہ سلسلے جاری ہی تھے کہ لائٹ چلی گئی۔ ’’ارے یہ کیا ہو گیا…‘‘ عاشی نے زمین پر ہاتھ مارتے ہوئی کہا۔ ’’ایک تو گرمی اوپر سے یہ لوڈ شیڈنگ ۔‘‘ ہم سب کمرے سے نکل کر چھت پر آگئے تاکہ کھلی ہوا میں گرمی کا احساس نہ ہو۔ چھت پر سے ہی ہم نے عاقل بھائی کو وہ نسیم محل بھی دکھایا۔ کچھ ہی دیر میں نیچے سے امی اور دیگر لوگ بھی اوپر چھت پر تشریف لا چکے تھے۔ ابھی ہماری گفتگو جاری ہی تھی کہ دروازہ بجنے کی آواز آئی۔
’’جاؤ بیٹا کوئی جا کر دروازہ کھولے نیچے کوئی بھی نہیں ہے۔‘‘ امی نے ہم چاروں سے کہا۔
دروازہ مسلسل بج رہا تھا۔ اب دروازہ کھولنے اس اندھیرے میں کون جائے سب یہی سوچ رہے تھے۔’’جاؤ بیٹا جلدی کرو دروازہ مسلسل بج رہا ہے۔‘‘ آخر کار نومی اُٹھا اور دروازہ کھولنے چلا گیا۔
کچھ دیر میں نومی کی زوردار چیخ کی آواز ہم سب نے سنی جسے سن کر امی سمیت ہم سب تیزی سے دوڑتے ہوئے نیچے گئے ۔ کیا دیکھتے ہیں کہ نومی بے ہوش پڑا ہے اور سامنے وہی خاتون کالی چادر میں پریشان و حیران کھڑی ہمیں دیکھ رہی ہیں۔ خاتون کو دیکھ کر میرا دل بھی زوردار دھڑکنے لگا اور کئی سوالات میرے ذہن میں آنے لگے۔ خیر نومی کو ہوش میں لایا گیا۔ ان خاتون کو امی ڈرائنگ روم میں لے کر چلی گئیں جو کچھ دیر تک باتیں کرنے کے بعد چلی گئیں۔ ادھر عاقل بھائی اور ابو نے ہمیں دوسرے کمرے میں بلوایا۔ ہم سب ابو کے کمرے میں کھڑے تھے۔ عاقل بھائی گلا کھنکھار کر ہم سے مخاطب ہوئے:’’ بچو! میں نے تم سب کا جن، تم سب کا مجرم پکڑ لیا ہے۔‘‘ہم سب نے آنکھیں نکال کر حیرت سے عاقل بھائی کی طرف دیکھا۔
’’تمھارا مجرم تمھارا جن وہ شیطان ہے جس نے تمھیں مختلف وسوسوں میں ڈال رکھا ہے۔ تم سب کا خوف محض ایک خوف تھا اور یہ خوف ان باتوں کا نتیجہ تھا جن کو تم نے صرف سنا تھا یا محسوس کیا تھا۔ وہ خاتون ایک بہت اچھی اور سیدھی سی خاتون ہیں جو کہ کچھ عرصے قبل ہی اس گھر میں اپنی فیملی کے ساتھ شفٹ ہوئی ہیں۔ تم لوگوں نے سنے سنائے واقعات کو اپنے ذہنوں پر اتنا طاری کر لیاکہ ہر چیز جن نظر آنے لگی۔ وہ خاتون تم لوگوں کے تجسس کو بھانپ چکی تھیں، اسی لیے وہ تم سے مل کر تمھاری غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہتی تھیں اور تم لوگوں سے حمزہ کے حادثے کے متعلق بھی دریافت کرنا چاہتی تھیں وہ تم لوگوں کے رویے کی وجہ سے آج یہاں تشریف لائی تھیں تاکہ مل کر تمام باتیں واضح کر سکیں۔‘‘
’’ تو عاقل بھائی حمزہ کا حادثہ کیسے ہوا؟‘‘ میں نے تجسس اور پریشانی میں سوال کیا۔
’’بیٹا حادثات تو روزانہ ہی کئی لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں اس کا مطلب یہ تھوڑی ہے کہ وہ حادثات کوئی جن بھوت کرتے ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جن بھی اﷲ کی مخلوق ہیں وہ بھی ہماری طرح کھاتے پیتے اور اپنے خاندان کے ساتھ رہتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اس گھر میں رہتے ہوں۔ کسی چیز کو اگر بہت زیادہ سر پر سوارکر لیا جائے تو اس سے کئی قسم کے نقصانات بھی ہوتے ہیں۔ ‘‘ ابو نے عاقل بھائی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’ لیکن وہ پیچھے والی آنٹی کی باتیں ۔‘‘ سمیرا نے ابو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ بیٹا یہ انسان کی عادت ہوتی ہے کہ انسان اس طرح کے واقعات کو بغیر تحقیق کے بڑھا چڑھا کر آگے پھیلا دیتا ہے جس سے خوف کی فضا پیدا ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ نسیم محل کبھی فروخت نہیں ہو رہا تھا کیونکہ جو بھی گاہک آتا وہ محلے داروں سے مل کر یہ واقعات سن لیتا اور پھر یقین کرکے اپنا ارادہ ملتوی کر کے چلا جاتا۔ یہ نئے مکین کافی سمجھدار لوگ ہیں۔ اُنھوں نے اس واقعے کے بارے میں محلے داروں سے تحقیق کرنے سے اعتراض کیا اور آج سکون سے اس گھر میں رہ رہے ہیں۔ واقعی بات تو سیدھی سی تھی بس ہماری سوچ کا مسئلہ تھا۔

حصہ