میری وال سے

424

افشاں نوید
بات تو بڑی تھی ماسی کو چھٹی دینا معمولی بات تو نہ تھی۔نہ بھی چھٹی دیں توان کے قبیلے کو پتا چل گیاہے کہ ماسیوں کی چھٹی مع تنخواہ کے منظور ہو چکی ہے۔لہٰذا ماسی بھی قرنطینہ میں بیٹھ گئی بے چاری۔
نو افراد کا خاندان۔اماں ابا کے علاوہ نجمہ، دو کنوارے بھائی اور شادی شدہ بھائی رئیس کی بیوی عابدہ اور دوبچے۔۔
کام تو دو ہی لوگوں کے ذمے تھا اب نجمہ یا عابدہ۔۔۔
کام سا کام ہوتاہے گھر کا؟؟اب مردوں کو اندازہ ہورہا ہے کہ عورتیں جو “ورک فار ہوم” کرتی ہیں، بے حساب کتاب سارا ہی وقت گھر کو دے دیتی ہیں۔”آپ جناب”کے تو گھنٹے مختص ہیں۔
ہم بے چاریاں چوبیس گھنٹے آن ڈیوٹی ہیں۔
نو افراد کا کنبہ ایک ذمہ داری کا عنوان ہے۔پہلے پہل تو نجمہ نے دبے لفظوں کہا کہ ذمہ داری زیادہ بھابھی کی بنتی ہے۔فلاں کے گھر میں تو تین نندیں ہیں مگر ان کی بہو گھر گرہستی سنبھالے ہوئے ہے۔
اماں نے دیانت داری سے کام لیتے ہوئے کہا عابدہ کے بچوں کا ساتھ ہے وہ بھی ذمہ داری ہے۔
نجمہ کو سمجھانا کار دارد۔
کام بھی کتنا بڑھ گیا سب مرد گھر میں ،بچے گھر میں۔ناشتہ سمیٹا کہ کھانے کی تیاری ,وہ برتن مارامار دھلے تو شام کی چائے۔چھٹیوں کے “اکرام” میں اسنیکس لازم۔خیر چائنیز جھٹ پٹ بنا لیتی تھی نجمہ۔
یہ مردوں کا گھر میں رہنا بھی عذاب ہے۔ نجمہ نے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے دوپٹہ سر پر جماتے ہوئے سوچا۔بھائیوں کی تنقید۔ابا کی نصیحتیں کہ بھائی ٹھیک ہی کہتے ہیں۔
بھائی کہتے کیا ہیں؟ ذرا چائے کو دیر ہو گئی یا کھانا ٹھنڈا دے دیا توفوراََ۔۔۔کیا کروگی سسرال جاکر؟؟
سسرال نہ ہوئی ہالی وڈ کی کسی فلم کی ریکارڈنگ ہوگئی۔جس کو آسکر ایوارڈ کے لیے منتخب ہونا ہو۔
ٹھیک کردونگی ان سسرال والوں کو جب واسطہ پڑےگا۔ شیشہ دیکھ کر ہنہ کہا اور زینہ پھاندتی ہوئی نیچے اتر آئی۔
ہائے اللہ!سنک اور سلیپ گندے برتنوں سے بھرا دیکھ کر اس نے ماسی کو یوں یاد کیا جیسے بیٹیاں ساون میں سسرال میں قید۔۔۔۔ میکے کو یاد کرتی تھیں گئے وقتوں میں۔اب کوئی آھیں بھر بھر ساون میں میکے کو یاد نہیں کرتا۔۔۔
اماں میرے باوا کو بھیجو ری کہ ساون آیا۔
اب میکہ ان کے ساتھ ایک ٹچ پر موجود۔وڈیو کال کی اماں ابا بہنیں بھتیجے سب موجود۔
ہاں تو وہ بے چاری نجمہ سمجھی کہ بھابھی برتن دھو کر گئی ہوں گی اپنے کمرے میں مگر یہاں تو۔۔۔۔
اس کا مطلب پہلے برتن، پھر کھانے کی تیاری؟؟بہت اچھے بھئی بہت اچھے۔۔۔ ان سب کی نظر میں ماسی کا اسٹیٹس ہے میرا۔دماغ میں آندھیاں چلنے لگیں۔
اتنے میں بھائی رئیس نیچے اترے۔ اماں کو مخاطب کرتے ہوئے بولے۔وہ عابدہ کو زکام کے ساتھ ہلکا بخار بھی ہے۔سوچا ہے وہ قرنطینہ میں چلی جائے ورنہ سب کو خطرہ ہے۔
اماں کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا نجمہ دانت پیستی کچن میں پلٹی۔
جھوٹے چائے کے کپوں پر بھنکتی مکھیاں ,درجن بھر جھوٹی انڈوں کی زردی اور سالن جمی پلیٹیں ،رات چاول جو زیادہ ہی دم کھا کر آدھے بے دم ہوئے پیندے سے چپکے پڑے تھے انھیں کھرچنادودھ جو فریزر سے نکال کر اسٹیل کی دیگچی میں ابالا تو بری طرح جلی دیگچی، چولھے پر گرا دودھ جو جل جل کر پاپڑ بن چکا تھا۔چھ چھوٹی بڑی دیگچیاں جو سنک کے نیچے عادتا کھسکا دی جاتی ہیں کہ ماسی دھوئے گی آکر۔کوئی جو ایک برتن دھولے۔
جتنی برکت برتنوں میں ہے کاش مال و دولت میں ہوتی۔اماں اکثر خفا ہوکر کہتیں۔
نجمہ کے ذہن نے راکٹ کی طرح اونچی اڑان بھری۔
دوپٹہ سے ناک رگڑ کر کچن سے باہر آتے ہوئے بولی اماں فلو مجھے بھی ہے۔یہی پہلی علامت ہے کورونا کی۔میں نے رات سے سوچا ہوا تھا قرنطینہ میں چلی جاؤں۔
تیسری منزل پر تو ایک ہی کمرہ ہے بیٹا ۔اماں بولیں ۔ہاں میں فنائل کا پونچھا لگا کر آئی ہوں۔اب ہفتہ عشره تو نہیں نکلنا وہاں سے۔نجمہ بولی عابدہ تیزی سے زینہ اتری میں نے ابھی ڈیٹول کا اسپرے کیا ہے کھڑکی دروازوں پر۔وہ میرا قرنطینہ ہے۔
WHO کے لیے کورونا کی ویکسین جتنا بڑا مسئلہ ہے ۔اماں کے لیےقرنطینہ کا فیصلہ کرنا اس سے بڑا مسئلہ ہےآج سویرے مور ہماری چھت پر۔۔۔
ممکن ہے یہ مور،پپیہے،بگلے سروے کو نکلے ہوں کہ انسانی آبادیوں میں انسانوں کے بعد کہاں کہاں رہائش اختیار کی جاسکتی ہے؟؟ممکن ہے ہمارے بعد شاہینوں کو پہاڑوں پر بسیروں کے لیے نہ جانا پڑے۔یہ دنیا اتنی پرامن آلودگی سے پاک ہوجائے۔
اللہ نے تو کہا نا کہ تم نہ اٹھو گے تو تمہاری جگہ تم سے بہتر مخلوق لے آئے گا۔اشرف المخلوق تو ہم ہیں مگر چرند پرند مور،بگلے یوں تو ہم سے بہتر ہیں ناں کہ سرکش نہیں ہیں،بغاوت نہیں کرتے،بار بار رب کو ناراض نہیں کرتے،اس کی دنیا کو فساد سے نہیں بھرتے۔
بہت فساد مچایا ہم انسانوں نے دنیا میں۔پچھلی صدی کے آخر سے بہنے والا خون تو خون مسلم ہی ہے۔
وہ خاموش دیکھتا ہے اپنی لاٹھی کو کبھی کبھی حرکت دیتا ہے۔اس کی چکی ذرا دھیرے سے چلتی ہے مگر بہت باریک پیستی ہے۔
ہم تھرڈ ورلڈ یوں بھی مانگے کی کھاتے ہیں وہ جو سپر پاور اور دنیا کے خزانوں کے مالک ہیں دکھ تو انھیں زیادہ ہوگا کہ ان کے لیے دنیا ہی سب کچھ تھی وہ بھی چھن رہی ہے۔گھروں میں قید اربوں کی معیشتیں ڈوب رہی ہیں۔
سمندر ان کے، فضائیں ان کی، ورلڈ بنک ان کے،ویٹو کا اختیار ان کے ہاتھ میں،آئی ایم ایف ان کے،نیٹو فورسز ان کی۔
ہم تو کہیں افغانستان، کہیں عراق،کہیں فلسطین اور کہیں شام، کہیں مقبوضہ کشمیر۔۔۔
فلک نے دیکھا کہ پریشان ہم نہیں ہیں۔ہم اس دنیا کو عیش کدہ سمجھتے ہی نہیں تھے۔مسافر کا کیا پوٹلی اٹھائی۔چل سو چل۔۔آج یہاں،کل وہاں۔
میں ذرا وہاں چلا ہوں۔۔۔دارالعمل سے دارالحساب۔۔۔بس ٹریک بدلنا ہے پٹری پر۔یہ تو پتا تھا۔اسی کی تو تیاری کے لیے بھیجا گیا تھا۔پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ دنیا برتنا کیسے ہے؟ یہی تو سکھانے آئے تھے۔
یہاں ہر انشاجی کو پتا ہے کہ اسے کوچ کرنا ہے اس شہر میں جی نہیں لگانا اس نے۔کورونا میں موت کا پیام تو ان کے لیے ہے جن کا آخرت پر ایمان نہیں۔جن کے لیے یہ دنیا ہی عیش کدہ ہے۔
اعمال ہمارے بھی ایسے نہیں کہ بخشش کا پروانہ مل جائے۔۔۔مگر مسلمان کا بھروسہ اپنے اعمال پر نہیں اس کی رحمت پر ہے۔اللھم حاسبنا حسابا یسیرا۔۔۔
………
دوہفتہ قبل بروز جمعہ ہم ٹرین کے سفر میں تھے۔ٹرین جس گاؤں دیہات، شہر کے سامنے سے گزرتی بہت روح پرور مناظر، گاؤں دیہاتوں میں بھی اسی طرح جمعہ کا اہتمام۔اجلے لباس،سفید ٹوپیاں،گلی محلہ میں رونق، پھلوں کے ٹھیلے،ایک میلہ کی سی رونق لگی ہر طرف۔جی خوش ہوا مسلمانوں کی چھوٹی عید ہے جمعہ۔
آپ بیمار ہوتے ہیں کمر میں درد۔بالفرض آپ کا ڈاکٹر ہندو ہے وہ کہتا ہے آپ جھک نہیں سکتے مسلز کو مزید خطرہ ہے۔آپ نماز اشاروں سے پڑھیں۔
آپ گھر آکر ہرگز کسی مفتی کو کال نہیں کرتے۔نہ گھر کا کوئی فرد کہتا ہے کہ اسلام دشمنی ہے ابااپنے ایمان کی فکر کریں۔آپ کو یہ یقین ہے کہ ڈاکٹر مذہبی عقائد سے قطع نظر آپ کا خیر خواہ ہے۔
ڈاکٹرز ہمیشہ خیر خواہ ہوتے ہیں۔اگر وہ کہہ رہے ہیں کہ موذی وائرس سوشل انٹرایکش سے پھیلتا ہے تو اس میں ڈاکٹر کا نہیں ہمارا فائدہ ہے۔
یہ ہماری اجتماعی دانش کی لازوال مثال ہے کہ دوروز سے پورا میڈیا لگا پڑا ہے کہ جمعہ کی اجتماعی نماز ہو یا نہ ہو۔اس طرح مسجدیں ویران ہونا عذاب کو دعوت دینا ہے۔
بعض اہل علم دلیل لارہے ہیں کہ حالت جنگ میں جب جماعت ساقط نہیں ہوئی تو یہ بھی حالت جنگ ہے۔
جہاں قرآن میں یہ حکم ہے کہ میدان جنگ میں جماعت ہو وہاں یہ حکم بھی ہے کہ ایک گروہ نماز پڑھے اور ایک حفاظت کے لیے کھڑا رہے۔باوجود اس کے کہ اللہ کے نبی ﷺ درمیان میں موجود ہیں یہ نہیں کہاگیا کہ تمام کی تمام فوج سجدے میں چلی جائے،اللہ کفار کی آنکھوں میں دھول جھونک دیگا۔۔
وہاں بھی کہا گیا کہ حفاظت تمہیں”خود”ہی کرنی ہے۔واضح رہے کہ اس وقت فضائی حملہ کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔مقابلہ تلواروں اور نیزوں کا تھا،انسانی جسم کو دوسرے انسانی جسم سے کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا۔
سو انتہائی احتیاط یہی ٹہری کہ ایک گروہ تلواريں سونتے چوکس رہے ایک نماز ادا کرلے۔مقصد رہتی دنیا تک امت کو یہ سبق دینا تھا کہ نماز میدان جنگ میں بھی معاف نہیں ہے۔
ہماری قوم کو ہر ایشو پر دو فرقوں میں تقسیم کردینا نان ایشوز کی سیاست ہی میڈیا کا بھرم ہے۔
جہاں ہدایات ڈاکٹر سے لینا ہوں کیا ہم علماء کے پاس جاتے ہیں۔معاملہ اجتماعی صحت کا ہے۔ہم جتنا مضطرب اس بات پر ہیں کہ جمعہ کو مسجد کی ویرانی ہمارے اعمال سیاہ کے باعث ہے۔اتنی ہی اہم بات یہ ہے کہ فجر میں مسجدیں خالی نہ ہوتیں تو شاید ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
خانہ خدا کا طواف نہ ہونا ہمیں جتنا مغموم کررہا ہے اس غم کا کوئی اظہار اس وقت بھی ہونا چاہیے جب محلہ کی مسجدیں خالی ہوتی ہیں۔کعبة اللہ سے ہماری جذباتی وابستگی ہمارے ایمان کا حصہ ہے لیکن ہم سے اسکا جواب نہیں طلب کیا جائے گا۔
فکر انگیزی اس بات پر ہونا چاہیے کہ محلہ کی مسجد میں ہمارے گھر کےمرد دن میں کتنی بار تکبیر اولی میں شریک ہوتے تھے۔جو مسجد دن میں پانچ بار حی علی الفلاح پکارتی تھی وہاں صرف رمضان میں حاضری کیوں لگوائی جاتی تھی؟؟سوچنے کی اور بھی بہت سی باتیں ہیں۔دنیا کے اہل دانش سوچ رہے ہیں کہ کورونا کے بعد کی دنیا کیسی ہوگی۔گرتی معیشتوں کو کیسے سنبھالا جائے گا۔آئندہ وائرس کے حملوں سے بچنے کے لیے انسانی جسم کے نظام مدافعت کو کیسے مضبوط بنایا جائے۔
تاریخ کا المیہ یہ کہ کوئی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا۔آج ہم کف افسوس ملتے ہیں کہ جب دنیا یونیورسٹیاں بنا رہی تھی ہم تاج محل بنانے میں لگے ہوئے تھے۔
آنے والا مورخ لکھے گا کہ جب یورپ نئی ویکسین فضائی آلودگی کم کرنے،انسانی جان کی حفاظت ،وائرس سے لڑنے کے لیے مدافعتی نظام کی اہلیت بڑھانے پر سر جوڑے بیٹھا تھا مسلمان فتووں کے تاج محل بنا رہے تھے کہ جمعہ گھر میں پڑھیں یا مسجد میں۔
………
(جاری ہے)

حصہ