پیر زادہ قاسم کا شعری مجموعہ ’’بے مسافت سفر‘‘ منظر عام پر آگیا

862

نثار احمد نثار
پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کا تیسرا مجموعہ کلام ’’بے مسافت سفر‘‘ منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوگیا ہے۔ 280 صفحات پر مشتمل اس شعری مجموعے میں 90 غزلیں اور 36 نظمیں شامل ہیں۔ کتاب کا انتساب ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کے نام ہے جو بے مثال معالج اور منتظم ہیں مگر ساتھ ہی دلوں میں امید کی پیوند کاری کرنے میں بھی اپنا جواب نہیں رکھتے۔ کتاب کا مقدمہ مسلم شمیم نے لکھا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ: ’’بے مسافت سفر‘‘ میں شاعر کا عرصۂ حیات 1943ء سے تادمِ تحریر پوری سچائی اور دیانت داری کے ساتھ نظر آرہا ہے۔ اس مجموعے کا نام اس کی معنویت اور شاعر کے ذہنِ رسا اور جہانِ فکر و دانش کی طرف خصوصی توجہ کا طالب ہے۔ موجودہ صدی میں ہمارا معاشرہ جن حالات و بے یقینی سے گزر رہا ہے ڈاکٹر پیرزادہ اس کی کیفیت اورکمیت ہر زاویۂ نگاہ کے تقاضوں اور موضوعات کا بھرپور ادراک و شعور رکھتے ہیں اور اپنے قاری کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنے ملک اور معاشرے کی غیر یقینی صورتِ حال کا جائزہ لے اور یہ احساس کرے کہ ہم بے سمتی سے دوچار ہیں۔ ان مسائل کا حل ہمیں تلاش کرنا ہے۔ پیرزادہ کی شاعری و نظریات میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ اس ضمن میں ان کی بصیرت و بصارت کی دنیا کی سرحدیں بڑی متنوع اور کثیرالجہات ہیں، ان کی ادبی شخصیت کی جامعیت وقت کے ساتھ فزوں تر ہورہی ہے۔ ان کی ادبی نگارشات میں نثر و نظم کی مختلف اصناف ہیں۔ یہ اردو ادب کا گراں قدر سرمایہ ہے۔ ان کی شاعری میں زندگی تمام تہ داریوں اور ہمہ گیریت کے ساتھ قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ زندگی ان کے یہاں حقیقی زندگی ہے جس میں مسرتیں بھی ہیں، کلفتیں بھی اور امکانات کی نئی جہتیں بھی ہیں۔ ان کی شاعرانہ زندگی نصف صدی سے زیادہ پر محیط ہے، وہ آغازسے مقبول و پسندیدہ شاعر کی حیثیت جانے اور پہچانے گئے، ان کی شاعری اور شخصیت کی پزیرائی وقت کے ساتھ دوچند ہوگئی۔ وہ شعر و ادب کے مختلف مسلک و مشرب کے حامل حلقوں میں یکساں طور پر مقبول ہیں۔ ان کی بہاریہ شاعری کی مجموعی تفہیم کی روشنی میں یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ ان کے یہاں کلاسکیت کی روایات اور ہم عصریت کے تقاضوں کی ہم آہنگی نظر آتی ہے، ان کے لب و لہجے میں جہاں میر تقی میرؔ کے اثرات دیکھے جاسکے ہیں وہیں فیض احمد فیضؔ کی نغمگی اور لفظیات بھی نمایاں ہیں۔
کتاب کی پہلی تقریبِ پزیرائی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی صدارت میں جامعہ کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اینڈ جینٹک انجینئرنگ ہال میں منعقد کی گئی۔ ڈاکٹر شکیل فاروقی اس تقریب کے آرگنائزر تھے، جن کی دعوت پر زندگی کے مختلف اہم شعبوں کے افراد سے آڈیٹوریم بھرا ہوا تھا۔ مولانا بشیر احمد ہزاروی نے تلاوتِ کلام مجید کا شرف حاصل کیا۔ ڈاکٹر شکیل فاروقی نے نظامت کے فرائض کی انجام دہی کے دوران ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کے بارے میں کہا کہ ان کا نام اس دور میں اور آنے والے وقت میں بھی روشن رہے گا کہ انہوں نے شعر و سخن کے حوالے سے جو روایات قائم کی ہیں وہ بڑی اہمیت کی حامل ہیں، ان کا نام گنیز بک میں شامل ہونا چاہیے۔ ان کی تعلیمی خدمات بھی قابلِ ستائش ہیں، وہ پہلے جامعہ کراچی کے وائس چانسلر رہے اور اب ضیا الدین یونیورسٹی کے شیخ الجامعہ ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر عابد اطہر نے کہا کہ ہم جیسے طالب علموں کو ڈاکٹر پیرزادہ جیسی شخصیت کی ضرورت ہے جو علم و ادب کی محفلوں کی جان ہیں۔ ہمیں یہ فخر حاصل ہے کہ ہم ان کے دور میں ان کے ساتھ شریکِ محفل ہیں۔ انور شعور نے کہا کہ آج کی محفل میں بہت اہم لوگ تشریف فرما ہیں، جوش ملیح آبادی نے کوثر نیازی کی شاعری کے بارے میں کہا تھا کہ کثرتِ مشاغل سے ان کی شاعری ڈسٹرب ہوئی ہے، لیکن پیرزادہ قاسم کی شاعری میں کثرتِ مشاغل کے باوجود کوئی نقص نظر نہیں آیا۔ انہوں نے تازہ سے تازہ زمینیں نکالی ہیں جو بے حد مقبول و مشہور ہیں۔ یہ ایک پختہ کار شاعر ہیں، یہ سائنس کے آدمی ہیں، شاعری اور سائنس ایک دریا کے ایسے دو کنارے ہیں جو آپس میں نہیں مل سکتے، لیکن پیرزادہ قاسم نے شاعری میں بھی اپنی شناخت بنا کر یہ محاورہ غلط ثابت کردیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاعری میں دو فرقے ہیں، ایک بائیں بازو کا اور دوسرا دائیں بازو کا۔ پیرزادہ قاسم دونوں طبقات میں فٹ ہیں، ان کے یہاں مزاحمتی شاعری بھی ہے اور رومان پرور غزلیں بھی۔ ان کے یہاں مسائلِ زمانہ بھی ہیں اور غمِ جاناں بھی۔ ان کا کوئی شعر بھی ایسا نہیں جس میں کوئی پیغام نہ ہو۔ یہ مشرقی روایات کے علَم بردار ہیں۔ ہم نے ان میں کوئی برائی نہیں دیکھی۔ یہ شریف النفس انسان ہیں۔ صاحبِ اعزاز پیرزادہ قاسم نے کہا کہ وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ آج ہم ان کی سرپرستی میں اس تقریب میں جمع ہیں۔ یہ محسنِ پاکستان ہیں، ان کا عظیم کارنامہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کو ایٹمی ملک بنایا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ جامعہ کراچی کے بھی شکر گزار ہیں کہ آج یہ محفل سجائی گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا زور پیشہ ورانہ زندگی کی طرف ہے، لیکن ادب برائے زندگی ہے۔ آپ کی شاعری میں زندگی کے بدلتے ہوئے منظرنامے ہوں گے تو آپ کامیاب شاعر کہلائیں گے۔ میں نے کوشش کی ہے کہ ادب کے منشور کی پیروی کروں۔ میرا پہلا شعری مجموعہ ’’تند ہوا کے دیس میں‘‘ 1990ء میں شائع ہوا، دوسرا مجموعہ کلام ’’شعلے پہ زباں‘‘ تھا، خدا کا شکر ہے کہ ان دونوں کتابوں کے تین تین ایڈیشن شائع ہوئے۔ اس موقع پر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے کئی غزلیں سنائیں اور خوب داد سمیٹی۔ تقریب کے مہمانِ خصوصی عبدالحسیب خان نے کہا کہ میری کوشش ہوتی ہے کہ ہر ادبی محفل میں شرکت کروں، اس میں مجھے کبھی کامیابی ہوتی ہے اور کبھی کبھی ناکامی بھی۔ میرے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ میں آج اس تقریب کا اہم حصہ ہوں۔ میں نے ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی سے بہت کچھ سیکھا ہے، ان کی شاعری پر تمام نقادِ سخن نے تعریفی کلمات کہے ہیں۔ ان کا اندازِ سخن نہایت شائستہ ہے، ان کے دل میں قوم و ملک کا درد ہے جس کا اظہار ہمیں ان کی شاعری میں نظر آرہا ہے۔ یہ انتہائی نازک احساسات کو بھی بہت اچھی شاعری میں ڈھال دیتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں مزید عزت، شہرت و صحت عطا فرمائے۔ صاحبِ صدر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا کہ آج اس محفل میں انتہائی پڑھے لکھے افراد کی موجودگی پیرزادہ قاسم سے محبت کا اظہار ہے، میں خود بھی ان کا مداح ہوں، ان کی شاعری پڑھتا ہوں، ان جیسے افراد صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ آخر میں جامعہ کراچی کے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد عراقی نے اظہارِ تشکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کو طویل عرصے سے جانتا ہوں، یہ ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ تحمل مزاجی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، میں نے ان سے زندگی گزارنے کا سلیقہ سیکھا ہے۔ یہ میری آئیڈیل شخصیات میں شامل ہیں، ہم ان کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہماری دعوت پر ہمیں وقت دیا اور آج کی تقریب کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔

غیر مؤثر تخلیقات کے سبب قاری ادب سے دور ہو رہا ہے، سرور جاوید

آزاد ادبی فورم کی نشست میں ’’ادب اور اس کا منشور‘‘ کے موضوع پر سرور جاوید نے اپنا مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ میری طرح بہت سے لوگوں نے ادب کا طویل مطالعہ کیا ہے، اس سے ایک بات صاف طور پر واضح ہورہی ہے کہ ادب آپ کے احساسات، جذبات، مشاہدات کا نام ہے، چاہے یہ اظہار شاعری میں ہو یا کہ نثر میں۔ افسانہ، ناول، سفر نامہ اور دیگر اصنافِ سخن ادب میں شامل ہیں، لیکن ادب اور سماجیات دو الگ الگ چیزیں ہیں، اب تک میں نے جتنے بھی افسانے پڑھے ہیں ان میں دو کردار نمایاں ہوتے ہیں: ایک ظالم اور دوسرا مظلوم۔ سچ اور جھوٹ کا مکالمہ ہوتا ہے۔ اس قسم کی تحریر پڑھ کر ہمارے دل میں مظلوم کی حمایت اور ظلم کے خلاف تحریک پیدا ہوتی ہے۔ شاعری کا غیر تحریری منشور بھی یہی ہے کہ ہم ظلم کی نشاندہی کریں اور مظلوم کی حمایت کریں۔ وڈیروں، جاگیرداروں اور زمینداروں کے مظالم ہمارے سامنے ہیں۔ ہر دور کے یزید ظلم ڈھاتے ہیں اور ادب ان تمام کے خلاف آواز بلند کرتا ہے۔ 1936ء میں ترقی پسند تحریک جب ہندوستان میں آئی تو وہاں انگریزوں کی حکومت تھی، بے شمار مسائل سامنے تھے، زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی تھی، ہر طبقۂ فکر پریشان تھا، لہٰذا ترقی پسند تحریک نے اپنے منشور میں شعرائے کرام سے کہا کہ وہ زندگی کے دیگر مسائل کے علاوہ ظلم و سفاکی کے خلاف آواز بلند کریں اور لوگوں کے رویوں میں سچائیاں رقم کریں، زمینی حقائق سے پردہ اٹھائیں۔ جب طاقت ور لکھنے والوں نے اس منشور پر عمل کیا تو تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ 1936ء سے 1970ء تک اچھا ادب لکھا گیا۔ حسن عسکری نے کہا کہ ادب برائے زندگی نہیں ہے، بلکہ ادب تفریحِ طبع کا نام ہے۔ ادب کا پہلا کام ذہنی آسودگی فراہم کرنا ہے۔ ایک زمانے تک ان خطوط پر کام ہوا، لیکن جب ترقی پسندوں میں طاقت ور قلم کار نہیں رہے تو اچھی تخلیقات ختم ہوگئیں، ادب اپنے منشور سے ہٹ گیا۔ اس میں ادب کا کوئی قصور نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ترقی پسند تحریک کے تناظر میں لکھے گئے افسانے آج بھی شائع ہوجائیں تو وہ تمام کتابیں بک جائیں گی۔ قاری غائب نہیں ہوا ہے بلکہ اچھا ادب تخلیق نہیں ہورہا۔ ترقی پسند تحریک کے کمزور پڑتے ہی شاعری کی جگہ نعرے بازی نے لے لی ہے۔ اب ہمیں فیض احمد فیض اور قرۃ العین جیسے قلم کار نظر نہیں آتے۔ اگر دوبارہ اچھی تخلیقات سامنے آئیں تو قارئین ادب سے جڑ جائیں گے۔ غیر مؤثر تخلیقات کے سبب ادب سے قاری غائب ہوتا جارہا ہے۔
اس مذاکرے کے مہمانِ خصوصی عقیل دانش نے کہا کہ افسانہ ہمارے ادب کا اہم حصہ ہے، جب کہ سفرنامہ بھی ادب میں ثقافت اور سماجیات بیان کرتا ہے۔ ادب کا منشور ہے کہ ادب برائے زندگی ہے۔ زاہد حسین نے کہا کہ ادب کے منشور میں ظالم اور مظلوم کا ذکر ہے لیکن رومان پرور شاعری کس خانے میں فٹ کی جائے گی؟ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ آدمی کے ذاتی جذبات اس طرح بیان کیے جائیں کہ مثبت پیغامات سامنے آئیں۔ انگریز مفکرین کے نزدیک جذبوں کی بازیافت کا نام شاعری ہے۔ انہوں نے سرور جاوید کے نظریۂ ادب سے اختلاف کرتے ہوئے مزید کہا کہ ادب میں امتیازی طور پر کسی مضمون کی قید نہیں ہے۔ ارسطو نے کہا تھا کہ ادب تزکیۂ نفس کا نام ہے۔ ادب کسی ہیئت کا قیدی نہیں ہے۔ شمس الغنی نے کہا کہ سچائی رقم کرنا ادب کا منشور ہے، رومانی موضوعات میں اتنی جان نہیں ہوتی۔ مجید رحمانی نے کہا کہ معاشرے کے بدلتے ہوئے حالات کے تحت ادب تخلیق کرنا چاہیے۔ سرور جاوید نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ رومانی شاعری بھی زندگی کا حصہ ہے، اس سے جینے کی امنگ پیدا ہوتی ہے۔ سچائی کا بیان، ظالم کے خلاف آواز بلند کرنا، اور مظلوم کی حمایت کرنا آج بھی عالمی ادب کا منشور ہے۔ اپنے محبوب کو نصیحت کرنا شاعری میں معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس مذاکرے کی صدارت حیات رضوی امروہوی نے کی۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ادب برائے ادب کا نعرہ دم توڑ چکا ہے، ادب میں آفاقیت آگئی ہے۔ یہ مذاکرہ کے ایم سی آفیسرز کلب کشمیر روڈ کراچی میں 17 مارچ کو آزاد ادبی فورم کے تحت ترتیب دیا گیا تھا۔ گفتگو کا سلسلہ جاری تھا کہ ریسٹورنٹ انتظامیہ نے سرور جاوید سے کہا کہ ابھی ابھی حکم آیا ہے کہ ریسٹورنٹ اور کلب کو تاحکم ثانی بند کیا جارہا ہے، لہٰذا آپ لوگ فوری طور پر پروگرام ختم کردیں۔ اس پروگرام میں حیات رضوی امروہوی، عقیل دانش، سرور جاوید، شمس الغنی، سید زاہد حسین زاہد، راقم الحروف نثار احمد، سیف الرحمن سیفی، تاج علی رانا اور طاسین سمندر بطور شاعر موجود تھے، جب کہ سامعین بھی اس پروگرام کا حصہ تھے۔

حصہ