۔”آپ کے پاس ڈیٹول ہے؟”۔

598

’’ڈیٹول ہے؟‘‘
’’نہیں‘‘۔
’’کیا بات ہے، کسی کے پاس بھی نہیں! کہاں سے ملے گا؟‘‘
’’اگلی دکان پر معلوم کرلیں۔‘‘
………
’’بھائی آپ کے پاس ڈیٹول ہے؟‘‘
’’جی ہاں، یہ لیجیے۔‘‘
’’کتنے پیسے؟‘‘
’’سو روپے۔‘‘
’’سو روپے…! ارے اتنی چھوٹی سی بوتل اتنی مہنگی؟ اور پھر ڈیٹول تو اس طرح کی بوتل میں نہیں آتا۔ لگتا ہے پلاسٹک کی یہ بوتلیں تم نے خود بھری ہیں۔‘‘
’’ہاں ہاں یہ پیکنگ ہم نے ہی کی ہے۔ شکر کرو یہ بھی مل رہا ہے، تھوڑے دن ٹھیر جاؤ، خالی بوتلیں ہی ملیں گی۔‘‘
’’خدا کا خوف کرو، اس کے عذاب سے ڈرو… اس قدر ظلم! وہ بھی ان حالات میں…؟‘‘
’’میں نے کوئی انوکھا کام نہیں کیا، تمام دکانوں پر ڈیٹول اسی طرح فروخت ہورہا ہے، بلکہ اب تو مارکیٹ میںبھی دستیاب نہیں، شکر کرو تمہیں مل رہا ہے، اگر لینا ہے تو لو ورنہ آگے بڑھو۔‘‘
’’بڑے افسوس کی بات ہے، ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری! خود مارکیٹ سے سامان غائب کرکے مہنگے داموں فروخت کرنا کہاں کی انسانیت ہے! تم جیسے لوگوں نے ہی مصنوعی بحران پیدا کررکھا ہے۔ یہ جوکورونا وائرس آیا ہے، تم جیسوں کے لیے اللہ کا عذاب ہے۔ کب تک… آخر کب تک ایسا کرو گے! ایک دن خدا تمہیں ضرور پوچھے گا۔‘‘
’’جناب میں نے کہا ہے اگر آپ کو ڈیٹول چاہیے تو لے لیں، ورنہ جائیں، یہاں کھڑے ہوکر ہمیں بددعائیں نہ دیں، ہم نے کوئی چیز مہنگی نہیں کی، سارا زمانہ جانتا ہے کہ کراچی کی تمام بڑی مارکیٹیں بند ہیں۔ خود جاکر دیکھیں، بولٹن مارکیٹ، جوڑیا بازار سمیت تمام مارکیٹیں بند ہیں، یہاں تک کہ اشیائے خورونوش کی سپلائی بھی بند ہے، کوئی ٹرانسپورٹ نہیں۔ یہ ہم ہی جانتے ہیں کہ کس طرح اور کہاں کہاں جاکر سامان اکٹھا کرتے ہیں۔ جب چیزیں پیچھے سے مہنگی ملیں گی تو ہم بھی زیادہ نرخوں پر ہی فروخت کریں گے۔ ہم سے جھگڑا کرنے سے بہتر ہے انتظامیہ سے شکایت کریں۔ جو مل رہا ہے، صبر شکر کرکے لے لیں۔‘‘
’’کیا ہوا شبیر بھائی! دکاندار سے کس بات پر بحث کررہے ہیں؟‘‘
’’خدا کا خوف نہیں انہیں، ہر چیز مہنگی کردی ہے۔ کل تک جو اشیا کوڑیوں کے مول ملا کرتی تھیں وہ بھی مہنگے داموں فروخت کی جارہی ہیں، بازاروں میں آگ لگی ہوئی ہے۔ نہ صابن، سرف ملتا ہے اور نہ ہی کھانے پینے کی چیزیں مل رہی ہیں۔ پاکستان میں تو کورونا وائرس دکانداروں کے لیے ایک ایسا تہوار بن کر آیا ہے جس میں یہ لوگ سیزن کما رہے ہیں۔ حکومت نے لاک ڈاؤن کرکے اپنا فرض پورا کردیا ہے، عوام پر کیا گزر رہی ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔‘‘
’’اچھا اچھا غصہ نہ کیجیے، بات ختم کریں اور گھر چلیں۔‘‘
’’رفیق! یہ صورتِ حال دیکھ کر دل جلتا ہے۔ دنیا بھر میں اللہ کا عذاب آیا ہوا ہے، لیکن مسلمان ہونے کے باوجود ہم میں کوئی خوفِ خدا نہیں۔‘‘
’’جی ہاں آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں، لیکن سارے دکاندار بھی ایک سے نہیں ہوتے، اچھے برے لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جنہوں نے اپنا مال بغیر منافع کے فروخت کیا۔ ابھی چند لوگوں میں خوفِ خدا باقی ہے۔ یہ صرف کراچی کا مسئلہ نہیں، بلکہ کورونا وائرس کے پیش نظر ملک بھر میں لاک ڈائون کے احکامات جاری ہونے کے ساتھ ہی ذخیرہ اندوزوں نے اپنی مرضی کے ریٹ لگانے شروع کردیے تھے، جس سے نہ صرف مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے بلکہ صابن، سرف اور جراثیم کُش اسپرے وغیرہ تو دور کی بات، آٹا تک ملنا مشکل ہوگیا ہے۔ دالوں کی قیمتیں ہی دیکھ لو، دال چنا تیس سے چالیس روپے فی کلو مزید مہنگی کردی گئی، دال ماش کی قیمت بھی آسمان سے باتیں کرنے لگی ہے۔ یہ سب ان پرچوں اور ہول سیلرز کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے جن میں احساس نام کی کوئی چیز نہیں، ان کے نزدیک پیسہ ہی سب کچھ ہے، بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ یہ سب کچھ پرائس کنٹرول مجسٹریٹ کی سر پرستی میں ہی ہورہاہے۔‘‘
’’رفیق! میں بھی تو اسی بات کا رونا رو رہا ہوں۔ دیکھوکتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک طرف ہمیں اس موذی وائرس کورونا نے گھیر رکھا ہے، اور دوسری طرف ذخیرہ اندوز اپنی مرضی کے ریٹ لگا کر عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ اگر یہی کچھ ہوتا رہا تو مستقبل قریب میں بھوک اور افلاس کی وجہ سے بھیانک قسم کے حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ تم ٹھیک کہہ رہے ہو کہ سارے ملک میں یہی صورت حال ہے، کل رات میرے کزن وحید کا فون آیا تھا، وہ بتارہا تھا کہ پنجاب جہاں جزوی طور پر لاک ڈائون ہے وہاں بھی ذخیرہ اندوزوں کی ملی بھگت کے باعث گندم مارکیٹ سے غائب ہوگئی ہے، جب کہ گندم کی 100 کلوگرام کی بوری میں اچانک 1000 روپے کا اضافہ ہوگیا ہے، قیمت میں اس اضافے کے بعد 3700 روپے والی 100 کلوگرام گندم کی بوری4700 روپے کی ہوگئی ہے، اس کے علاوہ سبسڈی والا آٹا بھی مارکیٹ سے غائب ہے، جس کے باعث شہری سخت مشکلات کا شکار ہیں، چکی مالکان نے بھی آٹے کے ریٹ بڑھا دیے ہیں، کوئی 54روپے، تو کوئی 60 روپے فی کلو فروخت کررہا ہے۔ وحید کا کہنا تھا کہ مارکیٹ میں آٹا نہیں مل رہا اس لیے عوام چکی سے مہنگا آٹا خریدنے پر مجبور ہیں۔‘‘
’’شبیر بھائی! گرمیِ بازار اور ذخیرہ اندوزوں پر نظر رکھنا حکومت کا کام ہے، ہم کب تک لوگوں سے لڑتے رہیں گے! اور ویسے بھی کورونا وائرس سے بچاؤ کا واحد طریقہ سماجی رابطے ختم کرکے اپنے گھروں تک محدود ہونا ہے، لہٰذا لوگوں سے بحث کرنے سے بہتر ہے کہ اپنی صحت کا خیال کیا جائے، اور گھر میں ہی رہا جائے۔ ویسے کل رات وزیراعظم کی جانب سے کی جانے والی پریس کانفرنس دیکھنے کے بعد میں خاصا پُرامید ہوں۔ اس پریس کانفرنس میں خان صاحب نے اپنی حکومت کی پالیسیاں بیان کرتے ہوئے کہاکہ:
’’ہم نے کورونا ریلیف فنڈ قائم کیا ہے، اس کا اکائونٹ نیشنل بینک میں ہے، جو بھی اس اکائونٹ میں پیسہ ڈالے گا ملک کے اندر یا باہر سے، اُس سے کسی قسم کے سوالات نہیں ہوں گے، اس پیسے کو اگر ٹیکس دستاویزات میں ظاہر کیا جاتا ہے تو ریلیف فنڈ میں حصہ لینے والوں کو ٹیکس ریلیف بھی ملے گا۔ ہمارے پاس صرف دو چیزیں ہیں، ہمارے پاس سب سے بڑی چیز ایمان ہے، ہمارا ماٹو ایمان، اتحاد، تنظیم ہے، اس میں سب سے بڑی چیز ایمان ہے۔ ایمان کی وجہ سے ہماری قوم سب سے بڑی خیرات دیتی ہے۔ ہم نے کورونا وائرس کے خلاف ٹائیگر فورس قائم کی ہے، یہ ہماری فوج اور انتظامیہ کے ساتھ مل کر ملک میں کام کرے گی، ہم نے وزیراعظم ہاؤس میں ایک سیل قائم کیا ہے جو صورت حال کو مانیٹر کررہا ہے اور ڈیٹا کو دیکھ رہا ہے، ہم آپ کو پانچ ہفتوں میں بتادیں گے کہ کورونا وائرس کی صورت حال کیا ہے اور یہ کس طرف جارہا ہے۔‘‘
ذخیرہ اندوزوں کو مخاطب کرتے ہوئے خان صاحب نے کہا:
’’جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں اور کررہے ہیں اُن کو آگاہ کرتا ہوں کہ ریاست سخت ایکشن لے گی، ذخیرہ اندوزی ہوئی تو لوگ بھوکے مریں گے۔ ہم احساس پروگرام کے تحت لوگوں کو گھروں میں پیسے پہنچا رہے ہیں، ہم اس اکائونٹ سے ان کے پیسے بڑھا دیں گے، اس فنڈ کا آڈٹ بھی ہوگا۔ اسٹیٹ بینک نے یہ فیصلہ کیا کہ جو بھی بزنس مین اپنے لوگوں کو بے روزگار نہیں کرے گا بینک انہیں آسان قرضے دے گا۔ ہم احساس پروگرام کے فیس بک پیج پر گائوں میں بیٹھے لوگوں کو رجسٹرڈ کریں گے، جو لوگ خیرات دینا چاہتے ہیں انہیں بھی رجسٹرڈ کریں گے۔ کورونا کے ساتھ ہمیں غربت جیسے بڑے چیلنج کا سامنا ہے، اندرون و بیرون ملک مخیر حضرات ہمارے لیے امید کی کرن ہیں۔ تمام بڑے کارخانوں کے مالکان کو ہدایت کردی گئی ہے کہ ملازمین کو تنخواہوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔‘‘
مجھے امید ہے کہ اگر وزیراعظم کی جانب سے کیے گیے ان اعلانات پر عمل ہوگیا تو عوام کو خاصا ریلیف مل جائے گا۔‘‘
’’یار رفیق! دعا کرو جو تم نے کہا ہے ایسا ہی ہو، مگر مجھے ایسا نہیں لگتا۔ تم نے کہا ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے ریلیف پیکیج کا اعلان کردیا ہے اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی کی نوید بھی سنائی ہے، لیکن بازاروں میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ذخیرہ اندوزوں کی جانب سے مستقل طور پر کی جانے والی کارروائیوں کو دیکھتے ہوئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اعلان کردہ ریلیف پیکیج کے ثمرات غریبوں تک پہنچیں گے؟ یا یہ پیکیج صرف اعلان تک ہی محدود رہے گا؟ ظاہر ہے کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے بچنے کے لیے لاک ڈاؤن کرکے جس طرح عوام کو ذخیرہ اندوزوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، ایسی صورتِ حال میں اس قسم کے سوالات کا جنم لینا فطری امر ہے۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم کے اعلان کردہ پیکیج کو عام آدمی تک پہنچانے کے لیے جس گورننس کی ضرورت ہے کیا وہ وفاق اور صوبوں کے پاس موجود ہے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا حکومت اپوزیشن کو اعتماد میں لیے بغیر اس نازک صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ دیکھنا یہ بھی ہوگا کہ مشاورت کے بغیر یک طرفہ طور پر کیے گئے اعلانات اور اقدامات کس حد تک اطمینان اور استحکام کا باعث بنیں گے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کی جانے والی کمی سے کسی حد تک عوام کو ریلیف ملے گا۔ جہاں تک غریب خاندانوں کو تین ہزار روپے ماہانہ کی مدد کا تعلق ہے تو مہنگائی کے اس دور میں یہ انتہائی ناکافی ہے، اس مسئلے پر نظرثانی کی ضرورت ہے، کیونکہ ایک منتخب حکومت سے مسائل زدہ عوام کو بہت سی توقعات ہوتی ہیں۔ باقی اصل حقیقت تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔‘‘

حصہ