کچھ یادیں۔۔۔ کچھ باتیں

945

مولانا معین الدین خٹک/ مرتب: اعظم طارق کوہستانی
میں مولانا کے ہاں بہت کم جاتا تھا۔ وہ بہت مصروف تھے۔ اُن کا ایک ایک لمحہ بے حد قیمتی تھا۔ اسی لیے میری کوشش ہوتی تھی کہ اُن کے پاس جا کر میں اُن کا حرج نہ کروں … تاہم شوریٰ اور عاملہ کے اجلاسوں میں ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں اور میں یہ دیکھ کر حیران رہ جاتاتھا کہ وہ ارکان کی باتیں نہایت صبر و تحمل سے گھنٹوں بلکہ دنوں تک سنتے تھے ، اور آخر میں اپنی رائے دیتے تھے جو مختصر مگر اتنی جامع ہوتی تھی کہ سارے نکات اس میں سمٹ آتے تھے۔
ان اجلاسوں میں خوب خوب بحثیں چلتی تھیں آخر میں مولانا جو قرار دادیں مرتب کرتے ، ارکان بعض اوقات اُن پر خوب گرفت کرتے اور بعض حضرات تو اپنی ناواقفیت کی وجہ سے الفاظ کے استعمال اور زبان پر بھی اعتراضات وارد کردیتے۔ یہی سبب ہے کہ جو اجلاس مولانا کی صدارت میں ہوتے، وہ خاصی طوالت اختیار کر جاتے ۔ مولانا چاہتے تو ہر فیصلہ ہاتھ اٹھوا کر کیا جاسکتا تھا مگر ایسا کبھی نہ ہوتا۔ وہ ایک ایک رکن کو مطمئن کرتے ، چنانچہ ایک دو مثالوں کے سوا سارے فیصلے متفقہ طور پر منظور ہوئے۔ رائے شماری کی نوبت بہت کم آئی۔
ایک مرتبہ ایک مجلس میں ، میں نے مولانا مرحوم سے دریافت کیا کہ وحدت الوجود جس کے قائل شیخ ابن عربی ہیں اور وحدتِ شہود جس کے قائل حضرت مجدد الف ثانی ہیں ،ان دونوں میں کیا فرق ہے؟
مولانا پہلے تو طرح دے گئے۔ پھرفرمایا شاید آپ کو میری بات پسند نہ آئے اور آپ اسے گستاخی پر محمول کریں لیکن جب میں نے اصرار کیا تو فرمایا، ابن عربی کہتاہے کہ خالق و مخلوق ایک ہی حقیقت کے دورخ ہیں اور مجدد صاحب ؒ فرماتے ہیں کہ خالق و مخلوق کے درمیان اتحاد نظر کا دھوکا ہے یعنی حقیقت میں ان کے درمیان کوئی اتحاد نہیں، میں اس جواب سے مطمئن ہوگیا۔ بلاشبہ اب تک وحدت الوجود اور وحدت المشہود کے بارے میں، میں نے جتنی تفصیلات کا مطالعہ کیا تھا اُن کا خلاصہ مولانا کے جواب میں سمٹ آیاتھا۔
اسی ضمن میں میرا دوسرا سوال تھا ،ابن عربی کی کیا مجبوری تھی جس کی وجہ سے وحدت الوجود کاقائل ہوا۔ مولانا نے جواب دیاکہ یونانی فلسفے کااصول ہے کہ شے واحد ، شے واحد کو پیداکرسکتا ہے ۔ کثرت وحدت سے صادر نہیں ہوسکتی ۔ اس سے ابن عربی کے ذہن میں سوال پیداہواکہ پھر کائنات اپنی کثرت کے باوجود الہ واحد سے کیسے پیدایا سرزد ہوگئی۔ اس کا جواب اس نے یہ دیا کہ کائنات میں فی الحقیقت کثرت نہیں ہے ، بلکہ خودخدا کی وحدت نے کائنات کی شکل میں ظہور کیاہے یعنی کائنات کی کثرت اور خدا کی وحدت میں حقیقی مغائرت نہیں ہے ،بلکہ اعتباری مغائرت ہے۔میں یہ سوال اس سے قبل کئی جید علما سے کرچکاتھا ، لیکن اس کا حقیقی پس منظر پہلی مرتبہ مولانا کی زبان سے معلوم ہوا۔ ہر شعبہ علم میں اُن کی معلومات حیرت افزا تھیں۔
مولاناکی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ بہت جلد سوال کی تہہ تک پہنچ جاتے تھے اور چند لفظوں میں اس کاجامع اور شافی جواب عنایت فرمادیتے تھے ۔ میں نے ایسی ہی ایک مجلس میں کہاکہ بعض مصنفین کہتے ہیںکہ فلسفہ اشتراکیت کی بنیاد یہ ہے کہ انسان پیدائشی مجرم اور گنہگار ہے ۔ اگر وسائل پیداوار کسی انسانی فرد کے حوالے کیے جائیں تو وہ یقینا اپنی فطرت معاشی استیصال اور ظلم و جبر کی راہ اختیار کرے گا۔ گویا اشتراکیت نے انسان کے متعلق یہ تصور مسیحی کلیسا سے چرالیا ہے لیکن میرا خیال ہے اشتراکیت اس کے برعکس ،انسان کے متعلق انتہائی خوش فہم واقع ہوئی ہے ۔ اس لیے کہ پرواتاریہ آمریت کادور اشتراکی فلسفے میں ایک عبوری دور ہے۔ جس کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کے بچے کھچے اثرات کا قلع قمع کیاجائے گا اور بین الاقوامی اشتراکی انقلاب برپا کیاجائے گا۔ اس میں پرواتاریہ آمریت خود بخود مستعفی ہوجائے گی ۔ کوئی حکومت باقی نہیں رہے گی ، آزادی مطلق کا دور دور ہوگا۔ اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ انہیں انسانیت کے متعلق یہ خوش فہمی ہے کہ ایک دور ایسا آسکتا ہے جب اجتماعی نظام اور قانون کی حکمرانی کی کوئی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی …آپ کا اس ضمن میں کیاخیال ہے ؟
مولانا نے میری بات خاموشی سے سنی اور فرمایا دراصل دونوں نقطۂ ہائے نظر غلط ہیں۔ اشتراکیت کے نزدیک انسان میں فطرت نام کی کوئی شے سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔
ایک اور ملاقات میں ، میں نے عربی اور دینی مدرسوں میں انحطاط پذیر معیار تعلیم پر تشویش کااظہار کیا اور کہاکہ مولانا سو میں سے بمشکل ایک یاد دو آدمی ایسے نکل سکتے ہیں جو اُن کتابوں کو پڑھاسکیں جو اُنھوںنے پڑھی ہیں۔ اس سلسلے میں ، میں نے انہیں ایک واقعہ سنایاکہ دورۂ حدیث کے ایک طالب علم نے جب ابو موسیٰ اشعری کا نام سنا تو کہنے لگاکہ حضرت موسیٰ ؑ کے والد کی عمر تو بڑی لمبی تھی ۔ رسول اللہ صلی اللی علیہ وسلم کے زمانے تک زندہ رہے۔
مولانا نے اس کے جواب میں یہ لطیفہ سنایاکہ ایک عالم فاضل صاحب میرے پاس آئے اور پوچھاکہ مولانا ’عیسیٰ ؑ کازمانہ پہلے ہے یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا۔ پھر فرمایاکہ اس تصور کو پیش نظر رکھ کر کام کیجیے کہ سو آدمیوں کو پڑھاتے پڑھاتے ایک کام کاآدمی نکل آئے۔ یہ بھی فرمایاکہ جدید تعلیمی اداروں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں کاحال اس سے بھی خراب ہے یہاں تک کہ خود اہل مغرب پریشان ہیںکہ اُن کے ہاں معیار تعلیم تیزی سے زوال کی نذر ہو رہاہے۔اس پر میں نے پوچھاکہ کہیں اس کا سبب ،تو نہیں کہ پوری دنیامیں مغربی تہذیب کے اثرات فروغ پا رہے ہیں اور چونکہ وہ مادی وحشی تہذیب ہے ، ظاہری شکل و صورت اور فیشن پر زور دیتی ہے ، لیکن حقیقت کے اعتبار سے کھوکھلی ہے ، اس لیے علم کو زوال آرہاہے ، تو میری بات کی تائید فرمائی کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔
۱۹۵۱ء کے کل پاکستان سالانہ اجتماع منعقدہ کراچی کے افتتاحی اجلاس میں مولانا نے ایک تقریر فرمائی تھی جو ’’ہمارے داخلی ، خارجی مسائل ‘‘ کے عنوان سے چھپ گئی تھی مجھے اس کے ایک پہلو سے اختلاف پیداہوا۔ میں نے مولانا کو توجہ دلائی اور مولانا نے میرے موقف کو تسلیم کرلیا۔
پس منظر اس کا یہ ہے کہ مصر اس معاہدے کو منسوخ کرنے کی کوشش کررہاتھا جو ۱۹۳۶ء میں مصر وبرطانیہ کے درمیان طے پایا تھا۔ اسی طرح ایران میں ڈاکٹر مصدق کی حکومت برطانوی آئل کمپنی کے ساتھ ایک پرانے معاہدے کو منسوخ کرکے تیل کو قومیانا چاہتی تھی۔ اس پر اہل مغرب کی طرف سے یہ سوال اٹھا تھاکہ معاہدات کی پابندی ازروئے اسلام مسلمانوں کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ کوئی معاہدہ فریق ثانی کی مرضی کے خلاف نہ یکطرفہ طور پر منسوخ ہوسکتا ہے نہ اس میں ترمیم ہوسکتی ہے۔
اس ضمن میں مولانا محترم نے مصر اور ایران کی حکومتوں کی حمایت کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ معاہدے کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جس میں دونوں فریق مساوی حیثیت رکھتے ہوں۔ اس نوعیت کے معاہدے کو نہ ایک فریق منسوخ کرسکتا ہے نہ ترمیم کرسکتا ہے ، لیکن کسی معاہدے میں اگر ایک فریق نے ظلم اور طاقت سے کام لے کر دوسرے فریق کو معاہدے کی شرائط کاپابند بنایا ہو تو ایسے معاہدے کو موقع ملتے ہی فریق ثانی منسوخ کرسکتا ہے یا اس میں ترمیم کرسکتاہے …مصر و ایران اوربرطانیہ کے درمیان یہ معاہدے اسی قسم کے معاہدے ہیں۔
دلیل کے طورپر مولانا نے صلح حدیبیہ کی مثال دی تھی جس میں طے پایاتھا کہ کوئی شخص اگر مکہ سے مدینہ کی طرف مسلمان ہو کر جائے گا تو مسلمان اسے واپس کرنے کے پابند ہوں گے ، جبکہ اس کے برعکس اگر کوئی مسلمان مرتد ہو کر مدینہ سے مکہ جائے گا تو اسے واپس نہیں کیاجائے گا…لیکن کچھ عرصہ بعد جب چند عورتیں اسلام قبول کرکے مکہ سے مدینہ پہنچیں ، تو خود اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ انہیں واپس نہ کرو۔ مولانا کاموقف یہ تھاکہ چونکہ یہ معاہدہ دوسری قسم کا تھا، اس لیے اللہ کے حکم سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یکطرفہ طور پر منسوخ کردیا۔
میں نے ایک مجلس میں مولانا سے کہاکہ میرے خیال میں بات یوں نہیں ہے ، بلکہ دراصل معاہدہ صرف مردوں کے بارے میں تھا، عورتوں کا وہاں ذکر ہی نہ تھا ، چنانچہ متعلقہ حدیث میں رجل (مرد)کا لفظ ہے عورت (نساء )کانہیں۔
مولانا نے اس کے جواب میں مجھے مشورہ دیاکہ میں علامہ ابن قیم کی کتابوں کو دیکھوں۔ اُن کاخیال تھا اصل لفظ احد ہے جو مردو عورت دونوں کے لیے آتاہے۔ رجل راوی کی اپنی تعبیر ہے ۔ مگر معلوم ہوتاہے کہ غور وتحقیق کے بعد میرے مشورے کو صائب جانا۔ چنانچہ تفہیم القرآن میں سورۃ الممتحنہ کی تفسیر کرتے ہوئے انہوںنے میرے موقف کو اختیار کیا۔
اسی طرح متعہ کے معاملے میں مجھے مولانا کے نقطۂ نظر سے ہلکا سا اختلاف پیداہوا ۔ میں نے توجہ دلائی تو فرمایا میں اسے قطعی حرام سمجھتا ہوں، مگر غلط فہمی انداز بیان سے پیداہوئی ہے اور میں اس اشکال کو رفع کردوں گا ، چنانچہ سورۃالمؤمنون کی تفسیر کرتے ہوئے اُنھوںنے دو ٹوک الفاظ میں اس امر کی وضاحت فرمادی کہ وہ متعہ کو کلیۃ ً حرام سمجھتے ہیں۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ مولانا نے کبھی ضد یا ہٹ دھرمی کاانداز اختیار نہیں کیا اور جس مسئلے پر بھی اہل علم حضرات نے دلائل سے اُنھیں قائل کردیا، اُنھوںنے بلا تامل اپنی رائے سے رجوع فرمالیا،’’ خلافت وملوکیت ‘‘کے آخر میں سوال و جواب پر مشتمل ضمیمے سے انداز ہ ہوتاہے کہ مولانا دلیل کو کتنی زبردست اہمیت دیتے تھے۔
علما کی جانب سے مولانا کی مخالفت کی کئی وجوہ ہیں ،ان میں پہلا سبب یہ ہے کہ عام طور پر تنقید اور احترام کے معاملے میں موجودہ دور کے علما اور مولانا کے نقطۂ نظر میں بہت زیادہ فرق ہے ۔ آج کل کے دور میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ جس شخص کااحترام کیا جائے اس کی ہر بات آنکھیں بند کرکے بے چوں و چرا قبول کی جائے اور کسی معاملے میں اس سے اختلاف نہ کیا جائے یعنی جو حضرت صاحب نے فرمایا وہ پتھر پر لکیر ہے اور اختلاف رائے یا تنقید کو توہین وتذلیل کے مترادف قرار دیاجاتا ہے۔
مولانا مودودیؒ احترام کو ان معنوں میں نہیں لیتے بلکہ احترام کے باوجود اس سے اختلاف رائے اور تنقید کو صحیح سمجھتے ہیں ۔ وہ تنقید کو توہین وتذلیل کا مترادف نہیں سمجھتے۔ مولانا نے بہت سے سیاسی وعلمی مسائل میں بڑی بڑی بزرگ ہستیوں سے علمی اختلاف کیاہے اور دلائل سے ان کی غلطی واضح کی ہے، اسی چیز کو ان علما کے حلقے میں بزرگ علما کی توہین و تذلیل سمجھا گیا اور ردعمل میں مخالفت شروع کردی ۔
مولانا کے خلاف مخالفت کے طوفان کا دوسرا سبب یہ ہے کہ ہندوستان کے بیشتر علما سیاسی اعتبار سے کانگرس کا ساتھ دے رہے تھے ۔ تقسیم کے بعد جب ہندوستان میں آئین بنا اور انتخابات کامرحلہ آیا تو ہندوستان کی جماعت اسلامی نے یہ موقف اختیار کیا کہ مسلمانوں کو عام انتخابات سے الگ رہنا چاہیے اور کسی جماعت کو ووٹ نہیں دینا چاہیے جب کہ صورت حال کے مطابق کسی بھی جماعت کی خصوصاً کانگرس کی ہار جیت کا دار و مدار مسلمانوں کے ووٹوں پر تھا۔ اگر جماعت اسلامی کانقطۂ نظر فروغ پا جاتا تو کانگرس کو شکست کاخطرہ لاحق ہوجاتا۔ یوں بھی دو قومی نظریے کی بحث میں مولانا کانگرس اور کانگرس نواز علما کی خوب خبر لے چکے تھے ، اس لیے کانگرس نے علما سے جماعت کے خلاف فتوے حاصل کیے تاکہ عوام میں یہ تاثر پیداہواکہ جماعت اسلامی کا مسلمانوں سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے بلکہ یہ غیر مسلم جماعت ہے چنانچہ سن پچاس کے عشرے میں علمائے ہند نے مولانا مودودیؒ کے خلاف جو طوفان برپا کیا ، اس کاپس منظر یہی تھا ۔ یہ کانگرس کی ایک سیاسی ضرورت تھی ۔ جسے جمعیت العلمائے ہند نے پورا کیا۔
تیسری وجہ اس مخالفت کی فتنۂ معاصرت ہے مولانا نے اسلام کو بحیثیت نظام زندگی پیش کیا اور ثابت کیا کہ اسلام ہر دور کے مسائل کا حل پیش کرتاہے جبکہ ہمارے دور کے علما کی اس ضمن میں کوئی تیاری نہ تھی ،نہ وہ جانتے تھے کہ عہد حاضر نے سیاسی ، معاشی ، دستوری ، قانونی اور فکری و عملی نوعیت کے جو سوالات اٹھائے ہیں ،ان کا کیا حل ہے ؟ ان کی تیاری محض ان مسائل کے بارے میں تھی جو عرصے سے مابہ التراع چلے آ رہے تھے مثلاً رفع یدین ، آمین بالجہر ،وضو،غسل وغیرہ ،اب جب اُنھوںنے دیکھاکہ مولانامودودیؒ کی تحریروں کے نتیجے میں عام پڑھا لکھا طبقہ ان سوالوں کاجواب مانگتا ہے تو ان کے سامنے دو ہی راستے تھے یا تو صاف صاف کہہ دیتے کہ ہم ان کا جواب دینے سے معذور ہیں یا اخلاقی جرأت سے کام لیتے کہ ان کاجواب ہمارے نہیں بلکہ مولانا مودودی کے پاس ہے۔ اُنھوںنے یہ دونوں راستے اختیارکرنے کے بجائے تیسرا طریقہ اختیار کیا اور سارا غصہ مولانا مودودی کو گالیاں دے کر نکالنے لگے کہ دراصل یہی وہ شخص ہے جس نے ہمیں اس نئی مصیبت میں مبتلا کیاہے۔
اس ضمن میں پورے وثوق سے کہتاہوںکہ اگر مولانامودودی ؒ ایک دن کے لیے بھی دیو بند کے کسی حلقہ درس میں شامل رہے ہوتے ، تو سارے گناہوں سے بری الذمہ قرار دے دیے جاتے ۔ سید سلیمان ندوی اور مولانا عبدالماجد دریا بادی بھی پہلے بعض لوگوں کے نزدیک گردن زدنی تھے ، مگر جب دونوں حضرات نے مولانا تھانوی سے بیعت کرلی ، تو سارے گناہ معاف ہوگئے اور محترم قرار پائے۔دراصل فتنہ معاصرت بہت بڑی لعنت ہے اور پوری اسلامی دنیا اس میں مبتلا نظر آتی ہے۔ بعض علما وافتا طبع سے مجبور ہو کر ایک دوسرے کا احترام نہیںکرتے۔
یوں یہ بات خوشگوار حیرت کا سبب ہے کہ مولانا محترم ایسے کسی منفی احساس میں مبتلا نہیں ہوئے۔ معاندین نے مخالفت کی حد کردی ، ہر طرح کی اوچھی حرکتیں کیں ،مگر ردعمل میں وہ معمولی سے اشتعال کا شکاربھی نہ ہوئے۔ وہ ستائش کی پرواکرتے تھے نہ دشنام کو اہمیت دیتے تھے یہاں تک کہ جن معاملات میں انتہائی متانت کے ساتھ جواب دے سکتے تھے ، انہیں بھی نظر انداز کردیا، چنانچہ مجھے خوب یاد ہے ۱۹۵۱ء میں ہندوستان کے دوبڑے علما سے جب سوال کیاگیا کہ مسلمانوں کے ووٹوں کی حقدار کون سی جماعت ہے تو انہوںنے برملا جواب دیاکہ کانگرس۔ وجہ یہ بیان کی کہ یہی وہ قومی جماعت ہے جس نے ہندوستان کو آزادی دلائی اور اس میں ابوالکلام آزاد اور پنڈت جواہر لال نہرو جیسی بلند پایہ شخصیتیں موجود ہیں …یہ فتویٰ یکم دسمبر ۱۹۵۱ء کے الجمعیت میں شائع ہوا تھا۔
مولانا اس پر بڑی آسانی سے گرفت فرما سکتے تھے کہ یا تو رواداری کا یہ عالم ہے کہ نہرو کو بھی مسلمانوں کے لیے محترم گردانتے ہو ، یا تنگ نظری کی یہ انتہا ہے کہ مولانامودودیؒ کو کافر قرار دیتے ہو۔ یعنی بقول شاعر ؎۔

اغیار کی محفل میں تو ہوجاتا ہے بے باک
اسی شوخ کی سب شرم و حیا میرے لیے ہے

حصہ