میری وال سے

309

افشاں نوید
اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ اپنی عافیتوں کے سائے میں رکھے آمین۔
کبھی آپ کے گھر کوئی ناگہانی آفت آئی ہوگی تو آپ کو کئی طرح کا ریسپانس ملا ہوگا۔
کچھ لوگ فون کرکے اظہار ہمدردی کرتے ہیں۔کچھ چل کر آپکے گھر آتے ہیں خیر سگالی کے لیے،درود وظائف بتاتے ہیں غم ھلکا کرتے ہیں۔
کوئی خاتون ڈش ساتھ لے آتی ہیں کہ یہ پکایا تھا سوچا آپ کے لیے بھی لیتی جاؤں۔۔جاتے ہوئے آپ کے قریب آکر کہتی ہیں۔۔۔آپ کے بھائی نے کہا تھا معلوم کر لینا کوئی ضرورت تو نہیں ہے۔ہم حاضر ہیں۔مشکل وقت تو مل بانٹ کر ہی گزرتا ہے۔
آپ کو نہیں بھی ضرورت مگر لگتا ہے آپ ٹھنڈی چھاؤں میں آگئے۔آپ تنہا نہیں ہیں۔آپ کے بہی خواہ آپ کو “محسوس” کر رہے ہیں۔
آپ کسی غریب کے ہاں دلاسے کو جائیں بچے کے ہاتھ میں لفافہ تھمادیں گھر والوں کے دل میں تا زندگی آپ محسن کا درجہ پالیں گے۔
یہ ناگہانی آفت ہے۔یہ محسنین کو ڈھونڈ رہی ہے!
دیہاڑی کا مزدور کرونا سے نہیں تو موت سے مرجائے گا۔اس آفت کا دورانیہ کہیں طے شدہ نہیں ہے۔
آپ کو پتہ ہے ہر ایک ہاتھ نہیں پھیلائے گا۔قرآن بھی حکم دیتا ہے سفید پوش ضرورت مندوں کو تلاش کرنے کا۔
یہ انسانی سماج صرف محبت کے رشتوں سے جڑے ہیں۔یہاں ایک گرتا ہے تو دس سنبھالنے والے ہوتے ہیں۔کرونا نے انسانیت کو ایک نئے جذبے سے روشناس کرایا ہے۔
باپ کے مرنے سے اکثر خاندان پہلے سے زیادہ جڑ جاتے ہیں۔آفتیں ہمیں قریب کرتی ہیں۔
پاکستان کی تاریخ زندہ سماج کی تاریخ ہے۔ ہر مشکل سے سرخرو نکلتے ہیں ہم بحیثیت قوم۔الحمدللہ
اس وقت کے ریسپانس میں۔۔۔
ہم میں سے کچھ بے نیاز ہیں کہ ساری دنیا غمگین ہے ایک ہمارے غم نہ کرنے سے کیا ہوگا؟ہم “ایک” دنیا سے کم بھی ہوگئے تو انسانوں کی بھیڑ پر کیا فرق پڑے گا۔لم یکن شیأ مذکورا۔ایسی چیز بھی نہ تھے کہ ذکر کیے جاتے۔
ہلکے پھلکے من موجی گروہ کے یہ لوگ ہر حال میں مست رہتے ہیں۔
ایک قسم ان کی ہے جو دردووظائف میں لگے ہوئے ہیں۔بلا کے ٹلنے کے منتظر، مصلے کے ہوگئے۔
انہی بستیوں میں کچھ اس فکر میں گھل رہے ہیں کہ دیہاڑی کے مزدور کے گھر بچے بھوکے نہ سو جائیں۔ہم مصلے پر بیٹھے رہے گھروں میں بچے بھوکے سو گئے تو نمازوں پر سوالیہ نشان آسکتا ہے۔
یہ تن من دھن سے لگے پڑے ہیں کہ اس آفت میں سماج کی کیا خدمت کریں۔۔یہ “الخدمت”ہیں۔یہ عورتیں بھی ہیں اور مرد بھی ہیں۔جذبے ایک سے ہیں۔وہ سودا سر میں سمایا ہے کہ جب ان سے ملیں اپنا آپ ایک سوال بن جاتا ہے کہ۔۔یہ انسانوں کی کون سی قسم ہیں۔نہ یہاں ان کے بزنس ہیں نہ اس کام کی تنخواہیں ملتی ہیں۔یہ تو اپنی ذاتی معاش بھی اس مشن میں لگادیتے ہیں۔
اقبال شاید ان ہی کو بندگی کے لیے ڈھونڈ رہے تھے۔
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا۔۔
اس وقت خدا کی عاشقوں کو دیکھنا ہو تو ان سے ملیے جو کہیں سے مانگ رہے ہیں اور کسی کو دے رہے ہیں۔شب وروز مستحقین کی فہرست بنا رہے ہیں۔کوئی دروازہ لینے کے لیے کھٹکھٹا رہے ہیں تو کوئی دینے کے لیے۔یہ اس کو عبادت سمجھتے ہیں تھکتے نہیں،پیروں کے ورم کے باوجود چلتے رہتے ہیں۔چلے جارہے ہیں کہ ان کو جنت کی خوشبو( اپنے کچن سے نہیں)احد کے پہاڑ کے اس پار سے آتی ہے۔
یہ پھیلے ہاتھوں کی تلاش میں نہیں ہیں بلکہ ڈھونڈ رہے ہیں ان خود داروں کو جو ہاتھ نہیں پھیلاتے۔یہ دیتے رہتے ہیں اور رب ان کی جھولیاں خالی نہیں ہو دیتا۔یہ زمین کا نمک ہیں۔ایسے سب لوگ جہاں بھی ہیں اس دھرتی کا مان ہیں۔
ان کی مدد کیجیے تاکہ یہ مدد کے عمل کو جاری رکھیں۔جہاں آپ نہیں جاسکتے یہ قریہ قریہ پہنچ رہے ہیں آپ کے مال کو پاک کرکے آپ کے اکاؤنٹ میں اضافہ کر رہے ہیں۔
مگر آپ خود بھی اپنے آس پاس پر نظر رکھیں۔دو تین مستحق لوگوں کو اپنے گھر سے کھانا بنا کر بھیج دیں جو آپ کی ماسی کے پڑوسی بھی ہوسکتے ہیں۔کسی کے گھر راشن ڈلوانا اسوقت۔۔۔۔
فتح سے پہلے اور بعد میں خرچ کرنے والوں کے درجے برابر نہیں رکھے گئے۔
یہ وقت جہاد ہے۔کرونا تو گزر ہی جائے گا ان شاءاللہ
ہاں!ہمارے نامۂ اعمال میں درج ہورہا ہے کہ اس آسمانی آفت کے موقع پر ہمارے پاس کیا تھا اپنے ایمان کی گواہی میں پیش کرنے کے لیے؟؟؟
………
بیٹا دوستوں کے ہمراہ راشن تقسیم کر رہا تھا سہ پہر سے۔نوجوان اپنے طور پر بھی فنڈنگ کررہے ہیں۔قومی جذبہ یہ ہے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں۔
ابھی واپس آیا بولا۔ہمارے پاس لسٹ بنی ہوئی تھی۔ایک آنٹی کا فون آیا جو بیوہ ہیں بولیں۔بیٹا میرے گھر کوئی راشن دے گیا ہے اب تم مت لانا مجھ جیسے اور بھی کئی ضرورت مند ہونگے۔بیٹا بولا آتی ہوئی چیز کس کو بری لگتی ہے۔امی میں بہت متاثر ہوا کہ کتنے دیانتدار لوگ ہیں پاکستانی جن کی شہرت کرپشن بنا دی گئی دنیا میں۔۔۔
کل رات ایک ساتھی کا میسج آیا کہ۔۔کچھ لوگوں کو میں نے بتایا کہ میں راشن تقسیم کررہی ہوں آپ بھی اس کارخیر میں مدد کردیں۔بولی اتنے راشن اکھٹے ہوگئے ہیں میرے گھر میں بن نام بتائے لوگ رکھ کر جارہے ہیں۔جتنے تقسیم کررہے ہیں اتنے ہی آرہے ہیں۔
ماسی سے میں نے پوچھا کہ تمہاری بیٹی کچی بستی میں رہتی ہے وہاں کیا حال ہے،بولی کہ رہی تھی یہاں ویسے تو لوگ بھوکے بھی سوتے ہیں مگر آج کل ہر گھر پر اللہ کا کرم ہے۔دروازہ بجتا ہے کبھی بریانی کا پیکٹ >”کبھی دودھ کے ڈبے”لوگ پوچھ پوچھ کر جارہے ہیں راشن تو نہیں چاھئے ہم منع کردیتے ہیں سب کے گھروں میں مہینہ بھر کا راشن آ چکا ہے۔
یہ بہت پیاری قوم ہے آزمائش میں اس کا اصل روپ جوبن پر ہوتا ہے۔
مولا برے “بھلے”کھوٹے سکے جیسے ہیں آپ کے ہیں۔۔بس اپنے عذاب سے ہلاک نہ کیجئے گا۔
………
ہر چینل پر اسوقت علماء دین آپ کو نظر آ رہے ہیں۔یہ علماء جو اللہ کی رحمت ہیں۔ہمارے سماج کے معاشرے کا جھومر ہیں۔زندگیاں دینی علم کے حصول میں لگاچکے اب چراغ لے کر ہم بھٹکے ہوؤں کے راستے میں اجالا کرتے ہیں۔
مجھے رات عالم دین کی باتیں سن کر ددیہالی رشتہ دار یاد آگئیں۔میاں کا حال ہی میں انتقال ہوا ۔ہم نے تعزیت کی۔اگلے دن فون آیا کہ میرے میکے والے جمعراتوں کا کہ رہے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔آپ کیا کہتی ہیں۔ ?
ہم نے سمجھ بھر جواب دیا اور کہا کہ مزید معلوم کرکے بتاتے ہیں کسی عالم دین سے۔وہ گاھے گاھے فون کرتیں کہ اور کیا پڑھوں”کیا بخشوں”خیرات میں کیا زیادہ پسندیدہ ہے <،عدت کے احکامات وغیرہ۔کہتی تھیں ڈرتی ہوں اللہ کی کوئی حد نہ ٹوٹ جائے۔عدت کے بعد بیٹی کی شادی تھی۔ہم منتظر کہ ضرور فون کریں گی کیونکہ حدود تو یہاں پر بھی ہیں شائد جاننا چاہیں گی لیکن ایک فون نہ آیا۔مروجہ رسوم کے مطابق رقص و موسیقی کے ساتھ مخلوط تقریبات میں بیٹی “قرآن کے سائے” میں رخصت کردی۔یہ ہمارا سماجی ذہن ہے کہ “دین” موت اور خوف میں رجوع کانام ہے۔وظائف آفات و بلیات کو بھگانے کے لیے ہیں۔زندگی اپنی مرضی سے جینے کے لیے۔
مقصد دکھ کی گھڑی میں کسی بحث کو چھیڑنا نہیں ہے۔قرآن کے اس حکم کی یاد دہانی ہے کہ ہم جب کشتی پار لگادیتے ہیں تو تم نافرمانیاں کرنے لگتے ہو۔
اسلامی شریعت وفقہ صرف رنج وغم کے لیے ہدایات نہیں رکھتا۔یہی علماء ان چینلز کو بتا سکتے ہیں کہ ڈراموں کے موضوعات کیا ہوں۔ٹی وی چینلز جب اپنی پالیسی بنائیں تو علماء کے نمائندے کو بھی بورڈ میں رکھیں-ان سے پوچھیں کہ ایک اسلامی ملک کے میڈیا کی نشریات کو کن حدود کا پابند ہونا چاہیے۔ اشتہار میں عورت کا استعمال کس حد تک ہو۔اشتہاری کمپنیاں”ایوارڈز “کی تقریبات میں کن کم سے کم حدود کی پابندی کریں۔ٹاک شوز کے عنوانات سیاست کے علاوہ بھی بے شمار ہیں جو یہ علماء دین بہت حسن وخوبی سے بتا سکتے ہیں۔قوم کو جس اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے وہ ان علماء دین کے حوالے کردیں چند گھنٹے روز کی نشریات کے۔صرف طلاق،خلع،عدت،رضاعت اور طہارت کے علاوہ بھی ان علماء دین کے پاس شریعت کا دیا ہوا پورا نصاب موجود ہے۔ریٹنگ اور مالی مفاد کے لیےمیڈیا جو کچھ کرگزرتا ہے علماء سے پوچھا جائے اسلامی اصول تجارت میں اس کے لیے کیا اصطلاح اور کتنے واضح قوانین موجود ہیں۔ ہمارا معاشری رویہ یہ ہے کہ تدفین اسلامی آداب کے مطابق ہوگی کہ میت کارخ قبلہ سے ادھر ادھر ھو تو شرکاء شور مچا دیتے ہیں کہ قبلہ کا خیال کیوں نہیں رکھاگیا،حالانکہ قبلہ زندگی میں درست ہونا ضروری تھا۔قبلہ درست نہ ہو تو نماز نہیں ہوتی ہم زندگی بے قبلہ گزار کر میت کے قبلہ رخ ہونے کے لیے حساس ہوتےہیں۔یہ اسلامی آداب میں سے ایک ادب ہے اور ہمیں یہ سکھانے کے لیے ہے کہ رب موت کے بعد بھی قبلہ رخ ہونے کو پسند کرتا ہے تو زندگی میں بدرجہ اتم اس کا خیال رکھا جائے۔صرف نمازوں ہی میں نہیں پوری زندگی فوکس ہو۔اس فوکسڈ زندگی والے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو قرآن”مسلم حنیف”کہتا ہے۔
پھر یہ کہ عورت کی میت کوئی نامحرم نہ دیکھ لے۔چاہے اس عورت کی دلہن بنی تصویر خود گھر والے ڈی پی پر لگا چکے ہوں اور ہر انت سے فیس بک کی زینت بنا چکے ہوں۔۔۔۔
آج جب موت کی آہٹ ہم بہت قریب سے سن رہے ہیں،”خوف” امر بیل کی طرح ہم سے چمٹا ہوا ہےتو اپنے انفرادی اوراجتماعی رویوں پر سوچیں کہ ہم کیوں اس حال کو پہنچے کہ تڑپ رہے ہیں اور سر چھپانے کو ماں کی گود میسر نہیں۔خانۂ کعبہ ومسجد نبوی کے در ہم پر بند ہوچکے۔
ہماری شقاوت کا یہ عالم ہے کہ ادھر علماء دین تذکیر کرکے رخصت ہوئے ادھر لکس کا اشتہار ۔ادھر جلوے بکھیرتی حسینہ۔۔آفریں،آفریں کی تھاپ کے ساتھ جلوه افروز۔
اصل چیز نیکی سے زیادہ گناہ سے بچنا ہے۔اصل نیکی ہی گناہ سے بچنا ہے۔ایک شخص کے پاس بہت ساری نیکی اور بہت سارے گناہ ہوں تو شریعت کہتی ہے نیکیوں کو گناہ برباد کردیتے ہیں۔اسی لیے امر بالمعروف کے ساتھ نہی عن المنکر جوڑ دیا گیا۔
گھنٹہ بھر مذھبی پروگرام کرکے چینل کو پاک کرلیا پھر تئیس گھنٹے مرضی جو طاؤس و رباب چلے۔
شب بیداری اگر زندگی کو بیدار نہیں کرتی۔گناہ سے کراہت پیدا نہیں کرتی۔ہماری نماز ہمیں فحش سے نہیں روکتی،روزہ جھوٹ کی عملی زندگی سے نہیں روکتا تو دین دنیا سے الگ کوئی چیز نہیں ہے۔دین آخرت کے بعد کی زندگی کے لیے نہیں ہے دین تو ہے ہی دارالعمل کے لیے۔یہاں مرضی ہماری ہے کہ جیسے چاہیں جئیں۔جو چاھیں راستہ اختیار کریں فرمانبردای کا یا نافرمانی کا۔وہاں مرضی ہماری نہیں چلے گی۔
“استغفار” تسبیح پر پڑھا جانے والا وظیفہ نہیں ہے۔استغفار زندگی کی پاکی کا نام ہے۔
ہم انفرادی زندگی میں بھی رجوع کے مقام پر کھڑے ہیں بحیثیت امہ بھی۔انڈونیشا کے لوگ چھتوں سے کبریائی بیان کررہے ہیں،غزہ میں نمازی سجدوں میں پڑے ہیں۔ایمان ویقین ہے کہ رب ضرور سنے گا۔۔کرونا ہماری انفرادی اصلاح کا بھی سبب بنے گا ان شا ءاللہ
(جاری ہے)

حصہ