موت کا خوف

1820

بلال شیخ
شام بہت اْداس تھی۔میں نے کچھ دن پہلے اپنے ایک عزیز کو قبر میں اْتارا تھا اور ابھی تک میں اس وقت سے باہر نہیں آیا تھا۔میں اپنے محسن کے کمرے میں تھا۔میرے ذہن میں بھی وہی سوال تھا جو سب کے ذہنوں میں ہوتا ہے موت کے بعد کیا ہوگا میرے عزیز پر کیا گزری ہوگی جب اس نے اپنی زندگی کو خیر باد کہہ کر موت کو گلے لگایا ہوگا اور ایک نئی دنیا میں جا کر اس پر کیا گزری ہو گی۔انسان جب تک زندہ ہوتا ہے وہ موت کا تجربہ نہیں کر سکتا مگر جب تک وہ زندہ ہوتا اس پر غور ضرور کرتا ہے کیونکہ یہ ایک ایسا لفظ ہے جس کو سن کر انسان ڈر جاتا ہے کسی کو کہہ دیا جائے تمہاری اگلے منٹ موت واقع ہو جائے گی تو یقین مانئے وہ اگلے منٹ کا انتظار نہیں کرے گا وہ اْسی لمحے مر جائے گا کیونکہ موت کا خوف موت سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔
کمرے میں ایک سکون تھا۔شام ہو چکی تھی۔میں نے اپنا سوال محسن کے سامنے رکھ دیا۔میرا سوال اتنا دلچسپ شائد نہ بن سکا جتنا محسن کا جواب۔محسن کا کہنا تھا”دیکھو بیٹا موت ایک لمحے کا نام ہے قران پاک میں لکھا ہے ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔اب کسی چیز کا ذائقہ کتنی دیر کے لئے ہوتا ہے کچھ وقت کا ہوتا ہے کچھ دیر کے لئے وہ ذائقہ آپ کے منہ میں رہتا ہے اور کچھ دیر بعد وہ ختم ہو جاتا ہے اسی طرح موت بھی ایک لمحے کا نام ہے اور ہمارا رب اتنا رحیم ہے جو تکلیف انسان اس لمحے گزارتا ہے اس کے بدلے اس شخص کے گناہ جھاڑ دیے جاتے ہیں۔اْس کچھ دیر کے وقت کو موت کا نام دیا گیا۔اب جب اس کی روح نکال دی جاتی ہے اور اس کو غسل دینے کے بعد نماز جنازہ کے بعد اس کو قبر میں اْتارا جاتا ہے۔اس کے سب چاہنے والے اس کو قبر میں چھوڑ کر واپس چلے جاتے ہیں۔اب فرشتے اس سے آ کر تین سوال کرتے ہیں”۔وہ رکے پھر مسکرائے اور بولے”اب یہاں ایک سوال اْٹھتا ہے اگر انسان مر چکا ہوتا ہے تو وہ فرشتے سوال کس سے کرنے آتے ہیں”یہاں میں خاموش ہو گیا اور میرے چھوٹے سے ذہن میں کسی نے زور سے دھکا مار کر کسی دروازے کو کھول دیا۔”وہ فرشتے اس شخص سے تین سوال کرتے ہیں تمہارا رب کون ہے، تمہارا دین کون سا ہے اور پھر آپؐ کی پہچان کروائی جاتی اور جب وہ شخص ان تینوں سوالوں میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کے سامنے جہنم کی کھڑکی کھولی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے تم اس جگہ سے بچ گے ہو اور پھر اس کے لئے جنت کی کھڑکی کھول دی جاتی جس سے وہ قیامت تک ٹھنڈی ہوائیں اس کو تسکین پہنچاتی رہے گیں”وہ رکے اور بولے۔
“جب جنت کی کھڑکی کھل جاتی تو نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے اور وہ قیامت تک اپنی قبر میں آرام کرتا ہے۔دیکھو بیٹا جتنا بڑا کافر ہوگا اتنا زمین کی تہ میں ہوگا اور جتنا بڑا مسلمان ہو گا اتنا آسمانوں کی بلندی پر ہوگا۔اب یہاں مرا کون”اْنہوں نے میری طرف دیکھا مگر میں خاموش رہا”یہاں نفس مرا روح تو نہیں مری یہ ایک نئی زندگی جس سے ہم خوف کھاتے ہیں۔ اکثر لوگ بحث کرتے ہیں اگر انسان قبر میں زندہ ہے تو ہمیں نظر کیوں نہیں آتے اور میں کہتا ہوں اگر اْن کو دیکھنا ہے تو تمہیں زندہ ہونا پڑے گا کیونکہ وہ زندہ ہے وہ ہمیں دیکھ سکتے ہیں مگر ہم ان کو نہیں دیکھ سکتے۔جسم ختم ہو جاتا ہے زندگی ختم نہیں ہوتی موت جسم کی ہے انسان کی نہیں جس پر بلھے شاہ فرماتے ہیں بلھے شاہ اسیں مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور قبر میں کوئی اور پڑا ہے ہم نے نہیں مرنا موت ایک دروازہ ہے جو ہمیں ایک دنیا سے دوسری دنیا میں لے جاتا اور اللہ والوں کو موت کا کوئی خوف نہیں ہوتا جس پر علامہ اقبالؒ نے کیا خوب شعر کہا ہے۔‘‘

موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شام زندگی، صبح دوامِ زندگی

شام رات میں تبدیل ہو چکی تھی اور ٹھنڈ بھی بڑھ رہی تھی میں ان کی باتوں کو سمیٹ کر اجازت لے کر وہاں سے چلا آیا۔ کئی دن رات اپنے محسن کی باتوں پر غور اور مختلف جگہوں سے ریسیرچ کرتا رہا۔جیسے شہید کا معاملہ ہے جس پر سختی سے منع کیا گیا ہے کہ ان کو مرا ہوا نہ کہوں۔خیر قصہ مختصر میرا ان باتوں کو آپ کے ساتھ کرنے کا مطلب صرف اتنا تھا کہ آج کل کے مسلمانوں اور پہلے کے مسلمانوں میں یہ فرق ہے کہ پہلے کے مسلمانوں میں موت کا تصور واضح تھا کیونکہ ان کا ایمان مظبوط تھا مگر آج کے مسلمان میں فرق ہے وہ سوشل میڈیا پر پوسٹیں شیئر کر کے اپنے آپ کو بہت بڑا جہادی تصور کرتے ہیں مگر آج کرونا جیسی وبا سے وہ کمرے کے اندر خوف زدہ پڑے ہیں اگر ہم لوگ صرف موت کو سمجھ لیں تو یقین جانیے پوری دنیا میں وہی مسلمان نظر آئے گے جو محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی کی فوج میں پائے جاتے تھے۔جو صبح کسی علاقے کو فتح کرنے کا سوچتے تھے اور شام کو فتح کر لیتے تھے۔بس ہمیں اپنا ایمان مظبوط کرنا ہے۔

حصہ