دی واؤ ومن کانفرنس

262

یسریٰ اصمعی
بڑے شہروں میں محفلوں کا سجنا، کانفرنسوں اور اجتماعات کا انعقاد معمول کی بات ہے۔ یہاں کے باسی اور یہاں کی فضائیں اس سب گہماگہمی کی عادی ہوتی ہیں۔ تاہم بعض محفلیں اپنی مقصدیت کی خوشبو سے شامیں مہکا دیتی ہیں، ان میں شامل افراد اپنے ہمراہ اس خوشبو کو اپنے وجود میں بسائے اٹھتے ہیں۔
آج ذکر ہوگا 14 مارچ کو سجی ایک ایسی ہی بزم کا، جو اپنے نام کی طرح منفرد رہی۔ دی ٹرسٹ آفس گلشن اقبال کے خوبصورت اور پُرسکون کانفرنس روم میں ’’دی وائو ومن کانفرنس‘‘ کے عنوان سے جے آئی یوتھ وومن کراچی کے تحت شہر کی باصلاحیت، باہمت اور نمایاں نوجوان خواتین کو ایک چھت تلے جمع کرنے کی سعی کی گئی۔ اس کانفرنس کی انفرادیت سے جہاں شرکا محظوظ ہوئے وہیں اس کے پیغام نے معاشرے میں خواتین کے مثبت کردار کے فروغ کے لیے فکر کی نئی راہیں اور در بھی وا کیے۔
کانفرنس کے انعقاد کا بنیادی مقصد اس کے نام سے ہی عیاں تھا کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی ایسی ممتاز، خودمختار اور معاشرے کی تعمیر وترقی میں اپنا مؤثر کردار ادا کرنے والی خواتین سے ان کی کامیابی کی داستان سنی جائے، تاکہ ان کے تجربات دیگر باصلاحیت خواتین کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوں۔
ساتھ ہی اس کانفرنس میں بڑی خوب صورتی سے ان مشکلات، رکاوٹوں اور حوصلہ شکن رویوں پر بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی جن کا سامنا ہماری خواتین کو قدم قدم پر رہتا ہے۔ مذکورہ کانفرنس میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی تقریباً پچاس خواتین کو مدعو کیا گیا تھا، جن میں سینئر پروفیسر و معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر جہاں آرا لطفی، معروف اینکر اور کالمسٹ ثنا غوری، سینئر جرنلسٹ شہربانو، عباسی شہید اسپتال میں بحیثیت سرجن اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے والی ڈاکٹر ثوبیہ، منزل اسکولنگ سسٹم کی روحِ رواں محترمہ شازیہ، کراچی کی آن لائن بیکری کی مالک وردہ زاہد، معروف کیلی گرافر مریم خان، کے الیکٹرک کی صالحہ راشد، بچوں کی معروف ادیبہ اور صدارتی ایوارڈ یافتہ راحت عائشہ، اور جیلوں میں قید خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے خدمات انجام دینے والی محترمہ افشاں صاحبہ شامل تھیں۔
کانفرنس کا آغاز سورۃ النساء کی آیات کی خوب صورت تلاوت سے کیا گیا، جس کے بعد باری باری مہمان خواتین سے اُن کے کامیاب پیشہ ورانہ سفر، اور اس میں درپیش مشکلات اور ان کے حل کے حوالے سے گفتگو کی گئی۔ تمام معزز مہمان خواتین نے اس امر سے اتفاق کیا کہ حالات کسی دور اور کسی زمانے میں بھی خواتین کی ترقی کے لیے سازگار نہیں رہے، عورت اگر معاشرے میں کچھ کرنا چاہتی ہے تو اسے مردوں کی بہ نسبت زیادہ دشواریوں اور حوصلہ شکن رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تاہم اگر اللہ پر کامل بھروسے اور اپنی ذات پر مکمل اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنے کے اس سفر کو جاری رکھا جائے تو منزل ضرور ملتی ہے، لیکن ساتھ ہی اس ضمن میں گھر والوں کا کردار اور ان کی معاونت بہت اہم ہوتی ہے۔
اینکر ثنا غوری نے اپنی گفتگو کے دوران کہا کہ عورتوں کے مسائل حل ہونے کی اصل صورت صرف یہ ہے کہ ہم مائیں اپنے بیٹوں کی تربیت کرتے ہوئے بچپن سے ہی خواتین کی عزت اور قدرکا سبق پڑھائیں۔
دورانِ کانفرنس پاکستان میں خواتین کو درپیش حقیقی معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک ڈاکومینٹری دکھانے کا بھی اہتمام کیا گیا، جس میں اعداد و شمار کی مدد سے صحت، تعلیم، روزگار، گھریلو تشدد، جنسی ہراسگی، غیرت کے نام پر قتل، زیادتی، حقِ وراثت سے محرومی اور جبری نکاح جیسے ایشوز کو بخوبی اجاگر کیا گیا اور ان کے حل کے لیے راہیں تلاش کرنے پر زور دیا گیا۔
شرکائے کانفرنس کی دل چسپی اُس وقت اپنے عروج پر پہنچی جب موٹیویشنل اسپیکر ماریہ خالد نے مائیک تھاما اور شرکا کو تین مختلف گروپس میں تقسیم کرکے خواتین کی معاشی، معاشرتی، نفسیاتی اور پیشہ ورانہ فلاح و بہبود کے حوالے سے ایک منفرد سیشن کا آغاز کیا۔ سیشن کے دوران تینوں گروپس کی جانب سے خواتین کی بہتری اور ان کے مسائل کے حقیقی حل کے حوالے سے ٹھوس نکات سامنے آئے۔ شرکا نے اس نکتے پر اتفاق کیا کہ درحقیقت خواتین کی حقیقی فلاح و بہبود ایک مکمل اسلامی معاشرے کی تعمیر میں پنہاں ہے۔ ہمیں ایک ایسا ویٹرنری تعلیمی نظام تخلیق کرنے کی اشد ضرورت ہے جو مرد و زن کو دین و دنیا دونوں کی یکساں تعلیم دے کر ان کو زندگی کا اصل مقصد سمجھانے میں مددگار ہو۔ ساتھ ہی معاشرے میں موجود ایسی رول ماڈل خواتین جو اپنی پیشہ ورانہ اور خانگی ذمے داریوں کو احسن طریقے سے نبھاتے ہوئے معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کررہی ہیں، کو منظرعام پر لاکر دیگر نوجوان خواتین کے لیے مثال پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آج کی عورت اس احساسِ کمتری کے خول سے نکل سکے جس میں مبتلا کرکے چند مخصوص طبقے اسے چادر اور چار دیواری کے مقدس تحفظ سے متنفر کرنے کے طاغوتی مشن پر ہیں۔
شرکا نے گھریلو سطح پر اس ذہنیت کی تبدیلی کی ضرورت پر بھی بات کی جس کے تحت لڑکی کی ظاہری شکل صورت و خدوخال ہی اس کا کُل اثاثہ سمجھے جاتے ہیں، اور صرف شادی کو لڑکیوں کا مقصدِ زندگی بنادیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی شرکا اس نتیجے پر بھی پہنچے کہ مائوں اور اساتذہ کے لیے ایسے تربیتی پروگراموں کی ضرورت ہے جن میں ان کو بچوں کی ذہنی و تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے کے بارے میں مشورے دیے جائیں۔
سیشن کے اختتام پر جے آئی یوتھ وومن کراچی کے تحت ہونے والے مقابلہ بلاگ رائٹنگ میں پوزیشن لینے والی خواتین میں سینئر جرنلسٹ شہر بانو نے انعامات تقسیم کیے۔ کانفرنس کے اختتام پر جے آئی یوتھ وومن کراچی کی صدر محترمہ عذرا سلیم نے مہمانوں کی آمد پر ان کا شکریہ ادا کیا اور خواتین کے مسائل کے سنجیدہ حل کے لیے اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔ یوں یہ بامقصد محفل اپنے اختتام کو پہنچی۔

حصہ