حقیقت

349

حریم شفیق
۔’’سائرہ …میری پیاری بہن نہیں ہو… پلیز…‘‘ نمرہ نے منت بھرے لہجے میں کہا اور جلدی جلدی لپ اسٹک لگانے لگی۔
سائرہ نے ایک ناقدانہ نظر اپنے سے ایک سال بڑی بہن پر ڈالی جو اب عبایا اوڑھنے میں مصروف تھی۔
’’نمرہ تمہاری سمجھ میں کیوں نہیں آرہا کہ جن راہوں پر تم چل نکلی ہو وہ رسوائی کے سوا کچھ نہیں دیں گی تمہیں۔‘‘ سائرہ نے بے بسی سے سمجھایا۔ مگر نمرہ کچھ سننے کے موڈ میں تھی ہی نہیں۔
’’اچھا آج جانے دو، واپس آکر تمہاری ہر بات سنوں گی اور اس پر غور بھی کرلوں گی، بس امی کو پتا نہیں چلنا چاہیے کہ میں کالج میں نہیں تھی‘‘۔ اس نے جیسے سائرہ کو بہلایا اور دونوں بہنیں کالج کے لیے روانہ ہوگئیں۔
ساجدہ بیگم کی دو بیٹیاں تھیں، بڑی نمرہ اور اُس سے صرف ایک برس چھوٹی سائرہ۔ دونوں ایک ہی کالج کی اسٹوڈنٹ تھیں۔ صبح سویرے ساجدہ بیگم اللہ تعالیٰ کے حضور نوافل کی ادائیگی کے ساتھ حفاظت کی تمام دعائیں پڑھ کر دونوں بچیوں کو اللہ کی امان میں دے دیتیں۔ انہیں اپنی تربیت پر بھروسا تو تھا مگر بگڑے معاشرے کے چلن نے انہیں اندر سے پریشان کررکھا تھا کہ کہیں ان کی اولاد دنیا کی رنگینیوں کے اس جال میں، جو دراصل شیطان کی طرف سے بچھائے گئے تھے، پھنس نہ جائیں۔ وہ ہمیشہ اللہ سے مدد کی درخواست کرتیں۔
’’پتا ہے سائرہ! محبت میں بڑا سرور ہوتا ہے، ایک نشہ ہوتا ہی، چاہے جانے کا غرور ہوتا ہے‘‘۔ نمرہ کے چہرے پر بکھرے خوب صورت رنگ دیکھ کر سائرہ کو انجانا سا خوف محسوس ہوا۔ وہ مسلسل گنگنا رہی تھی، خوشی اس کے اَنگ اَنگ سے پھوٹ رہی تھی۔
مگر سائرہ انجانے خدشوں میں گھری سوچ رہی تھی کہ اپنی بہن کو اس کھائی میں گرنے سے کیسے بچائے؟ اسے نیند نہیں آرہی تھی، امی کو بتاتے ہوئے ڈر لگ رہا تھا کہ نجانے ان کا ردعمل کیسا ہو؟ وہ اٹھی اور تہجد کی تیاری کرکے جائے نماز بچھائی اور اپنے رب کے آگے سربسجود ہوگئی۔ رو رو کر اللہ پاک کے آگے اپنی بہن کے لیے دعائیں مانگیں، اس کے لیے صراط مستقیم مانگی اور پُرسکون ہوکر سو گئی۔
سچ ہی کہا ہے کسی نے کہ اپنی تمام پریشانیوں اور مسائل کی پوٹلی بناکر اُس رب کے سامنے رکھ دو جو قادر مطلق ہے، اور پُرسکون ہوجائو کہ اس کے دَر کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں۔
’’اُٹھ جائو نمرہ دیر ہورہی ہے‘‘۔ سائرہ نے جلدی جلدی بال پونی میں سمیٹے اور عبایا اوڑھ لیا۔
’’اوہو! اتنی دیر ہوگئی، تم نے مجھے جگایا کیوں نہیں؟‘‘ نمرہ نے آنکھوں کو مسلتے ہوئے پوچھا۔
’’کتنی دیر سے تو جگا رہی ہوں، تم ہو کہ ہل ہی نہیں رہیں۔‘‘
’’مجھے تو دیر ہورہی ہے، تم آج کالج نہیں جارہیں تو امی کے ساتھ باورچی خانہ دیکھ لینا، ان کی طبیعت صحیح نہیں ہے۔‘‘ سائرہ نے فکرمندی سے کہا۔
’’کیا ہوا امی کو؟‘‘ نمرہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔
’’بخار لگ رہا ہے، بتاتی بھی تو نہیں ہیں ناں… آج سر آفاق کا پیریڈ نہ ہوتا تو نہ جاتی، مگر ضروری کلاس ہے۔ فزکس تو ویسے بھی سر سے گزرتی ہے۔‘‘ سائرہ پریشان تھی۔
’’پریشان مت ہو، میں ڈاکٹر کے پاس لے جائوں گی، تم جائو… سنو سائرہ! وہ شام میں…‘‘ اس نے ہچکچاتے ہوئے سائرہ کو کچھ بتانے کی کوشش کی۔
’’شام میں… کیا شام میں؟‘‘ سائرہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
’’اُس نے کہا ہے چار بجے ملنے کو…‘‘ نمرہ نے نظریں جھکا کر بتایا۔
’’نمرہ! میں واپس آکر تم سے بات کرتی ہوں۔‘‘ سائرہ نے افسوس سے اسے دیکھا۔
’’لیکن سائرہ میں امی سے کیا کہہ کر جائوں گی؟‘‘ نمرہ واقعی پریشان لگ رہی تھی۔
’’اب بھی وقت ہے نمرہ باز آجائو، سنبھل جائو، جس کام کے لیے تمہیں ماں سے جھوٹ بولنا پڑے سمجھو وہ غلط ہے۔‘‘ سائرہ نے اسے سمجھایا۔
’’تم میرا ساتھ دینے کے بجائے الجھا رہی ہو، کیا برائی ہے اس میں! پسند کی شادی کی اجازت تو خدا نے بھی دی ہے، لڑکی سے مرضی پوچھی جاتی ہے ناں۔‘‘ نمرہ نے چڑ کر کہا۔
’’مجھے دیر ہورہی ہے، واپس آکر بات کرتے ہیں۔ آج اُسے کہہ دو کہ امی کی طبیعت خراب ہے، نہیں آسکتی۔‘‘ سائرہ جان گئی تھی کہ ابھی نمرہ کو کچھ سمجھانا بے کار ہے۔ نمرہ نے سارا دن بے دلی سے کام کیے۔ یہ نہیں تھا کہ اسے ماں سے محبت نہ تھی، مگر وہ دل کے ہاتھوں مجبور تھی۔
سائرہ گھر آئی تو نمرہ نے اس کا بازو پکڑا اور کمرے میں لے آئی۔ ’’سائرہ اس کا بار بار فون آرہا ہے، کیا کروں میں؟ امی کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں، مشکل میں پڑ گئی میں تو…‘‘ نمرہ روہانسی ہورہی تھی۔
’’نمرہ اسے کہو اپنی والدہ کو ہمارے گھر بھیج دے، باقی میں سنبھال لوں گی، امی کو بھی سمجھا دوں گی۔‘‘ سائرہ نے اسے بڑے رسان سے سمجھایا۔
’’اچھا میں آج چلی جائوں، اسے منا بھی لوں گی، پلیز…‘‘ نمرہ نے لجاجت سے کہا۔
’’نہیں نمرہ، تم کو جتنا ملنا تھا مل لیں، اُسے فون کرکے کہو کہ اس نے تمہیں جتنا جاننا تھا جان لیا، اب اپنے والدین کو بھیجے… فون کرو اسے ابھی میرے سامنے۔‘‘ سائرہ نے قطعی لہجے میں کہا۔
نمرہ نے فون پر نمبر ملایا اور سائرہ کی کہی بات دہرا دی۔ لیکن اگلے ہی لمحے نمرہ کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا، وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے کبھی سائرہ اور کبھی فون کو دیکھتی، اور پھر بیڈ پر گر کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
’’نمرہ میری جان کیا ہوا؟ کیا کہا اُس نے؟ کیوں رو رہی ہو یوں؟‘‘ سائرہ کو اپنے سارے اندیشے سچ دکھائی دینے لگے۔
’’سائرہ… سائرہ! وہ کہتا ہے کہ ’’شادی… کون سی شادی؟ شادی کی کیا ضرورت ہے؟ کیا فضول باتیں کررہی ہو تم؟ میں نے تو آج تک ایسا سوچا بھی نہیں‘‘… تو پھر وہ میرے ساتھ…؟‘‘ دکھ کے مارے نمرہ کے الفاظ کھو گئے۔
سائرہ نے اپنی بے دم ہوتی پیاری بہن کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا، اور خدا کا شکر کیا کہ اس کی بہن کسی بڑے نقصان سے پہلے ہی حقیقت جان گئی۔
’’سنو نمرہ! وہ تمہارے ساتھ وقت گزار رہا تھا، تمہیں دل بہلانے کا کھلونا سمجھ رہا تھا۔ یاد رکھو اس میں مرد کا نہیں عورت کا قصور ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو مرد کے سامنے طشتری میں رکھ کر پیش کردیتی ہے۔ عورت انمول ہے، گری پڑی نہیں۔ تم نے کہا تھا کہ خدا نے بھی تمہیں تمہاری مرضی پوچھنے کی اجازت دی ہے، بے شک اللہ تعالیٰ کا احسان ہے عورت پر کہ اس نے اسے اتنی اہمیت دی کہ زندگی کے اتنے بڑے معاملے میں اس کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے، لیکن اس کے لیے چور راستوں کی اجازت نہیں دی گئی… اُن چور راستوں کی جنہیں آج کل لڑکے لڑکیوں نے اپنا لیا ہے۔ محبت تو عزت دینے کا نام ہوتا ہے، یہ کیسی محبت ہے جو عورت سے اُس کی سب سے قیمتی چیز ’’عزت‘‘ ہی ہتھیا لے۔‘‘ سائرہ نے بڑی محبت سے نمرہ کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے اسے سمجھایا۔
نمرہ اٹھی اور باتھ روم کی طرف چل دی۔ سائرہ نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔’’اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اتنا بڑا احسان کیا، مجھے محفوظ رکھا، تو کیا میرا فرض نہیں کہ میں اُس رب کے آگے سجدۂ شکر بجا لائوں؟‘‘ نمرہ کے چہرے پر اطمینان تھا جو اسے اس آگہی نے دیا تھا کہ عورت دل بہلانے کا کھلونا نہیں بلکہ عزت کے ساتھ پلکوں پر سجانے کی چیز ہے۔

حصہ