آبادیوں کی خیرمنانے کا وقت ہے

1278

خرم عباسی
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انھوں نے نبی کریم ؐ سے طاعون کے بارے میں سوال کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا کہ طاعون اللہ تعالی کا عذاب ہے، وہ جس پر چاہتا ہے مسلط کر دیتا ہے، لیکن اللہ تعالی نے اسے ایمانداروں کے لیے رحمت بنا دیا ہے، کوئی مئومن بندہ ، جو طاعون میں مبتلا ہو جائے اور وہ اپنے علاقہ میں صبر اورثواب کی نیت کے ساتھ ٹھہرا رہے اور اسے یقین ہو کہ اس کو وہی تکلیف پہنچے گی جو اللہ تعالی نے مقدر کی ہے، تو اس کے لیے شہید کا اجر لکھ دیا جاتا ہے۔
عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (جب بھی کسی علاقے میں طاعون پھیلنے کی خبر سنو تو وہاں مت جاؤ، اور اگر جس علاقے میں تم موجود ہو وہاں پر طاعون پھوٹ پڑے تو وہاں سے ڈر کر باہر مت بھاگو)۔
بخاری: (5739 ) اور مسلم: (2219). آپﷺنے اپنی حیات میں جہاں روحانی اور باطنی بیماریوں کے حل تجویز فرمائے وہیں جسمانی اور ظاہری امراض کے لیے بھی اس قدر آسان اور نفع بخش ہدایات دیں کہ دنیا چاہے جتنی بھی ترقی کر لے؛مگر ان سے انحراف نہیں کر سکتی۔یہی وجہ ہے کہ مسلم اطباء نے اس کو موضوع بحث بنایا؛جس کے سببب نہ صرف طب کے میدان میں نئی نئی تحقیقات منظرعام پر آئیں؛ بلکہ بہت ساری نئی نئی ادویات بھی متعارف ہوئیں، بہت سے لاعلاج امراض کا علاج دریافت کیاگیا، یونانی کتابوں کے عربی ترجمے کیے، ہسپتال اور شفاخانے قائم کیے اور طب کو خیالی مفروضوں سے نکال کر ایک عملی سائنس کی شکل دی۔ گویا اسلام اور اگلے دور کے مسلمان صحت عامہ کے بارے میں غیرمعمولی حد تک سنجیدہ اور حساس رہے۔ہمارا دین جدید دور کے علاج معالجے کی سہولتوں کے استعمال کا مخالف نہیں ہے؛ بلکہ ان سے استفادہ کاامر کرتا ہے، فرمان نبوی ہے:علم وحکمت مومن کی گم شدہ میراث ہے، اس کو جہاں ملے اس سے استفادہ کی کوشش کرے۔.تاریخ الطبری،یاقوت الحموی اور بہت سے تاریخی کتب میں ہمیں طاعون اور وبائی امراض کے ہولناکی کا ذکر ملتا ہے ۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رح (وفات 843 ھ) نے طاعون اور وبائی امراض کے حوالے سے ایک شاہکار انکسائکلوپیڈیا “ بذل الماعون في فضل الطاعون “ کے نام سے تصنیف کیا ۔ 444 صفحات پر مشتمل اپنی اس مشہور تصنیف میں لکھتے ہیں کہ؛ 794 ھ میں جب دمشق میں طاعون کی وبا پھیلی تو شہر کے بزرگوں کی اکثریت نے فیصلہ کیا کہ شہر سے باہر جاکر اجتماعی دعا کی جائے ۔ لیکن اس اجتماعی دعا کے بعد یہ بیماری شہر میں مزید پھیل گئی ۔
امام ابن حجر رح مزید لکھتے ہیں کہ مصر میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ 833 ھ میں انکے سامنے پیش آیا کہ طاعون کی وبا نے پورے قاہرہ شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور روزآنہ اوسطً تقریباً چالیس 40 لوگ لقمہ اجل بننے لگے ۔ شہر کے لوگوں نے فیصلہ کیا کہ کیوں نا شہر سے باہر صحرا میں جاکر اجتماعی دعا کا اہتمام کیا جائے ۔ لوگ جمع ہوئے اور صحرا کی طرف نکل گئے ۔ وہاں انہوں نے ہفتوں رہ کر اجتماعی دعا کی ، لیکن واپس شہر پہنچنے کے بعد مرنے والوں کی تعداد میں اچانک کئی گنا اضافہ ہوگیا اور شہر میں روزانہ مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر ہزاروں میں ہوگئی ۔
علامہ ابن حجر رح نے اگرچہ نہیں لکھا لیکن آج ہم سب جانتے ہیں کہ اتنے زیادہ لوگوں کا ایک جگہ اکٹھے ہونا ہی اس بیماری کے پھیلاؤ کا بنیادی سبب بنا اور بللآخر انکو موت کے منہ میں لے گیا ۔
لسان الدین ابن الخطیب (1374ء) دنیا کے پہلے مایہ ناز طبیب اور محقق تھے آپ نے طاعون کا جراثیم کے ذریعہ پھیلنے کا نظریہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ امراض دو قسم کے ہوتے ہیں : متعدی اور غیر متعدی امراض۔ متعدی امراض کے پھیلنے کی وجہ وہ نہایت باریک کیڑے ہوتے ہیں جو نظر نہیں آتے مگر وہ مرض کے کیڑ ے ہو تے ہیں۔ چودھویں صدی میں یورپ میں چرچ کی حکومت تھی۔ یورپ میں اس وقت طاعون کا دور دورہ تھا۔ عیسائیت کے اثر کے تحت عوام الناس طا عون کو خدا کا عذاب سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ مگر طبیب اعظم ابن الخطیب نے اس مرض پر تحقیق کی اور لوگوں کو کہا کہ وہ مریض کے کپڑے ، برتن یا کان کی بالیاں ہرگز استعمال نہ کریں۔ جو مریض سے نہیں ملتے وہ بیمار نہیں ہوتے اس سے ثابت ہوتا کہ یہ خدا کا عذاب نہیں بلکہ متعدی بیماری ہے۔لسان الدین ابن الخطیب نے (Micro-circulation)کو سب سے پہلے بیان کیا۔اندلس میں طاعون کے دوران بیماری سے بچنے کے لیے عوام کی رہنمائی کی اور ان کو طاعون سے نجات کے لیے ادویات تجویز کیں۔
تقریباً اسی زمانے میں سیاہ موت (انگریزی: Black Death، عربی: موت الاسود، فارسی: مرگ سیاہ)، جسے سیاہ طاعون بھی کہا جاتا ہے، ایک تباہ کن وبائی مرض تھا جس نے 14 ویں صدی کے وسط میں (1347ء – 1350ء) یورپ کو جکڑ لیا اور یورپ کی دو تہائی آبادی اس کا ہاتھوں لقمہ اجل بن گئی۔ تقریباً اسی زمانے میں ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے متعدد علاقوں میں بھی متعدی امراض پھوٹے، جو اس امر کا اشارہ کرتے ہیں کہ یورپ میں پھیلنے والا طاعون دراصل کثیر علاقائی وبائی مرض تھا۔ مشرق وسطیٰ، ہندوستان اور چین کو ملا کر اس طاعون نے کم از کم 7 کروڑ 50 لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اتارا۔
یہی مرض مختلف شدت سے 1700ء تک یورپ میں ہر نسل میں آتا رہا۔ بعد میں آنے والے معروف طاعونوں میں نیند کی وبا سے 15 لاکھ ہلاکتیں ہوئیں، 1915 تا 1926 تک بھڑکنے والی اس وبا کا باعث ایک جرثومہ تھا جو دماغ کے اندر جا کر حملہ کرتا ہے۔ اس بیماری کو گردن توڑ بخار کی ایک شکل سمجھا جا سکتا ہے اور اس کے مریض پر شدید غنودگی طاری ہو جاتی ہے۔ مرض کی شدت میں مریض بت کا بت بنا رہ جاتا ہے، نہ ہل جل سکتا ہے۔(کری ایٹو کامنز) انفلوئنزا کے وائرس سے 20 لاکھ ہلاکتیں ہوئیں 1957 تا 58 چین ہی سے ایک فلو اٹھا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر کو لپیٹ میں لے لیا۔ بعض ماہرین کے مطابق اس کا وائرس بطخوں سے انسانوں میں منتقل ہوا تھا۔ اس وبا سے 20 لاکھ کے قریب لوگ مارے گئے، جن میں صرف امریکہ میں 70 ہزار ہلاکتیں شامل ہیں۔ایرانی طاعون سے 20 لاکھ سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں ،ویسے تو طاعون کی بیماری وقتاً فوفتاً سر اٹھاتی رہی ہے، لیکن 1772 میں ایران میں ایک ہیبت ناک وبا پھوٹ پڑی۔ اس زمانے میں اس موذی مرض کا کوئی علاج نہیں تھا جس کی وجہ سے اس نے جس نے پورے ملک کو لپیٹ میں لے لیا۔ کوکولزتلی سے 20 لاکھ سے 25 لاکھ ہلاکتیں ہوئیں ۔
جب ہسپانوی مہم جوؤں نے براعظم امریکہ پر دھاوا بولا تو اس سے انسانی تاریخ کے ایک ہولناک المیے نے جنم لیا۔ مقامی آبادی کے جسموں میں یورپی جراثیم کے خلاف کسی قسم کی مدافعت موجود نہیں تھی، اس لیے ان کی بستیوں کی بستیاں تاراج ہو گئیں۔یہ سانحہ 1576 تا 1580 میں میکسیکو میں پیش آیا ۔ یہ واضح نہیں ہے کہ اصل بیماری کیا تھی، لیکن مریضوں کو تیز بخار ہوتا تھا، اور بدن کے مختلف حصوں سے خون جاری ہو جاتا تھا۔ انتونین کی وبا سے 50 لاکھ سے ایک کروڑ تک ہلاکتیں ہوئیں .یہ دہشت ناک مرض اس وقت پھیلا جب رومی سلطنت اپنے عروج پر تھی۔ 165 عیسوی سے 180 عیسوی تک جاری رہنے والی اس وبا نے یورپ کے بڑے حصے کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ مشہور حکیم جالینوس اسی دور میں گزرا ہے اور اس نے مرض کی تفصیلات بیان کی ہیں، تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ یہ مرض کون سا تھا، اور اس سلسلے میں خسرہ اور چیچک دونوں کا نام لیا جاتا ہے۔’’کوکولزتلی‘‘یہ وبا بھی میکسیکو میں آئی تھی، لیکن کوکولزتلی سے تقریباً 30 برس پہلے، اور اس کی وجہ بھی وہی تھی یعنی براعظم امریکہ کے مقامی باشندوں میں یورپی جراثیم کے خلاف عدم مدافعت۔ لیکن اس وبا نے دوسری کے مقابلے پر کہیں زیادہ قیامت ڈھائی اور 50 لاکھ سے ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا۔یہ اعداد و شمار اس لحاظ سے بےحد لرزہ خیز ہیں کہ اس وقت آبادی آج کے مقابلے پر بہت کم تھی اور تصور کیا جا سکتا ہے کہ اس نے کیسے پورے ملک کو بنجر بنا کر رکھ دیا ہو گا۔ کوکولزتلی نے براعظم امریکہ میں تباہی پھیر دی تھی .جسٹینن طاعون سے ڈھائی کروڑ ہلاکتیں ہوئیں .541 تا 542 میں آنے والی یہ وبا طاعون کی پہلی بڑی مثال ہے۔ اس وبا نے دو سال کے اندر اندر بازنطینی سلطنت اور اس سے ملحقہ ساسانی سلطنتوں کو سیلاب کی طرح لپیٹ میں لے لیا۔ اس وبا کا اثر اس قدر شدید تھا کہ ماہرین کے مطابق اس نے تاریخ کا دھارا ہی بدل کر رکھ دیا۔ ایڈز/ایچ آئی وی سے اب تک تین کروڑ ہلاکتیں ہوئی ہیں .ایڈز نئی بیماری ہے جس کا وائرس مغربی افریقہ میں چمپینزیوں سے انسان میں منتقل ہوا اور پھر وہاں سے بقیہ دنیا میں پھیل گیا۔ اس بیماری نے سب سے زیادہ افریقہ کو متاثر کیا ہے اور حالیہ برسوں میں دنیا بھر میں ہونے والے 60 فیصد سے زیادہ مریضوں کا تعلق زیرِ صحارا افریقہ سے ہے۔البتہ اب اس مرض کا موثر علاج دریافت کر لیا گیا ہے جس کی وجہ اس پر قابو پانا ممکن ہو گیا ہے۔ ہسپانوی فلو سے دس کروڑ ہلاکتیں ہوئی .یہ وبا اس وقت پھیلی جب دنیا ابھی ابھی پہلی عالمی جنگ کی تباہی کے ملبے تلے دبی ہوئی تھی یعنی 1918 تا 1920۔ اس وقت دنیا کی آبادی پونے دو ارب کے قریب تھی، جب کہ ہسپانوی فلو نے تقریباً ہر چوتھے شخص کو متاثر کیا۔اس وقت جنگ کی صورتِ حال کی وجہ سے یورپ کے بیشتر حصوں میں اس فلو سے ہونے والی ہلاکتوں کو چھپایا گیا، جب کہ سپین چونکہ جنگ میں شامل نہیں تھا اور وہاں سے بڑی ہلاکتوں کی خبریں آنے کے بعد یہ تاثر ملا جیسے اس بیماری نے خاص طور پر سپین کو ہدف بنایا ہے۔عام طور پر فلو بچوں اور بوڑھوں کے لیے زیادہ مہلک ثابت ہوتا ہے، لیکن ہسپانوی فلو نے جوانوں کو خاص طور پر ہلاک کیا۔ 2013 تا 2016 مغربی افریقہ میں پھیلنے والے ایبولا وائرس سے 11300 افراد ہلاک ہو گئے تھے، اور اس طرح یہ رواں صدی کی اب تک کی سب سے مہلک وبا ہے۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ماضی میں کئی بار ایسا ہوا ہے کہ خوفناک وباؤں نے بڑے پیمانے پر انسانی آبادی کو درہم برہم کر کے رکھ دیا .کورونا آج کی ایک عالمگیر وبا ہے جو کورونا وائرس مرض کے پھیلنے سے دنیا بھر میں پھوٹ پڑی ہے۔ اس وبا کا باعث سارس کووی نامی وائرس ہے جس کی بنا پر انسانوں کا نظام تنفس شدید خرابی سے دوچار ہو جاتا ہے۔دسمبر 2019ء میں چینی صوبہ ہوبئی کے شہر ووہان میں وبا کا ظہور ہوا اور اس برق رفتاری سے پھیلا کہ چند ہی مہینوں کے بعد 24 مارچ تک 190 ملکوں کے مختلف خطوں میں اس وبا کے 4 لاکھ سے زائد متاثرین کی اطلاع آچکی ہے جن میں سے 17 ہزار زائد افراد اس مرض سے جانبر نہ ہو سکے اور لقمہ اجل بن گئے، جبکہ 1 لاکھ تین ہزار متاثرین کے صحت یاب ہونے کی اطلاع ہے۔
علامہ ابن حجر رح نے جن واقعات کا ذکر فرمایا ہے ، اس وقت کے لوگوں کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ یہ وائرس ایک انسان سے دوسرے انسان میں کیسے پھیلتا ہے اور اسکا سبب دراصل آپس میں گھلنا ملنا ہے ۔ اس لیے انکو اس معاملے میں لاعلمی کے باعث رخصت دی جاسکتی ہے ۔ البتہ آج معاملہ دوسرا ہے۔ آج جب کہ ہمیں معلوم ہوچکا ہے کہ یہ بیماری ایک انسان سے دوسرے انسان میں کیسے منتقل ہورہی ہے تو ہم اپنے آپ کو اس غلطی سے مبرؔا نہیں کر سکتے ۔ اللہ تعالی ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور پھر اس ذات باری تعالی پر مکمل بھروسہ رکھیں ۔گذارش ہے کہ خدا کے لیے اس کے پھیلاؤ کو روکیں ۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب یہ بیماری عالمی سطح پر پھیل چکی ہے۔ آپ جہاں کہیں بھی ہیں اپنے آس پاس کے لوگوں کی فکر کریں ۔ انہیں پیار سے سمجھائیں ، انکی مدد کریں انہیں حقیقت سے آگاہ کریں اور اس کو مزید پھیلنے سے بچائیں ۔
یاد رکھیں اللہ بھی اسکی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں ۔ ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کرنا اور لوگوں سے ملنے جلنے سے احتراز برتنا یا ۔ social distancing ہی میں ہم سب کی مدد ہے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے ۔

آبادیوں کی خیر منانے کا وقت ہے
جنگل کی آگ پھیل رہی ہے ہوا کے ساتھ

سرشارصدیقی

حصہ