ڈاکٹر باقر رضا

554

اسامہ امیر
جیسے ہی نیا لکھنے والا سامنے آتا ہے وہ اعلان کرتا ہے کہ فلاں کے اثر میں ہے، اس میں دخل اس کی مخصوص بیٹھک کا بھی ہے، زیادہ تر نئے لکھنے والے جون ایلیاء کے اثر میں خود کو اس قدر نڈھال کر دیتے ہیں کہ ان کے شعری امکانات کہیں پیچھے چلے جاتے ہیں، یہ نہیں کہ جون برے شاعر ہیں، جون شاعر ہیں اور بہت اچھے شاعر ہیں، بات یہ ہے کہ جون ایلیاء بننے کے چکر میں خود کو برباد کرنے کا شوق نئے لکھنے والو میں بدرجہ ء اتم موجود ہے، خدا رکھے ان شعراء کو، جو شروع دنوں میں جون ایلیائی تھے مگر ان دنوں خود کو دریافت کرنے کے عمل سے گزر رہے ہیں، حال آں کہ کہیں کہیں جھلک ابھی بھی نمایاں ہے یہ برا نہیں کہ ابتداء میں کسی کا رنگ آپ کی شاعری میں نظر آجائے، برا ہے اس رنگ کو اپنانا، فتح اس میں ہے کہ کسی اور کا رنگ کہیں دور پھینک دیا جائے، اگر کوئی اس عمل سے نہیں گزرتا تو اپنے مطمین ہونے کا پتہ دیتا ہے بہ قول میر “یاں وہی ہے جو اعتبار کیا”ایسے غزل گو شعراء کی تعداد، سنجیدہ غزل گوء شعرا سے زیادہ ہے، مگر یہ سفر ہار جانے والو کی تعداد ہے، جنہیں نہ تو منزل تک پہنچنے کی سرشاری نصیب ہوتی ہے اور نہ ہی یہ سفر کا لطف اٹھا سکنے میں کامیاب نظر آتے ہیں، یوں تو بہ ظاہر ان کے نام کئی شامیں منائی جاتی ہیں، بڑے مشاعروں میں مدعو نظر آتے ہیں، بین الاقوامی مشاعرے میں بھی انہیں بلایا جا رہا ہوتا ہے، لوگ مضامین پڑھتے ہیں ان کی کتابوں پر مگر کیا یہ سب ایک اچھے اور سنجیدہ شاعر ہونے کی دلیل ہے؟ نوجوان نسل کے پسندیدہ شاعر، ابھی لاہور میں مقیم ہیں، کبھی کراچی میں ہوا کرتے تھے، عمار اقبال، عمار اقبال کو جس شعر نے متعارف کروایا میں نے چاہا تھا زخم بھر جائیںزخم ہی زخم بھر گئے مجھ میں یہ شعر اور اس شعر کی غزل، آج تک عمار اقبال اپنے دفاع میں ناکام ہی نظر آئے کہ ہفتہ دس دن بعد کوئی شاعری کا عام قاری اسے جون سے منسوب کر ہی دیتا ہے، بلاشبہ غزل بہترین ہے مگر چھاپ کسی اور کی ہے تو گراوٹ کا گمان گزرتا ہے دیکھنے میں آیا ہے بعض نئے لکھنے والو کا سفر بڑی گھن گرج کے ساتھ شروع ہوتا ہے، شور بھی مچتا ہے، ہر ہوٹل پر پانچ چھ شاعر اسے بحث کا حصہ بھی بنائے ہوئے ہوتے ہیں، کچھ نہ کچھ اس نئے لکھنے والے میں ہوتا بھی ہے، پھر وہ ایک دم منظر نامے سے ہٹ کیوں جاتا ہے؟ ہمارے ایک دوست احمد جہاں گیر ہیں، ہم ایسا نہیں کہیں گے کہ احمد جہاں گیر پیچھے ہٹ گئے ہیں، اس کے اسباب کیا ہیں یہ آپ نے جاننا ہے؟ ایسے ہی ایک سوال ہم نے ایک شعری نشست سے پہلے احمد جہاں گیر سے کیا تھا، (یہ نشست ندیم مرزا کے گھر منعقد کی گئی تھی) جب یہ موضوعات جسے آپ شعر میں بیان کرتے ہیں، آپ کی دسترس میں نہ ہوئے تو آپ کیا کریں گے؟ اگر چہ یہ سوال ہمارے نذدیک بہت اہم تھا، مگر وہ جواب کی بہ جائے مسکرا کر رہ گئے، اور ہم ظفر اقبال کی بات بھی نہیں مان سکتے کہ بغیر مضمون کے بھی شاعری ہو سکتی ہے (نعوذ باللہ)، ویسے بھی یہ موضوعات ثروت حسین کے ہاں بہت خوبصورت شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں، لیکن ثروت کے اور بھی مسائل تھے، موضوعات بھی بہت مختلف تھے، کیوں کہ ثروت شاعر ہیں اور شاعری سوچی سمجھی کاوش نہیں، جب شاعری کاوش نہیں ہے تو کیوں ہمارے نئے لکھنے والو میں شعوری طور پر کسی اور کا چہرہ نظر آجاتا ہے مرحوم اکبر معصوم بہت اچھے شاعر تھے، خدا ان کی مغفرت فرمائے، انہیں نئے لکھنے والو میں خاصا پسند بھی کیا جاتا ہے، بعض ان کا رنگ بھی اپناتے ہیں، اگرچہ رنگ اپنانا افسوس کا مقام ہے، اور خاص طور پر ان کا، جو آپ کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے ہوں، یا جن سے مُسلسل رابطہ ہو، تو واضح طور پر نظر آجاتا ہے، یوں بچ جانے کی کوئی سبیل نہیں، پھر وہ غزل یوں مشہور ہوتی ہے کہ فُلاں کے زیرِ اثر ہے یا فُلاں سے لی ہے، جس طرح کاشف حسین غائر میں اکبر معصوم کی جھلک نظر آتی ہے بالکل اسی طرح اورنگ زیب میں دلاور علی آذر نظر آجاتے ہیں، یہ نظر آجانا کہیں پورا شعر اٹھا لینا نہیں، یا ایک ٹکڑا گھڑ لینا نہیں، یہ نظر آجانا اسلوب کا ہے، جیسے الطاف حسین حالی نے غزل کہی جس میں میر کی جھلک نظر آتی ہے، زمین بھی میر ہی کی ہے مے تند و ظرف حوصلہ ء اہلِ بزم تنگساقی سے جام بھر کے پلایا نہ جائے گاحالیپکتا رہا جو پھوڑا سا یوں ساری رات دلتو صبح تک تو ہاتھ لگایا نہ جائے گایہ بات لفظوں کے ہیر پھیر کے باجو سید عابد علی عابد کی نقل کی گئی ہے القصہ مختصر کہ یہ ناکامی کس کی ہے، اور کیوں اس پر توجہ نہیں دی جاتی کہ مشہور گائک مراتب علی، جس کی آواز بہت اچھی تھی،اثر کسی اور کا تھا ،آج کہاں ہے؟

حصہ