میرے پیارے نانا ابو

441

عروج فاطمہ
میں اپنے نانا ابو کی جتنی تعریف کروں کم ہے وہ اپنی مثال آپ تھے۔ اپنی پوری زنگی اقامت دین کے لیے وقف کر دی ان کے گھر کا ماحول بہت آزادانہ تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو دین کی خدمت کے لیے چن لیا تھا۔ وہ چھوٹی سی عمر میں ہی جماعت اسلامی سے منسلک ہو گئے تھے، اور اپنی جوانی میں ہی رکن بن گئے تھے۔ اور میرے نانا ابو کا گھر میرے گھر کے پیچھے ہی تھا۔ اس لیے میں ہر وقت نانا ابو کا گھر میرے گھر کے پیچھے ہی تھا۔ اس لیے میں ہر وقت نانا ابو کی رفاقت نصیب ہوتی تھی وہ جماعت کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ اچھے نانا، اچھے باپ اچھے شوہر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے بھائی بھی تھے جماعت کا کوئی بھی پروگرام ہو ان کے بغیر ادھورا تھا ان کے پاس مسجد کی بھی ذمہ داری تھی۔ وہ صبح ہی نہا دھو کر مسجد چلے جایا کرتے تھے اور خود مسجد کے واش روم صاف کیا کرتے تھے۔
مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب نانا ابو آخری بار ہمارے گھر آئے اس وقت بھی نانا ابو کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ جب وہ آئے تو میں اور میرا بھائی کسی بعث میں مصروف تھے انہوں نے ہمیں دیکھ کر بس یہ کہا کہ میری بچی (ہماری امی) کو تنگ نہیں کیا کرویہ کہہ کروہ چلے گئے ہم نے ان کی کسی بات پر دھیان نہیں دیا۔ اس دن کے بعد سے نانا ابو بستر سے لگ گئے اس کے بعد کبھی ہمارے گھر نہیں آئے۔ نانا ابو کی طبیعت دن بہ دن بگڑتی گئی اور سارے گھر والے پریشان رہنے لگے۔ میرے نانا ابو کا ایک ہی بیٹا یعنی ہمارے ایک ہی ماموں ہے۔ اور ایک دن میرے نانا ابو اپنے خالق سے جا میل اور پھر میرے نانا ابو چلے گئے جو میرے آئیڈیل تھے۔ اللہ تعالیٰ میرے نانا ابو کی مغفرت فرمائے اور انہیں کروٹ کروٹ جنت دے۔

حصہ