آخری ملاقات ۔۔۔ آہ اقبال حیدر رخصت ہوئے

403

ڈاکٹر رخسانہ صبا
امریکا سے ان کی وفات کی خبر آج صبح آگئی ۔دل دکھ سے بھرگیا۔بہت پیارے انسان،بہت اچھے شاعر،بہت عمدہ انسان،پرخلوص،نفیس اور تہذیب یافتہ شخصیت۔فروری میں کراچی تشریف لائے۔پہلی تقریب ان کے اعزاز میں فاران کلب میں ہوئی جس کے انعقاد کے لیے سہیل احمد صدیقی نے بھرپور کردار ادا کیا۔میں نے مضمون پڑھا۔”اقبال حیدر-تہذیبی اقدار کا روشن ستارہ”جولوگ ان سے ملتے رہے ہیں وہ ضرور تائید کریں گے کہ وہ تہذیبی رویوں سے کس درجہ متصف تھے ۔بحیثیت پروڈیوسر انھوں نے جو پروگرام کیے ان کے جمالیاتی اور تہذیبی معیار کے پس پردہ بھی ایک بھرپور تخلیقی وجود تھا ۔ان کے نعتیہ اشعار میں بھی ایک نیا طرز احساس روشن ہے۔دیکھیے یہ اشعارجلوہء شہر نبی دل کے نہاں خانے میں ہےاب بھی وہ صبحیں وہ شامیں دیکھتا رہتا ہوں میںمیں نے جن آنکھوں سے دیکھی ہیں سنہری جالیاںآئینے میں اب وہ آنکھیں دیکھتا رہتا ہوں میںروشنی سے لوٹ کر بے حد اندھیرا گھر لگاپاؤں کو ٹھوکر لگی،چوکھٹ سے جا کر سرلگاگھپ اندھیرے راستے پر ایک نننھا سا دیامجھ کوتو اقبال حیدر حسن پیغمبر لگاان کی ایک نعتیہ ہائیکوصل علی ان پر ماضی،حال اور مستقبل سب کے پیغمبراقبال حیدر نظم اور غزل کے بھی بہت اچھے شاعر تھے۔نرم ،دھیمے اور پرسوز لہجے میں ان کی غزلیں محفل اور تنہائی،دوستی اور دشمنی،آئینہ اور شکستگی،شکاری اور کمان ،بھنور اور پتوار جیسے افتراقی جوڑوں سے کام لیتے ہوئے ہمارے اردگرد پھیلی ہوئی زندگی کے منظر نامے کو سامنے لاتی ہیں۔دوستی اور دشمنی کے دائرے ہیں مختلفہم سبھی موجود ہیں ان دائروں کے درمیاںہم تو سمجھے تھے کہ ہم آسودہ ء منزل ہوئےاک پڑاؤ آگیا ہے ہجرتوں کے درمیاںشکار ہم ہی رہیں گے ہر اک شکاری کےزمانہ تیر نہیں بس کمان بدلےگابھنور کو دیکھ کے پتوار کر دیے تبدیلہوا یہ کہتی رہی بادبان بدلےگاان کی ایک بہت مختصر نظم “بھٹکے ہوؤں کی آرزو”ملاحظہ کیجیےکاش کوئیاس بڑھیا کو ڈھونڈ کے لائےشام ڈھلے جو مٹی کا اک دیا جلایا کرتی تھیراہ دکھایا کرتی تھیوہ کمال کے ہائیکو نگار تھے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ انھیں ہائیکو سے عشق تھا۔انھوں نےاردومیں طبع زاد ہائیکو کے علاوہ نو مختلف زبانوں (جاپانی، انگریزی، پنجابی، سندھی،پشتو، بلوچی، سرائیکی، براہوی اور ہندکو)میں لکھی گئی ہائیکو کے تراجم بھی کیے ۔موضوعاتی ہائیکو بھی لکھے اور اس صنف کو پاکستان کے مختلف علاقوں میں مقبول بنانے اور اسے پاکستانی مزاج سے قریب تر لانے کے لیے بھرپور کردار ادا کیا۔ان کے تین ہائیکومیرا پیارا گھرجیسے اک پیاری سی نظمجلتے کاغذ پردیا جلانا ہےاک آسیب ہمارے گھربہت پرانا ہےاونچے ہوئے مکانلیکن ہم سے روٹھ گئے آنگن اور دالانپندرہ فروری دو ہزار بیس کو اتاکا صاحب نے اپنی رہائش گاہ پر اقبال حیدر کے اعزاز میں ایک منی ہائیکو مشاعرے کا اہتمام کیا۔ان کا صرف ایک نعتیہ مجموعہ “لاریب “شائع ہوا تھا۔کراچی میں اپنے قیام کے دوران میں انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ جلد از جلداپنے شعری مجموعوں کی اشاعت کا کام پایہ ء تکمیل تک پہنچائیں گے اور جلد ہی دوبارہ کراچی آئیں گے لیکن کسے خبر تھی کہ اتاکا صاحب کے گھر پر ہونے والی نشست ہم سب سے ان کی آخری ملاقات ثابت ہوگی۔کل جب وہ ملک عدم جانے سے قبل چند لمحوں کے لیے ہوش میں آئے تو اس وقت بھی ان کے لبوں پر درودشریف جاری تھاآسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرےآمین

حصہ