۔”گھبرانا نہیں”۔

543

ایک طرف یہ بتاکر تسلی دی جارہی ہے کہ ’’کورونا وائرس کی علامات عام فلو کی طرح ہی ہیں۔ بخار، کھانسی، زکام، سردرد، سانس لینے میں دشواری کورونا وائرس کی ابتدائی علامات ہوسکتی ہیں، لیکن ضروری نہیں کہ ایسی تمام علامات رکھنے والا مریض کورونا وائرس کا ہی شکار ہو۔‘‘
جبکہ دوسری طرف یہ انتباہ دے کر ڈرایا جارہا ہے کہ ’’کورونا سے متاثرہ ممالک سے آنے والے مسافروں یا مشتبہ مریضوں سے میل جول رکھنے والے افراد میں اس وائرس کی منتقلی کا خطرہ خاصا بڑھ جاتا ہے، اگر بیماری شدت اختیار کرجائے تو مریض کو نمونیا ہوسکتا ہے، اور اگر نمونیا بگڑ جائے تو مریض کی ’’موت‘‘ واقع ہوسکتی ہے۔‘‘
تیسری طرف اسے چھوت کی بیماری کے طور پر یوں بیان کیا جارہا ہے: ’’صحت مند افراد جب کورونا وائرس کے مریض سے ہاتھ ملاتے یا گلے ملتے ہیں تو یہ وائرس ہاتھ اور سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوجاتا ہے۔ یہ وائرس انتہائی سرعت کے ساتھ ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوجاتا ہے، جبکہ متاثرہ شخص میں انفیکشن کی علامات ظاہر ہونے میں 14روز لگ سکتے ہیں۔ لہٰذا ایسے مریضوں کو وائرس کی تصدیق کے لیے الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔‘‘
سادہ لفظوں میں بیان کیا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دنیا بھر بشمول پاکستان میں کورونا وائرس کو نزلہ، زکام، کھانسی ’’عام بیماری‘‘، نمونیا بگڑنے پر ’’موت‘‘، جبکہ ہاتھ ملانے سے کسی دوسرے شخص میں منتقل ہونے کے باعث ایک ’’اچھوت‘‘ وائرس کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
اگر واقعی ایسا ہے تو ہم بھی اپنی عقل استعمال کرتے ہوئے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، شاید ذہن لڑانے سے ہمیں کورونا وائرس کی شدت اور اس کے پھیلاؤ کے باعث انسانی صحت کو پہنچنے والے نقصانات کا کچھ اندازہ ہوسکے۔ سب سے پہلے اسے عام بیماری کے طور پر دیکھ لیتے ہیں۔
اگر کورونا نزلہ، زکام اور کھانسی جیسا انفیکشن یا کوئی معمولی وائرس ہے تو ساری دنیا لاک ڈاؤن کیوں؟ دنیا بھر کے تفریحی مقامات، اسکولوں، کالجوں، شاپنگ سینٹرز، ریستورانوں کی بندش سمیت طوافِ کعبہ جیسے دینی فریضے پر پابندی کیوں؟ ساری دنیا کے ممالک کے درمیان سفری رابطے منقطع کیے جانے کے ساتھ تجارتی راہ داریاں بند کرنے کا کیا مقصد؟ یعنی ایک طرف اگر دنیا کے ممالک اسے معمولی وائرس سمجھتے ہیں تو دوسری جانب اپنے اقدامات سے اس کے انتہائی خطرناک ہونے کا بھی اعتراف کرتے ہیں۔ اور پھر اگر کورونا وائرس نزلہ، زکام اور کھانسی جیسے انفیکشن کے پھیلانے کا سبب ہے تو کون نہیں جانتا کہ ایسے وائرل سے پھیلنے والی بیماریوں کا علاج تو خودبخود ہوجایا کرتا ہے۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ کورونا وائرس زکام سے بھی کم درجے کا وائرس ہے۔ پچھلے برس زکام کے باعث مرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں نمونیا بگڑنے سے سالانہ تین سے سات لاکھ لوگ مرتے ہیں۔ جب نزلہ، زکام جیسے جان لیوا وائرل کے خلاف ایسے اقدامات نہیں کیے جاتے تو پھر کورونا وائرس سے محفوظ رہنے کے لیے جنگی بنیادوں پر ایمرجنسی نافذ کرنے کی کیا ضرورت؟ میں پھر کہہ رہا ہوں کہ یہ زکام سے کم درجے کا وائرل ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ وائرس عام ہے یا واقعی کچھ ایسا ہے جس کی پردہ داری ہے؟ اس بات پر بھی نظر ڈال لیتے ہیں کہ کورونا وائرس کے باعث ہونے والا انفیکشن اگر شدت اختیار کر جائے تو موت واقع ہوسکتی ہے۔ میں پہلے ذکر کرچکا ہوں کہ زکام بگڑنے کی صورت میں نمونیا ہوتا ہے، اور نمونیا سے دنیا بھر میں مرنے والوں کی سالانہ تعداد تین سے سات لاکھ تک ہے۔ کورونا وائرس میں بھی کم درجے کا زکام ہی ہوتا ہے۔ ظاہر ہے زکام بگڑے تو نمونیا، اور نمونیا بگڑنے کی صورت میں ’’موت‘‘۔ اس طرح موت کی اصل وجہ نمونیا ہوا، نہ کہ کورونا وائرس۔ جبکہ گزشتہ تین مہینوں کے دوران ساری دنیا میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد دو لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے، جبکہ اس کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد نو ہزار سے زائد ہے۔ واضح رہے کہ یہ رپورٹ ہونے والی تعداد ہے، جبکہ متاثرین کی اصل تعداد کروڑوں میں ہوسکتی ہے۔ اتنے زیادہ افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوجانے پر نوہزار افراد کی ہلاکت کوئی بڑا نمبر نہیں، جبکہ اس سے کہیں زیادہ بڑی تعداد میں لوگ روزانہ مختلف بیماریوں اور روڈ ایکسیڈنٹ کے باعث اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملتے ہیں۔ اور ویسے بھی 40 سال سے کم عمر افراد میں کورونا وائرس کے اثرات کا امکان 0.02 فیصد ہے، یعنی اگر ایک لاکھ افراد پر کورونا وائرس حملہ آور ہو تو صرف دو افراد ہی اس سے متاثر ہوں گے۔ اس طرح چالیس سال سے کم عمر افراد تو ویسے ہی اس وائرس سے محفوظ ہوگئے۔ چالیس سے پچاس سال کی عمر کے افراد پر اس کے اثرات 0.04 فیصد ہوسکتے ہیں۔ جبکہ پچاس سال سے زیادہ عمر کے افراد پر اس وائرس کا خطرہ 13 فیصد ہے۔ یہ وائرس صرف 80 سال سے زائد عمر کے افراد کے لیے خطرناک ہے۔ دنیا بھر سے حاصل شدہ اعداد و شمار صاف بتا رہے ہیں کہ کورونا وائرس سے مرنے والے افراد کی عمریں 80 سال سے زیادہ تھیں، یوں اس وائرس کو ’’موت‘‘ کا وائرس کہنا میری سمجھ سے بالاتر ہے۔
اب آجائیں اس بات کی طرف کہ کورونا وائرس ہاتھ ملانے، گلے ملنے سے ایک انسان سے دوسرے انسان کے جسم میں منتقل ہوجاتا ہے، یعنی ایسی بیماری جسے متعدی کہا جاتا ہے۔ اس میں بھی اتنی ہی صداقت ہے جتنی نزلہ، زکام کے سرعت کرنے میں۔ یہ بات ہر شخص کے مشاہدے میں رہی ہوگی کہ نزلہ، زکام سے متاثرہ شخص کے چھینکنے کے باعث اُس کے ساتھ بیٹھنے والے ضرور متاثر ہوتے ہیں۔ اسی طرح ڈسٹ الرجی اور سڑکوں پر دھواں چھوڑتی گاڑیوں کے باعث بھی درجنوں افراد کو نزلہ، زکام ہوجاتا ہے جو ایک سے دوسرے کو منتقل بھی ہوتا ہے۔ جب ایسی کئی مثالیں موجود ہوں تو کورونا وائرس کی دوسروں میں منتقلی کو کسی متعدی مرض کا نام دینا باعثِ حیرت نہیں تو اور کیا ہے! اور ویسے بھی کسی بھی معاشرے میں ایک انسان سے دوسرے انسان کو منتقل ہونے والی زیادہ تر بیماریوں کو وائرل انفیکشن ہی کہا جاتا ہے، جو تیزی کے ساتھ خاصی بڑی آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، جس میں زیادہ تر چھونے سے منتقل ہونے والے وائرس ہوتے ہیں۔ بس ایسا ہی ایک کورونا وائرس بھی ہے۔ مجھے یاد ہے جب صوبہ پنجاب میں پہلی مرتبہ ڈینگی آیا تو ہر آنے والے دن کے ساتھ اس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ جوں جوں ڈینگی سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا، لاہور کے شہری انتہائی خوف زدہ ہوتے چلے گئے۔ اس بگڑتی ہوئی صورتِ حال میں، یا یوں کہیے اس وبا سے مقابلہ کرنے کے لیے اُس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے خاصی محنت کی، پھر وہ وقت آیا جب اُن کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کی بدولت مثبت نتائج برآمد ہونے لگے۔ اس کے بعد لاہور ڈینگی مچھروں کی یلغار سے مکمل طور پر محفوظ ہوگیا۔ ایسا بالکل نہیں ہے، نہ ہی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی وبائی مرض یا کوئی نیا موسمی وائرس اپنے وقت پر پلٹ کر ضرورآتا ہے۔ بلکہ ہرسال آتا ہے، بس فرق یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس سے لڑنے اور محفوظ رہنے کا سلیقہ جان چکے ہوتے ہیں۔ یہی کچھ ڈینگی وائرس کے ساتھ بھی ہے۔
خیر بات ہورہی تھی کورونا وائرس ہاتھ ملانے یا وائرس زدہ چیزوں کو چھونے سے دوسرے افراد میں منتقل ہونے کی۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ کورونا وائرس چھونے سے لگ سکتا ہے، بس دیکھنا یہ ہوگا کہ کس جگہ پر وائرس کی عمر کتنی ہے۔ کورونا وائرس اگر دروازوں کے ہینڈل، الماریوں، میز کرسی میں موجود ہے تواس کی زیادہ سے زیادہ عمر 12 گھنٹے ہے۔ اگر یہ آپ کپڑوں میں موجود ہے تو اس کی عمر صرف 9 گھنٹے، اور اگر آپ کے ہاتھوں میں موجود ہے تو اس کی عمر دس منٹ سے بھی کم ہے۔ ایسی صورت میں آپ کو خوف زدہ ہونے یا گھبرانے کی ضرورت نہیں، کیونکہ کورونا وائرس سے صرف کپڑے کا ماسک لگا کر بچا جاسکتا ہے۔ اگر خدانخواستہ کوئی اس وائرس کی زد میں آجاتا ہے تو گرم پانی کا استعمال بڑھانے، ٹھنڈے پانی سے پرہیز کرنے، کھانے پینے میں احتیاط برتنے، آئسکریم، کول ڈرنک سے دوری اختیار کرنے، اپنے ہاتھوں کو بار بار دھونے، اور اپنے کپڑوں کو دھوپ میں سُکھانے سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ ایسی صورت میں گرم اشیاء کا استعمال بڑھا دینا چاہیے۔ اپنے جسم کے ٹمپریچر کو بڑھانے سے خاصی حد تک اس کی زد میں آنے سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔
ہمارے اچھے دوست، شاعر اشرف طالب کورونا وائرس کے باعث معاشرے میں پھیلتے خوف کو دیکھ کر کچھ یوں مشورہ دیتے ہیں: ۔

اس کو نہ کوئی خوف نہ مرنے کا غم کوئی
جس کا خدائے پاک نگہبان ہو گیا

حصہ