سوشل میڈیا پر کورونا کے پھیلتے سائے

586

اسکول بند، جامعات بند، بازار بند، شاپنگ مال بند، ہوٹل ڈائننگ بند شکر ہے انٹرنیٹ بند نہیں کیا ۔ اگر کوئی کہہ دیتا کہ یہ والا وائرس انٹرنیٹ کے ذریعہ بھی پھیلتا ہے تو آپ یقین جانیں گھروں میں مقید ’کئی لوگ ‘ تو انٹر نیٹ کی بندش پر ہی ’فوت ‘ ہو جاتے ۔ اس وقت بلا شبہ دنیا بھر میں ’ انٹرنیٹ‘ یا ٹی وی اسکرینوں کا ہی راج ہے ، جو لوگ گھروں میں ’قرنطینہ‘ ہو ئے ہیں اُن کے پاس وقت گذاری کے لیے سب سے بڑا ذریعہ یہی ہے ۔ نمازیں تو حکومت نے ویسے ہی مختصر کرادیں، ذکر کے لیے مفتی تقی عثمانی صاحب کی بات کو نا معلوم وجوہات کی بنا پر ہلکا کر دیا۔جماعت اسلامی نے اس موقع پر لوگوں کو اللہ کی جانب متوجہ کرنا چاہا اور ’استغفار‘ یعنی گناہوں سے توبہ اور اجتناب یاد دلایا ، مگر لوگ سر ہلاکر آگے بڑھ گئے۔ پی ایس پی کے رہنما مصطفی کما ل نے لوگوں کے راشن زخیرہ کرنے کے عمل اور قیمتیں بڑھانے کے عمل پر سخت تنقید کی اور صاحب حیثیت افراد کواُن غریبوں کی جانب متوجہ کیا جنہیں کم از کم صابن تقسیم کرنے کی ہمت کرے۔وزیر اعلیٰ سندھ بہر حال پاکستان میں سب سے نمایاں اقدامات کرنے والے سیاسی رہنما کے طور پر سامنے آئے ۔راشن بھرنے کا حال صرف پاکستان کا ہی نہیں تھا ، شاہد عباسی نے برطانیہ کے خالی اسٹورز کی ویڈیوز شیر کرتے ہوئے لکھا کہ: یہ مناظر برطانیہ عظمی کے ہیں جہاں‘‘پینک بائنگ’’نے سٹورز خالی کر دیے، کیا یہ سمجھا جائے کہ تہذیب حاضر کے خمیر میں ایثار، صبر و تحمل باقی نہیں رہا یا مسئلہ کچھ اور ہے؟ اسی طرح آسٹریلیا میں مقیم ایک دوست نے بھی ایسی ہی کیفیت سے آگاہ کیا ۔ یہاں لوگ سینیٹائزر کی ٹشو پیپر یا ماسک کی شارٹیج کا ذکر نہیں کر رہے تھے بلکہ آٹا، دال ، چینی، چاول ، جیسی اشیائے صرف کی شارٹیج کی با ت کر رہے تھے۔
یہ ہفتہ تو دنیا بھر میں سب کو ایک ہی جانب متوجہ کر گیاسارے برج الٹتے چلے گئے۔ کورونا کے بڑھتے سائے دنیا پر جس طرح پھیلتے نظرآئے اُسی طرح کا ماحول سوشل میڈیا پر بھی رہا۔ کئی گروپس کورونا اپڈیٹ کے نام سے بن گئے ۔کورونا وائرس انٹر نیشنل، کورونا وائرس پاکستان ، کورونا اپڈیٹ و دیگر ۔کیا چین، کیا جاپان، کیا امریکہ کیا یورپ کیا کینیڈاہر ملک میں سوشل میڈیا پر ایسا ہی کچھ نہ کچھ زیر بحث رہا۔ چین کے بعد اٹلی سب سے زیادہ متاثرہ ملک کی صورت سامنے آیاجہاں کوئی 28ہزار مریض رپورٹ ہوئے(10دن قبل تک)۔چین میں یہ تعداد70ہزار عبور کر چکی ہے۔’دی گارجین‘ کی جانب سے جمع کردہ دنیا بھر کے اعداد و شمار کے مطابق 1لاکھ83ہزار سے زائد اب تک مریض سامنے آئے ہیںان میں اموات صرف4فیصد یعنی 7ہزار ہوئی ہیں۔ اموات والے کیسز بھی معمر افراد کے ہیں۔ اٹلی کے بعد کورونا سے متاثرہ تیسرا بڑا ملک ایران سامنے آیاہے جہاں 15 ہزار کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔پوری دنیا میں ہلچل مچی ہوئی ہے، ایک نزلہ کھانسی،بخار نے بڑے بڑے طاقتورممالک کو ہلا دیا۔امریکی صدر یوم دعا منا تے پائے گئے۔امریکہ نے اس وائرس سے نمٹنے کے لیے ایک ٹریلین ڈالر مختص کر دیئے۔ اس کے پیچھے ابلاغی صنعت کا ہی سب سے بڑا کارنامہ ہے ورنہ عقل دنگ ہے کہ اس سے بڑے بڑے وبائی امراض جن میں چکن گونیا، ڈینگی، کانگو وائر س یہاں تک کہ فلو کابھی کبھی ایسا ایشو نہیں بنا جیسا کورونا کا بنا۔
سعودی عرب میں سوشل میڈیا ٹرینڈز کا تو پچھلے ہفتہ بھی ذکر کیا تھا ۔ اس ہفتہ بھی جیسے جیسے وہاں اقدامات اٹھائے گئے ویسے ویسے یہ موضوع بھی اہمیت اختیار کرتا گیا۔ماسک کو وہاں بھی خوب موضوع بنایا گیا ۔
بھارت میں بھی کورونا موضوع بنا اور جو ہیش ٹیگ استعمال ہوئے وہ خود تفصیل آگاہ کر رہے ہیں۔#SocialDistanacing #COVID2019india #coronavirusindia #ChineseWuhanVirus #coronainmaharashtra ۔ پاکستان اور دنیا بھر کی طرح بھارت میں بھی ڈاکٹرز کی خدما ت اور اس کڑے وقت میں ڈاکٹرزو پیرا میڈیکل اسٹاف کا وائرس زدہ مریضوں کے علاج اور نگہداشت کے لیے نکلنا قابل تعریف و ستائش ٹھہرایا جاتا رہا۔اٹلی میں تو ایک دن خاص وقت پر گھروں سے باہر کھڑکیوں میں نکل کرعوام نے تالیاں بجا کر اُن کی خدمات کا اعتراف کیا۔اسکے ساتھ ساتھ ان کی ہمت بھی بڑھائی جاتی رہی ، کیونکہ یہ خود ایک اہم سوال تھا کہ جب حکومتیں سب کو ’قرنطینہ‘ یعنی الگ تھلگ کرنے میں لگی ہوں تو ایسے میں ڈاکٹرز و نرسوں کا کیا ہوگا جو اُن مریضوں و دیگر مریضوں کے ساتھ او پی ڈی سے لے کر سرجری جیسے مراحل میں ہوتے ہیں۔ اسی تناظر میں ڈاکٹر فیاض عالم نے اپنی ڈاکٹر اہلیہ کے تناظر میں ایک ہسپتال کی منظرکشی کرتے ہوئے لکھاکہ،’’الخدمت ہسپتال ناظم آباد کے چھوٹے چھوٹے کمروں میں مختلف مرد و خواتین ڈاکٹرز روزانہ کئی سو مریضوں کو دیکھتے ہیں۔ڈاکٹر اور مریض کے درمیان زیادہ فاصلہ ممکن ہی نہیں ہے۔ مریض ڈاکٹر کے سامنے چھینک بھی سکتا ہے اور اسے کھانسی بھی ہوسکتی ہے۔میری اہلیہ ڈاکٹر صدیقہ ان دنوں بھی روزانہ 70-80 خواتین کو دیکھتی ہیں اور یقینی طور پر دیگر ڈاکٹروں کو بھی ایسا کرنا پڑتا ہوگا۔نہ ہسپتال بند ہوسکتے ہیں، نہ مریضوں کی آمد میں کمی لاء جاسکتی ہے اور نہ ہی کسی خطرے کے پیش نظر ان سے دور رہا جاسکتا ہے۔ہماری خواہش تو یہی ہے کہ ڈاکٹرز بھی دیگر لوگوں کی طرح گھروں تک محدود ہوجائیں۔ لوگوں سے فاصلہ رکھیں اور کرونا سے بچنے کی کوشش کریں۔لیکن یہ ممکن نہیں ہے!ہسپتالوں میں یا کلینکس پر اپنے فرائض منصبی ادا کرنے والے ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف آپ کی دعاؤں کے مستحق ہیں۔معاشرہ ڈاکٹروں کے متعلق منفی رائے پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا لیکن آج جس صورت حال کا ہم سب کو سامنا ہے۔اس میں یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ کار مسیحائی آسان نہیں ہے۔بقول شاعر:ابن مریم ہوا کرے کوئی!‘‘
اب ملک میں جاری کورونا صورتحال کا سیاسی پیرائیہ دیکھلیں کیونکہ وہ بھی خوب ڈسکس ہوا۔ وزیر اعظم پاکستان کے عوام سے خطاب میں سے تو باتیں کم ہی نکلیں البتہ اس کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے زبردستی کا جملہ پھر گورنر ودیگر کی جانب سے ماہرانہ آراء نے عوام کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ ’’جب تک کنفرم نہ ہو کورونا ٹیسٹ نہ کروانا، مہاتما کورونا نیازی۔کورونا کاٹتا کیسے ہے؟ وسیم اکرم پلس۔ گرم پانی پینے سے کورونا معدے میں مر جاتا ہے، گورنر پنجاب۔پیناڈول 80% کورونا پیشنٹس کا علاج ہے، یاسمین راشد۔یا الٰہی! یہ کن جہلا کو ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے؟‘‘ علاج کی تجاویز کے لیے قیصر قریشی اس صورتحال پر یہ اشعار لکھتے ہیں کہ

یہ جو حوصلہ ہے بنا رہے
یہی رازِ فتحِ مبین ہے
وہ علاج ڈھونڈ ہی لائینگے
ہمیں‘‘ کافروں’’پہ یقین ہے

اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ کہ ایران سے پاکستان میں داخل ہونے والے اس وائرس کو پاکستان میں داخل ہونے سے بروقت کیوں نہیں روکا گیا ۔ اس غفلت پر سلیم صافی نے بھی سوال اٹھایا کہ ’’جن وزیروں اور مشیروں کے دباؤ سے تفتان (ایران) بارڈر سے کورونا وائرس کے شکار مریضوں کو بغیرچیکنگ کے پورے پاکستان میں پھیلایا گیا وہ 22کروڑ عوام کی زندگیوں سے کھیلنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ میڈیا اور اپوزیشن کو اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھنا چاہئے جب تک تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن نہیں بنایا جاتا۔‘‘ یہ انتہائی اہم بات ہے جسے سب نظر انداز کر رہے ہیں ۔

حصہ