پہاڑوں کے بیٹے

390

اُم ایمان
عصرِ حاضر میں شیطانی قوتیں نوجوان مسلمانوں کو نت نئے جال بچھاکر اسیر کرنے کی کوشش میں ہیں۔ لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو شعوری طور پر یہ چاہتی ہے کہ دین کے ساتھ ذہن و دل کی پوری ہم آہنگی کے ساتھ رشتہ جوڑے، اور عملِ تازہ کے ذریعے اس کو مضبوط بنائے۔
قرآن کے ساتھ مسلمانوں کی وابستگی کئی صدیوں سے روایتی چلی آرہی تھی، لیکن اب ایک لہر اٹھی ہے کہ نوجوان چاہتے ہیں کتاب اللہ کو یوں ہی بغیر سمجھے پڑھنے کے بجائے سمجھ کر پڑھیں۔ لہٰذا اسی کے باعث نوجوانوں میں جہاد کے احیاء کا ولولہ اٹھا ہے۔ یہ سلسلہ کئی عشروں پر محیط ہے۔ اِن شاء اللہ سولہویں صدی ہجری جذبۂ جہاد کی تابناکی کے باعث امتِ مسلمہ کے لیے عروج و سربلندی کی صدی ثابت ہوگی۔ آج سے کئی عشرے قبل مجاہدینِ اسلام کے ہاتھوں افغانستان میں سوویت یونین کی عبرت ناک شکست، اور اس کے نتیجے میں اُس کا شیرازہ بکھر جانا ایک ایسا عمل تھا جس نے افغانستان کے میدانوں کو جذبۂ جہاد کی ترویج کے لیے یونیورسٹی بنادیا تھا۔ لیکن دشمنانِ اسلام بھلا ٹھنڈے پیٹوں اس صورتِ حال کو کب برداشت کرسکتے تھے؟ انہوں نے مکر و فریب کے جال بچھائے، چال بازیوں کے دانے ڈالے، اور سادہ لوح اور غیور افغانوں کو آپس میں لڑانے اور ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اگر غیروں نے چالیں چلیں اور کامیاب ہوئے تو اس میں قصور اپنوں کا بھی تھا۔ کس کا کیا قصور تھا اور کتنا تھا…؟ اس سے بحث نہیں، لیکن یہ بہرحال ایک سنگین غلطی تھی جس کے باعث ہم افغان جہاد کے ثمرات سمیٹنے میں ناکام رہے۔ یہ نقصان صرف افغانوں کا نہیں تھا، پوری امتب مسلمہ کا تھا۔
افغانستان میں اسلامی حکومت کا قیام امریکا اور یہود و ہنود سب کے لیے ایک روح فرسا بات تھی، کیوں کہ وہ اچھی طرح سمجھ گئے تھے کہ اس کے اثرات دوسرے اسلامی ممالک بالخصوص مشرق وسطیٰ کے ممالک پر پڑیں گے جس سے اُن کی گرفت ڈھیلی پڑ جائے گی جب کہ وہ تیل کی دولت سے مالامال خطے ہیں۔ لہٰذا افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلا کے وقت ہی امریکا نے روس کے ساتھ مل کر یہ طے کرلیا تھا کہ افغانستان میں اسلامی حکومت کا قیام کسی طور برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے اس کے لیے منصوبہ بندی کی، اور طے کیا کہ روسی فوج 15 فروری 1989ء تک افغانستان سے نکل جائے گی لیکن نجیب حکومت بحال رہے گی اور اس کو روسی حکومت کی طرف سے بھرپور مالی اور انتظامی امداد فراہم کی جائے گی۔ دوسری طرف مجاہدین کی امداد بند کردی جائے گی، اور اگر تھوڑی بہت فراہم بھی کی جائے گی تو اس کے لیے انہیں اپنے قومی مفادات کے برعکس پالیسی اپنانے پر مجبور کیا جائے گا۔ یوں سادہ لوح افغانوں کو آپس میں لڑانے کا اہتمام کیا گیا۔ اس کتاب میں بیان کیے گئے واقعات سچے اور تاریخی طور پر مستند ہیں، ان کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قاری کہانی کے مطالعے کے ساتھ ساتھ تاریخی حقائق سے بھی آگاہی حاصل کرتا چلا جائے۔
یہ ایک چھوٹی سی سنگلاخ پہاڑی تھی جس کے دامن میں کئی جگہ گہرے گڑھے تھے، جگہ جگہ سیاہ پتھروں کے ڈھیر۔ صرف ایک طرف ایک سیدھا راستہ بغیر کسی گڑھے کی رکاوٹ کے اوپر جاتا تھا۔
زبیر عبداللہ اسی راستے سے اکثر فجر کے بعد پہاڑی کے اوپر جاتا اور وہاں بیٹھ کر گزری ہوئی زندگی اور آنے والے لمحات پر غور و فکر کرتا۔ یہ اس کو بہت پسند تھا۔ آج بھی فجر کے بعد ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کا لطف لیتے ہوئے اس نے اسی پہاڑی کا رُخ کیا۔ چوٹی پر پڑا ایک سیدھا پتھر اس کی نشست تھی۔ فطرت کے ہاتھوں تراشا ہوا پتھر، جہاں بیٹھ کر وہ اپنے خیالوں میں گم ہوجاتا۔ لیکن اس سے پہلے وہ قرآن کی اُن سورتوں کو دہراتا جو اُسے زبانی یاد تھیں۔ آج بھی معمول کے مطابق اس نے قرآن دہرایا اور پھر فارغ ہوکر اپنی نشست سے اٹھ کھڑا ہوا۔
اس نے بازو ہوا میں پھیلائے جیسے ساری وادی کو اپنے سینے سے لگا لینے کے لیے بے قرار ہو۔ سامنے دور تک میدان میں ٹینکوں، بکتربند گاڑیوں اور میزائلوں کے تباہ حال ڈھانچے بکھرے پڑے تھے۔ کچھ دور کسی گرائے گئے جہاز کی دُم بھی نظر آرہی تھی۔ یہ وادی نہ جانے کتنے معرکوں کی کہانیاں اپنے سینے میں چھپائے ہوئے تھی۔
ابھی بھی یہاں بہت سے ناکارہ بم پڑے تھے، اور بارودی سرنگیں تو بے شمار تھیں، لہٰذا لوگ ادھر سے گزرتے ہی نہیں تھے۔ اگر کسی وجہ سے گزرنا پڑتا تو بہت احتیاط کرتے تھے۔ مائیں خصوصی طور پر بچوں کو اس میدان کی طرف نہ جانے کی ہدایت کرتی تھیں کہ نہ جانے کب کسی کی ٹھوکر سے کوئی مُردہ بم جاگ اٹھے اور موت کا سامان بن جائے، یا موت سے بدتر معذوری کی زندگی عطا کردے۔ ایسا کئی دفعہ ہو بھی چکا تھا۔
اس میدان سے زبیر کی بے شمار یادیں وابستہ تھیں۔ بہت سے محبوب دوست جن کے ساتھ کابل، پکتیا، لوگر اور مزار شریف کے میدانوں میں دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دوبدو مقابلہ کیا تھا اور ناکوں چنے چبوائے تھے۔ ان کا پاک خون اسی مٹی میں جذب ہوا تھا کہ خدا نے ان کی شہادت کی سعادت کے لیے یہی میدان منتخب کیا تھا۔
پھر کمال خان اور جمال خان اس کے نوجوان بیٹے جنہوں نے جوانی کے ابلتے ہوئے خون اور دھڑکتے جذبوں کے ساتھ میدانِ جہاد میں بعد میں قدم رکھا تھا، لیکن اس سے کتنا آگے نکل گئے تھے، اُس وقت محض پندرہ اور سولہ سال کے تو تھے، لیکن اونچے قد اور چوڑے سینوں کے ساتھ زبیر کے برابر کھڑے ہوتے تو قد میں اس سے نکلتے نظر آتے۔ ابتدا میں زبیر نے انہیں خود تربیت دی۔ پستول اور رائفل تو جیسے ان کے بچپن کے کھلونے تھے۔ ذرا بڑے ہوئے تو کلاشنکوف اور مشین گن بھی چلانے لگے۔
زبیر کو وہ دن یاد آگیا جب وہ اپنے دونوں بیٹوں کو اپنے دائیں بائیں لے کر بڑے فخر کی کیفیت میں گھر سے نکلا تھا۔ ان کی ماں زینب نے انہیں گھر کے دروازے پر کھڑے ہوکر خدا کے حوالے کیا تھا۔ اسے یاد آیا اُس وقت زینب کے چہرے پر کیسے متضاد جذبات نظر آرہے تھے۔ آنکھوں میں آنسو اور چہرے پر مسکراہٹ… کتنا عجیب لیکن کتنا پُرتاثیر منظر تھا۔
آج برسوں گزرنے کے باوجود سب کچھ یوں محسوس ہورہا تھا جیسے ابھی کل کی ہی بات ہو۔ زبیر کے باقی تینوں چھوٹے بچے ماں کے ساتھ دروازے پر کھڑے تھے۔ رخصتی سے قبل زینب نے بیٹوں کے ماتھے کو بوسہ دیتے ہوئے سرخ کپڑے کی ایک ایک پٹی اُن کے ماتھے پر باندھی تو زبیر پوچھ بیٹھا:
’’نیک بخت! یہ سرخ پٹی کیوں باندھ رہی ہو؟‘‘
’’میرے بیٹے اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے روانہ ہورہے ہیں، میں انہیں کیوں نہ سنواروں!‘‘ زینب نے چھوٹے بلال کے ہاتھ سے عطر کی شیشی لے کر خوشبو بیٹوں کے کپڑوں اور ماتھے کی پٹی پر لگاتے ہوئے کہا۔
’’لیکن زینب یہ تو ابھی تربیت کے مرکز میں جارہے ہیں۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے۔ یہی تو جہاد کی راہ کا پہلا قدم ہے۔‘‘
زبیر دونوں بیٹوں کو مرکز میں چھوڑ کر گھر چلا آیا۔ ابھی کچھ دنوں کے لیے اس کو چھٹی دی گئی تھی، ورنہ وہ گھر میں کب رہتا تھا! دو، تین ہفتے کے بعد دو، چار دن کے لیے آتا تھا۔
گھر اور باہر کا سارا کام زینب دونوں چھوٹے بیٹوں کی مدد سے نمٹا لیتی تھی۔ بڑی ہمت و حوصلے والی تھی۔ کبھی جو زبیر سے شکایت کی ہو کام کے معاملے میں یا خرچ کے معاملے میں۔ زبیر جتنا خرچا دیتا تھا اسی میں گھر چلاتی، بلکہ کوشش کرکے تھوڑا بہت بچا بھی لیتی۔ یہ بچت وہ کپڑے کی ایک تھیلی میں ڈال کر بستروں والے بکس کی سب سے نچلی تہ میں ڈال دیتی۔
ناگہانی ضرورت کوئی بتا کر تو نہیں آتی! پھر فاطمہ جو ابھی چھوٹی ہے، کل کو بڑی ہوگی تو اُس کی شادی بیاہ بھی کرنا ہے۔ ’’آج بچائو، کل کام آئے گا‘‘۔ زینب کو باپ کا یہ جملہ یاد تھا۔
اُس دن صبح ہی سے اسے اپنے میکے کی یاد آرہی تھی۔ میکے میں تھا ہی کون! ماں باپ کا انتقال ہوچکا تھا۔ ایک ہی بھائی تھا ’’شیر دل‘‘ جو کابل کے نواح میں رہتا تھا۔ بھابھی صفیہ، اور دو بیٹے گل روز اور مہروز… پتا نہیں اب کتنے بڑے ہوگئے ہوں گے۔ جب انہیں دیکھا تو گودوں میں تھے۔ زینب نے تصور کی آنکھ سے بھتیجوں کو دیکھنے کی کوشش کی۔
زینب کے باپ کی کریانے کی دکان تھی۔ زینب کی شادی کے چند سال بعد ہی اُن کا انتقال ہوگیا تھا۔ باپ کے انتقال پر زینب گئی تھی، بعد میں صرف ایک دفعہ اور جانا ہوا تھا۔ دل تو مچلتا تھا لیکن زبیر کو فرصت تھی نہ وقت۔ شیر دل بھائی نے بابا کی دکان کو بہت اچھی طرح سنبھال لیا تھا۔ باپ کے انتقال کے بعد جب ایک دفعہ زینب میکے گئی تھی تو شیر دل کے دونوں بیٹے مہروز اور گل روز دونوں چھوٹے تھے۔
اب تو وہ دونوں بھی جمال اور کمال کی طرح جوان ہوگئے ہوں گے، زبیر سے کہوں گی کہ اب کے رمضان سے پہلے ایک دفعہ بھائی سے ملنے چلے، پھر پتا نہیں کبھی ملاقات ہوسکے کہ نہیں، ملک کے حالات تو روز بہ روز بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ زینب دل ہی دل میں سوچتی چلی جارہی تھی، ساتھ ساتھ گھر کے کام بھی نمٹاتی جاتی۔
اِس دفعہ زبیر پورے ہفتے کے لیے گھر آیا تھا، کہنی سے لے کر کندھے تک پٹی بندھی تھی۔ زینب نے زبیر کو زخمی دیکھا تو اسے یوں لگا گویا یہ زخم خود اس کو لگا ہے۔ بے چین و بے قرار دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے زبیر سے پوری تفصیل معلوم کی۔
زبیر زینب کی بے قراری دیکھ کر ہنس پڑا۔
’’بھلا مجاہدین کی بیویاں اتنے سے زخم سے گھبرایا کرتی ہیں؟ فکر کی کوئی بات نہیں زینب! یہ زخم زیادہ گہرا نہیں ہے، گولی بس گوشت کو چھوتی ہوئی نکل گئی، اللہ نے بڑا کرم کیا کہ ہڈی وغیرہ کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ گوشت کا زخم ہے، چند دنوں میں ٹھیک ہوجائے گا۔ (جاری ہے)۔

غذائیں جو ایک ساتھ نہیں کھانی چاہئیں

٭ دہی کو گرم روٹی یا کسی بھی گرم چیز کے ساتھ۔
٭ پانی ملادودھ اور گھی۔
٭ گھی اور شہد ہم وزن۔
٭ دودھ کے ساتھ کانجی‘ سرکہ‘ نیمبو یا جامن۔
٭ شربت یا ٹھنڈے پانی کے بعد چائے۔
٭ چائے کے بعد شربت‘ ٹھنڈا پانی۔ ککڑی (تر) تربوز‘ کھیرا۔
٭ کانجی سرکہ کے ساتھ تِل
٭ مولی یا خربوزے کے ساتھ شہد۔
٭ دودھ میں گڑ۔
٭ خربوزہ اور دہی۔
٭ چاول اور سرکہ۔
٭ کھیرا‘ پُھٹ‘ تربوز‘ خربوزہ‘ تر کے ساتھ یا دو گھنٹے پیچھے تک پانی یا شربت سکنجبین یا دودھ کی لسی پینا۔
٭ گوشت کے ساتھ تِل‘ دودھ‘ پنیر‘ سرکہ اور شہد۔

حصہ