ہم اعتبار کرتے ہیں

395

نسیم آرا
جمیلہ کی دوست اور منہ بولی بہن فریدہ کی شادی کی تیاریاں زوروں پر تھیں۔ جمیلہ دن رات سلائی کڑھائی کے کاموں میں مصروف تھی۔
فریدہ اور جمیلہ کی دوستی مثالی سمجھی جاتی تھی۔ گھر قریب ہونے کی وجہ سے دن رات کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ فریدہ کا کوئی کام جمیلہ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا تھا۔ صرف فریدہ ہی نہیں، اُس گھر کا ہر فرد جمیلہ کو ایک خاص اہمیت دیتا تھا۔ اس کی سلیقہ مندی اور ذہانت کے سب ہی قائل تھے۔ وہ گھر میں داخل ہوتی تو دادی اس کو دیکھ کر خوش ہوجاتیں ’’لو آگئی میری بیٹی، کب سے یہ تسبیح پرونے کی کوشش کررہی ہوں، ہر بار دانے غلط ہوجاتے ہیں۔ میں تو کہہ رہی تھی کہ جمیلہ بیٹی ہی میرا مسئلہ حل کرے گی‘‘۔ اور جمیلہ واقعی منٹوں میں تسبیح پرو کر اُن کے ہاتھ میں تھما دیتی۔
اِدھر اماں پکارتیں ’’بیٹی جمیلہ ذرا ادھر تو آنا، یہ شوربا بہت پتلا ہوگیا ہے۔ فریدہ کے ابا کھانے کے لیے بیٹھے ہیں، ذرا اس کا کچھ کرو‘‘۔ جمیلہ آنچ تیز کرکے تھوڑا سا شوربا پیالی میں نکالتی، اس میں دو چمچ کارن فلاور کے ساتھ ساتھ تھوڑا سا گرم مسالا ملا کر کھولتے ہوئے شوربے میں ڈال دیتی۔ منٹوں میں شوبا گاڑھا ہوجاتا اور اماں اطمینان کا سانس لیتیں۔
غرضیکہ گھر کا ہر فرد جمیلہ کے سامنے اپنے مسائل رکھتا اور وہ خوش دلی اور مہارت سے سب کو مطمئن کردیتی۔
یہ سلیقہ اور ہنرمندی جمیلہ کی ماں، جنہیں سب ’’ماں جی‘‘ کہتے تھے، کا طرۂ امتیاز تھا۔ ماں جی بے حد حسین و جمیل خاتون رہی ہوں گی۔ اس ڈھلتی عمر میں بھی وہ ایک دل کش اور باوقار خاتون نظر آتی تھیں۔ ان کی بصیرت، دانائی اور رکھ رکھائو کمال کا تھا۔
جمیلہ کے والد آرمی میں کیپٹن تھے۔ آرمی افسران کے گھروں کا ماحول عام طور پر بہت سلجھا ہوا اور بااصول ہوتا ہے۔ جہاں مرد فوجی نظم و ضبط کے عادی ہوتے ہیں، وہاں خواتین کی زندگی بھی بڑی منظم ہوتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی پارٹیاں اور فلاحی کاموں میں حصہ لینا خواتین کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔ اگرچہ تنخواہ بہت زیادہ نہیں ہوتی لیکن رکھ رکھائو کی روایت چلتی ہے۔
گھر میں بنی ہوئی اشیا سے تواضع کرنے میں خواتین پیش پیش رہتی ہیں۔
اس ماحول میں ماں جی کی صلاحیتوںکے سب ہی معترف تھے۔ اکثر بچیوں کے لیے کوکنگ، فلاور میکنگ اور سینے پرونے کے کورس کرواتیں، خود بھی سکھاتیں اور ماہر خواتین کو بھی بطور مہمان مدعو کرتیں۔
انہی مشاغل میں زندگی گزر رہی تھی کہ جمیلہ کے والد کیپٹن سلیم کا اچانک انتقال ہوگیا۔ ماں جی پر تو جیسے قیامت ٹوٹ پڑی۔ آرمی کا بنگلہ چھوڑ کر سسرال کے آبائی مکان میں آنا پڑا۔ گھر اگرچہ بڑا تھا لیکن دو خاندان پہلے ہی سے رہائش پذیر تھے۔
ایک جیٹھانی اپنے دو لڑکوں کے ساتھ رہتی تھیں جن کے شوہر ملک سے باہر تھے، اور ایک دیور اپنے تین بچوں اور بیوی کے ساتھ اوپر کی منزل میں رہتے تھے۔ بہرحال ماں جی اور ان کے بچوں کے لیے انہوں نے دو کمرے اور دالان کا حصہ رہائش کے لیے دے دیا۔ غسل خانہ تو تھا، لیکن باورچی خانے کے لیے سیڑھیوں کے نیچے جگہ تھی۔ اچھی بات یہ تھی کہ گھر کا یہ حصہ بالکل الگ تھا، یہاں تک کہ آنے جانے کا راستہ بھی پچھلی گلی میں کھلتا تھا۔
کیپٹن سلیم کے والد نے اچھی خاصی زمینداری چھوڑی تھی جس کا انتظام سلیم صاحب کی زندگی ہی میں چھوٹے بھائی سنبھالتے تھے۔
شروع شروع میں تو سب کا رویہ بڑا ہمدردانہ رہا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اعتراضات اٹھنے لگے۔ ماں جی کی دونوں بیٹیاں بڑی اور بیٹا سب سے چھوٹا تھا۔ جمیلہ نے میٹرک پاس کیا تو قصبے میں کوئی کالج نہیں تھا۔ خاندان میں لڑکیوں کے دوسرے شہر جاکر پڑھنے کی روایت نہیں تھی، لہٰذا جمیلہ نے دستکاری اسکول میں داخلہ داخلہ کروا لیا۔
چھوٹی بہن ساجدہ نے میٹرک پاس کیا تو کالج جاکر پڑھنے کی ضد کی۔ وہ ہمیشہ بہت اعلیٰ نمبروں سے پاس ہوتی تھی اور اپنے والد کی خواہش کے مطابق ڈاکٹر بننا چاہتی تھی۔ کیپٹن سلیم لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کے حامی تھے، لیکن اب معاملہ دوسرا تھا۔ خاندان میں ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ اِس بار ماں جی نے اعتراضات کو نظرانداز کرتے ہوئے ساجدہ کا داخلہ ضلع کے کالج میں کروا دیا۔ ایک گھنٹے کا بس کا سفر تھا۔ آنے جانے کی تکلیف نہ اٹھانی پڑے اس لیے ماں جی نے ہاسٹل میں انتظام کروا دیا۔ نہ جانے کس جذبے کے تحت ماں جی کی سلیقہ مندی اور صفائی ستھرائی رشتے داروںکو گراں گزرنے لگی، حالانکہ جمیلہ چچا کے بچوں کو ہر وقت سجانے سنوارنے میں لگتی رہتی۔ ان کے لیے خود اپنے ہاتھ سے کپڑے سی کر لاتی، پھر انہیں نہلا دھلا کر تیار کرتی۔ لیکن بجائے خوش ہونے کے، چچی بے زار بے زار سی رہتیں۔
ماں جی کے پاس شوہر کی پنشن اور زمینوں سے گزارے کے اناج کے سوا اور کوئی آمدنی نہیں تھی لیکن وہ اپنے رکھ رکھائو میں کسی سے پیچھے نہیں رہتی تھیں۔ جمیلہ سب سے بڑی ہونے کی وجہ سے گھر کے سارے حالات سے واقف تھی۔ اکثر تنگ دستی کی وجہ سے بہت سی باتوں میں جی مارنا پڑتا اور وہ پرانے فارغ البالی کے دنوں کو یاد کیا کرتی۔
گھر کے گھٹے ہوئے ماحول سے نجات اُسے فریدہ کے گھر میں ملتی جہاں ہر بڑا چھوٹا اُس کی ہر بات کو سراہتا تھا۔
وہ انجانے میں فریدہ کے گھر کے خواب دیکھنے لگی تھی۔
فریدہ کے والد اکثر کہتے ’’بھئی میری ایک نہیں دو بیٹیاں ہیں‘‘۔ جب کوئی تحفہ وہ فریدہ کے لیے لاتے تو کچھ نہ کچھ جمیلہ کے لیے بھی لاتے۔ اس پر ماں جی بہت ناراض ہوتیں تو فریدہ کی ماں بہت محبت سے کہتیں ’’بہن تم ناراض نہ ہوا کرو، میں جمیلہ اور فریدہ میں کوئی فرق نہیں سمجھتی۔‘‘
اِدھر گھر میں جمیلہ کی شادی کے تذکرے ہونے لگے۔ دور پار کے رشتے داروں کی آمدورفت بڑھ گئی۔ جمیلہ کو ان معاملات میں ذرا بھی دلچسپی نہ تھی۔ وہ تو اپنے ذہن میں ایک خوش حال گھرانے کے خواب سجا رہی تھی۔
فریدہ کی شادی کے سلسلے میں جب وہ فریدہ کے ساتھ بازار جاتی اور فریدہ کو قیمتی اور بہترین اشیا کا انتخاب کرتے دیکھتی تو اکثر فریدہ کے حالات پر رشک آنے لگتا۔ واپسی پر فریدہ ہر شے جمیلہ کے سامنے ڈال دیتی ’’اب یہ سب تم سنبھالو… ساری تیاری بس تم ہی کرو گی۔‘‘
فریدہ کے بڑے بھائی اسد بھی اکثر اپنا کوئی نہ کوئی کام جمیلہ کو سونپ دیتے۔ جمیلہ بڑی خوش اسلوبی اور مہارت سے سب کام انجام دیتی۔ ہر وقت مسکراتے ہوئے سب کام نپٹانا یوں لگتا جیسے اس کو کوئی اعزاز بخشا جارہا ہے۔
جب بھی جمیلہ گھر آنے لگتی سب ہی گلہ کرنے لگتے ’’جمیلہ بیٹی تمہارے بغیر گھر میں رونق نہیں ہوتی‘‘۔ جمیلہ جھینپتے ہوئے دوسرے دن جلدی آنے کا وعدہ کرتے ہوئے جان چھڑا کر وہاں سے نکلتی۔
فریدہ کے والد کا کپڑے کا بہت بڑا کاروبار تھا۔ ان کے قریبی رشتے داروں کی کپڑے کی ملیں تھیں، لہٰذا سارا خاندان خاصا امیر کبیر تھا۔ فریدہ بھی بیاہ کر اپنے ماموں کے گھر جارہی تھی۔ جمیلہ جب فریدہ کے گھر سے اپنے گھر کا موازنہ کرتی تو اُس کا دل اداس ہوجاتا، لیکن فریدہ کے خاندان والوں کی توجہ اور محبت اسے سہارا دیتی۔
شادی کے سلسلے میں فریدہ کے تمام رشتے دار جمع ہورہے تھے اور جمیلہ کی دوستی فریدہ کی رشتے کی سب بہنوں سے ہوگئی۔ ہر کوئی جمیلہ کو گھر کا فرد سمجھنے لگا تھا۔ جمیلہ سب کی ضرورتوں کا خیال رکھتی۔ اُس کے حُسنِ اخلاق اور سلیقے کا ہر کوئی معترف تھا، اور جمیلہ بڑی لگن سے سب کام انجام دینے میں مگن رہتی۔
ایک روز دوپہر کو جب وہ گھر آئی تو پھوپھو حمیدہ آئی ہوئی تھیں۔ ماں جی اور پھوپھو بہت گھل مل کر باتیں کررہی تھیں۔ جمیلہ کو دیکھ کر پھوپھو نہال ہوگئیں۔ گلے لگا کر پیار کیا اور اپنے مرحوم بھائی کی بیٹی کو ڈھیروں دعائیں دیں۔ جمیلہ بھی پھوپھو کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔وہ باورچی خانے میں ماں جی کا ہاتھ بٹانے پہنچ گئی۔
پھوپھو عصر کی نماز پڑھنے کے لیے گئیں تو ماں جی نے جمیلہ سے بڑے رازدارانہ لہجے میں کہا ’’حمیدہ اپنے بیٹے خالد کے لیے تمہارا رشتہ مانگ رہی ہے۔ بی اے کرنے کے بعد وہ واپڈا میں ملازم ہوگیا ہے۔ بہت نیک اور فرماں بردار بچہ ہے۔‘‘
جمیلہ کو اس خبر سے جھٹکا سا لگا۔ اسے اپنے خواب بکھرتے سے لگے۔ مارے لحاظ کے جھجک سی گئی۔ پھر آہستگی سے کہنے لگی ’’ماں جی ابھی میں شادی نہیں کرسکتی۔ شاہد اور عابد بہت چھوٹے ہیں، ساجدہ کی پڑھائی بھی ابھی مکمل نہیں ہوئی، گھر کا خرچ کیسے چلے گا؟ آپ کو اکیلا کیسے چھوڑوں گی!‘‘
ماں جی اُسے گلے سے لگا کر بولیں ’’بیٹی تم فکر نہ کرو، اللہ مالک ہے‘‘۔ جمیلہ لجاجت سے بولی ’’ماں جی مجھے مجبور نہ کریں، میں ابھی سوچوں گی۔‘‘
ماں جی بہت سمجھ دار خاتون تھیں، بولیں ’’بیٹا تم پریشان نہ ہو، اچھی طرح سوچ سمجھ لو، میں حمیدہ کو ابھی کچھ جواب نہیں دوں گی اور خاندان والوں سے بھی تو مشورہ کرنا ہے۔‘‘
جمیلہ کے چہرے پر اطمینان کی کیفیت چھا گئی اور وہ گھر کے کاموںمیں مصروف ہوگئی۔
فریدہ کے گھر کی رونق بڑھتی جارہی تھی اور جمیلہ کی مصروفیت بھی۔ دوسرے روز پھوپھو کی وجہ سے جمیلہ، فریدہ کے گھر نہ جا سکی۔ جب پھوپھو جانے لگیں تو جمیلہ کو گلے سے لگا کر رو دیں۔ ماں جی نے دلاسا دیا، تو کہنے لگیں ’’بھابھی مجھے مایوس نہ کرنا، جتنا جی چاہے سوچ لو، مگر فیصلہ میرے خالد کے حق میں ہی کرنا۔‘‘
پھوپھو کے جانے کے بعد جمیلہ تیز قدموں سے فریدہ کے گھر پہنچ گئی۔ وہ تو سب جیسے اُس کے منتظر بیٹھے تھے۔ سب کو گلہ تھا کہ آج تم نے اتنی دیر کردی۔ جمیلہ سب سے ملتی ہوئی فریدہ کے پاس آئی تو اُس نے بھی گلہ کیا اور بولی ’’اب دن ہی کتنے رہ گئے ہیں، تم یہیں رہو۔ ماں جی سے کہہ دو شادی تک اب وہیں رہو گی‘‘۔ جمیلہ مسکراتی رہی اور سر ہلاتی رہی۔
ان سب ہنگاموںکے بعد بالآخر فریدہ بی بی اپنے گھر سدھار گئیں اور جمیلہ کو فرصت ملی، لیکن شادی کے ہنگاموں میں وہ اس قدر تھک گئی تھی کہ مسلسل دو روز تک آرام ہی کرتی رہی۔
ولیمہ دوسرے شہر میں تھا۔ ماں جی نے معذرت کرلی۔ جمیلہ کے اصرار کے باوجود ماں جی نے دوسرے شہر جانے کی اجازت نہ دی۔
آج صبح ہی فریدہ کے گھر کی ملازمہ ماسی خیراں پیغام لے کر آگئی۔ رات کو فریدہ سسرال سے آئی تھی، جمیلہ کے لیے پیغام تھا کہ جلدی آئو۔ جمیلہ بصد شوق فریدہ سے ملنے چل دی۔ جمیلہ دبے پائوں فریدہ کے کمرے کی طرف بڑھی تاکہ اسے اچانک جاکر حیران کردے۔ ماسی خیراں نے بتادیا تھا کہ وہ اپنی چچا زاد بہن سلمیٰ کے ساتھ کمرے میں اکیلی ہے۔ کمرے میں داخل ہونے سے پہلے اپنا نام سن کر وہ ٹھٹک گئی۔ سلمیٰ کہہ رہی تھی کہ ’’تم تو چلی گئی ہو، اب اسد بھائی کی شادی ہونی چاہیے‘‘۔ فریدہ بولی ’’ہاں سوچ رہے ہیں‘‘۔ سلمیٰ نے کہا ’’سوچنا کیا ہے! جمیلہ کتنی پیاری ہے، مجھے تو بہت پسند ہے‘‘۔ جمیلہ سُن سی ہوگئی، لیکن فریدہ کی آواز پر چونک گئی جو کہہ رہی تھی ’’جمیلہ بہت اچھی ہے مگر گھرانے کے لحاظ سے مناسب نہیں۔ ہم نے تو سیٹھ عبدالکریم دھاگے والوں کی بیٹی کے لیے سوچا ہے، وہ لوگ بھی راضی لگتے ہیں۔ جمیلہ سے تو محض دوستی ہے، وہ اپنی جگہ ہے، رشتے داری تو نہیں کرسکتے، بالکل معمولی گھرانا ہے۔‘‘
جمیلہ جیسے دبے پائوں آئی تھی ویسے ہی چپکے سے واپس چلی گئی۔ اُس کا دماغ گھوم رہا تھا۔ جیسے تیسے گھر پہنچی اور کمرہ بند کرکے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ماں جی آئیں تو پریشان ہوگئیں ’’کچھ کہو تو کیا ہوا؟‘‘ انہوں نے اس کے دونوں ہاتھ تھامتے ہوئے پوچھا۔
’’کچھ نہیں ماں جی، آپ پھوپھو کو ہاں کہہ دیں۔‘‘
ماں جی کا چہرہ کھل اٹھا۔ اسے سینے سے لگا کر بولیں ’’بیٹا اللہ تمہارا نصیب اچھا کرے، تم نے مجھے خوش کردیا، ان شاء اللہ ہمیشہ خوش رہو گی۔
پیاری بیٹی! یاد رکھو، دنیا میں عزت و آبرو سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘

حصہ