پاکستانی بیانہ ہماری بہتر مستقبل کی ضمانت ہے‘ پروفیسر شاداب احسانی

484

نثار احمد نثار
تاریخ اور سماجی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ جن قوموں کا اپنا بیانیہ نہیں ہوتا یعنی ان کا اپنا قومی تشخص بیانیے سے نمایاں نہیں ہوتا وہ اس قوم کے لیے تاریک عہد کا دورانیہ ہوتا ہے۔ ہندوستان ایسا ملک ہے کہ جہاں بیرونی زبانوں کے ذریعے اقتدار پر گرفت رکھی گئی جس کی نمایاں مثالیں سنسکرت‘ فارسی اور انگریزی ہیں یہ تینوں مقامی زبانیں نہیں ہیں جب قوموں کا مقامی بیانیہ نہیں رہتا تو وہ تقسیم در تقسیم ہوتی چلی جاتی ہیں اور اس سے بیرونی طاقتیں فائدہ اٹھاتی ہیں۔ 14 اگست 1947ء کو پاکستان عالم وجود میں آیا لیکن اس طویل مدت کے گزرنے کے بعد پاکستانی بیانیہ ظہور میں نہیں آیا یہی وجہ ہے کہ ہم مختلف قسم کے گر وپ میں بٹ چکے ہیں‘ ہمیں اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے 10 مارچ 2020 کے بزم یارانِ سخن کراچی کے مشاعرے میں اپنے صدارتی بیان میں کیا انہوں نے مزید کہا کہ شاعری میں بنیادی عمل یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے اشعار میں کیا پیغام دے رہے ہیں‘ یہ زمانہ گل و بلبل کی شاعری کا نہیں ہے‘ اب جدید لفظیات اور استعارے آگئے ہیں جن سے ہمیں استفادہ کرنا چاہیے۔ مہمان خصوصی سعید الظفر صدیقی نے کہا کہ ہمارے دشمن چاہتے ہیں کہ ہم مزید کمزور ہو جائیں کیوں کہ ہم نے اپنی غلطیوں کے سب مشرقی پاکستان گنوا دیا ہے جو بنگلہ دیش کی صورت میں ہم سے زیادہ متحد ہے اس کی معیشت روز بہ روز بہتر ہو رہی ہے۔ ہمارے اربابِ سخن اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ وہ معاشرے کی بہتری کے لیے سامنے آئیں اور قومی یک جہتی پروگرام کا حصہ بنیں جب تک ہم ایک قوم نہیں بن جاتے ترقی نہیں کرسکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مشاعرے ہمارے ذہنی آسودگی کا سامان ہیں لیکن حکومتی سطح پر شعرائے کرام کا کوئی پرسان حال نہیںہے‘ یہ طبقہ مختلف مسائل سے نبرد آزما ہے جن اداروںٍ کو زبان و ادب کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے مختص کیا گیا تھا وہ اپنے اغراض و مقاصد سے ہٹ گئے ہیں‘ جو تنظیمیں اپنی مدد آپ کے تحت زبان و ادب کی ترویج و ترقی میں مصروف عمل ہیں میں انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ رانا خالد قیصر نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا ہماری تنظیم بزم یارانِ سخن آج سے چالیس برس پہلے قائم ہوئی تھی اور ہم تواتر کے ساتھ مشاعرے اور ادبی پروگرام ترتیب دے رہے ہیں ہم نے وقت مقررہ پر مشاعرہ کا آغاز کیا اور ہم آج بھی اپنے پروگرام وقت کی پابندی کے ساتھ شروع کر دیتے ہیں اور یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ وقت مقررہ کے بعد آنے والے شعرا کو ہم نے آج تک نہیں پڑھوایا وہ سامعین کی حیثیت سے مشاعرہ سماعت کرتے ہیں۔ ہماری کامیابی میں آپ کا تعاون شامل ہے کہ آپ تشریف لاتے ہیں تو محفل بنتی ہے۔ مشاعرے کے نظامت کار حنیف عابد نے اپنے عمدہ جملوں سے محفل گرمائے رکھی اور ہر شاعر کو دعوتِ کلام دیتے وقت اس کا تعارف بھی کرایا۔ راقم الحروف کے نزدیک حنیف عابد ایک اچھے ناظم مشاعرہ کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ واحد رازی نے عمدہ لحن کے ساتھ نعت رسول پیش کی۔ مشاعرے میں صاحبِ صدر‘ مہمان خصوصی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ فیروز خسرو‘ ڈاکٹر رفیق الحسن باقری‘ محسن اسرار‘ راشد نور‘ ریحانی روحی‘ اختر سعیدی‘ سلیم فوز‘ زاہد حسین زاہد‘ راقم الحروف نثار احمد نثار‘ اصغر خان‘ ڈاکٹر اقبال ہاشمانی‘ سلمان ثروت‘ صفدر علی انشاء‘ سخاوت علی نادر‘ رانا خالد محمود قیصر‘ واحد رازی‘ سلطان عزمی‘ خالد میر‘ شاعر علی شاعر‘ یاسر سعید صدیقی‘ طاہر سلیم سوز اور کامران مغل نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔

ناطق بدایونی قادر الکلام شاعر تھے‘ محسن اعظم ملیح آبادی

ناطق بدایونی قادر الکلام شاعر تھے‘ ان کا شعری مجموعہ ان کے انتقال کے بعد شائع ہوا‘ ان کے ایک صاحبزادے فیروز ناطق خسرو نے بزمِ ناطق بدایونی قائم کی ہے جو کہ تواتر کے ساتھ مشاعرے ترتیب دے رہی ہے۔ یہ ایک قابل ستائش اقدام ہے کہ مشاعرے مشرقی تہذیب کا حصہ ہیں۔ ان خیالات کا اظہار محسن اعظم ملیح آبادی نے بزم ناطق بدایونی کے تحت ہونے والے مشاعرے میں اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کے مشاعرے میں رومان پرور غزلیں پیش کی گئیں‘ تمام شعرا نے بہت اچھا کلام سنایا۔ مشاعرے کے مہمان خصوصی رونق حیات نے کہا کہ فیروز خسرو محبتوں کے آدمی ہیں‘ یہ ایک علمی و ادبی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں اور بڑی محنت و لگن کے ساتھ ادبی محافل سجا رہے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں مزید عزت و شہرت و صحت عطا فرمائے۔ اس مشاعرے میں فیروز ناطق خسرو کے کلاس فیلو ڈاکٹر رفیق الحسن باقری مہمان اعزازی تھے جو کہ لندن میں مقیم ہیں اور آج کل کراچی آئے ہوئے ہیں جنہوں نے اپنی غزلیں سنانے سے قبل یہ کہا کہ میری دو کتابیں معراجِ شعور اورتحلیاتِ شعور شائع ہو چکی ہیں۔ فیروز خسرو کی مہربانی ہے کہ انہوں نے آج میرے اعزاز میں یہ پروگرام ترتیب دیا انہوں نے مزید کہا کہ انہیں آج بڑی خوشی ہو رہی ہے کہ وہ کراچی کے اہم لکھنے پڑھنے والوں کے درمیان موجود ہیں جب کہ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ سوشل میڈیا ہماری نوجوان نسل کو اردو زبان و ادب سے دور کر رہاہے‘ ہمیں اس بارے میں سوچنا ہوگا اردو کی ترقی کے لیے آگے آنا ہوگا اور نفاذِ اردو کی تمام رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا۔ میزبان مشاعرہ فیروز ناطق خسرو نے کہا کہ ہم اپنی بزم کی جانب سے شعری محفلوں کا اہتمام کرتے رہتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ شہر کے تمام شعرا کو مدعو کیا جائے لیکن عملی طور پر یہ ممکن نہیں ہے‘ ہم بدل بدل کر شعرا کو بلاتے ہیں آج یہاں کئی ادبی تنظیموں کے نمائندے موجود ہیں جس سے شہر کے مختلف طبقات کی نمائندگی ہو رہی ہے انہوں نے مزید کہا کہ شاعری میں مثبت رویوں کو نظم کرنا چاہیے تاہم مزاحمتی شاعری ہر دور کی ضرورت ہے۔ قلم کار معاشرے کے نباض ہوتے ہیں یہ وہ طبقہ ہے جس سے معاشرے کا عروج و زوال مشروط ہے۔ اس مشاعرے میں علشبہ محسن نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی ابتدائی دور کی نظامت الحاج نجمی نے کی جب کہ یاسمین یاس نے آخر تک مشاعرہ پڑھوایا۔ اس موقع پر صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظمین مشاعرہ کے علاوہ سعید الظفر صدیقی‘ آصف رضا رضوی‘ فیروز خسرو ناطق‘ اختر سعیدی‘ نثار احمد نثار‘ فیاض علی‘ سراج الدین سراج‘ شاعر علی شاعر‘ سخاوت علی نادر‘ حنیف عابد‘ سعد الدین سعد‘ احمد سعید خان‘ زاہد علی سید‘ عاشق شوکی‘ واحد رازی‘ علی کوثر‘ شہناز رضوی اور ساجدہ انور نے اپنا اپنا کلام نذر سامعین کیا۔

اکادمی ادبیات کا خواتین کے عالم دن کے موقع پر مذاکرہ اور مشاعرہ

اکادمی ادبیات کراچی کے زیر اہتمام عالمی ادب اور خواتین مذاکرہ اور مشاعرے کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت سابق صوبائی وزیر ثقافت شرمیلا فاروقی اور مہمان خصوصی سابق ڈپٹی اسپیکر سندھ راحیلہ ٹوانہ تھیں جب کہ دیگر مقررین میں طلعت آفتاب‘ ڈاکٹر لبنیٰ عکس‘ زینت لاکھانی‘ بیگم نادرہ آفتاب نبی تھیں۔ اس موقع پر شرمیلا فاروقی نے کہا کہ عورت کی ایک اپنی دنیا ہے‘ انسان کے کے عمومی مسائل کے ساتھ ساتھ اس کے اپنے مسائل بھی ہیں جو صرف وہی جانتی‘ سمجھتی‘ خون میں رچاتی او ران کے فنی اظہار کے لیے مضطرب رہتی ہے۔ نسائی حسیت کوئی فارمولا نہیں ہے کہ سامنے رکھ کر وہ ادب تخلیق کر دے‘ یہ تواس کی زندگی کے منفرد تجربے اور طرز احساس کا نام ہے لیکن ابھی عورت کے بارے میں عورت کے لیے مرد کا نکتہ نظر ہی بیان ہو رہا تھا‘ عورت کو نہ تو اس قابل سمجھا جاتا ہے کہ وہ اپنی رائے دے اور نہ صدیوں کی محکومی اور تعلیم سے دوری کے سبب وہ اس قابل تھی کہ اپنا نکتہ نظر بیان کر سکے تاہم یہ صورت حال اب زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی۔ بین الاقوامی سطح پر خاتون قلم کاروں تخلیق اہمیت کا پیمانہ اس میں جاری و ساری ایک مشترکہ احساساتی تجربہ جو تمام نسانئی دنیا کو ہمدم بنانا ہے اور ایک ناقابل شکست رشتے میں پرونا ہے۔ بیگم نادرہ آفتاب نبی نے کہا کہ پانچ صدیوں کے دوران اردو زبان کے ابھرنے‘ ترقی کرنے اور شعر و ادب کی زبان بننے میں خواتین نے کوئی کردار ادا نہیں کیا‘ خواتین اپنی سماجی حیثیت کی بنا پر جہاں اور میدانوں میں پیچھے تھیں وہیں علم و ادب میں بھی پیچھے رہ گئیں۔ عورت شعر و ادب کا موضوع تو بنی اس کے حسن و جمال‘ لب و رخسار‘ ناز و ادا اور اس کی محبوبیت کی تعریف میں تو بہت کہا گیا ہے شعروں کے دیوان داستان نگاروں کی داستانیں اور ناول نگاروں کے ناول اور عالمی ادب کے بیشتر حصے کا موضوع عورت رہی مگر خود تخلیق کار کی حیثیت سے بیسویں صدی سے پہلے استثنائی حوالوں کے علاوہ کوئی بلند مقام حاصل نہ کرسکی لیکن برصغیر کے معاشرے میں خواتین کی علمی‘ ادبی اور سماجی حیثیت کو نشوونما پانے اور ابھرنے کا موقع نہیں ملا۔ معاشرے کو ادب اور قلم نے زندہ رکھا ہوا ہے‘ جرات مند ماںکی صورت میں عورت نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ عالمی یوم خواتین کے موقع پر میں خواتین کو ان کی علمی‘ ادبی‘ سماجی‘ سیاسی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں۔ ادب کے میدان میں خواتین میں ہر صنف میں اپنے نسائی شعور کا بھرپور اظہار کیا اور اپنے احساسات‘ جذبات اور خیالات کو زبان دی۔ طلعت آفتاب نے کہا کہ عالمی یوم خواتین پر ان کی علمی‘ ادبی‘ سماجی‘ سیاسی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ ادب کے میدان میں خواتین نے ہر سمت میں اپنے نسائی شعور کا بھرپور اظہار کیا ہے‘ اپنے احساسات‘ جذبات اور خیالات کو زبان دی‘ معاشرے میں خواتین کے مسائل اور ان پر ہونے والے ظلم و استحصال کے خلاف آواز بلند کی۔ عہد حاضر میں شاعرات بدلتے ہوئے ادبی فکری‘ معاشرتی رجحانات کو بیان کر رہی ہیںوہ جو کچھ تخلیق کر رہی ہیں وہ ان کی آزاد ذہن کی تخلیق ہے۔ راحیلہ ٹوانیہ نے کہا کہ میرے نزدیک بین الاقوامی سطح پر خاتون قلم کاروں کی تخلیق اہمیت کا پیمانہ اور اس میں جاری و ساری ایک مشترکہ احساساتی تجربہ جو تمام نسائی دنیا کو ہمدم بناتا ہے اور ناقابل شکست رشتے میں پرونا ہے۔ قادر بخش سومرو نے کہا کہ ایک ہی قسم کی تہذیب زندگی اور تقریباً ایک معاشرہ پروردہ ہونے کے ناتے سب کے طرس عمل میں بہت حد تک اشتراک و فکر و نظر میں وحدت سوچ کے دھاروں میں ہم رنگی ہو یکسانی ادب کی روح میں رواں دواں نظر آتی ہے۔ متنوع ادب میں ایک بنیادی وحدت ملتی ہے جو ہماری اجتماعی روحانی معنوی اور اخلاقی قدروں کی ترجمان ہے۔ اس موقع پر بڑی تعداد میں شعرا نے اپنی شعری کے ذریعے عورت کی عظمت کو خراج تحسین پیش کیا۔

حصہ