خاموش طبع شخص خاموشی سے گزر گیا

1198

جاوید احمد خان
ایک صاحب اپنے ایک دوست کی عیادت کے لیے گئے۔ وہ دوست شدید بیماری کے سبب بات چیت تو دور کی بات، کسی کو پہچان بھی نہیں پارہے تھے۔ ان صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے سلام دعا اور خیریت معلوم کرنے کی کوشش کی، لیکن دوسری طرف سے سر میں کوئی جنبش، نہ ہونٹوں میں کوئی حرکت اور بالکل سپاٹ چہرہ… بس دونوں آنکھوں سے بغیر پلک جھپکائے ٹک ٹک انھیں دیکھے جارہے تھے۔ ان صاحب نے موجود رشتے داروں سے ان کی کیفیت معلوم کی اور ان کی صحت کے لیے دعا کرکے، بچوں کو تسلی تشفی دے کر رخصت ہوگئے۔ ان کا اندازہ تھا کہ اب ان کا بچنا مشکل ہے۔ دوسرے دن یا کچھ دن بعد وہ صاحب شہر سے باہر چلے گئے۔ کئی برس بعد وہ واپس اپنے شہر آگئے۔ اس درمیان میں جب کبھی اُس دوست کا خیال آتا تو یہی بات ذہن میں غالب رہتی کہ جس کیفیت میں اُسے دیکھا تھا، اس میں تو وہ اللہ کو پیارا ہوگیا ہوگا۔
ایک دن وہ سڑک پر جارہے تھے، اور لوگ بھی آجا رہے تھے۔ اتنے میں انھوں نے ایک آدمی کو دیکھا تو ایسا لگا کہ یہ چہرہ کچھ دیکھا بھالا ہے۔ وہ شخص بھی انھیں دیکھ کر مسکرایا۔ پتا چلا کہ یہ وہی دوست ہیں جنھیں ہسپتال میں بستر مرگ پر دیکھ کر آئے تھے۔ ان صاحب کی حیرت کی انتہا نہ رہی، گلے ملے تفصیلات اور معلومات کا تبادلہ ہوا۔ انھوں نے سوچا: واقعی یہ اللہ ہی ہے جو تنکے میں جان ڈالتا ہے، اور یہ کہ انسان کسی بیماری سے نہیں مرتا بلکہ اپنی موت سے مرتا ہے جس کا ایک وقت معین ہے۔ 15ستمبر 2017ء جمعہ کا دن ہے، میں جمعہ کی نماز کے لیے مسجد میں داخل ہوا، کرسی پر بیٹھتے ہوئے میں نے جیب سے موبائل بند کرنے کے لیے نکالا، اسی وقت میسج ٹیون ہوئی، بغیر چشمے کے میسج پڑھنے کی کوشش کی، معلوم ہوا دیرینہ رکنِ جماعت، سابق ناظم علاقہ لیاقت آباد، اور میرے قریبی و قیمتی دوست جناب بشیر صاحب کی رحلت کی اطلاع تھی۔ نمازِ جمعہ کے بعد اُن کے گھر والوں سے تفصیل معلوم کی تو پتا چلا کہ وہ اچھے خاصے صبح دفتر گئے، گیارہ بجے کے قریب ایک ساتھی ورکر سے کام کے حوالے سے بات کررہے تھے، اور بہت خوشگوار موڈ میں ہنستے مسکراتے ہوئے ان کی سیٹ سے اٹھے، تھوڑی دور دو چار قدم چلے ہوں گے کہ اچانک گرگئے، ساتھیوں نے آگے بڑھ کر اٹھانا چاہا، انھیں آوازیں دی گئیں لیکن کوئی جواب نہیں۔ کچھ بزرگ دفتری ساتھیوں نے اپنی رائے ظاہر کی کہ ہمیں لگتا ہے بشیر بھائی انتقال فرماگئے۔ فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا، ایمرجنسی میں ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کا بہت پہلے ہی انتقال ہوچکا ہے۔ جس وقت وہ گرے اُسی وقت اُن کی ر وح قفسِ عنصری سے پرواز کرچکی تھی، ان کو ہارٹ اٹیک نہیں ہوا تھا بلکہ ان کا ہارٹ فیل ہوا تھا۔ بشیر بھائی ویسے تو بہت عرصے سے علیل تھے، اسپتال میں داخل رہے۔ انتقال کے وقت وہ ٹھیک ٹھاک تھے۔ صبح گھر سے ناشتا کرکے دفتر گئے تھے، لیکن جب وقت پورا ہوگیا تو وہ ہم سے جدا ہوگئے۔
اسی طرح الخدمت کے ساتھی جو ہر وقت فریش اور چاق چوبند رہتے تھے، الخدمت کے انتہائی مخلص اور مطیع کارکن جناب سید محمد یوسف صاحب کے انتقال کی خبر ملی تو اُن کے ساتھ نہ صرف گزرے ہوئے لمحات یاد آگئے بلکہ اس بات کا افسوس بھی رہا کہ ہمیں چار دن کے بعد پتا چل رہا ہے، اگر بروقت معلوم ہوجاتا تو اُن کی نمازِ جنازہ ہی میں شریک ہوجاتے۔ یوسف بھائی ملیر میں رہتے تھے، اس لیے زیادہ وقت انھوں نے شاہ فیصل کے اسپتال میں گزارا۔ وہ تیس سال سے زائد عرصے تک الخدمت سے وابستہ رہے۔ میری اُن سے واقفیت اور سلام دعا تو بہت پہلے سے تھی لیکن میں 2011ء میں الخدمت ہسپتال ناظم آباد سے وابستہ ہوا تو کچھ عرصے بعد یوسف بھائی ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے آئے۔ اُس وقت ان سے قریبی تعلق رہا جس کی وجہ سے ان کی بیشتر صلاحیتوں اور خوبیوں سے آگہی حاصل ہوئی۔ یوسف بھائی انتہائی کم گو اور سنجیدہ طبیعت کے مالک تھے، وہ وقت پر دفتر آتے اور وقت پر جاتے تھے۔ حالانکہ ملیر سے ناظم آباد کا فاصلہ طویل ہے، لیکن یوسف بھائی ایک دن بھی لیٹ نہیں ہوئے۔ سردی کے دنوں میں وہ نماز فجر پڑھ کر گھر سے نکل جاتے تھے۔ یوسف بھائی نرمی، شائستگی اور بڑے احترام و ادب کے ساتھ بات کرتے تھے۔ نماز کی پابندی تو ہم سب ہی کرتے ہیں لیکن یوسف بھائی کی پابندی بے مثال تھی، اگر وہ نمازِ ظہر میں نظر نہیں آئے تو اس کا مطلب ہے وہ دفتر کے کسی کام سے باہر گئے ہوئے ہیں، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ وہ دفتر میں ہوں اور نماز میں نہ ہوں۔
نرم خوئی اور شائستگی کے بارے میں تو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا (ترجمہ) ’’اے محمدؐ یہ ہمارا تم پر احسان ہے کہ ہم نے تمھیں نرم خو، شائستہ لہجے والا بنایا، ورنہ جو لوگ تمھارے اردگرد رہتے ہیں وہ تم سے چھٹ جاتے‘‘۔ اس کا مطلب ہے کہ نرم خوئی، عاجزی اور شائستگی عطیۂ خداوندی ہے۔ اسی طرح ایک حدیث ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرنا چاہتا ہے اُسے دین کا صحیح فہم عطا کردیتا ہے‘‘ اب جس کو دین کا صحیح فہم حاصل ہوجائے اور اُسے نرم خوئی اور شائستگی بھی حاصل ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کی ڈبل رحمت کے سائے میں آگیا۔ یوسف بھائی کے پاس ایک کاپی ہوتی تھی جس میں منتخب احادیث کا مجموعہ ہاتھ سے تحریر کیا ہوا ہوتا تھا۔ وہ ماہِ رمضان میں دفتر کی مسجد میں نمازِ ظہر کے بعد اس سے مطالعہ حدیث پیش کرتے تھے۔ اسی طرح وہ اپنے محلے کی مسجد میں بھی نمازِ فجر اور کبھی نمازِ عصر کے بعد درسِ حدیث دیتے تھے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی ان کوششوں کو قبول فرمائے۔ اسی طرح یوسف بھائی دفتر کا کام بھی محنت اور دیانت داری سے کرتے تھے۔ کہیں فالتو وقت ضائع نہیں کرتے تھے۔ غیر ضروری باتوں یا گپ شپ سے پرہیز کرتے تھے۔ چہرے پر سنجیدگی تو رہتی تھی لیکن جب کسی سے ملتے تو ہونٹوں پر ہلکی مسکراہٹ، چہرے پر کسی بیزاری کے بجائے دلآویز انداز اور گرم جوش مصافحے کے ساتھ اس کا استقبال کرتے تھے۔ دفتر کے فائدے کی بات سوچتے تھے اور انتظامیہ کو اپنے مفید مشوروں سے نوازتے تھے۔ اسپتال میں اسٹاف کو انتظامیہ کی طرف سے دن میں ایک چائے دی جاتی تھی۔ انھوں نے انتظامیہ کو تجویز دی کہ اگر کینٹین سے چائے خریدنے کے بجائے ہر سیکشن میں ایک الیکٹرانک کیتلی اور اسٹاف کی تعداد کے لحاظ سے ماہانہ چینی اور چائے کی پتی کا کوٹا دے دیا جائے تو اس سے ادارے کو اچھی خاصی بچت ہوسکتی ہے۔ اور اس کا باقاعدہ انھوں نے حساب بناکر دیا کہ اس وقت ہم کینٹین والے کو ماہانہ اتنی رقم دیتے ہیں، جب کہ اگر ہم تھوڑی سی ابتدائی سرمایہ کاری کرکے یعنی کیتلی وغیرہ کی خریداری کرکے ماہانہ ہر سیکشن کو چینی پتی فراہم کردیں تو اس میں ہزاروں روپئے ماہانہ کی بچت ہوسکتی ہے۔ اُن کی اس تجویز کو قبول کرلیا گیا اور اب تک الخدمت اسپتال میں یہی سسٹم رائج ہے ۔
عیدالاضحی میں ہر سال اُن کی ڈیوٹی ٹینری میں لگتی تھی، میرا بھی اپنے علاقے سے کبھی کھالیں لے کر جانا ہوتا تھا۔ وہاں یوسف بھائی کسی ٹرک کے سامنے کھڑے انتہائی انہماک کے ساتھ گنتی کرتے نظر آتے۔ بس کبھی کبھی دور سے سلام دعا ہوجاتی۔ وہاں میں نے اُن کو کبھی کرسی پر بیٹھے چائے پیتے یا گپ شپ کرتے یا کھالوں کی تقابلی گنتی پر کسی سے گفتگو کرتے نہیں دیکھا۔ سنا ہے وہ اکثر وہاں رہ بھی جاتے تھے۔ خاموش طبع کارکن، کام سے کام رکھتے تھے۔ شاید ان کے انتقال کی خبر بھی اخبار میں شائع نہیں ہوئی یا میری نظر سے نہیں گزری۔ اب چونکہ میں الخدمت اسپتال میں نہیں ہوں اس لیے بروقت اطلاع نہ ہوسکی۔ پھر کسی علاقے یا ضلع کی طرف سے تعزیتی بیان یا کسی رہنما کے اُن کے گھر جانے کی خبر اخبار کی زینت بنی۔ بہرحال شاید اُن کو اس کی ضرورت بھی نہ تھی۔ وہ روزانہ خاموشی سے دفتر آتے اور خاموشی سے اپنے وقت پہ چلے جاتے تھے۔ اسی طرح وہ عالمِ ارواح سے عالمِ دنیا میں اپنے وقت پر آئے، اور اِس عالمِ دنیا سے اپنے وقت پر دوسرے عالم (برزخ) میں چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ اُن کی قبر کو اپنے نور سے بھر دے اور اس کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنادے۔آمین
ویسے تو صحت مند اور متحرک تھے۔ پیدل زیادہ چلتے تھے۔ وہ جب شاہ فیصل اسپتال میں تھے، ملیر سے اکثر پیدل شاہ فیصل جایا کرتے تھے۔ دو تین سال قبل اُن کو دل کا عارضہ لاحق ہوا تھا، اس سلسلے میں اُن کا آپریشن بھی ہوا تھا اور وہ ٹھیک ہوگئے تھے۔ اُن کے ایک ساتھی نے بتایا کہ وہ سال میں ایک بار ایک لفافہ الخدمت کو دیتے جس میں اُن کی اعانت، صدقہ اور خیرات کی رقوم ہوتیں۔ وہ ہینڈ ٹو مائوتھ رہتے تھے۔ جتنی آمدنی، اسی میں گزارہ کرتے۔ ساری زندگی کرائے پر رہے۔ ان کے لواحقین میں اہلیہ کے علاوہ تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ تینیوں بیٹیوں اور ایک بیٹے کی شادی ہوچکی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو صبرِ جمیل عطا فرمائے اور ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے وہ اپنے مرحوم والد کے لیے اجرِ مسلسل کا ذریعہ بن جائیں۔ اس لیے کہ میں سمجھتا ہوں وہ جماعت اسلامی اور الخدمت سے محبت کرتے تھے اور انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔

حصہ