آؤ مل کر اس جہاں میں کہکشاں ترتیب دیں

324

صائمہ افروز
شعبہ تحقیق… جامعتہ المحصنات پاکستان
اس روز اس چھت کے نیچے بیٹھی خواتین سوچ رہیں تھیں کہ پاکستان کی عورت کے حقیقی مسائل کیا ہیں؟ َتعلیمی نظام کو درپیش اصل چیلنجز کیا ہیں؟عالمی اداروں کی تحقیقات کے مو ضوعات کیا ہیں؟ہمیں تخلیقی ذہن کی بیداری کے لئے کن اقدامات کی ضرورت ہے ۔ تحقیق سے دلچسپی رکھنے والے خواتین کو کس طرح گائیڈ لائن فراہم کی جاسکتی ہے؟کون سی مربوط کاوشیں ہوں کہ ہمارے تمام اسکالرز، دانشور اور تخلیقی اذہان اس ایک نکتے پرمتفق ہوںکہ ہم، درہم و دینار کی دوڑ سے نکل کر پہلے مسلمان اور پھر پاکستانی بن کر سوچیں ۔
یہ سوچ بچار کا مرکز جامعات المحصنات کا مرکزی دفتر تھا،اسکالرز کی نشست تھی جو شعبہ تحقیق کے تحت باہمی ملاقات اور مجلۃ المحصنات کے پانچویں شمارے کے اجراء کے موقع پر منعقد کی گئی تھی۔مدعوین میں وہ خواتین پروفیسرزاور اسکالرز شامل تھیں جومجلۃ المحصنات کے لئے لکھتی رہی ہیں اور وہ بھی، جن کی تحریریں دیگر تحقیقی جرنلزمیں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ تقریب میں جن اسکالرز نے شرکت کی ان میں ڈاکٹر جہاں آرا لطفی (شیخ زید کراچی یونیورسٹی)، ڈاکٹر حسین بانو (لیکچرار بحریہ یونیورسٹی)، گلناز عبدالغفور (اردو یونیورسٹی)، سعدیہ فرح (اقراء یونیورسٹی)، حافظہ سمیہ امین (ہمدرد یونیورسٹی)، خوش بخت (ڈاکٹر محمد حسین لائبریری)، آمنہ نذیر (کراچی یونیورسٹی)، لاریب (کراچی یونیورسٹی)، اسماء طہٰ (کراچی یونیورسٹی)، سمیرا چشتی (کراچی یونیورسٹی)، ڈاکٹر سیدہ افروز (کراچی یونیورسٹی)، خوش بخت عالیہ (فضائیہ کالج)، آسیہ عمران (کراچی یونیورسٹی)، کنیز فاطمہ (وفاقی اردو یونیورسٹی)، پروفیسر ثریا قمر (جناح یونیورسٹی)، ہاجرہ عزیز (کراچی یونیورسٹی) اور اطیبہ ملک (Curtin University Australia) شامل تھیں۔ انہوں نے اپنے فکر انگیز خیالات سے شرکائے محفل کو سوچنے کی راہیں دیں۔
جامعتہالمحصنات پاکستان عرصہ دراز سے پورے ملک میں اپنی خدمات علم کی ترویج و ترقی کے لیے انجام دے رہا ہے۔یہ ادارے کی دیرینہ خواہش تھی کہ تحقیق کے میدان میں کام کی ابتدا کی جائے۔ایک ایسے ملک میں جہاں تحقیق پر صرف % 0.4خرچ ہوتا ہے وہاں اس میدان میں قدم رکھنا بہت بڑا چیلنج ہے جسے جامعات المحصنات نے قبول کیا ۔

روشنی کچھ تو ملے ،کچھ تو اندھیرا کم ہو
اک دیا ہم نے سر راہ جلا رکھا ہے

ڈاکٹر جمیل جالبی کے مطابق:
’’تحقیق ایک زندہ معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے ۔جب کسی سوسائٹی میں ریسرچ کا عمل ناکارہ سمجھا جانے لگتا ہے تو وہاں بہت سارے جھوٹ سچائی بن کر سوسائٹی کو گھن کی طرح کھانے لگتے ہیں۔ ‘‘
علمی و تحقیقی رسائل کے تعلیمی و تحقیق سے وابستہ افراد، اساتذہ، ریسرچرز اور طالب علم سے گہرا رشتہ ہے۔ان کا مطالعہ عصری آگاہی پروان چڑھانے،فکر و تدبر کا ملکہ پیدا کرنے اور جمود کے خاتمے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
مجلہ کی اشاعت سے ادارے کا مقصد دیگر رسالوں میں محض ایک اضافہ کرلینا نہیں بلکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ مدلل اور علمی پیراے میں یہ ثابت کیا جائے کہ غیر اسلامی تہذیبوں نے جو سوشل فلاسفی مرتب کی ہے وہ انسانیت کو فلاح نہیں دے سکتی۔ہم عصر حاضر کے حقیقی مسائل پر تحقیق کرنے ،اس کے اسباب و محرکات کا تجزیہ کرکے اسلام کے نقطہ نظر کے مطابق ان کا حل دینا چاہتے ہیں اس کے علاوہ دوسرا مقصد فری لانس ریسرچرز کو بھی پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے۔

خواب ڈھل سکتے ہیں تعبیر کے پیمانے میں
ہواگر شوق ِ طلب ،سوزِوفا،جذب و یقیں

پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے مہمان مقررین نے پاکستانی سماج کے بہت سے مسائل کی وجہ تحقیق کے فقدان کو قرار دیا اور کہا کہ بحیثیت قوم نہ ہم اپنے مسائل کی درست نشاندہی کرتے ہیں نہ حقیقی مسائل اور پیش آمدہ مسائل کے لیے ہمارے پاس کوئی ڈیٹا ہے ،نہ ہم سماجی تبدیلیوں کے لیے پہلے سے تیاری کر پاتے ہیں، نہ آنے والے وقت کے خطرات اور امکانات کے لیے ہمارے پاس کوئی منصوبہ بندی ہے جب کہ مغرب سینکڑوں برس ما بعدکی پلاننگ کرتا ہے اور اس کے مثبت نتائج سے مستفید ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ٹھوس موضوعات پر تحقیق کریں،اپنے ماضی کے علمی خزانوںکا سراغ لگائیںاور مستقبل کے لیے پر امید رہیں ۔ہمارے محققین میں سے کتنے ایسے ہیں جو قومی اصلاح کے لیے در د رکھتے ہوں اور اپنی تحقیق کے نتیجہ میں پالیسی ساز اداروں کی معاونت کرتے ہوں، مقالات شائع کرنے کا قومی سطح پر اہتمام ہو،اور عوامی استفادے کے لئے ان کو شائع کیا جائے تاکہ وہ صرف لائبریریوں کی یا فائلوں کی زینت نہ بن جائیں ۔۔یہ امر بہت حوصلہ افزاء کہ جامعۃ المحصنات نے اس اہم اور حساس کام کا بیڑا اٹھایا ہے۔باہمی استدراک عمل سے کام کی بہت سی جہتیں کھلیں گی۔مقررین نے یہ بات بھی رکھی کہ جامعتہالمحصنات کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے وقت کی اس حساس ضرورت کو محسوس کیا۔اس طرح کے فورم بار بار منعقد کرنے کی ضرورت ہے۔یہ دین کی بڑی خدمت ہے۔اس سے تحقیق کے مزید راستے واضح ہوں گے۔اس پروگرام سے ہمیں بہت حوصلہ ملا میرے اور ہماری ذمہ داریاں واضح ہوئیں کہ بحیثیت مسلمان تدبر و تفکرکا حکم ہمیں قرآن نے دیا تھا،یہ تحقیق عبادت کے زمرے میں آتی ہے۔
مجلے میں لکھنے والی ریسرچ اسکالرزنے اپنے موضوعات پر بات کی اور اس موضوع کو منتخب کرنے کی وجہ بیان کی،ان موضوعات میں شرکاء نے دلچسپی ظاہر کی اور مقالہ نگاروں سے سوال و جواب ہوئے نیز آئندہ کے لئے مختلف موضوعات زیر بحث آئے۔شرکائے محفل نے ایسی نشستوں کے انعقاد پر زور دیااور کہا کہ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے ۔اسکالرز کو ایک پلیٹ فارم دیناو قت کی اہم ضرورت ہے بعد ازاں پانچویں مجلے کی تقریب رونمائی ہوئی ،شرکاء کو مجلہ تقسیم کی گیا۔مجلے کی مدیرہ ڈاکٹر عابدہ حسام الدین نے اسکالرز کا تعارف کروایااور مجلے کی اشاعت کے ضمن میں پیش آمدہ مشکلات کو بیان کیاکہ ایک تحقیقی مجلہ کی اشاعت کے لئے کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ۔انہوں نے علمی تعاون پر مقالہ نگاروں کا شکریہ ادا کیا۔
تقریب کے اختتام پر نگراں جامعتہ المحصنات پاکستان افشاں نوید نے معاشرے میں تحقیقی عمل کی اہمیت اور دانشوروں کے کردار پر روشنی ڈالی اور کہا کہ دانشورکسی فن کا اثاثہ ہوتے ہیں وہ قوم کو سمتِ سفر مہیا کرتے ہیں ۔جس ذہن میں تخلیقی یا تحقیقی بیج موجود ہو اس کی نمو کے لئے ہمیں سازگار ماحول مہیا کرنا ہوتاہے تاکہ وہ سرسبز و شاداب ہوکر معاشرے کو فکری سایہ مہیا کرسکے۔انہوں نے کہا کہ مقالہ نگاروں کی سماج پر گہری نظر ہونی چاہئیے تاکہ انہیں عنوانات تلاش نہ کرنے پڑیں ۔ اس کے علاوہ تاریخ سے آگاہی بھی ضروری ہے ۔۔انہوں نے نئے شمارے کی اشاعت پر ادارتی بورڈ کو مبارکباد دی اور ان کی انتھک کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ مجلہ آنے والے وقت کے لئے سنگ میل ثابت ہوگا۔چئیر پرسن المحصنات ٹرسٹ محترمہ تحسین فاطمہ کی دعا پر پروگرام کا اختتام ہوا۔

حصہ