متاثرین بحریہ ٹاؤن کے لیے آخری سہارا جماعت اسلامی ہی کیوں؟۔

476

گزشتہ تیس برس سے کراچی پر جو منحوسیت راج کررہی ہے اُس کے اثرات سے پورے کا پورا پاکستان کسی نہ کسی طور پر متاثر ہوا ہے، لیکن کراچی کے باشندوں سے کوئی پوچھے کہ ’’اوپر والوں کی سیاست اور مفاد پرستی‘‘ انہیں کتنی مہنگی پڑی ہے؟
تعلیم، روزگار، امن و امان، بنیادی انسانی سہولیات، صفائی ستھرائی، صحتِ عامہ، ٹرانسپورٹ… کس کس چیز کا رونا رویا جائے! کوئی ایک بھی سہولت ایسی نہیں ہے جس کے بارے میں کراچی والے فخر سے کہہ سکتے ہوں کہ یہ سہولت تو بڑی شاندار ہے۔ حیرت ہوتی ہے یہ جان کر کہ کراچی میں کوئی بھی نیا گورنمنٹ کالج مرحوم نعمت اللہ خان صاحب سابق سٹی ناظم کراچی کے بعد سے نہیں بنایا گیا۔ کوئی نیا سرکاری ہسپتال بھی تیس سال پہلے ہی قائم کیا گیا تھا۔ نعمت اللہ خان صاحب کے دورِ نظامت کے بعد سے لے کر آج تک پانی کی فراہمی کا کوئی بھی نیا منصوبہ کراچی کے لیے نہیں بن سکا، پانی کے ایک قطرے کا بھی اضافہ یہاں کے شہریوں کے لیے نہ ہوسکا۔ K-4 سمیت جتنے منصوبے تھے وہ صوبائی اور وفاقی بندر بانٹ کے نتیجے میں دس گنا مہنگے ہوکر کراچی کے لیے ناقابلِ حصول بنا دئیے گئے۔ انتہائی شرمناک بات یہ ہے کہ قدرتی طور پر ملنے والی سہولیات جیسے قدرتی ندی نالے، اور ان پر ڈیم اور پن بجلی کے منصوبے بھی محض رشوتوں کے چکر میں منظور نہ کروائے جاسکے۔ یہ منحوسیت آکاس بیل کی مانند کراچی سے اس کی روشنی، خوبصورتی اور حسن نوچ کر لے گئی۔
ایسے حالات میں مختلف بحرانوں اور مسائل کے شکار کراچی پر ایک اور افتاد بحریہ ٹائون کی صورت میں یہاں کے بحریہ ٹاؤن متاثرین پر آن پڑی۔ کراچی کے عوام اور پوری دنیا میں پھیلے ہوئے پاکستانی اس چنگل میں پھنستے چلے گئے۔
اب جبکہ بحریہ ٹاؤن اور جماعت اسلامی کے درمیان ایک معاہدہ عمل میں آچکا ہے، جس کی بدولت ان متاثرین کو عرصۂ دراز کے بعد سُکھ کا سانس لینے کا موقع فراہم ہوا ہے۔
اگرچہ مختلف گروپ بہت عرصے سے بحریہ ٹائون کے منتظمین کے مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے کی کوششیں کرتے رہے، مگر ملک ریاض حسین نے ہر اٹھنے والی آواز کو کچھ نہ کچھ ’معاملہ‘ کرکے ہمیشہ کے لیے خاموش کروا دیا۔ پیر کے روز جماعت اسلامی کراچی کے دفتر ادارہ نور حق میں بحریہ ٹائون کے ذمے داران اور جماعت اسلامی کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوگئے اور بحریہ ٹائون کے الاٹیز اور متاثرین کے ریفنڈ اور الاٹمنٹ کے شیڈول پر اتفاقِ رائے ہوگیا۔ اس تاریخی معاہدے پر بحریہ ٹائون کے سربراہ ملک ریاض نے خود، اور حاجی اقبال نے، اور جماعت اسلامی کی طرف سے حافظ نعیم الرحمن اور سیف الدین ایڈووکیٹ نے دستخط کیے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں بحریہ ٹائون کے متاثرین کے مسئلے پر پھیلائی جانے والی بہت سی افواہوں کا بھی خاتمہ ہوگیا کہ یہ معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ خاص طور پر35 فیصد جبری ڈیولپمنٹ چارجز کا معاملہ طے پا گیا ہے کہ جب تک مشاورت سے معاملہ طے نہیں ہوتا ڈیولپمنٹ چارجز نافذ نہیں کیے جائیں گے۔ اس فیصلے سے بہت سے متاثرین نے سُکھ کا سانس لیا ہے۔ جماعت اسلامی کی جدوجہد کے آغاز میں ایک کنونشن کے ذریعے بحریہ ٹائون کے متاثرین کو جمع کیا گیا، اس کے بعد کراچی میں بحریہ ٹاور کے سامنے جماعت اسلامی نے دھرنا دیا اور وزیراعلیٰ ہائوس پر دھرنا دینے کا اعلان کیا، لیکن اس سے قبل ملک ریاض نے جماعت اسلامی سے رابطہ کرکے اس حوالے سے ایک کمیٹی بنوائی اور پیر9 مارچ کو اس حوالے سے ملک ریاض نے خود ادارہ نورحق آکر نہ صرف معاہدے پر دستخط کیے بلکہ اپنا ویڈیو پیغام بھی ریکارڈ کروایا۔ اس معاہدے کی خاص بات یہ بھی ہے کہ ملک ریاض نے اعلان کیا کہ بحریہ ٹائون خود اس معاہدے کو اپنے الاٹیز تک پہنچائے گا۔ اس معاہدے کے ذریعے بحریہ ٹائون کے الاٹیز اپنی رقوم واپس بھی لے سکیں گے۔ جو لوگ رقوم واپس لینا چاہیں چھ ماہ کے اندر اُن کو رقوم مل جائیں گی۔ بحریہ ٹائون کے متاثرین کی ایک بہت بڑی تعداد نے جماعت اسلامی کی خدمات پر اظہار تشکر کیا۔
اس اہم موڑ پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ متاثرینِ بحریہ ٹائون نے برسر اقتدار تحریک انصاف، سندھ حکومت کی ستّر سال سے چیمپئن حکومت پاکستان پیپلز پارٹی، کراچی کے حقوق کی دعویدار متحدہ قومی موومنٹ سمیت کسی اور سیاسی جماعت پر اعتماد کیوں نہ کیا؟
آخر متاثرین اور الاٹیز نے اس پریشانی کے عالم میں جماعت اسلامی کا ہی دروازہ کیوں کھٹکھٹایا؟
پاکستان کہ جہاں کی عدالتیں انصاف کے نام پر سودے بازی کرنے سے بھی گریز نہ کرتی ہوں، سیاست دان، لفافہ صحافی، بکاؤ میڈیا ہائوس، اینکرز، پروڈیوسر، لکھاری، سابق عسکری اہلکار سب کے سب بحریہ کے حمام میں ننگے ہوں… کیا فردوس شمیم نقوی، کیا بابر غوری، کون نجیب ہارون، کون سا آفتاب حسین صدیقی؟ سبھی بحریہ کے کنٹریکٹر، سپلائر اور حاشیہ بردار! ان سے کسی خیر اور بھلائی کی امید بھلا کون کرسکتا ہے! اور ان کی عیاری و مکاری نے متاثرین کو جماعت اسلامی کی جانب رجوع کرنے پر مجبور کیا۔
دودھ کے جلے لوگوں کو چھاج پھونک کر پینے کا ہنر انہی لٹیروں نے سکھایا ہے۔ اب لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ دیانت، ذہانت اور حقوق کی جنگ میں صرف اور صرف وہی جماعت متاثرین کو اُن کا حق دلوا سکتی ہے جس کے دامن پر کرپشن کا کوئی داغ نہ ہو، ذاتی مفادات کی گندگی نہ ہو، جو سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنا اور سامنے والے کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کرنا جانتی ہو۔
یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ جماعت اسلامی نہ تو حکومت میں ہے اور نہ اقتدار کے کسی منصب پر اس کے ذمے داران ہیں، لیکن اس کے باوجود متاثرین کے اتحاد اور ان کے تعاون سے جماعت اسلامی نے یہ معرکہ سر کرلیا۔ بظاہر یہ ایک منصوبے کے کچھ متاثرین کا معاملہ ہے، لیکن جماعت اسلامی اور اس کی قیادت نے ثابت کیا ہے کہ اگر عوام کے مسائل حل کرنے میں خلوصِ نیت شامل ہو تو بڑے بڑے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
جماعت اسلامی کراچی اور اس کا ذیلی شعبہ پبلک ایڈ کمیٹی جو بلدیاتی و شہری مسائل کے حل کے حوالے سے گزشتہ چار سال سے کراچی میں حد درجہ فعال کردار ادا کررہی ہے، یہی پبلک ایڈ کمیٹی اس سے قبل نادرا کے مختلف دفاتر کی جانب سے شہریوں کو شناختی کارڈز کے اجراء میں گڑبڑ کے خلاف احتجاج اور تحریک چلا کر لوگوں کا مسئلہ حل کرا چکی ہے، جبکہ کے الیکٹرک کے خلاف اور واٹر بورڈ کی من مانیوں کے خلاف بھی جماعت اسلامی کے سوا کوئی سیاسی پارٹی میدان میں نہیں ہے۔
آج اگر کے۔ الیکٹرک پورے کراچی میں بجلی کے پولز پر ہنگامی بنیادوں پر ارتھنگ کا کام کررہی ہے تو اس کے پیچھے بھی جماعت اسلامی ہی ہے، جس کی سپریم کورٹ میں تحقیقاتی رپورٹ پر کورٹ آرڈر جاری ہوئے اور ارتھنگ کا کام شروع کیا جاسکا، ورنہ پہلے تو کے۔الیکٹرک اس بات سے انکاری تھی کہ پچاس سے زیادہ ہلاکتیں کرنٹ لگنے سے ہوئی ہیں۔ یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ کراچی کی اصل نمائندہ اگر کوئی ہے تو وہ جماعت اسلامی ہی ہے۔
اب چونکہ یہ معاہدہ پبلک ہوچکا ہے، اس کی اہم باتوں میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ چیک جو دوسال سے کیش نہیں ہورہے تھے، وہ متاثرین کو تین ماہ کے اندر ملنے کی گارنٹی دی گئی ہے، اور تاخیر کی صورت میں بحریہ اسی شرح سے اضافی رقم دے گا جو وہ اپنے الاٹیز سے وصول کرتا رہا ہے۔
جبری پزیشن ختم کردیا جائے گا، البتہ مارچ 2020ء سے4 سال تک پزیشن لینے پر الاٹی پر مینٹی نینس چارجز اور این یو ایف لاگو نہیں ہوگا، نیز وہ الاٹیز جو پزیشن لینا چاہتے ہیں یا اس کے لیے درخواست دے چکے ہیں ان کو اضافی ڈیولپمنٹ چارجز ادا کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا، ان کوفوری طور پر پلاٹ، فلیٹ، بنگلے کی چابی یا پزیشن دے دیا جائے گا۔ جو الاٹیز بحریہ ٹائون کے نوٹس کے تحت پلاٹس کے پزیشن لے چکے ہیں ان سے مکان کی تعمیر تک مینٹی نینس چارجز نہیں لیے جائیں گے۔
اسی طرح جن الاٹیز کی زمین سپریم کورٹ آرڈرز کی وجہ سے غیر قانونی ہوچکی تھی اُن کو ضمانت دی گئی ہے کہ انہیں قانونی جگہ پر ہی متبادل زمین یا ولاز بناکر دئیے جائیں گے۔
مارکیٹ میں رئیل اسٹیٹ بزنس سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ ایشیا میں تاریخ کا سب سے بڑا رہائشی منصوبہ بحریہ ٹاؤن جس سے کراچی کی ترقی کا پہیہ چل سکتا تھا، چار سال سے رکا ہوا تھا، وہ تو شکر ہے جماعت اسلامی والوں اور حافظ نعیم الرحمن صاحب کا کہ آگے بڑھ کر اس معاملے کو سنبھالا، اب بجا طور پر امید کی جاسکتی ہے کہ کراچی میں رونقوں کا سلسلہ بحال ہوسکتا ہے۔
اگرچہ پینتیس فیصد اضافی ڈولپمنٹ چارجز کا معاملہ ابھی تک طے نہیں پایا، مگر امید ہے کہ اس کا بھی کوئی نہ کوئی معقول راستہ نکل آئے گا۔
آخر میں چلتے چلتے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن اور سربراہ پبلک ایڈ کمیٹی کراچی جناب سیف الدین ایڈووکیٹ صاحب اور ان کی تمام ٹیم کا شکریہ کہ انہوں نے دن رات کی محنتِ شاقہ کے بعد بکھرے اور مایوس شہریوں کو اخوت، محبت اور امید کی لڑی میں پرویا اور انہیں منزل تک پہنچایا۔ اور اس ٹیم نے اپنی اہلیت سے محض ڈیڑھ ماہ کے قلیل عرصے میں متاثرین کی آواز کو بام عروج پر پہنچا کر بحریہ ٹاؤن انتظامیہ اور ملک ریاض حسین کو سچ کو سچ ماننے اور مظلوموں کو اُن کا حق دینے پر مجبور بھی کیا۔
آج جماعت اسلامی کراچی سے نکل کر پورے ملک کی ترجمان آواز بن چکی ہے، یہی نہیں بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر لاکھوں کی تعداد میں بیرونِ ملک بسنے والے متاثرینِ بحریہ ٹاؤن کی نمائندہ آواز بھی بن چکی ہے۔

حصہ