ماں ۔۔۔ پہلی درس گاہ

451

افروز عنایت
۔’’خدا کے لیے کچھ کھالو، اتنی محنت سے کھانا بناتی ہوں، سب بیکار جاتا ہے۔ بہت تنگ کیا ہے تم تینوں بھائی بہنوں نے…
ہر بات پر ضد، ہر بات پر ضد… یہ نہیں کھانا، یہ کپڑے نہیں پہننے، ہوم ورک نہیں کرنا۔ نہ جانے آج کے بچے کیسے ہیں، بلڈ پریشر ہائی کردیتے ہیں۔
کیا کروں باجی، اپنے وسائل کے مطابق راحیل کی تمام ضرورتیں پوری کرتی ہوں، اب اور کہاں سے لائوں! بات کو سمجھ ہی نہیں پارہا۔ اب تو بڑا ہوگیا ہے، پڑھائی میں بھی دلچسپی نہیں، بس ایک ہی دھن سوار ہے کہ میرے پاس دنیا کی ہر اعلیٰ چیز موجود ہو۔ میں تو تنگ آگئی ہوں… اس صورت حال سے۔‘‘
یہ صرف چند مائوں کے چند جملے ہیں جو میں نے آپ سے شیئر کیے۔ آج کی مائوں کے ساتھ بیٹھیں تو وہ اپنے بچوں کی شکایات کا دفتر کھول لیتی ہیں۔ چند دن پہلے چار پانچ جوان مائیں بیٹھی ہوئی تھیں جو اپنے اپنے بچوں کی ایسی ہی شکایات کررہی تھیں۔ ہم چند سینئر مائیں بھی وہاں موجود تھیں، ہم سب نے کہا کہ الحمدللہ اپنے بچوں کی ہم نے ایسی تربیت کی تھی کہ ہمیں انہوں نے اس طرح تنگ نہیں کیا، نہ ہمیں اس قسم کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ ان ینگ مدرز نے ہم سے کہا کہ آپ لوگ شکر کریں کہ ہم شریف اور لائق بچے تھے کہ ہم نے آپ لوگوں کو تنگ نہیں کیا، آج کل کے بچے ہی ایسے ہیں جو ماں باپ کو تنگ کرتے ہیں۔ یہ بات کہاں تک درست ہے اور کہاں تک غلط، آئیے اس پر نگاہ دوڑائیں۔ کچھ پیچھے کی طرف چلے جاتے ہیں:
’’آجائو بیٹا، سب آجائیں، کھانا کھالیں‘‘۔ کھانے کی میز پر مچھلی کا سالن دیکھ کر نادیہ کا چہرہ بجھ گیا۔ ’’بیٹا نادیہ، آپ نے ابھی تک سالن نہیں نکالا پلیٹ میں؟ میں نے صرف آپ کی وجہ سے مچھلی میں آلو ڈالے ہیں کیونکہ آپ کو آلو بہت پسند ہیں ناں‘‘۔ یہ کہہ کر نادیہ کی امی نے مچھلی کے سالن میں سے آلو اور شوربہ نکال کر نادیہ کی پلیٹ میں ڈالا۔ نادیہ نے نہ چاہتے ہوئے بھی وہ سالن کھایا، کیونکہ ہمیشہ امی مچھلی کا سالن بناتے ہوئے یہی کہتی تھیں کہ آلو تو میں اپنی نادیہ کے لیے ڈالتی ہوں۔ اس ایک جملے سے اُسے اپنی اہمیت محسوس ہوتی اور امی کے پیار کی وجہ سے وہ انکار نہ کرسکتی، اور کھالیتی۔
مندرجہ بالا طریقہ کار میری والدہ کا بھی تھا، اور میں نے بھی یہی انداز اپنایا۔ جب میں نے آج کی چند بچیوں سے یہ طریقہ اپنانے کے لیے کہا تو کہنے لگیں: ’’وہ بچے اور قسم کے ہوتے تھے، آج کے بچے اس طریقے سے قابو نہیں آتے۔‘‘
ان بچیوں نے غلط بھی نہیں کہا، لیکن میں نے عموماً آج کی مائوں کو دیکھا ہے کہ یا تو اٹھ کر کوئی نئی ڈش بنادیتی ہیں، یا بازار سے کچھ منگوا دیتی ہیں، جس کی وجہ سے بچے باہر کی الم غلم چیزوں کو پسند کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہوٹلنگ کا رواج بھی بڑھ گیا ہے۔ بچوں کے سامنے دس آپشن رکھ دیے جاتے ہیں، پھر انہیں گھر کے کھانے، کھانے میں کیا مزا آئے گا! جبکہ بڑوں کے درمیان ایک دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھانے کے دوران بزرگوں کے نصیحت بھرے جملے، اور دسترخوان پر موجود سبزیوں اور ڈشز کے فوائد، ہلکی پھلکی گفتگو نہ صرف گھر کے افراد میں محبت کے تعلقات استوار کرنے میں معاون ثابت ہوتی تھی، بلکہ اس خوبصورت ماحول میں بچے ہر چیز کھالیتے تھے۔ آج عموماً اس قسم کے نظارے بہت کم نظر آتے ہیں۔ اماں ایک چیز کو دس مختلف طریقوں سے بناتی تھیں، کوئی سبزی بچوں کو پسند نہ ہوتی تو اس سبزی کو گوشت کے ساتھ بناتیں، صرف آلو کی سبزی کو دس طریقوں سے بناتیں۔ مچھلی فرائی، مچھلی کے کباب، مچھلی کی بریانی، غرض ان چیزوں کی افادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف طریقوں سے بنایا جاتا، تاکہ ہر قسم کی غذائوں سے بچے مستفید ہوں اور پسند بھی کریں۔ بچوں کی پسند کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے تا کہ انہیں احساس ہو کہ انہیں اہمیت دی جارہی ہے۔ ہر مرتبہ اُن کی فرمائش پر سر جھکانے کے بجائے کبھی کبھار اُن سے اپنی بات بھی منوائی جائے اور اُن کے ماننے پر اُن کی تعریف بھی کی جائے۔ بچے عموماً اپنی تعریف پر پھولے نہیں سماتے۔ میری ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ اگر بچوں کی چار جائز خواہشات پوری کی گئی ہیں تو ایک کو بڑے پیار اور بُردباری سے رد کردوں، لیکن اس طرح کہ اس کا مثبت پہلو اُن پر واضح ہوجائے۔ یہ حکمتِ عملی اپنانے سے بچوں میں ضد کی عادت نہیں پڑے گی۔ میں نے بچوں کو اُن کے بچپن سے یہ ذہن نشین کروایا کہ ہم رزقِ حلال سے آپ کی اچھی تعلیم و تربیت کو اہمیت دے رہے ہیں، اس لیے پُرتعیش زندگی گزارنے سے قاصر ہیں۔ میرے بچوں کو چھوٹی ہی عمر سے رزقِ حلال کی نہ صرف اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوگیا بلکہ آج بھی وہ فخر سے کہتے ہیں کہ والدین نے ہمیں رزقِ حلال سے بھی اچھے تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوائی اور ہماری تعلیم و تربیت کو اہمیت دی جس کی وجہ سے آج ہم معاشرے میں عزت سے جی رہے ہیں۔ اوپر میں نے ایک بچے کی مثال پیش کی ہے۔ نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود اُس کی ماں نے اُس کی ہرجائز اور ناجائز فرمائش پوری کی، آج اس کے بیٹے کی ضد کی عادت پختہ ہوچکی ہے، وہ اپنے آس پاس پُرتعیش زندگی گزارنے والے کزنز سے اپنا موازنہ کرتا ہے تو اسے احساسِ کمتری جکڑ لیتا ہے، اسی کرب کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم بھی پوری نہیں کرسکا ہے، اور عجیب کرب و بے چینی سے دوچار ہے۔ اُس کی یہ بے چینی اُس کی ماں کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ بچوں کی بنیادی ضروریات کی طرف توجہ دیں اور ثانوی ضروریات نہ ملنے پر اُنہیں محبت اور مثبت طریقے سے مطمئن کریں۔ عقلمند مائیں اپنے محدود وسائل کے باوجود گھر میں بھی بچوں کے لیے وہ لوازمات اور کھانے و مٹھائیاں بنالیتی ہیں جن پر گھر سے باہر جا کر بے دریغ پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ ہاں بچوں کے لیے کبھی کبھار تفریح کے پروگرام کا انتظام ہونا چاہیے جہاں وہ خاندان کے دوسرے بچوں کے ساتھ مل جل کر دن گزاریں۔ چھوٹے موٹے کھیل کود، اور پھر ان کھیلوں میں جیتنے والے بچوں کی حوصلہ افزائی کی جائے، بلکہ ہارنے والے بچوں کی کسی نہ کسی خوبی کو بھی واضح کیا جائے۔ ڈانٹ ڈپٹ سے، یا انہیں نکما، کاہل، سست کہہ کر ان کی بقیہ صلاحیتوں کو مجروح نہ کیا جائے۔ بچے عموماً سختی یا برا بھلا کہنے سے دل برداشتہ ہوجاتے ہیں۔ دورانِ درس و تدریس میرا بہت سے ایسے بچوں سے واسطہ پڑا۔ نرمی اور توجہ سے ان کی دوسری صلاحیتیں ہمارے سامنے آئیں جس کی بنا پر ان کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ ہماری حوصلہ افزائی اور توجہ کی بدولت ایسے بچے تعلیمی سرگرمیوں میں بھی دلچسپی لینے لگے۔ بچپن کسی کے بننے، سنورنے کی عمر ہے، اس عمر کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس عمر کے بچوں پر خصوصی توجہ دیں۔ کھانے پینے، لکھنے پڑھنے، کھیلنے کودنے کے تمام مراحل کو اہم جانتے ہوئے اپنا مثبت کردار ادا کرنا والدین کا فرض ہے۔ میں نے غربت میں پلے بڑھے ایسے بچوں کو کامیابی کے اونچے مرتبے پر دیکھا ہے جن کے والدین نے سمجھداری، عقلمندی اور حکمتِ عملی سے کام لیا۔ دوسری صورت میں بچے بگڑ بھی سکتے ہیں، ان کا مستقبل اندھیروں میں ڈوب بھی سکتا ہے۔ رب کریم تمام والدین کو اپنی اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت و رہنمائی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین ثم آمین)۔

حصہ