عورت اور مرد مدِ مقابل قوتیں نہیں

525

قرۃ العین ظہیر
اسلام سے پہلے دنیا میں عورتوں کا بدترین استحصال جاری تھا۔ کسی بھی مذہب میں ان کو حقوق حاصل نہیں تھے۔ لوگ بچیوں کو گھر میں عار سمجھتے تھے اور پیدا ہوتے ہی انہیں زندہ درگور کردیتے تھے۔ قرآن کریم نے بھی اس کی سخت مذمت کی۔ ایسے ماحول میں اسلام نے عورت کو عزت دینے کا اعلان کیا اور بتایا کہ دونوں کا سلسلہ آدم علیہ السلام تک پہنچتا ہے، لہٰذا ایسی ظالمانہ تفریق کی کوئی گنجائش نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: اور عورتوں کا بھی حق ہے دستور کے موافق، اور مردوں کو عورت پر ایک گونا فضیلت ہے۔ یہ فضیلت صرف دنیاوی نظام کی بقا کے لیے ہے۔ اللہ کی نظر میں کسی کا مرد ہونا یا محض عورت ہونا قبولیت کی دلیل نہیں، اور قبولیت احکام کی بجاآوری میں ہے۔ اسلام نے دونوں کی ذمہ داریاں الگ الگ متعین کردی ہیں۔ پھر اس سب کے باوجود باہم مساوات کا نعرہ لگانا اس فطرت کو خلط ملط اور کائنات کے نظام کو برباد کرنا ہے۔ آج کے مغرب زدہ معاشرے میں عورت کی جو درگت بنائی جارہی ہے اس پر تو انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ عورت وہ مبارک ہستی ہے جس کی گود میں قومیں پلتی، بڑھتی اور ترقی کرتی ہیں۔ اسی کے دم سے دنیا کی رونق ہے۔ زندگی کی ساری خوشیاں عورت ہی کی ذات سے وابستہ ہیں۔ مغرب جس کی ظاہری شان و شوکت سے آج ہر شخص مرعوب ہے، وہاں سولہویں صدی تک بے بنیاد الزامات لگا کر عورتوں کو صلیب پر چڑھا دیا جاتا تھا۔
ہندوستان میں عورت کوعقل و شعور سے عاری سمجھا جاتا ہے، وراثت سے محروم رکھا جاتا ہے، اور شوہر اسے اپنی ملکیت سمجھ کر جیسا چاہے برتاؤ کرتا ہے۔ اس کے برعکس اسلام نے عورتوں کو تحفظ دیا اور صاف بتادیا کہ زبردستی ان کے وارث نہ بن بیٹھو۔ ان کا مہر ادا کرو۔ بیویوں کے ساتھ بھلے طریقے سے رہو۔ ہوسکتا ہے ان کی کوئی ایک بات تمہیں ناپسند ہو لیکن اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔ یعنی خاندان کے استحکام کے لیے ایک دوسرے کی خوبیوں پر نظر رکھی جائے، کمزوریوں اور خامیوں سے صرفِ نظر کیا جائے۔ اور ساتھ ہی مرد کو عورت پر قوّام بنایا (یعنی نگران، محافظ اور نگہبان)۔ اللہ نے ان کو یہ مقام دیا ہے اور اس سے ہی خاندان بہتر انداز میں چلتا ہے۔ صالح عورتیں اطاعت شعار اورمردوں کے پیچھے اُن کے حقوق کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں۔ قرآن حکیم کی تعلیمات کے مطابق عورت ہر حیثیت سے قابلِ احترام ہے، اور اس کی نسوانیت کو قانونی یا سائنٹفک طریقے سے ختم کرنا نہ صرف غیرضروری ہے بلکہ بہت بڑا تہذیبی خسارہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور جو کوئی نیک عمل کرے گا وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ مومن ہو، تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے، اور ان کی ذرا بھی حق تلفی نہ کی جائے گی (سورۃ النساء آیت114)۔ قرآن کریم مخصوص تمثیلات اور استعارات کے ذریعے عورت کی ایسی تصویر پیش کرتا ہے جس کے مطابق وہ کائنات کی ایک نفیس ترین اور سب سے قابلِ احترام ہستی ہے۔ ایک مقام پر میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے۔ قرآن پاک کی طرح احادیث میں بھی عورت کے ساتھ غیر معمولی حُسنِ سلوک کا حکم دیا گیا ہے، اور اس مقصد کے لیے خوب صورت اور معنی خیز تشبیہات استعمال کی گئی ہیں، شیشے کے برتنوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ جدید تہذیب نے خاندان، شادی، مذہب اور مادریت کو عورت کی آزادی اور ترقی میں رکاوٹ قرار دیا ہے کہ مرد و عورت ایک دوسرے کے رفیق نہیں، بلکہ فریق ہیں، مدمقابل قوتیں ہیں۔ مسلمان عورت کو اس کے بنیادی کردار اور اس کی اصل ذمہ داری نوعِ انسانی کی کردار سازی سے غافل کرکے عورت اور معاشرے دونوں کے ساتھ ظلم کیا گیا ہے۔ اب بھی وقت ہے مسلم خواتین اسلام کے عطا کردہ حقوق کا مطالعہ کرکے مغرب کے فتنوں اور سازشوں سے بچیں، اور اسلام کے احکامات پر عمل پیرا ہوکر دنیا اور آخرت میں سرخرو ہوں، اور اپنے دین کے آفاقی اصولوں کا عَلَم اس بے خدا تہذیب میں اس طرح بلند کریں کہ ہر طرف اُڑتی گرد سے اپنے خاندان اور اس کو درپیش چیلنجز سے محفوظ کرلیں۔

حصہ